Sunday 31 March 2013

ساگر تیمی 
غزل 
میں پھر سے اپنے خواب کی تعبیر نکالوں 
تو مسکرا ذرا تیری تصویر نکالو ں 
باہر بھی جتنے ہیں سبھی اندر سے بند ہیں 
اییسیے میں کیا میں پاؤں کی زنجیر نکالوں
نرمی، وفا، دعا کو سمجھتا ہے بزدلی
غیرت کو کیسے بیچ دوں شمشیر نکالوں
سارے امیر اور میں تنہا فقیر ہوں
کس کس کے دل کے روگ کی تدبیر نکالوں
میں کیا کروں کہ ظلم کا قصہ تمام ہو
رحمت کو جوش آئے وہ تحریر نکالوں
پھر تیرے سامنے سے گزرنے کا شوق ہے
پھر اک نئے رقیب کی تقدیر نکالوں
ساگر میں رات بھی اسی اک سوچ میں گم تھا
سچ کہ دوں یا پھر جھوٹ کی تبریر نکالوں
ساگر تیمی 
خدا کے بندوں کو زندگی کا شعور دے دو پیام دے دو 
خدا کا سارا کلام دے دو نبی کی سنت تمام دےدو 
رہ وفا میں قدم قدم پہ ضرورتیں ہیں عنایتوں کی 
تمہاری چاہت میں گامزن ہیں ہمیں بھی طرز خرام دے دو 
ابھی تلک حسن بے وفا ہے ابھی تلک عشق ہے پریشاں 
ہماری مانو تو عاشقو تم محبتوں کو لگام دے دو
ہماری شہرت ہمارے حق میں بتاؤں کیسے کہ کیا بلا ہے 
یہی سبھوں کا مطالبہ ہے ہمیں بھی اپنا کلام دے دو
مجھے پتہ ہے تمہارے ا ندر وفا نہیں ہے مگر خدارا
جولوگ تم پر نثار ہیں تم انہیں تو تھوڑا مقام دے دو
میں جانتا ہوں کہ عشق ساگر دوا نہیں ہے دعا نہیں ہے
مگر یہ چاہت کی آرزو ہے محبتوں کو دوام دے دو
مسکن

وہ گھر کے صحن میں 
بے سدھ پڑی ہے 
وہ تو اپنی ملازمت میں باہر ہیں
بوڑھے پرانے بھی تو نہیں
درد کس قدر جان لیوا ہوتا ہے
ہاے کیا مصیبت ہوتی ہے
بدن جیسے انار کے جسم سے
جوس نکال لیا جاے
بچہ رورہا ہے
یہ عباد ہے
کتنا پیارا ہے
میری تنہائیوں کا رفیق
میری جان ، میرا وجود
میں تیرے لیے
خود کو فنا کر دونگی
تجھے دنیا کی ساری دولتیں
نصیب ہونگی
سارا آرام ، ساری خوشی
ساری اڑان تمہارے نام
سارا عروج تمہارے لیے
ساری رونق تمہاری سلطنت کی اسیر
ہاے میرا جگر گوشہ عباد
پڑھ لکھ کر
افسر ہوگیا ہے
صدقے جاؤں
کون ہوگا میرے لعل جیسا
زمین کے اوپر ،آسمان کے نیچے
شادی کے جوڑے میں شاہزادہ لگ رہا ہے
میرے دل کا ٹکڑا
خوش نصیب ہے صبا !
تجھے عباد ملا
جیسا مرد کسی عورت نے میرے علاوہ
پیدا نہیں کیا
اچھا بہو امید سے ہے
عباد کے جیسا ہی ہوگا
ہاں ہاں بیٹا ہوگا
عباد بھی تو ۔۔۔۔۔۔۔
بہزاد ؟ ہاں یہ نام اچھا ہوگا
بالکل اپنے باپ پر جائیگا
میرے لعل عباد پر
وہ بھی اس کے جیسی شرارتیں کريگا
روٹھیگا اور ضد کریگا
ایک پیار بھرا چپت لگا ؤنگی
اور وہ ۔۔۔۔
تبھی اک صدا آئی
اور اس کے خواب و تصورات کی دنیا اجڑ گئی
اے بڑھیا کھانے کا ٹائم نکل رہا ہے
چل کھانا کھا ، ورنہ
بھوکی مريگی
یہ خالہ اماں کا گھر نہیں
بے کام ناکارے بوڑھے بوڑھیوں کا
مسکن ہے !!
شکست
ساگر تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
جھوٹ ہاریگا 
سچ کی جیت ہوگی
اسے بس اتنا معلوم تھا
اس نے سدا سچ بولنے کی قسم کھالی تھی
لیکن اسے خبر نہ تھی
یہ دنیا جس میں وہ جی رہا ہے
مکروفریب کی دنیا ہے
کذب و افترا کی دنیا ہے
یہاں ظلم اور ظالم کی حکمرانی چلتی ہے
جھوٹ کی کہانی چلتی ہے
سچ منہ کے بل گر جاتا ہے
جنون نے اسے یہ سوچنے کی
مہلت ہی کب دی تھی
آج وہ جھوٹ بولتے ہوے
دل ہی دل شرمندہ ضرور تھا
مگر!
اس کی واہا واہی ہو رہی تھی
اس کے ماتھے پر
زخموں کے نشان نہ تھے
رنگا رنگ گلدستوں سے اس کی
سواگت ہو رہی تھی
اور وہ تصور کی دنیا میں
اپنے باپ کی روح سے
شرمندہ
اپنی شکست کا اعتراف کررہا تھا
پھر بھی اس کے چہرے کا رنگ
کھلا ہوا تھا !!!
بازگشت
ساگر تیمی 

