Saturday 20 April 2024

لڑنے سے پہلے

 عقل مند زیادہ سے زیادہ مد مقابل سے لڑتا ہے ۔ سامنے خود سے زیادہ طاقتور ہو تو مڈبھیڑ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور تب تک نہیں ٹکراتا جب تک مقابلے کی سکت پیدا نہیں کر لیتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھود کر اسلحوں اور قوتوں سے لیس بڑی تعداد کے دشمن کے راست مقابلے سے بچنے کی کامیاب کوشش کی ، صلح حدیبیہ میں بظاہر تھوڑا پیچھے ہٹ کر کفار مکہ کی کڑی شرطوں کو قبول کر کے صلح کی اور بہت جلد یہ نتیجہ نگاہوں کے سامنے آ گیا کہ یہ اسٹریٹجی کتنی کامیاب رہی کہ پھر جب اہل مکہ نے صلح کے دفعات کی خلاف ورزی کی تو نہ صرف یہ کہ مکہ پر چڑھائی کی گئی بلکہ فتح و نصرت سے سرفراز بھی ہوئے ۔

دنیا کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین اور یو ایس اے دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے بیچ سرد جنگ جاری رہی ۔ سوویت اتحاد افغانستان میں جا کر دس سالوں تک برسر پیکار رہا، امریکہ نے موقع کا فائدہ اٹھایا ، افغان میں لڑنے والوں کی مدد کی اور سوویت اتحاد دس سالوں تک لڑنے کے بعد شکست سے دو چار ہوا۔
اس شکست کے ساتھ ہی امریکہ دنیا کا واحد سپر پاور رہ گیا ۔ پورے تیس سالوں تک اس نے دنیا میں من مانی کی ، روس اس درمیان خاموش رہا ، جب تب اقوام متحدہ میں ویٹو کرنے کے علاوہ اس نے کچھ بہت دھماکے دار نہیں کیا لیکن جب امریکہ بھی افغانستان پر حملہ آور ہوا ، لگ بھگ بیس سالوں تک لڑتا رہا لیکن نتیجہ بر عکس طور پر یہی رونما ہوا کہ وہ جنہیں شکست دینے گیا تھا انہیں کے ہاتھوں میں ملک چھوڑ کر اسے بھاگنے میں عافیت محسوس ہوئی تو دنیا سمیت روس نے بھی سمجھ لیا کہ سپر پاور اب کہاں کھڑا ہے ؟ اس نے یوکرین پر حملہ بول دیا ۔ حال یہ ہے کہ پورا یوروپ اس صورت حال سے پریشان ہے ۔ یہاں سیکھنے کا پہلو یہ ہے کہ روس نے انتظار کیا ۔ ملکوں کی زندگی میں تیس سال کم نہیں ہوتے ۔ آپ تیاری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اور حماقت کرنا چاہیں تو بغیر تیاری کے الجھ کر خود کو بھاری نقصان سے دو چار کر سکتے ہیں ۔
اس معاملے میں ایک روشن مثال ہندوستان کی ہے ۔ آزادی کے بعد بھارت نے پاکستان اور چین سے جنگیں لڑیں اور ان جنگوں سے سیکھا کہ یہ ہمارے لیے نقصان کا راستہ ہے ۔ چین نے انڈیا کی زمین پر قبضہ کر لیا ، حزب اختلاف ہنگامہ کرتا رہا لیکن وزیر اعظم مودی نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے چین سے مڈبھیڑ کی نوبت آئے ۔ اپنی طاقت کا اشتہار دینے والے وزیر اعظم نے چین سے لڑنے کی حماقت نہیں کی اور الٹے یہ مان لیا کہ ہماری زمین پر قبضہ ہی نہیں ہوا ہے ۔
عالم اسلام کے پاس سمجھداری سے کام لینے کا بھی راستہ کھلا ہوا ہے اور حماقت کا بھی ۔ تیاری کرنے والے ہنگامہ نہیں کرتے اور جب تیاری ہو چکی ہو تو انہیں دبنے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن بغیر تیاری کے میدان میں کودنے کی بے جا جرات صرف بے وقوف ہی کرتے ہیں ۔
ساگر تیمی

