Wednesday 13 September 2023

 ڈاکٹر سید عبد العزيز سلفی رحمہ اللہ: ایک پختہ فکر رہنما

ثناءاللہ صادق تیمی
انسان کو دنیا سے ایک دن رخصت ہونا ہے ۔ موت برحق ہے ، موت پر تکلیف کا ہونا بھی فطری ہے لیکن جب کسی ایسی شخصیت کی وفات ہو جس سے قوم وملت کا مفاد وابستہ رہا ہو تو تکلیف زیادہ شدید ہوتی ہے ۔ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے ناظم اعلی ، نائب امیر مرکزی اہل حدیث ہند اور معروف صاحب قلم ڈاکٹر سید عبدالعزيز سلفی کی وفات بلا شبہ ایک ایسی ہی شخصیت کی وفات ہے ، آپ اپنی انفرادی اور اجتماعی ہر دو حیثيت میں قوم وملت اور جماعت و جمعیت کے لیے ایک اہم ترین مفید عنصر کی حیثيت رکھتے تھے ۔ انفرادی زندگی میں معالج کی حيثيت سے لوگوں کے کام آتے تھے اور اجتماعی زندگی میں احمدیہ سلفیہ سے لے کر جمعیت اہل حدیث اور دوسرے سماجی اداروں میں سرگرم حصہ داری نبھاتے تھے ۔
آپ کا تعلق ایک عظیم خانوادے سے تھا۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی جس وراثت کو ان کے داداڈاکٹر فرید رحمہ اللہ نے سنبھالا اور آگے بڑھایا ، اس وراثت کو ان کے والد، عظیم ملی رہنما ، صاحب فکر ونظر قائد اور عملی و علمی شخصیت ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی رحمہ اللہ نے وسعت و ترقی دی اور اس ادارے کو ایک مدینۃ العلم میں بدل دیا ، اسے ہی آپ نے سنبھالا اوراس کی حفاظت کی کامیاب کوشش کی ۔ اس میں بلا شبہ والد صاحب کی خصوصی تربیت کا بڑا کردار ہے ۔
آپ کی پہلے دینی تعلیم ہوئی ، احمدیہ سلفیہ سے فراغت حاصل کی اور پھر مسلمانان بر صغیر کی عظیم محسن دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا اور یوں اپنے والد محترم کے ہر دو زاویے سے لائق وارث ٹھہرے کہ والد صاحب بھی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معالج ڈاکٹر تھے۔
والد صاحب کی وفات کے بعد احمدیہ سلفیہ کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آئی اور آپ نےاس میں ہر طرح کھرا اترنے کی کوشش کی ۔ مکہ مکرمہ آنے کے بعد بہت سارے مواقع سے بہت سے بزرگوں اور دوستوں نے آپ کی سادگی ، ادارہ کے لیے تگ ودو اور اس سلسلے میں ہر طرح کی پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی آنکھوں دیکھی کیفیات بیان کیں اور ڈاکٹر صاحب کے لیے ہمارےدلوں میں ایک خاص قسم کی محبت بیٹھ گئی۔ویسے بھی آپ کے خانوادے کے سلسلے میں یہ بات نوٹ کی جائے گی کہ اس نے ادارہ یا جماعت کو کچھ دیا ہی ، اسے اپنے لیے فائدے کا سامان نہیں بنایا۔ بقول مولانا بدر عالم سلفی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی امارت سے جس محفل میں ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی رحمہ اللہ الگ ہوئے اسی محفل میں جماعت کے معتبر عالم دین شیخ شمس الحق سلفی رحمہ اللہ نے تمام حاضرین کے سامنے یہ گواہی دی کہ ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی پر کم از کم یہ الزام تو نہیں رکھا جاسکتا کہ انہوں نے اپنی ذات پر جمعیت کا ایک آنہ خرچ کیا ہے ۔مجھے یہ لکھتے ہوئےواقعی خوشی ہورہی ہے کہ جن دنوں سلفیہ کو لے کر ایک افسوسناک واقعہ روشنی میں تھا ، انہیں دنوں سرکاری اہل کاروں سےبات کرتے ہوئے فریق مخالف کے ایک ذمہ دار فرد نے یہ بات کہی کہ سلفیہ کے ذمہ داران سے بد انتظامی (مس مینجمنٹ)کی غلطی ہوسکتی ہے لیکن ان پر کسی قسم کے غبن کا الزام نہیں رکھا جاسکتا۔
