Wednesday 13 September 2023

 لال قلعہ سے وزیر اعظم کا خطاب

ہندوستان کے وزير اعظم شری نریند مودی انتہائی درجے میں ہوشیار اور چالباز قسم کے سیاست داں ہیں ۔ انہوں نے پندرہ اگست کو لال قلعہ سے جو تقریر کی وہ بظاہر تو ان کے کارناموں کی تفصیل ، آنے والے وقت میں ترقی و تعمیر اور خوش حالی کے وعدے اور اپوزیشن پارٹیوں پر حملے سے عبارت تھی لیکن سچ پوچھیے تو پوری تقریر آرایس ایس کے نظریے کی وکالت پر مشتمل تھی اور جدید آئينی ہندوستان کی روح کے خلاف تھی۔
انہوں نے اس سے پہلے بھی اور اس بار بھی ہزارسالہ دور غلامی کی بات کی ، لمحوں کی خطا کو بیان کیااور ہزاروں سال کے اثرات ذکر کیے ۔ بغیر کسی دلیل اور تاریخی شہادت کے مسلم دور حکومت پر لوٹ کھسوٹ کا الزام دھرتے چلے گئے اور جن مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر وترقی اور خوش حالی میں اپنا سب کچھ لگا دیا اور ملک کے ذرے ذرے سے محبت کی ، کثرت میں وحدت کے فلسفے کو پروان چڑھایا ، انہيں وہ کوستے رہے ۔ یہ آرایس ایس کا وہی نظریہ ہے جس کے تحت وہ مسلمانوں کو پہلے درجے کے شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار نہیں ۔
انہوں نے جب ملک کو درپیش مسائل کی بات کی تو خوشامد اور ناز برداری کا ذکر کیا ۔ جنہیں سنگھ کے سیاسی سفر کا علم ہے انہيں معلوم ہے کہ وہ شروع سے کانگریس پر یہی الزام رکھتا رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی نازبرداری کرتی ہے ، اپیزمنٹ کا مطلب ہی مسلمانوں کو خوش کرنے کی سیاست ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب سڑکوں پر چل رہے مسلمانوں کو بھیڑ مار مار کر ماردیتی ہے ، جب نماز پڑھ رہے ایک عام سے مسلمان سے ہندو ذہن کو ڈرنے لگنے لگتا ہے اور ایک مسلمان کی نماز اس کا جرم بن جاتی ہے ، جب مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر باضابطہ ٹرینڈ چلایا جاتا ہے، ان کے معاشی بائکاٹ کا اعلان کیا جاتا ہے ، جب جلوس نکال نکال کر انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، فسادات کی آگ بھڑکا کر ان کی جانوں سے کھیلا جاتا ہے اور فسادات کے بعد انتظامیہ ان کے آشیانوں پر بلڈوزر چلاتی ہے اور عجیب وغریب خوف کےسایے تلے مسلمانوں کو جینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بنے لال قلعہ سے قوم کو خطاب کو کرتے ہوئے جب ملک کا وزیر اعظم نازبرداری کی بات کرے تو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کس قسم کی سیاست کررہے ہیں ۔ ایک طرف پہلے وہ مسلم دور حکومت کو عہد غلامی قرارد یتے ہیں اور دوسری طرف حزب اختلاف پر مسلمانوں کی نازبرداری کا الزام رکھتے ہیں ، بین السطور میں پیغام بہت واضح ہے ۔منی پور کا ذکر یقینا وزیر اعظم کی مجبوری تھی ورنہ وہ میوات کا بھی ذکرکرسکتے تھے ، انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ ہندو مسلم تنافر کی یہ سیاست ہی ان کی قوت کا محور ہے ۔
مجھے ان کی تقریر پر کوئی تعجب نہیں ، مجھے پتہ ہے کہ وہ اپنے فریم سے نکل ہی نہیں سکتے ، البتہ تکلیف یہ ہے کہ دیش کی ترقی کی بات کرنے والا یہ سیاست داں بہر حال دیش کے لیے ویسا مخلص نہیں ورنہ اسے پتہ ہوتا کہ نفرت کی کاشت اس کی حکومت کی راہ تو ہموار کرسکتی ہے لیکن کبھی بھی خوش حالی ، تعمیر ، ترقی اور اچھے دن کا پھل نہیں لاسکتی۔
ساگر تیمی

No comments:

Post a Comment