Wednesday 28 December 2016

نکاح ثانی
ساگر تیمی
دالان میں وہی دس بارہ لوگ رہے ہوں گے ۔ گاؤں کے چودھری، مولوی ، کسان اور مزدور سب کی نمائندگی کسی نہ کسی طرح ہورہی تھی ۔ سب اپنی اپنی حیثيت کے مطابق ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔ مزدوروں کا ٹھکانہ وہی زمین کا فرش تھا ، کسان چوکی پر ، مولوی کے لیے کرسی تھی اور چودھری جی مسند پر ٹیک لگائے حقہ گڑگڑا رہے تھے ۔ بات امیرالاسلام کی ہی ہورہی تھی ، چودھری صاحب مزہ لے رہے تھے اور مولوی مرچ مصالحہ ملا رہا تھا ۔
چودھری : ویسے امیر صاحب  اتنے بھی بوڑھے تو نہیں ہوگئے ہیں کہ دوسری شادی نہیں کرسکتے ۔
مولوی : چودھری صاحب ! اس عمر میں نئی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !
چودھری : اگر ایسی ہی بات ہے مولانا ! تو آپ اپنے اور ہمارے لیے بھی کوئی کمسن حسینہ کیوں نہیں دیکھتے ۔۔۔۔ اور دیر تک ٹھہاکے لگتے رہے ۔
چودھری : امیرالاسلام کو کم از کم یہ تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا ؟
مولوی : صرف بچوں پر نہيں جناب ! اثر تو سماج پر بھی پڑتا ہے ، اس عمر میں کیا شیطنت سوجھی ہے ان کو ، اب تو چھوٹی عمر کی بچیاں چاچا دادا کی عمر کے لوگوں سے گھبرا کر ہی رہیں گیں ۔
اب جیسے مزدوروں اور کسانوں کو بھی موقع ملا ۔ پلٹو کسان نے اپنی منطق رکھی ، بات یہ ہے مولوی صاحب کہ آپ جیسے ہی لوگ تو نکاح بھی پڑھائيں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ شریعت کب منع کرتی ہے ؟ آپ تو خیر سے سمجھدار مولانا ہیں !! اس پر چودھری نے " سمجھدار" کو زرا زور دے کر ادا کیا اور پھر ٹھہاکے ہی ٹھہاکے تھے ۔ مولوی صاحب نے پہلے تو ذرا منہہ بنایا اور پھر خود بھی ٹھہاکے کا حصہ ہوگئے ۔ نتھنی مزدور نے اور بھی تگڑا دیا : بات یہ ہے حجور! کہ ہم مجدوروں کی حیشیت ہی نہیں ، امیر الاسلام ساحب کے پاش شلاحیت ہے تو وہ کررہے ہیں ، ویسے ہونے دیجیے تب پتہ چلے گا کہ کیا بیتتا ہے ان پر ۔۔۔
باتیں ہورہی تھیں ، اس بیچ چودھری صاحب کے یہاں سے چائے بھی آگئی اور اب تو جیسے اس محفل کو کم از کم ایک گھنٹہ اور کھنچ ہی جانا تھا ۔ اسی درمیان دالان سے امیرالاسلام کے منجھلے بیٹے شوکت کا گزرنا ہوا ، چودھری صاحب نے آواز دی ۔
شوکت بابو ! ارے سنیے ! مٹھائی کھلائیے ، پتہ چلا ہے کہ ایک دم سے جوان ماں آرہی ہے آپ کے گھر ! صاحب ! ہر ایک کو ایسی قسمت تھوڑی ہی ملتی ہے ! پھر سے ٹھہاکے تھے اور شوکت تیز قدموں سے سر نیچا کیے نکل بھاگے ۔
   برکت کا غصہ زیادہ خراب تھا ، ابو کو اب شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ، یار! اب تو ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں ، کون سا امی مرگئی ہوئی ہیں ، یہ کس قسم کا شوق چرارہا ہے انہیں ؟
شوکت : بھیا ! گاؤں والے بھی مذاق اڑا رہے ہیں ، چودھری صاحب ، مولوی صاحب اور سب لوگ دالان میں تھے اور مزے لے رہے تھے ، ابو کو تو کسی نہ کسی طرح روکنا ہی پڑے گا ۔
برکت : وہ مانتے کب ہیں ، تمہاری بھابھی نے تو باضابطہ منع کیا لیکن پھربھی وہ نہیں مانے ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ امی ہنگامہ کیوں نہیں کرتیں  اور نعمت ان کا ساتھ کیوں دے رہا ہے ؟
     شوکت : کیا معلوم ! امی اداس تو ضرور ہیں لیکن وہ کچھ بول نہیں رہی ہیں شاید وہ صدمے میں ہیں ۔
    ان کی باتیں جاری ہی تھیں کہ نعمت پہنچ گئے اور باتوں میں وہ بھی شامل ہوگئے ، پہلے تو انہوں نے ان کی بات سنی اور پھر کہنا شروع کیا ۔