پھر وہی افکار و خیالات
اس کے اوپر 
بستر پر لیٹتے ہی
پہلے ہی کی طرح
سوار ہو گئے
پھر اس کی آنکھوں سے
نایاب تھی اس کی نیند
ساری کوششیں رائیگاں
وہ کیا کرے
آخر اس کا مداوا کیا ہے
رات تو سونے کے لیے ہی بنائی گئی ہے
یہ میری بوڑھی ماں کی بد دعا تو نہیں
نہیں ، ماں بد دعا نہیں کرتی
تو پھر کیا ہے ؟
عذاب؟
سزا؟
وسوسہ؟
اگر یہ میرا ایمان ہے
تو یہ اس وقت کہاں ہوتا ہے
ہاں اس وقت جب
میں یہ سب کر رہا ہوتا ہوں
کہیں یہ شیطان تو نہیں
مجھے ٹوٹکے کرانے چاہیے؟
لیکن شیطان کو کوئی اور نہیں ملا؟
اگر میں یہ سب چھوڑ دوں
تو !
میرے وقار کا ، اعتبار کا کیا ہوگا
میری سیادت کا کیا ہوگا
اور میری عزت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کچھ مٹی میں مل جائیگی
لیکن یہ ہے کیا؟
مجھے تو اور کوئی
برا نہیں کہتا
تو کیا میں بے مطلب ہی ہلکان ہوتا
جارہا ہوں ؟
کہیں یہ میرے اندر کا
جیسا کہ لوگ کہتے ہیں
ضمیر تو نہیں ؟
اگر یہ ضمیر ہی ہے تو
دن میں کیا گھاس چرنے چلا جاتا ہے
کل ہی کی طرح
آج بھی صبح ہو گئی
اور اگر ایسا ہی کل بھی ہو جاے تو؟؟؟
اکیسویں صدی !
(عربی ناول نگار احسان عبد القدوس کے ایک ناول سے متاثر ہو کر)
ساگرتیمی
وہ !
حسن وجمال کی دیوی
چہروں پر مسکراہٹ سجاے
نگاہوں سے جام چھلکا رہی تھی
وہ!
بلا کی خوبصورت تھی
تھوڑی دیر کیلیے میں اس کے اندر کھو گیا تھا
بے اختیار میں نے
اس کی تعریف کرنی شروع کردی تھی
مجھے لگا کہ میری زبان
میرا ساتھ دینے لگی ہے
میں کہ رہا تھا
تم چاند سے زیادہ خوبصورت
سورج سے زیادہ روشن
تمہاری آنکھیں سمندروں سے زیادہ وسیع
تمہارے جسم کی بناوٹ مثالی ہے
قسم خدا کی تم لاجواب ہو
لیکن وہ پہلے ہی کی طرح
مسکرارہی تھی
جیسے اسے میری تعریف سے کوئی سروکار نہ ہو
میرے الفاظ میرے لیے بے معنی ہو رہے تھے
میں ڈرسا گیا تھا
کہیں اس نے برا تو نہیں مان لیا
پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی
میں نے پایا
وہ میری طرف بڑھ رہی ہے
پاس آکر اس نے پوچھا
کیا چاہتے ہو؟
بوسہ!
اور قبل اس کے میں
کـچھ بول پاتا
میری حیرت اور ڈر ختم ہوتے
اس نے کہا
پھر کرلو kiss
اس میں اس قدر وقت ضائع کرنے کی
ضرورت کیا تھی ؟
اور حیرانی کے عالم میں
میں اسے بس
تاکتا ہی رہ گیا تھا!!
بے وقوف
ساگر تیمی 
وہ 
میرے سامنے 
خوب جم کر 
میری تعریفیں کرتا ہے
میری شان میں
آسمان زمین کے قلابیں ملاتا ہے
میں اسے کھلاتا پلاتا ہوں
وہ سمجھتا ہے
میں نادان اور بے وقوف ہوں
وہ مجھ سے الگ ہونے کے بعد
لوگوں کے سامنے
میری حماقتوں کے قصے چھیڑتا ہے
اپنی عقلمندی اور میری بے وقوفی کے واقعات
مزے لے لے کر سناتا ہے
وہ بتاتا ہے کہ کس طرح
اپنی فلاں ضرورت کی تکمیل کیلیے
اس نے مجھے بے وقوف بنایا تھا
کس طرح بیٹی کی شادی کا خرچ
بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا
اور کس طرح میں اس کی چکنی چپڑی باتوں
میں آ گیا تھا!!
اور لوگ تسلیم کرلیتے ہیں کہ
میں واقعی
بے وقوف ہوں !