Monday 1 April 2024

وقار اور انسان

 

انسان کو باوقار ہونا چاہیے ۔ باوقار ہونے کا یہ قطعا مطلب نہیں ہے کہ آدمی متکبر یا مغرور ہوبلکہ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ  اس کی اپنی نظر میں اس کا اپنا ایک خاص مقام ہو ، اس کی اپنی اخلاقی حیثیت ہو اور وہ اپنے اس رتبے کی سدا حفاظت کرتا ہو۔باوقار ہونے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ کے پاس  آپ کی جگہ اور مقام کے حساب سے مطلوب صلاحیت ہو ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی جگہ پر ہوں ، آپ کے پاس مطلوب لیاقت بھی نہیں اور آپ اپنے وقار کی بھی حفاظت کر لے جائیں ۔صاحب خرد جگہ کے مطابق یا تو صلاحیت پیدا کرلیتا ہے یا پھر سلیقے سے جگہ ہی بدل لیتا ہے ۔

اس کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اخلاقی اصول و آداب کے پابند ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی مسجد کے امام ہیں ، تقریراچھی کرتے ہیں ، تلاوت اچھی ہے ، اپنے فریضے کے معاملے میں پابندبھی ہیں لیکن اگر جہاں تہاں اٹھتے بیٹھتے ہیں ، ہوٹلوں میں جب تب بیٹھ کر عام لوگوں کے ساتھ باتیں بناتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ کب کہاں جایا جاسکتا ہے اور کب کہاں جانا مخصوص سماجی آداب کے خلاف ہے تو آپ کو آپ کے حصے کا وقار نہيں مل پائے گا ۔ لوگ آپ کو ہلکے میں لے لیں گے ۔ ایک امام کو اتنا ہی بے تکلف ہونا چاہیے کہ لوگ اس سے اپنے مسائل دریافت کرسکیں ، اتنا نہیں کھلنا چاہیے کہ لوگ اس کی ہیبت ، مقام اور حیثیت ہی بھول جائیں ۔توازن کی اس کمی سے بہت سے لوگ اپنے حصے کے جائز احترام سے بھی محظوظ  نہیں ہوپاتے ۔

آدمی کے وقارکا تعلق اس کے سماجی زندگی سے بھی ہے ۔اگر آپ جیسے تیسے رہتے ہیں تو آپ کے ساتھ کسی کا حد سے نکل جانا نسبتا آسان ہو جاتا ہے ۔شخصی وقار اور ہیبت بہت سے برے ارادے کے لوگوں کو آپ سے دور رکھتی ہے لیکن جب وہ ہیبت نہ ہو تو ایسے لوگوں کا اپنے ارادے کے مطابق اقدام پر اتارو ہوجانا مستبعد نہیں ہوتا۔یوں یہ شخصی خوبی سماجی اہمیت کی بھی حامل ہے ۔

باوقار آدمی زندگی کے اصول و آداب کا پابند ہوتا ہے ۔ اس کے یہاں سچائی  ہوتی ہے ، وہ جھوٹ اور دروغ سے دور رہتا ہے ، وعدہ خلافی نہیں کرتااور اپنی باتوں کا پابند ہوتا ہے ۔ آپ اگر باوقار زندگی جینا چاہتے ہيں تو آپ کو اچھے اخلاق و آداب سے آراستہ ہونا چاہیے ۔ ان تمام چيزوں سے بچنا چاہیے جو انسان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں جیسےاپنی معیشت کو منظم  کریں ۔ اپنے اخراجات کو اپنی آمدنی کے اندر رکھیں ، قرض لینے سے بچیں ، اس لیے کہ اگر خرچ آمدنی سے بڑھے تو آپ قرض لینے پر مجبورہوں گےاور قرض دار آدمی کے لیے اپنے وقار کی حفاظت آسان نہیں ۔