نعمت : بات یہ ہے کہ اگر انہیں ایک اور شادی کی ضرورت ہے تو ہم انہیں روکنے والے کون ہوتے ہیں ، یہ ان کی زندگی ہے ، وہ اپنے حساب سے گزاریں ، اگروہ شادی کریں گے تو انہیں خوشی ہوگی اور ہم ان کی اولاد ہیں تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہیے ، ہماری پرورش میں انہوں نے کون سی کمی کی ہے ؟ ہم ان کے جذبات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں ، پہلے تو میں بھی آپ کی ہی طرح سوچتا تھا لیکن پھر مجھے لگا کہ اگر ابو کو ضرورت ہے تو ہم کون ہوتے ہيں روکنےو الے ؟
 دونوں بھائیوں نے برا سا منہہ بنایا ، نعمت کو الٹا سیدھا کوسا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چرچا پوری بستی میں ہوتا رہا ۔ جتنے منہہ اتنی باتیں ۔ ایک پر ایک لطیفے اور ایک پر ایک مسخراپن ۔ ہر محفل کی ایک ہی بات ، امیر الاسلام کی دوسری شادی !
          امیرالاسلام جانتے تھے کہ شادی ان کی مجبوری ہے ورنہ وہ گناہ میں بھی پڑسکتے ہیں ، وہ اپنی اہلیہ کو سمجھا بھی چکے تھے ، اہلیہ سمجھ بھی چکی تھیں اور چاہ بھی رہی تھیں کہ وہ ایک اور نکاح کرلیں ، جس سے نکاح ہونا تھا وہ کوئی اور نہیں ، ان کی اپنی پھوپھا زاد بیوہ بہن تھیں ، شادی کے تیسرے سال ہی زاہدہ کے شوہر کا انتقال ہوگيا تھا ، کوئی اولاد بھی نہیں تھی اور تب سے وہ ایسے ہی پڑی ہوئی تھیں ، وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی ، کسی گناہ میں بھی نہیں پڑیں گے اور بیوہ کی کفالت بھی ہوجائے گی ، ان کے چہرے کی چمک بھی لوٹ آئے گی ۔ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ لوگ آسانی سے نہیں مانیں گے لیکن وہ بڑے پر عزم تھے ۔ بیٹے تو آہستہ آہستہ مان بھی گئے لیکن اصل مرحلہ تب آیا جب خبر بیٹیوں کو پہنچی ۔ بڑی بیٹی تمنا نے تو گھر پر آکر دھرنا ہی دے دیا اور وہ اودھم مچایا کہ مت پوچھیے ، منجھلی کو تو اس سے کوئی خاص مطلب نہیں تھا لیکن چھوٹی بیٹی رخسار کا رویہ بڑی والی سے بھی کہیں دھماکہ خیز تھا ، وہ ایسے بھی باپ سے تھوڑی بے تکلف تھی ، آتے ہی اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا
ابو ! آپ کو تھوڑا تو ہمارا خیال کرنا چاہیے ، سب مذاق اڑا رہے ہيں ہمارا ! آپ کی عمر اب شادی کرنے کی نہیں ، اللہ اللہ کرنے کی ہے ، نماز روزہ کیجیے ، اعتکاف میں بیٹھیے ، حج کرنے جائیے ، تبلیغ میں نکلیے لیکن اللہ کے واسطے ہماری رسوائی کا یہ سب سامان تو مت کیجیے ۔ لوگ کیا کیا باتیں بنا رہے ہیں ، ہماری تو ناک میں دم ہے ۔ ہم کسی بھی صورت میں یہ شادی نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو ! آپ تو کتنے سمجھدار تھے ! ہمیں کتنے پیار سے پالا پوسا ہے آپ نے! اب آپ کو خراب نہیں لگتا کہ ہم پر کیا کیا تیر طعنے کے برس رہے ہيں ، خود آپ کے بارے میں کیاکیا باتیں ہورہی ہیں ؟؟؟
   امیرالاسلام رخسار کی باتیں سن رہے تھے ، ان کی آنکھیں تو خاموش تھیں لیکن دل رورہا تھا ، اپنے کمرے میں آکر وہ اپنی بیوی کو دیکھتے تو وہ نیچے نگاہ کرکے رہ جاتی ، ایک بیٹا ، ایک بیوی کی خاموش رضامندی اور اپنا ارادہ اور بقیہ سب کے سب لوگوں کی مخالفت ۔ انہوں نے پھربھی نکاح کرنے کا ارادہ باندھے رکھا اور اپنا آخری فیصلہ پوری قوت سے یہ سنایا کہ جسے اعتراض ہے وہ اپنا راستہ لے سکتا ہے ، میں یہ شادی کروں گا ، چاہے جسے جو کہنا ہے کہے کہ یہ میں جانتا ہوں کہ یہ شادی کیوں ضروری ہے ۔

