Sunday 12 May 2019


مسنگ پوائنٹ کیا ہے ؟
 ثناءاللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں کا کمال یہ ہے کہ ان کے ذہن ودماغ میں ایک پر ایک سوال آتے رہتے ہیں اور وہ سوال کرتے بھی رہتے ہيں ۔ سوال ان کے ذہن میں آنے کا رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ سوال ان کے ذہن میں آتا ہے اور وہ میرا سر کھانے آجاتے ہیں ۔ ہاں جی مولانا صاحب ، یہ بتاؤ کہ جب اسلام اتنا واضح اور اچھا دین ہے تو مسلمانوں کی زندگی میں مسنگ پوائنٹ کہاں ہے ؟ آخر مسلمان کیوں بے حیثيت بنے ہوئے ہیں ؟ اسلام ان کی زندگی میں اسی اچھائی کے ساتھ کیوں نظر نہيں آتا ؟
میں نے کہنا چاہا کہ خان صاحب ، اگر تمہاری نظر میں حسن ہو تو اسلام مسلمانوں میں نظر آئے گا اب جب کہ تم کالے چشمے سے ہی دیکھوگے تو اچھائی بھی برائی ہی نظر آئے گی ۔ آئے گی یا نہیں ؟ بتاؤ ۔ خان صاحب نے قہقہ لگایا اور کہا : پرابلم تو یہی ہے کہ تم مولویت پر اتارو ہو جاتے ہو ، ارے بھائی ، میرا مطلب تھا کہ دیکھو اسلام میں سائل کو جھڑکنے سے منع کیا گیا ہے ؟ یہ درست ہے ، یہ بھی ہے کہ اگر کوئی گھوڑے پر سوار ہو کر آئے پھربھی اسے دے دو ، یہ سب درست لیکن اسی اسلام میں کسب حلال کی فضیلت بھی تو بہت ہے ، اسی اسلام میں اپنے ہاتھ کی کمائی کو سب سے اچھی روزی بھی تو کہا گیا ہے ، اسی اسلام میں گداگری اور بھيک مانگنے کو ذلت سے بھی تو تعبیر کیا گيا ہے ، اسی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو یہ عملی تعلیم بھی تو دی ہے کہ گھر کا سازوسامان بیچ کر ہی سہی لیکن حلال روزی کی تلاش کرو اور یہی اچھا راستہ ہے تو مجھے بتاؤ کہ تم مولوی لوگ جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بتاتے ہو ، سائل کو جھڑکنے سے منع کرتے ہو تو وہیں خود بھیک مانگنے کی ذلت پر گفتگو کیوں نہیں کرتے ، پورے معاشرے میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ مانگنا بہت برا عمل ہے ۔
سنو ، دہشت گردی کے لیے اسلام میں جگہ نہیں ہے ، یہ فساد فی الارض ہے ، لیکن اسلام میں جہاد تو ہے ، اب تم مولوی لوگ دنیا کے ڈر ہی سے سہی جب دہشت گردی کی اتنی مذمت کرتے ہو ، چلو اچھا کرتے ہو لیکن یارو، کبھی جہاد کا جو صحیح اسلامی مفہوم ہے وہ تو بتاؤ ، یہ پتہ تو چلے کہ اسلام میں جہاد کیا ہے اور دہشت گردی کیا ہے ؟ نوجوان بے چارا کنفیوزن میں رہتا ہے ، کیا تم بتا پاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں اللہ کے کلمے کی بلندی کے لیے باضابطہ اسلامی حکمراں کے جھنڈے تلے دعوت و تبلیغ اور جزیہ و تحفظ کی پیش کش کے بعد جب ان لوگوں سے لڑائی ہوگی جو دعوت الی اللہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو جہاد ہوگا جس میں بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو نشانہ نہيں بنایا جائے گا ، عبادتگاہوں اور ان کے عبادت گزاروں کو نہیں چھیڑا جائے گا ، درخت نہيں جلائے جائیں گے ، کھیتیاں نہیں اجاڑی جائیں گی ، ایک مسلمان بھی کوئی معاہدہ کرلے گا تو اس معاہدے کو مانا جائے گا اور اس کے خلاف جو ہوگا وہ دہشت گردی ہوگی ، اب چاہے کرنے والا خود کش بمباری کرے یا کسی بازار ، چرچ ، مسجد ، مدرسہ ، اسکول ، گاؤں ، شہر کسی کو نشانہ بنائے اور معصوموں کا قتل کرے ۔ اس پورے معاملے میں مسنگ پوائنٹ کیا ہے ؟
