Wednesday 13 September 2023

 حکومت ہند ، تاریخ سے جنگ اور قومی منظرنامہ

ثناءاللہ صادق تیمی
سپریم کورٹ کے سابق جج مارکانڈے کاٹجو نے بجا طور پر ہندوستان کو مہاجرین کی سرزمین کہا ہے ۔قدیم زمانے سےمختلف قافلے اس سرزمین کی طرف آتے رہے ہیں اوریہاں کی مٹی سے اپنا رشتہ استوار کرتے رہے ہیں ۔ان قافلوں کی آمد سےتہذیبی لین دین اور افادہ واستفادہ کی روایت بھی پروان چڑھتی رہی ہے جس نے ہندوستان کی ثقافت، تمدن اور معارف و علوم کے ساتھ فکر ونظر کے دائروں کو بھی وسیع کیا ہے ۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں مادی وسا ئل سے لیس ممالک برین گین (حصول دماغ) کی کافی کوشش کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرکشش سہولتیں فراہم کرکے دوسرے ممالک کے اعلا تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین کو اپنے یہاں بلاتے ہیں تاکہ ان کے علم ، تجربہ او رصلاحیت سے استفادہ کرکے اپنے ملک کو مزید مستحکم کرسکیں ۔
ہندوستان میں آنے والے قافلوں میں ایک قافلہ مسلمانوں کا بھی تھا۔ عرب اور ہند کے تجارتی تعلقات کافی پرانے رہے ہیں ، اول اول اسلام سے اس سرزمین کا تعارف بھی اسی راستے سےہوا ، اس کے بعد محمد بن قاسم ثقفی کی قیادت میں منظم طریقے سے سندھ کی طرف بڑھا گیا اور ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی جو بعض سیاسی وجوہات کی بنیاد پر دیرپا نہیں رہی لیکن اسلامی زندگی کے اثرات نسبتا زيادہ پھیل گئے اور جنوبی ہند کا علاقہ اسلام اور مسلمانوں سے ناواقف نہیں رہا۔محمد غوری کے بعد سے مسلم عہد حکومت کا سلسلہ دراز رہا ، ان تمام نے ملک کے استحکام اور عوام کی خوش حالی کے لیے مثالی اقدامات کیے اورمغلوں نے تو ملک کے تمام خطوں پر حکمرانی کی اور ملک کی ترقی و تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔اسی سرزمین کی خدمت کی اور اسی سرزمین کے ہوکر رہ گئے ۔
انگریزوں نے جب مسلمانوں سے حکومت مکروفریب اورظلم و جبر کے راستے سے حاصل کی تو مسلمانوں کو ہی تختہ مشق بھی بنایا ، اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کےلیے انہوں نے بانٹو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور ہندو مسلمانوں کے بیچ نفرت کو ہوا دینے کے لیے ہر قسم کی اوچھی حرکتیں کی گئیں ، اس معاملے میں انہوں نے اور دوسری اوچھی حرکتوں کے ساتھ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرنےاور مسخ کرنے کا رویہ بھی اپنایا تاکہ اپنے مقاصد پورے کرسکیں ۔اس سلسلے میں متعصب انگریز مورخین کے ساتھ جادو ناتھ سرکار جیسے تاریخ نویس بھی رہے جنہوں نے اپنے آقا کے حکم پر وہ سب کچھ کیا جس سے انگریزوں کے نقطہ نظر سے تاریخ پیش ہو اور نفرت و عداوت کی آندھی مزید تیز ہوسکے ۔
آزادی کی لڑائی لڑنے والے جیالوں کو معلوم تھا کہ انگریزوں نے کس قسم کی نفرت عام کی ہے اور اس سے ملک کا کیا نقصان ہوا ہے اور ملک کی تعمیر وترقی کے لیے کس قسم کے زاویہ نظر کی ضرورت ہے ، وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ مسلمانوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں زبردست کردار ادا کیا ہے ، مسلم عہد حکومت میں نظام حکومت سے لے کر عوامی زندگی تک میں عدل وانصاف کی کافرمائی رہی ہے اور اس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس طویل مدت میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ۔چنانچہ آزادی کے بعد جب انہیں ملک کی تعمیر کا موقع ملا تو انہوں نے کوشش یہ کی کہ ملک کی بنیاد تکثیری معاشرے اور کثرت میں وحدت کے نظریے پر استوار ہو ، انہوں نے سیکولر آئین کے ساتھ تاریخ و تمدن کا وہ حقیقی چہرہ پیش کیا جس سے ملک کوآزادی بھی ملی تھی اور جس نے ملک کی ترقی و تعمیر میں اہم ترین کردار ادا کیاتھا۔