وقار کا تعلق انسان کے مال و منال اور علم و آگہی سے کم اور اس کے برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور آداب و اخلاق سے زیادہ ہے ۔ آپ کو بہت سے لوگ مل جائیں گے جو علم میں اونچے مقام پر نظر آئیں گے لیکن ان کا کوئی وقار نہیں ہوگا ، وہیں بہت سے پیسہ والے مل جائیں گے جن کی کوئی حیثیت نظر نہيں آئے گی جب کہ کم علم والے اور کم پیسے والے اپنے اعتبار ووقار کی بلندی پر نظر آسکتے ہیں ۔علم کو وقار کے ذریعہ زیادہ کاگر بنایا جاسکتاہے جب کہ وقار نہ ہو تو علم کی افادیت مجروح ہو سکتی ہے ۔

ساگر تیمی

موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں

 موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں

ساگر تیمی
ہم تو کہيں گے آپ بھی رمضان میں پڑھیں
گھر میں ہوں بند یا کہيں میدان میں پڑھیں
ہوگا اضافہ آپ کے ایمان میں پڑھیں
موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں
فرعون چاہتا تھا کہ بچوں کا قتل ہو
کوئی بچے نہیں کہ کہیں اس کا قتل ہو
بیٹی بچائی جائے مگر بیٹا قتل ہو
یوں اس کے مارے جانے کا اندیشہ قتل ہو
لیکن اسے اللہ کی حکمت پتہ نہیں
موسی پہ کیسی ہونی ہے رحمت پتہ نہیں
اس کے ہی گھر میں ملنی ہے عزت پتہ نہيں
اس نور سے چھٹے گی یہ ظلمت پتہ نہيں
موسی جواں ہوئے تو جوانی نےشان لی
ظالم کو ایک گھونسا لگایا تو جان لی
سازش کی اطلاع ملی موسی نے مان لی
یوں شہر سے نکلنے کی بندے نے ٹھان لی
نکلے جو دور چور تھکن سے ہوئے نڈھال
پروردگار میرے نکلنے کی رہ نکال
کنویں میں اپنی قوت بازو سے ڈول ڈال
موسی نے لڑکیوں کی حیا کا رکھا خیال
شادی کی بات طے ہوئی انعام بھی ملا
بکری چرانے کا انہیں اک کام بھی ملا
لوٹے جو اپنے ملک تو اکرام بھی ملا
لینے گئے جو آگ تو پیغام بھی ملا
اب حکم یہ ملا کہ محبت کی راہ چل
ظلم وستم کے بیچ بھی حکمت کی راہ چل
فرعون کی طرف بھی تو دعوت کی راہ چل
لے ساتھ اپنے بھائی کو عظمت کی راہ چل
جب معجزہ دکھایا گيا حق تھا سامنے
جادوگروں کو لایا گيا حق تھا سامنے
سجدے میں سر جھکایا گيا حق تھا سامنے
فرعون کا سہارا گيا حق تھا سامنے
پھر معرکہ ہوا تو بڑا معجزہ ہوا
موسی کےلیے بحر میں بھی راستہ ہوا
فرعون دریا برد ہوا واقعہ ہوا
مرنے کو مرگيا مگر عبرت کدہ ہوا
اللہ کےنبی کی مگر تھی عجیب قوم
بچھڑے کو پوجنے لگی یہ بدنصیب قوم
ظلمت سے کب نکلتی بھلا یہ غریب قوم
پھانسی پہ خود ہی چڑھنے لگی بے صلیب قوم
جاہل تھی من وسلوی سے انکار کردیا
نعمت ملی تو اس کو بھی بے کار کردیا
لڑنے کی بات آئی تو تکرار کردیا
یوں ہر قدم پہ ظلم کا انبار کردیا
ملعون یوں ہوئی کہ تکبر میں مست تھی
پستی میں ڈوبتی گئی ذلت پرست تھی
بندر بنایا رب نے کہ ظلمت میں سخت تھی
یعنی کہ بود ہوگئی حالاں کہ ہست تھی
موسی کی زندگی سے نصیحت بھی لیجیے
حق کی ہی جیت ہوگی یہ عبرت بھی لیجیے
یعنی غلط سے لڑنے کی قوت بھی لیجیے
چلنا ہے حق کی رہ پہ تو ہمت بھی لیجیے
جینے کی راہ جیت کا عنوان سیکھیے
ہر ہر قدم پہ فتح کا امکان سیکھیے
جنت میں کیسے جائےگا انسان سیکھیے
ساگر کی بات مانیے قرآن سیکھیے