دیکھو مولانا ، اسلام میں روحانیت ہےیا نہیں ہے ؟ اب یہ بتاؤ کہ اسلام کی روحانیت یہ ہے کہ تصوف کے سارے سلسلے طے کرو ، اللہ اور بندے کا فرق مٹادو ، من تو کی تفریق ختم ہو جائے ، مزاروں اور خانقاہوں کا ایسا سلسلہ بنادو جہاں دنیا سے کنارہ کشی ہی روحانیت کی معراج ہو یا پھر اسلامی روحانیت یہ ہے کہ دنیا کا حصہ رہ کر بھی دنیا کو خود پر حاوی نہ ہونے دو ، حلال کماؤ ، اللہ کی عبادت کرو ، حسب استطاعت عبادت و ریاضت اور تزکیہ نفس کی کوشش کرو ، توکل و قناعت سے کام لو اور درجہ احسان تک پہنچنے کی کوشش کرو ۔ مجھے بتاؤ کہ آخر جو لوگ متصوفانہ روحانیت کے خلاف ہیں وہ حقیقی روحانیت کی توضیح و تشریح کیوں نہيں کرتے ؟
مولانا صاحب ، مسنگ پوائنٹ ہے ، عصری تعلیم اور دینی تعلیم کے بیچ کھائ سی بنی ہوئی ہے ، یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ اسلام میں علم کی تفریق درست نہیں ہے ، چلو مانا کہ درست نہیں ہے لیکن میرے مولانا دوست ، جتنے اسلامی تعلیم کے ادارے ہیں وہاں تو عملا یہ تفریق پائی جاتی ہے ، پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ اب آپ کو یہ تو کوشش کرنی ہی پڑے گی کہ یہ تفریق عملا بھی ختم ہو ، مسنگ پوائنٹ کہاں ہے ، یہ تو آپ کو ڈھونڈنا ہی پڑے گا ، آپ نے جیسی تیسی لولی لنگڑی انگریزی پڑھادی اور سمجھا کہ آپ نے عصری علوم کا حق ادا کردیا تو آپ کی دانشمندی پر صرف قہقہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا صاحب ، معاشیات ، ماحولیات ، سماجیات ، فلکیات ، ریاضیات وغیرہ کی گتھیاں انگریزی سے نہیں سلجھتیں ، ان موضوعات کو پڑھنے سے سلجھتی ہیں ۔ اب تک آپ کے یہاں اسی بات پر بحث جاری ہے کہ عصری علوم کیا ہیں اور اسلامی علوم کیا ہیں ۔ شرعی علوم کے نام پر آج بھی نہ جانے کیا کیا الم غلم پڑھائے جارہے ہو ۔
دیکھو مولوی صاحب ، مسنگ پوائنٹ تو تلاش کرنا ہی پڑے گا ۔ جنہیں اللہ پر توکل ہے انہيں اسباب اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہيں ہوتی اور جنہیں اسباب کا اختیار کرنا ضروری لگتا ہے انہیں عملا توکل سے بیر ہے ، مسنگ پوائنٹ تو ہے نا آخر ، آپ مولانا لوگ اس مسنگ پوائنٹ پر کام کیجیے ، بتائیے کہ اسباب اختیار کرنے کے بعد نتائج کا معاملہ اللہ کے سپرد کرکے توکل کرنا ہے ۔ بتائیے کہ عصری علوم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جیسی تیسی انگریزی پڑھادی اور طرم خاں بن گئے ، بلکہ ضروری ہے کہ نصاب کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ شرعی علوم زد پر بھی نہ آئیں اور بقیہ دوسرے مفید علوم سے طلبہ مستفیض بھی ہوسکیں ۔
میں نے خان صاحب کو بتانا چاہا کہ بھائی ، مولانا لوگ تو یہ وضاحتیں کرتے ہی رہتے ہیں لیکن تب تک وہ اپنی بات ختم کرکے رفو چکر ہوچکے تھے !!!