  بیٹیاں روپیٹ کر لوٹ گئیں ، بیٹے خاموش ہوگئے ، سماج البتہ چہ ميگوئی کرتا رہا ۔ لیکن امیر الاسلام کو جب یہ معلوم ہوا کہ زاہدہ اس شادی کے لیے تیار نہیں ہیں ، انہوں نےاب ارادہ ملتوی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اللہ کے واسطے وہ شادی کی بات کو بالکلیہ ختم کردیں تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی ۔ وہ زير لب بدبدا رہے تھے : بے چاری کمزور بیوہ عورت ! گھٹیا سماج کے گھٹیا طنز میں آگئی !!! اور ان کی چہرے پر تفکرات کی لکیریں پھیل گئیں ۔۔۔

Saturday 17 December 2016

غزل
ساگر تیمی
کدھر گیا وہ ملاقات میں نہیں آیا
عجیب خواب تھا کہ رات میں نہیں آيا
مجھے وہ کب سے نئی زندگی کا کہتا تھا
ہوا نکاح  تو بارات میں نہيں آیا
اسے ایمان کی دولت ملی تھی کچھ اتنی  
ستا بہت مگر حالات میں نہیں آيا
یہ کیسی مار پڑی موسموں کی قسمت پر
کہ پانی پھر سے کیوں برسات میں نہیں آیا
"فقیر " کھا گیا کتنے غریب لوگوں کو
عذاب کیوں اسی کی گھات میں نہیں آیا
 زبان اس کی کہ قینچی سے تیز چلتی تھی
زہے نصیب کہ تو بات میں نہیں آیا
مجھے بھی عشق نے ساگر بہت بلایا مگر
میں بے وقوف  خیالات میں نہیں آيا


Sunday 20 November 2016

درد کی سوداگری
ثناءاللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں کو کئی چیزيں پریشان کرتی ہیں اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیزیں انہیں پریشان کرتی ہیں ، وہ بالواسطہ ہمیں بھی نہیں چھوڑتیں کہ بہر حال بے نام خاں ہم سے تبادلہ خیال کرتے ہی ہیں ۔ ان کے حساب سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا سیدھے طریقے سے نہیں چلتی ، کچھ نہ کچھ گڑبڑ کرتی ہی رہتی ہے ۔ سچ نہيں بولتی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتی ہے ، ایمانداری نہیں برتتی ، بے ایمانی سے کام لیتی رہتی ہے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتی ہے، روتی ہے تو اصلا ہنس رہی ہوتی ہے ، آنسو کے پیچھے مفاد کی دنیا آباد رہتی ہے ، چیخ کے پیچھے سودے رہتے ہیں ، ہنگامہ کے پیچھے سیاست رہتی ہے اور تو اور لوگوں کی موتوں پر بھی دنیا اس لیے روتی ہے کہ رونے سے فائدہ ہونے والا ہوتا ہے ۔
ہم نے کہا : خان صاحب ! کہیں آپ حد سے تو نہیں نکل رہے ، اس پر وہ ہنسے اور کہا کہ اے کاش ایسا ہی ہوتا ! لیکن کیا کہا جائے میرے سیدھے سادھے مولانا دوست ! دنیا ویسی ہے جیسی میں بتا رہا ہوں ۔ اب دیکھو ایران کہاں تو اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتا تھا اور کہاں سچائی یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے آپسی گہرے رشتے ہیں ، یہودیوں کے بڑے بڑے مراکز ہیں ایران میں ، امریکہ بہادر دہشت گردی کو دنیا سے مٹانا چاہتاتھا ، دینا کو ڈیموکریسی سکھانا چاہ رہاتھا اور کہاں صورت حال یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا آدمی صدر منتخب کیا گیا جسے بولنے تک کی تمیز نہیں۔ زبان سے بدتمیزی اور بدتہذیبی دونوں نکلتی ہے اور نفرت تو خیر کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بھی ملک کا بہت درد ہے ، وقت بے وقت روتے ہیں اور عام جنتا کو لائن میں ایسا کھڑا کرتے ہیں کہ بے چاروں کی موت بھی آجاتی ہے ، درد اتنا ہے کہ ان کے لفظ لفظ سے نکلتا ہے لیکن وہ سجتے دھجتے ہیں کہ لاکھوں کڑوڑوں روپیہ صرف اپنے لباس پر خرچ کردیتے ہیں ۔ ویسے انہیں لوگوں کا خیال بہت ہے تبھی تو لوگ انہیں چاہتے بھی بہت ہیں !!