اس بار پھر انا میرے سر پر چڑھی رہی
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی
میں بھی تو اپنے وقت کا شاہ جہان تھا
وہ بھی حسین نورجہاں تھی بنی رہی
جتنے امیر تھے سبھی مٹی کے شیر تھے
جنگ تو غریب لوگوں کے بل پر کھڑی رہی
اس نے محبتوں کو خریدا کہ مال ہے
اپنی ہنروری تھی ، دھری کی دھری رہی
وقت صباح کہروں کا سایہ تھا ،خوف تھا
نیند انتظار صبح میں شب بھر اڑی رہی
اک اشک کہ رخسار سے ڈھلکے نہ عشق میں
شبنم کسی گلاب کے اوپر پڑی رہی
مجھ کو تو اپنے عہد کے دانشوروں پہ حیف
ساری خطا بشکل خرد تھی وہی رہی
ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا
دنیا کہ اس کے پیچھے پڑی تھی پڑی رہی


وقت کا پھیر ہے یا اپنی خطا
کیوں نہیں ہوتی ہے قبول دعا
کیا خبر ہے کہ دنیا داری ہو
ذکر واعظ کا، پنڈتوں کی کتھا
ٹھان لی ہے تو کر ہی گزرینگے
حق کے جویا ہیں موت سے نہ ڈرا
میں بھی اقبال کا ہی شیدا ہوں
میر ، غالب کی بات اپنی جگہ
آؤ چل کر نماز پڑھ آئیں
عیں ممکن ہے آخری ہو ادا
اک تمہارا خیال تھوڑی ہے
جانے کتنی ہے ہر قدم پہ صدا
زخم گرچہ بہت ہی کاری ہے
یوں نہ ساگر سبھی کو ایسے دکھا


