Wednesday 13 September 2023

 میرا شدت سے یہ احساس ہے کہ کوئی بھی نظام تعلیم جو اصل زندگی کے بنیادی تقاضوں سے دور ہو ، اس سے آراستہ لوگ سماجی سطح پر بڑا اثر ڈالنے میں ناکام ہوں گے ۔ اس تناظر میں ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کا جو ڈھانچہ استوار کیا ہے ، وہ بنیادی انسانی ضرورتوں کے کتنا قریب ہے اور طلبہ کو اس زندگی سے کس حد تک آگاہ کرپاتا ہے ۔

سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی تعلیم اگر زندگی کے حقائق سے ہم آہنگ نہ ہو یا اس زندگی کو بہتر سمت دینے کی صلاحیت سے مالا مال نہ ہو تو اپنی افادیت کھودے گی ۔ بر صغیر کی حد تک دیکھیے تو دینی تعلیم کے ادارے اس نہج پر استوار ہیں کہ وہاں کے پڑھنے والوں کو عام زندگی سے کم کم ہی واسطہ پڑتا ہے ، اوپر سے عام زندگی کے تقاضوں کو پڑھایا بھی کم کم ہی جاتا ہے ، دینی اداروں میں عملی مشق کی کوئی چيز نہيں پائی جاتی ، کھیت کھلیان ، تجارت، ملازمت تو دور کبھی دعوتی مشق کا بھی موقع نہیں نکلتا۔ یہ بات سننے میں شاید اچھی نہ لگے لیکن بالعموم جس معاشرے کو جاکر سدھارنے کا ذمہ دینی اداروں کے فیض یافتگان کو اٹھانا ہوتا ہے وہ اس معاشرے سے آگاہ ہی نہیں ہوتے ۔
کبھی اس حیثیت سے غور کیجیے کہ سب سے زیادہ عام زندگی میں ضرورت کس چيز کی پڑتی ہے ؟ معیشت کی ، اسی پر زندگی استوار ہوتی ہے ، اب ذرا اس پر غور کیجیے کہ دینی اداروں میں معیشت کی کتنی تعلیم دی جاتی ہے ؟ آج جو اصطلاحات رائج ہیں ، ان سے ہم کس حد تک واقف ہوتے ہیں ؟ کیا ان دینی اداروں کے فارغین واقعی اس معاملے میں رہنمائی کا فريضہ انجام دے سکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ؟
ہم جس ملک میں رہتے ہیں کیا اس ملک کے نظام حکومت سے آگاہ ہوتے ہیں ؟ اس نظام حکومت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اس پر کیا کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں ؟ کیا خود ہم اپنی بنیادی ضرورتیں بطور خود پوری کرسکتے ہيں ؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام اس معاملے میں ہمیں آگہی سے آراستہ کرتا ہے ؟ کیا اس قسم کے معاملات میں ہم دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکنے کی حالت میں ہوتے ہیں ؟
ہم نے نصاب کی تجدید کاری کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ہمارے طلبہ کو برائے نام انگریزی ، ہندی اور سائنس آ جائے جب کہ ہمارا دھیان اس پر ہونا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں سے تعلیم پاکر ایک فارغ التحصیل معاشرے میں جائے تو وہ واقعی عالم ہو۔ اس پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ سماج اور اس کی ضرورتوں کو جان نہيں رہے ہوں گے تو رہنمائی کا فريضہ انجام کیسے دیں گے ؟
ان تلخ سچائیوں کے ساتھ ہم نے بالعموم اخلاقی نظام ایسا رکھا ہے کہ بھولا بھالا دکھنے والا یا اس کی اداکاری کرنے والا طالب علم اچھے اخلاق کا مالک سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شعور وآگہی کے تقاضوں کے تحت جس قسم کے سوالات پنپتے ہیں اور جن سے ایک صحت مند ڈسکورس کی سبیل نکلتی ہے ، وہ یہ خاص ماحول پنپنے نہيں دیتا اور بہت سی ذہانتیں یوں ہی دم توڑ دیتی ہیں ۔
ارباب اختیار کو ان حقائق پر غور کی نظر ڈالنی چاہیے ۔ تعلیم اگر زندگی سے ہم آہنگ نہ ہو تو چاہے جتنا ہنگامہ برپا کیا جائے ، وہ اپنی افادی حیثیت منوانے سے رہ جائے گی ۔ دو صدیوں کا لگ بھگ عرصہ ہورہا ہے ، جب سے یہ نظام رائج ہے ، دو صدیوں کے تجربات کی روشنی میں ان نکات پر غور کرنا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ورنہ شاید یہ ڈھانچہ ہی باقی نہ بچے۔
رہے نام اللہ کا
ثناءاللہ صادق تیمی

No comments:

Post a Comment