احمدیہ سلفیہ دربھنگہ سے ہمارے کان بچپن سے آشنا رہے ہیں ، بڑے بھیا عبداللہ صادق صاحب نے وہاں تعلیم حاصل کی ، گاؤں کے دالانوں میں بھی سلفیہ کا ذکر خیر ہوتا رہتا تھا، مدرسۃ العلوم الاسلامیہ مرول میں ہمارے کئی اساتذہ وہیں کے فارغ تھے اور اس کا ذکر خیر کرتے رہتے تھے لیکن اس ادارے کوجاننے کا موقع 2000 ء کے قریب جامعہ امام ابن تیمیہ کے زمانہ طالب علمی میں ملا۔ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ان کی حیات وخدمات پر الھدی کا خصوصی شمارہ شائع ہوا تھا ، اس میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ہی ادارے کی پوری تاریخ ، شعبہ جات اور دوسرے اداروں کا ذکر آگيا تھا۔
جامعہ امام ابن تیمیہ سے فراغت کے بعد ڈاکٹر عبدالحلیم رحمہ اللہ سے رابطہ رہتا تھا ، میں نے اس کی تفصیل ان پر لکھے اپنے ایک مضمون میں دی ہے۔
ڈاکٹر سید عبدالعزیز سلفی رحمہ اللہ کو سب سے پہلے مذاکرہ علمیہ کے ایک پروگرام میں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ۔ امیر امارت اہل حدیث ، صادق پور ، پٹنہ ، مولانا عبدالسمیع جعفری ندوی رحمہ اللہ ایک نشست کے صدر تھے اور ان کا وقت متعین کردیا گيا تھا ، جس کی انہیں تکلیف تھی ، وہ اپنی تقریر میں بار بار اپنے وقت کا حوالہ دے رہے تھے اور ادھر ڈاکٹر سید عبدالعزيز رحمہ اللہ ان سے یہ گزارش کررہے تھے کہ آپ اس پروگرام کے صدر ہیں اور صدر کا کوئی متعین وقت نہیں ہوتا ۔آپ اپنے حساب سے اپنی باتیں رکھیں ۔ ہم نے سب سے پہلے ان کی ایک جھلک اسی وقت دیکھی تھی ۔ یہ غالبا 2005 ء کی بات ہے ۔
اس طرف آکر احمدیہ سلفیہ کے لیے سعودی عرب کا سفر مولانا بدر عالم سلفی حفظہ اللہ کرتے ہیں ۔آپ جب بھی مکہ مکرمہ آئے ، ملاقات ہوئی ، ادارے کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں بھی گفتگو رہی ۔ آپ نے اصرار کیا کہ جب انڈیا آئیں توسلفیہ ضرور تشریف لائیں اور الحمدللہ کئی مرتبہ یہ سعادت حاصل ہوئی۔ان مواقع سے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ سے ایک دو طویل ملاقاتیں بھی رہیں ، ان میں جہاں آپ کے اخلاق کی بلندی ، خورد نوازی اور پدرانہ شفقت نے اپنا گرویدہ بنا لیا وہیں جماعت کی تاریخ ، عملی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور ملی سطح کی بہت سی ناہمواریوں کے سلسلے میں بہت کچھ سیکھنے کوملا۔
اگر میری یاد خطا نہ کررہی ہو تو آپ نے پہلی ملاقات میں اپنی کئی تحریریں اوراحمدیہ سلفیہ سے متعلق ایک دو کتابیں عنایت کیں ، ساتھ ہی ہمیشہ سلفیہ سےجڑے رہنے کا حکم بھی دیا ۔ اس ملاقات میں آپ نے مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے لیے اوکھلا میں واقع زمین کے حصول کی پوری داستان سنائی ۔ مجھے خوشی ہے کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے موجودہ امیر نے اپنے آج کے مضمون میں اس سلسلے میں ڈاکٹرصاحب کی خدمت کا اجمالی تذکرہ کیا ہے ۔ ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے ملت کالج اور شفیع مسلم ہائی اسکول کی پوری تاریخ اور اس سلسلے کی دشواریوں سے آگاہ کیا اوراپنے استاذ ، بہار کے سابق گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کی طرف سے کی گئی بے لوث مدد کو بطور خاص بیان کیا۔