مجھکو زندگی کی یہ آفتیں پسند آئیں
یعنی ماہ پاروں کی الفتیں پسند آئیں
زندگی غریبوں کی کلفتوں میں کھوئی ہے
اور امیر لوگوں کو راحتیں پسند آئیں
زندگی تو یوں میں نے کیا سےکیا گزاری ہے
تیرے ساتھ جو گزری ساعتیں پسند آئیں
اب کہ پھر نہیں ممکن عید میں نیا جوڑا
اپنے گھر سے غربت کی چاہتیں پسند آئیں
گرتے گرتے آخر کار آ گئی ہے منزل تک
مجھ کو اس چیونٹی کی ہمتیں پسند آئیں
روز روز کا رونا عشق میں بھلا کیا دے
اس لیے پتنگوں کی جرائتيں پسند آئیں
علم ، شعر ، عشق ، حکمت ، دین اور شکیبائی
ساگر اس فقیری کی دولتیں پسند آئیں


عشق محبت کرنے والے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
یعنی اندھیروں میں اجالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
میری بات در عالی تک پہنچے بھی تو کیسے پہنچے
حضرت جی کے پیارے سالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
بات اگر ٹھکرائی جائے روح تڑپ کر رہ جائیگی
اس میں کلام اللہ کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسے دعائیں سن لی جائیں بات فقط اتنی تو نہیں ہے
ان سے جڑے ناپاک نوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
تیری زمیں دولت جائے گی اتنا تو اب طے ہی جانو
صاحب جی کے پاس قوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
مجھکو دریا سے کیا مطلب اور سمندر سے کیا لینا
میری راہ میں ٹھوکر نالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
رنگ، وفا ، تسکین ، محبت،    عشق،  دعا ، معصوم ادائیں
اس کی رفاقت ، اس کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسی راہ پہ چلتا رہا ہے  تونے بھی کیا عشق کیا ہے
ساگر تیرے پاؤں میں چھالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی 


آنکھوں میں اشک چہرے پہ غم کا اثر نہیں
ایسا تو اس جہان میں کوئی بشر نہیں
پھر میں ہوں اور میری تمناے بے شمار
کیا کچھ ملے گا اس کی کسی کو خبر نہین
پھر حسن ہے اور حسن کا منظر حد نگا ہ
پھر چشم اشتیاق میں تاب نطر نہیں
اک شام ہے اور نور کا پھیلا ہوا سماں
اک دل ہے اور یاد سے کوئی مفر نہیں
جانا ہے اتنی دور کہ پھر لوٹتا نہیں
ایسا سفر اور ساتھ میں رخت سفر نہیں
جب آنکھ ہے تو اشک کی سوغات بھی ملے
کیا آدمی کہ دل رہے سوز جگر نہیں
ساگر ہوا میں اڑنے لگا بھی تو کیا ہوا
پہلے بھی آدمی نہ تھا اب بھی دگر نہیں
ساگرتیمی
زندگی میرے خوابوں کی تعبیر ہو، اورکچھ بھی نہیں میری تقدیرہو
وہ چلا جاے جانا ہےاس کو جہاں، گھر میں اس کی مگرایک تصویر ہو
میرے مالک مجھے چاند کا روپ دے،مجھ سے روشن جہاں کا اندھیرابھی ہو
میں براہیم کے طرز کا بن سکوں ، میرے اندر بھی ویسی ہی تاثیر ہو
میرے اوپر خدا کا کرم یہ رہے،میری چاہت میں ہے جو اثر کم نہ ہو
اسکے لب پہ ہوں نفرت کے شعلے مگر، اسکےدل میں تو میری ہی تصویر ہو
خواب دیکھو تو تعبیر ملتی نہیں، اب کہ آنکھوں سے مطلب رہے بھی تو کیا
اک قلندر نے مجھ سے کہا کان میں، اور کچھ بھی نہیں کوئ تدبیر ہو
راز کو راز رکھنے کی خاطر مجھے لب کو سینا پڑا دل جلانا پڑا
اس کی چاہت میں بیکل رہا میں ضرور،یہ نہ چاہا اس کی بھی تشہیر ہو
ہر طرف ہے خموشی سی چھائ ہوئ زندگی اس قدر شانت اچھی نہیں
یہ صدا دل کے کونے سے آتی رہی کوئ تخریب ہو کوئ تعمیر ہو
مجھ کو ساگر کسی سے گلہ بھی نہیں اور راضی کسی سے ہوابھی نہیں
زندگی میرے اوپر رہی اس طرح جیسے یہ بھی کوئ طرز تفکیر ہو
ساگر تیمی
کتاب خدا کو گلے جو لگا‌ئے
وہی دین و دنیا کی دولت کمائے
سکوں اس کوہوگا یقینا میسر
رہ مصطفی پہ قدم جو بڑھائے
لباس حیا سے ہے آزاد دنیا
خدا اس کے فتنوں سے ہم کو بچائے
نئی روشنی تیری تجھکو مبارک
ہمیں تو نبی کا طریقہ ہی بھائے
غم دو جہاں پھر نہ باقی بچیگا
میری ماں جو سینے سے مجھکو لگائے
یہ میری سعادت ہے للہ یا رب
نبی کے ڈگر پر اگر تو چلائے
یہی اک دعا اس کی تو سن لے خدایا
نہ ساگر کسی کا کبھی دل دکھائے