آزادی کے بعد ملک کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ سیکولر ، لبرل اور کمیونسٹ ذہن کے معتبر مورخین نے ہندوستان کی تاریخ رقم کی اور ازمنہ قدیمہ سے لے کر ازمنہ وسطی اور نئے دور تک کا حقیقی منظرنامہ پیش کیا ۔ یوں وہ ذہن بنا جسے آپ گاندھی –نہرو اور مولانا آزاد کے نظریے کے روپ میں دیکھ سکتے ہيں ۔
لیکن جد وجہد آزادی سے لے کر اس پورے نظریے کے خلاف مستقل ایک علاحدگی پسند نظریہ بھی کام کررہا تھا جسےسنگھ پریوار کا نظریہ سمجھنا چاہیے ۔ اس نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہیے ، یہاں رونما ہونے والے مذاہب کو قومی حیثیت ملنی چاہیے ، بقیہ دوسرے مذاہب جیسے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت وغیرہ کو یہاں سے نکال باہر کیا جانا چاہیے ۔ اس نظریے کی دوسری بنیاد اس طبقاتی نظام پر استوار ہوتی ہے جسے منو کے نطام سے بیان کیا جاسکتا ہے جس کے تحت اعلا طبقات کو مخدوم اور ادنی طبقات کو خادم ہونے کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ بنیادی طور پر یہ نظریہ اعلا ذات کے ہندوؤں کی افضلیت اور فوقیت کے نظریے پر قائم ہے اور اس کا طریقہ کار شروع سے تشدد کے ساتھ ساتھ حقائق کو توڑ موڑ کرپیش کرنے کا رہا ہے ۔یہ دیش کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی مدت تک اس نے قومی جھنڈے کو تسلیم کیا ہے ۔
دیش کی آزادی کے بعد پچھلے نودس سالوں سے اس نظریے کو مکمل طریقے سے کھل کرسامنے آنے کا موقع ملا ہے ،ملک پر اس نظریے کی حکومت ہے ، وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ اس نظریے کے پرچارک بھی رہے ہیں اور اسی کے عملی مظہر بھی ہیں ۔ اس نظریے کے حاملین بظاہر دیش بھکتی کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ سب دکھاوا بھر ہوتا ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ ان کا نظریہ دیش بھکتی ہی اصل حب الوطنی سے متصادم ہے ۔اس نظریے نے جہاں دیش کی آزادی کی کوششوں کی مخالفت کی اور انگریزوں کی مخبری کا فريضہ انجام دیا وہیں گاندھی جی کو قتل بھی کیا اور مستقل دیش میں نفرت و تشدد کو ہوا بھی دی۔اس نظریے کے تحت سیاست کی بنیاد مسلم دشمنی پر استوار ہے ، ملک کے بڑے بڑے آئینی عہدوں پر بیٹھنے والے اور آئین کی قسمیں اٹھانے والے اس نظریے کے لوگ پوری بے شرمی سے اس آئین کی روح کو تارتار کرتے رہتے ہیں ۔
اس نظریے کی پریشانیاں بہت ہیں ، قدم قدم پر حقائق اس نظریے کی تغلیط کرتے ہیں ، ان کے پروپیگنڈوں کی قلعی کھول کر انہیں نگاہیں نیچی رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔مدت سے اس نظریے کے حاملین یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ تاریخ کو اپنے حساب سے پیش کریں ۔ یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ امت شاہ نے بار بار یہ بات دہرائی تھی کہ تاریخ کو پھر سے لکھنے کی ضرورت ہے ، اس سمت میں کوششیں بھی صرف ہوئیں ، نہرو کو ویلن اور ساورکر کو ہیر وبنا کر پیش کیا گيا ، گاندھی تک پر سوالات اٹھائے گئے لیکن ملک کے وزیر اعظم کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ملک کے باہر جاتے ہی انہیں انہیں عظیم لوگوں کا حوالہ دینا پڑے گا اور انہوں نے مختلف مواقع سے ایسا کیا بھی ۔اس لیے اس پوری پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اب تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے تاریخ کو مٹانے کا رویہ اپنایا گيا ہے ۔ این سی آرٹی سے مسلم عہد حکومت کو ہٹا دیا گیا ہے ، مولانا آزاد نکال باہر کیے گئے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اس قسم کی تبدیلیوں کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہيں ہوسکتی کہ اس کے پیچھے اسلام اور مسلمان دشمنی کی ذہنیت کام کررہی ہے ۔ساتھ ہی جہاں کہیں مسلم عہد حکومت کا ذکر آیا ہے تو کوشش کی گئی ہے کہ اسے مثبت کی بجائے منفی زاویے سے پیش کیا جائے ۔پچھلے دس سالوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کی صورت حال کیا رہی ہے وہ تو نہيں معلوم لیکن ان دس سالوں میں لگاتار مسلم شناخت کو مٹانے کی کوشش زوروں پر ہے ۔ تاریخ سے لے کر سڑک اور افراد تک کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ قومی منظرنامہ ابھی یہ بھی ہے کہ اس مسلم دشمنی کے نتائج اس نظریے کے حاملین کو بہت کارگر مل رہے ہیں ۔ وہ اسی بنیاد پر مختلف ریاستوں میں انتخاب جیت رہے ہیں اور لگاتار مرکز میں پوری اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہیں ۔
اس کھلی ہوئی داداگیری کے خلاف کہیں سے کوئی ویسی ٹھوس مخالفت بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ، مسلم کمیونٹی جسے اپنے وجود کو لے کر مسائل کا سامنا ہے وہ بھلا تاریخ اور تمدن کے مظاہر کے بارے میں کیا کچھ مزاحمت درج کراسکتی ہے ، ملک کا سیکولر اور دانشور طبقہ بھی جیسے خموشی میں ہی نجات دیکھ رہا ہے ، سیاسی بساط پر حزب اختلاف کی طرف سے بھی کوئی مضبوط مقابلہ آرائی نظر نہيں آرہی ۔ایسے میں ایک ایک کرکے جہاں مسلم شناخت کی علامتیں مٹائی جارہی ہیں وہیں تاریخ کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے جیسے اس ملک پر ساڑھے آٹھ سوسالوں تک حکومت کونے والے مسلمانوں نے اس ملک کو صرف نقصان ہی پہنچایا ہے ، اس لیے یا تو انہیں مٹادینا چاہیے یا پھر ان گھڑے گئے منفی کرداروں کو ہی بیان کرنا چاہیے ۔
قوت کے نشے میں چور اس ٹولے کو یہ لگ رہا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہے اور ایسا کرکے وہ اپنی تہذیبی برتری ثابت کرپائےگا اور ملک سے مسلمانوں کام نام ونشان مٹ جائے گالیکن اسے شاید یہ ادراک نہیں کہ یہ دیکھنے کا بہت سطحی زاویہ ہے ۔ طاقت کے زور پر آپ سچ کو دبا تو سکتے ہیں مٹا نہيں سکتے ۔ یہ سچ پھر سےنمودار ہوں گے اور جھوٹ کے متوالوں کو رسوا کر دیں گے ۔
مصطفی کمال اتاترک نے ترکی سے اسلام ، اسلامی شعائر ، اذان اور رسم الخط سب کچھ ختم کردیا تھا لیکن آج ترکی کو دیکھ لیجیے ۔انگریزوں نے ہندوستان کو اپنے حساب سے ڈھالنے کی کوشش کی تھی ، سارے حربے اور قوتیں لگا دی تھیں اور خوش تھے کہ انہیں شکست کا سامنا نہیں ہوگا ، آج دیکھ لیجیے کہ وہ کہاں ہیں ؟ حقائق نہيں مرتے ، وہ لوٹ آتے ہیں ، یہ حقائق بھی نہیں مریں گے ہاں اگر اس نظریے کا دورانیہ لمبا ہوا تو کئی نسلوں کو اس کے زیر اثر جہالت کی گہری تاریکی میں جینا پڑ سکتا ہے ۔یہ صرف مسلمانوں کے خلاف سازش نہيں ، اس ملک اور اس کے تمام باشندوں کے خلاف سازش ہے ۔آپ لاکھ کوشش کرلیں لیکن یہ حقیقت مٹ نہیں سکتی کہ آئین ہند کے معماروں میں مولانا آزاد بھی شامل ہیں ، تعلیمی ڈھانچے کو بنانے والے وہی ہیں ، انہوں نے ہی یوجی سی، ساہتیہ اکیڈمی ، للت کلا اکیڈمی اور آئی آئی ٹیز کی بنیاد رکھی ہے ۔ آپ مٹاتے جائیے لیکن آپ لال قلعہ اور تاج محل بنانے والوں کو مٹا نہیں سکتے ۔ اس مٹی کا ذرہ ذرہ ان کے روشن کارناموں کی گواہی دے گا۔بہت جلد وہ وقت آرہا ہے جب آپ کے لیے یہی تخریبی کاروائیاں سوہان روح ہو جائیں گی۔ فانتظروا انی معکم من المنتظرین ۔

No comments:

Post a Comment