آپ نے قومی سطح سے لے کر صوبائی سطح تک اور پھر علاقائی سطح تک تحریک اہل حدیث کے نشیب وفراز پربصیرت افروز گفتگو کی ۔ دوسری جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ ہوئے اپنے میٹھے کڑوے تجربات میں بھی ہمیں شریک کیا اور ایک طرح سے بتایا کہ مسلکی وابستگی کے ساتھ ملی زندگی میں توازن کیسے پیدا کرنا ہے ۔ آپ کو اس کا غم تھا کہ دن بہ دن ملی وابستگی کمزور پڑ رہی ہے اور لوگ اپنے اپنے دائرے میں بند ہوتے جارہے ہیں ۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ ایک بڑے عالم دین دربھنگہ تشریف لائے ، ہم نے اپنی روایتوں کے تحت انہیں سلفیہ تشریف لانے کی دعوت دی لیکن انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا ، ہم نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کے والد صاحب بھی جب دربھنگہ آتے تھے تو سلفیہ آتے تھے اور آپ کی جماعت کے اور بھی بڑے بڑے علماء سلفیہ آتے رہے ہیں ، اس سے ملی وابستگی مضبوط ہوتی ہے ۔
اس وقت جتنی تحریریں آپ نے مرحمت فرمائی ، انہیں بھی اور بعد میں جتنی تحریریں اخبارات کے توسط سےپہنچیں انہیں بھی ہم نےپڑھنے کی کوشش کی ۔ آپ اپنے عقیدہ و منہج میں کافی پختہ اور بے باک تھے ، ملی اتحاد کے قائل اور اس کے لیے کوشاں تھے لیکن اس معاملےمیں وہ بالکل واضح موقف رکھتے تھے کہ اتحاد واتفاق اسلامی بنیادوں پرہی ہوسکتا ہے یعنی توحید وسنت اورمنہج سلف کی پیروی سے ہی یہ لیلائے مراد مل سکتی ہے ۔ اس سلسلے کے ان کے مضامین خاصی اہمیت کے حامل ہیں ۔
پچھلے سفر میں ملاقات ہوئی تو آپ کی نقاہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی ۔ ادارے کو لے کر ایک افسوسناک اور ناخوش گوار واقعہ بھی ہوگيا تھا ۔ خطبہ جمعہ کے بعد جب رہائش گاہ پر مولانا صدر عالم سلفی کے ساتھ آپ کے فرزند ڈاکٹر فیصل صاحب کی معیت میں ملاقات ہوئی تو ہر چند کہ آپ زیادہ باتیں کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن ادارے سے متعلق گفتگو کی اور اپنے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ ہم ادارے کی خاطر کسی بھی حد تک جانے کوتیار ہیں ، ہم پیٹھ دکھانے والوںمیں سےنہيں ہیں ، ضرورت پڑی توسپریم کورٹ بھی جائيں گے لیکن ادارے کو زک نہیں پہنچنے دیں گے ۔اس عمر اور اس نقاہت میں وہ عزم واقعی قابل دید تھا !!
آپ نے اس سفر میں ایک بات پر بطور خاص زور دیا کہ جب کسی کی موت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کی کوشش کرنی چاہیے ، یہ بات انہوں نے اس اندازمیں کہی جیسے وصیت کررہے ہوں کہ مرنے والے کا حق تو یہی ہے کہ اس کی نماز جنازہ میں شرکت کی جائے ۔ مجھے اس بات کا دلی افسوس ہے کہ یہ سطور میں مکہ مکرمہ میں بیٹھ کر قلم بند کررہا ہوں اور مجھے یہ طاقت حاصل نہیں کہ نماز جنازہ میں شرکت کرسکوں ۔ میں نے اپنے اہل خانہ سمیت بستی والوں اور احباب و متعلقین کو ٹیلی فون کرکے گزارش کی ہے کہ جو لوگ بھی جنازے میں شریک ہوسکتے ہوں وہ ضرور شریک ہوں اور اب بھی یہ گزارش کررہا ہوں کہ قارئین میں سے جو لوگ جنازے میں شریک ہوسکتے ہوں وہ شریک ہوں اور ڈاکٹر صاحب کےلیے دعائے مغفرت کریں ۔
اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، بشری تقاضوں کے تحت ہوئی خطاؤں سے درگزر کرے، اہل خانہ سمیت پوری جماعت کو صبر جمیل عطا کرے اور ملت کو آپ کا نعم البدل عطا کرے ۔آمین۔

No comments:

Post a Comment