2
غزل
خدا نے پھر مجھے اپنا لیا ہے
گناہوں پر ندامت کیا ادا ہے
اسے جنت میں جانے سے نہ روکو
یہ راتوں کو سدا قرآں پڑھا ہے
نبی کی ذات سے ہو کس کونفرت
نبی کی ہر ادا اک معجزہ ہے
سوائے آپ کے جائیں کہاں ہم
خدایا تو ہی تو اک آسرا ہے
دوائیں وقت پر دیتا نہیں ہے
ہمارا دوست کتنا باوفا ہے
وہ چاہے جس قدر انداز بدلے
صدائے کفر آخر بے نوا ہے
تم ساگر سچ کی رہ میں کب ہو تنہا
تیرے ہمراہ میری جاں خدا ہے

3
غزل
چلنے کا نبی کی سنت پہ انجام نرالا ہے
دنیا میں بڑی عزت عقبی میں اجالا ہے
اک بار جو پی لے تو پھر پیاس نہیں لگتی
کوثر پہ نبی نے یہ کیا جام اچھالا ہے
تاثیر محمد کے اعجاز کا کیا کہنا
اک بار ہی کیا دیکھا دل ہاتھ میں ڈالا ہے
اب ظلم نہیں ہوگآ انصاف تونگر ہے
اس بار حکومت کو احمد نے سنبھالا ہے
جو حق پہ دیا ہے جاں زندہ ہے جہاں والو!
یہ بات نہیں میری قرآں کا حوالہ ہے
حق بات کہنے میں وہ خوف نہیں کھاتا
وہ کل بھی اکیلا تھا وہ اب بھی اکیلا ہے
ساگر سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی
صورت سے بھی مسلم ہے کردار بھی لالہ ہے

4
غزل
زندگی فضل خدا ہے تم کو یہ بتلائے کون
موت سے ڈرنا برا ہے تم کو یہ بتلائے کون
حق کی خاطر مرنے والے مر نہیں سکتے کبھی
مرنے والوں کو بقا ہے تم کو یہ بتلائے کون
جس سے چاہو دل لگاؤ میں برا کہتا نہیں
پر یہ دنیا بے وفا ہے تم کو یہ بتلائے کون
زخم تیروں کا یقینا ایک دن بھر جائیگا
زخم دل ہر دم ہرا ہے تم کو یہ بتلائے کون
نیکیاں کم ہوںگی تیری اور گنہ بڑھ جائیگا
تم سے اس کا دل دکھا ہے تم کو یہ بتلائے کون
تیری قسمت میں شکست وریخت کیسے آگئی
تم نے یہ قرآں لیا ہے تم کو یہ بتلائے کون
ساگر کس کو حوض کوثرسے نبی دھتکارینگے
بے شبہ بدعت بلا ہے تم کو یہ بتلائے کون
ساگر تیمی
میری چاہت میرے الفاظ کی قیمت دے دے
مجھ سے نفرت ہے تو واپس وہ محبت دے دے
یہ بلندی ، میرے قد کو گھٹاتی ہے بہت
میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے عزت دےدے
اب کہ مانگوں تو یہ مانگوں کہ مجھے دے پستی
تیرے اوپر ہے خدایا کہ تو شوکت دے دے
ہر سطح پرہے یہاں بغض ،حسد، نفرت کا چلن
کیا یہ ممکن نہیں اللہ ، تو الفت دے دے
مجھ کو معلوم ہے صورت ہے بنائی تیری
رب کعبہ مجھے اک اچھی سی سیرت دے دے
جھوٹ کہتا ہوں تو کرتا ہے ملامت یہ ضمیر
سچ کے کہنے کی خدایا مجھے ہمت دے دے
یہ غریبی بھی تو ایمان کی سوداگر ہے
تو کیا اب بھی کہوں تجھ سے کہ دولت دے دے
تیرا ساگر کہ رہ حق کا ہے جویا ، اللہ
تو اسے راہ وفا ، ذوق عبادت دے دے