آدم سے بھول ہو گئی رستہ بھٹک گیا

 آدم سے بھول ہو گئی رستہ بھٹک گیا

ساگر تیمی
اللہ نے یہ چاہا کہ عالم سجایا جائے
آدم بنایا جائے خلیفہ بنایا جائے
اللہ کے فرشتوں نے لیکن یہ بات کی
ہم ہیں تو کس لیے کوئی دوجا بنایا جائے
اللہ نے دکھا دیا حکمت کی بات ہے
آدم وہ جانتا ہے جو عزت کی بات ہے
اللہ گر نہ چاہے تو کیا جانیں فرشتے
آدم کا ہونا رب کی مشیئت کی بات ہے
پھر حکم یہ ہوا کہ فرشتے ہوں سجدہ ریز
ابلیس بھی یہی کرے ہو جائے سجدہ ریز
مانا ملائکہ نے تو ابلیس نے کہا
مٹی کے آگے آگ کیوں ہو جائے سجدہ ریز
مٹی تو پست ہے سدا پستی میں جائے گی
جب بھی اٹھے گی آگ بلندی میں جائے گی
میں آدم خاکی کو بڑا کیسے سمجھ لوں
یہ ٹیس دور تک میری ہستی میں جائے گی
اللہ کو پسند نہیں آئی یہ تمکنت
لکھ دی گئی سدا کے لیے اس کی مذمت
اس نے بھی آدمی سے عداوت کی ٹھان لی
اور مانگ لی اللہ سے اس کی بھی اجازت
آدم کو اس کے رب نے تو جنت میں گھر دیا
نعمت کی زندگی دی محبت نگر دیا
حوا کو اس کی بیوی بنا کر قدیر نے
یوں زندگی کو ساری عنایت سے بھر دیا
جنت کی ساری نعمتیں آدم کے واسطے
ساری عنایتیں رہیں آدم کے واسطے
بس ایک ہی درخت سے روکا گیا اسے
ویسے تھیں ساری راحتیں آدم کے واسطے
ابلیس کو مگر نہیں بھائی یہ عنایت
اس نے یہ چاہا کیوں نہ ہو آدم کو بھی کلفت
آکر ملا تو پیار سے کہنے لگا ذلیل
کھالے درخت سے کہ ہمیشہ رہے نعمت
آدم میں تیرا دوست ہوں ، سچا ہوں ، یار ہوں
تیرے لیے میں کب سے بہت بے قرار ہوں
میرا کہا جو مان تو راحت میں رہے گا
میں ہوں تیرا صدیق تیرا غم گسار ہوں
روکا گیا ہے تجھ کو کہ محروم تو رہے
ایسا نہ ہو کہ واقعی محروم تو رہے
جنت میں اک درخت ہی تو ہے بہت عظیم
اس سے رہے جو دور تو محروم تو رہے
آدم سے بھول ہوگئی رستہ بھٹک گیا
دشمن کی میٹھی باتوں سے بندہ بھٹک گیا
جنت سے یوں نکالا گیا بے ستر ہوا
اب سوچ ہی رہا ہے کہ کیسا بھٹک گيا
آيا زمین پر تو ندامت بڑی ہوئی
اللہ بخش دے کہ خجالت بڑی ہوئی
ہم نے ہی اپنے نفس پہ یہ ظلم ہے کیا
کر درگزر کہ ہم سے حماقت بڑی ہوئی
بخشے گا تو نہیں تو ہم ہو جائیں گے تباہ
ہم سے تو ہو گیا ہے بہت ہی بڑا گناہ
لیکن تمہاری ذات غفور رحیم ہے
بخشش سے کر سفید یہ اعمال سب سیاہ
اللہ نے قبول کی آدم کی سب دعا
لغزش تو ہوگئی مگر سچی ہے یہ وفا
آنسو گرے تو رب نے رکھی لاج اشک کی
انسان بھول جاتا ہے لیکن یہی ادا
آدم کے واقعے میں نصیحت کی بات ہے
شیطان سے ہماری عداوت کی بات ہے
ساگر خدا کی مان لے شیطاں سے دور رہ
تیرے لیے یہی تو خلافت کی بات ہے