غزل
کوئی جو آکے نگاہوں کے در میں رہتا ہے
نہ جانے کیسا نشہ اپنے سر میں رہتا ہے
جو ہونے والا ہے ہوگا بدل نہیں سکتا
تو کیا وجہ ہے تو خوف وڈر میں رہتا ہے
تمہیں بھی عشق میں دیکھونگا تو بھی میرے بعد
کدھر کوجاتا ہے اور کس کےگھر میں رہتا ہے
اسے بھی میری طرح ساتھ کی ضرورت ہے
ادھورا آدمی تنہا سفر میں رہتا ہے
کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی
مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا ہے
پجاری رات کے جانیں تو کس طرح جانیں
وہ نور جو کہ طلوع سحر میں رہتا ہے
خیال چھوڑ دو ساگر کی ہمسری کا کہ وہ
کھڑا کنارے پہ موج دگر میں رہتا ہے
ساگر تیمی
گل ، گلاب ،زلف کی تصویر تو اچھی لگی 
زندگی کی یہ حسیں تفسیر تو اچھی لگی 
ظلم ہے انصاف اور ظالم مسیحا واہ واہ
مجھکو اپنے عہد کی تعمیر تو اچھی لگی 
یہ تبسم اب تلک رقصاں ہے تیرے ہونٹ پر
اے شہید عشق یہ تقدیر تو اچھی لگی 
رات کو نہ خواب دیکھوں ،دن کو سوؤں بھی نہیں 
دولت دنیا کی یہ تعبیر تو اچھی لگی
یہ لطافت روح کی تنویر بن جاے تو کیا 
مجھ کو اے قائد تیری تقریرتو اچھی لگی
اب کوئی بھی آنکھ کو بھاتا نہیں تیرے سوا
میرے اوپر یہ تیری تاثیر تو اچھی لگی
ہم محبت میں وفاداری کے قائل ہیں جناب
اشک میں ڈوبی ہوئی تحریرتو اچھی لگی
لفظ،معنی،شعر،حکمت،گفتگو،فن غزل
عشق میں ساگر تیری تشہیر تو اچھی لگی
ساگر تیمی 
ہر شخص الجھنوں کے عذابوں میں گھرا تھا 
خوش بخت تھا کہ حصہ میرا سب سے بڑا تھا 
غیروں کے ہاتھ لگ گیا وہ دیکھتا رہا
وہ پھول جو ارماں کی طرح دل میں پڑا تھا
دیکھا اسے تو چہرے سے رونق چھلک گئی 
مانا کہ زخم دل بہت گہرا تھا ہرا تھا 
سب لوگ اس کے صدق تکلم سےمطمئن 
اس شخص کے دروغ میں ایقان بھرا تھا 
وہ باپ پستیوں میں رہا مرض میں مرا
بیٹا بہت بڑا تھا بلندی پہ کھڑا تھا
اس روز اس کے گھر میں بڑی برکتیں رہیں
جس روز اس کے بیٹے نے قرآن پڑھا تھا
وہ بھی میرے عدو کی صفوں میں کھڑا ملا
جس کے لیے زمانے سے ہر لمحہ لڑا تھا
مجھ کو میرے خدا کی عنایت نے راہ دی
ورنہ وہ دور محن بہت سخت کڑا تھا
لالی بہت ملی تو تاسف نے دھڑ لیا
ساگر پکا تھا آم تو اندر سے سڑا تھا
ساگر تیمی 
غریبی میں وہ ہستی بیچ دے گا 
قلم بیچیگا ، کاپی بیچ دے گا 
چمن کو ناز تھا جس گل کے اوپر 
خبر کیا تھی کہ مالی بیچ دے گا 
محض دو وقت کی روٹی کی خاطر 
وہ مفلس اپنی بیٹی بیچ دے گا 
اگر بدلی نہ یہ ننگی فضا تو 
حیا ، عفت ، جوانی بیچ دے گا 
حفاظت کی تھی جس کی جان دےکر 
میرا بیٹا وہ پگڑی بیچ دےگا
تو میرے گھر سے سائل اور واپس !
میرے پرکھوں کا موتی بیچ دے گا
تم ساگر دیش کو اپنے بچاؤ
یہ قائد پھر سے دہلی بیچ دے گا
ساگر تیمی 
ہماری بات سچی ہی سہی مانی نہیں جاتی 
صداے حق بہت جلدی سے پہچانی نہیں جاتی 
خدا کے سامنے اپنی رضاکی پاسداری پر 
عذابوں میں گھرے سوبار من مانی نہیں جاتی 
غضب کا ظلم تھا اس کا فقیروں کے مساکن پر 
زمانہ ہو گیا ہے اور سنسانی نہیں جاتی 
تمہارا ظلم بھی آخر کو اک دن بے اثر ہو گا 
دعا بتلاؤ کس مظلو م کی مانی نہیں جاتی 
محمد کے اشاروں میں یہ تھی تاثیر کی قوت
قمر دو ہوگیا ٹکڑا تو حیرانی نہیں جاتی
تمہاری شازشیں نا کام ہونگی ، مات کھائینگی
خدا کے دین کی قطعا درخشانی نہیں جاتی
خد ا کی یاد میں خوف خدا سے اللہ والوں کی
بہے جاتی ہیں اشکیں اور طغیانی نہیں جاتی
جو ساگر دین پھیلایا گیا تلوار کے بل پر
بتاؤ کیسے اس کی آج تابانی نہیں جاتی
ساگر تیمی 
دولت پر جذبوں کا غلبہ ہوجائے
انساں پھر انساں کے جیسا ہوجائے 
کتنا روشن بخت ہے ایماں والوں کا 
بات کریں تو بات بھی صدقہ ہوجائے 
اتنی خودداری بھی بالکل ٹھیک نہیں 
جس سے ملیے ا س کو صدمہ ہوجائے 
ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہیے 
جھوٹ کہیں اور سچ کا دھوکہ ہوجائے 
سارے دیوانوں کی اک ہی خواہش ہے
چاہت مل جائے وہ اپنا ہو جائے
میں تو اس کو پیار کروں اور اپنا لوں
ہائے نصیبہ وہ بھی میرا ہوجائے
حسن جو اپنا رنگ جمالے آنکھوں میں
لب کہ جب کھل جائے نغمہ ہوجائے
میرے اس کے بیچ یہ دنیا حائل ہے
موت اگر آجائے جلوہ ہو جائے
شعر کا مطلب یہ ہوتا ہے ساگر جی
آنکھ پڑھے اور دل کا سودا ہوجائے

Thursday 21 March 2013


صدا کوئ نہیں چہرا نہیں ہے
جہاں میں ہوں وہاں دنیا نہیں ہے
نہ جانے کیا کمی ہے سادگی میں
کوئی میری طرف بڑھتا نہیں ہے
اگر جاؤں تو اب جاؤں کہاں میں
خدایا کیوں دعا سنتا نہیں ہے
بڑا شہرہ ہے اس کی شاعری کا
مگر وہ آدمی اچھا نہیں ہے
یہ غم ہے یا عذاب جاودانی
مسلسل بڑھ رہاہے گھٹتا نہیں ہے
کسی کی یاد ہی ہے سرگرانی
محبت عشق تو اچھا نہیں ہے
اگر ساگر اسے اپنا بھی لے تو
اسے ڈر ہے کہ وہ اس کا نہیں ہے