مسلمانوں کے بہت سے قلمکار، شاعر اور لیڈر قومی زوال پر آنسو بہاتے رہتے ہیں ، ہم ان کے آنسو کے اتنے قدران تھے کہ اکثر ان کے ساتھ خود بھی رونے لگتے تھے بلکہ عام جنتا کی مانند ہم ان سے کہیں زیادہ روتے تھے اور دل ہی دل ان کی سلامتی کی دعا کرتے تھے اور ان کی بے باکی پر رشک بھی آتا تھا ۔ یہ تو بعد میں جاکر کھلا کہ یہ زیادہ تر رونے والے تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں ، رونے کا پیسہ لیتے ہیں ، آہیں بھرنے کی فیس مقرر ہے ، چیخنے کا سودا کیا ہوا ہے ، ایک شاعر صاحب کہ اسٹیج پر قوم کی محبت اور زبوں حالی پر وہ وہ آنسو بہا رہے ہیں کہ یا اللہ ! خود بھی بے حال ہیں اور سامعین کا بھی رو رو کر برا حال ہے اور عالم یہ ہے کہ انہیں اس رونے کے لیے اسی غریب اور بد حال قوم کی طرف سے ایک لاکھ روپے دیے گئے ہیں ۔ ایک صاحب قلم کار ہیں ، لکھتے کیا ہیں کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں، ایک ایک لفظ سے درد پھوٹتا ہے ، آنسو رواں ہوتے ہیں ، حرف حرف غم و اندوہ کا اشاریہ نہیں اعلانیہ ہے لیکن جب اندر جائیے تو معلوم ہو کہ صاحب کی ساری شہرت اسی جذباتیت ، برانگیختگی اور درد انگیزی پر ٹکی ہے اور قوم کے درد سے ماشاءاللہ گھر اچھا خاصا آباد ہوگیا ہے ۔ حضور والا ! ایک بڑے صحافی ہیں ، اردو میں اپنا رسالہ نکالتے ہیں ، خوب چھپتا اور بکتا ہے عالی جناب کا اخبار ، زرد صحافت کی اس سے عمدہ مثال شاید ڈھونڈنے سے نہ ملے ، وہی صاحب انگریزی میں بھی لکھتے ہیں اور جب انگریزی میں لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کیا سنجیدہ آدمی ہیں ۔ اردو میں سنجیدگی سے لکھیں گے تو ملی درد کا اظہار کیسے ہوگا !!
لیڈران ہیں کہ ملت کی زبوں حالی پر ہی ان کی لیڈری قائم ہے ، اس لیے آنسو خوب بہاتے ہیں لیکن ملی کسی خدمت کے لیے کبھی کوشاں دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ سوداگری کا وقت ہے ، کرایے پر عربوں کے یہاں رونے کے لیے لوگ بلائے جاتے تھے ، یہاں مختلف پیشہ کے لوگ ہیں لیکن اصلا ان کا پیشہ وہی ملی درد ہے ، اس درد میں اتنا خسارہ ضرور ہے کہ انجمن میں رونا پڑتا ہے لیکن فائدے اتنے ہیں کہ آنسو خود بخود جاری ہو جاتے ہیں ۔ ویسے صرف درد کی نہیں حوصلے کی بھی سوداگری ہوتی ہے ، ایک عالم باکمال جب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جائے گا اور جب اسٹیج سے اترتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ہیئت بدلتے ہیں کہ کہیں کوئی پہچان نہ لے ، قوم کو وہ حوصلہ دیتے ہیں کہ پورا پنڈال نعرہ تکبیر سے گونج جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی کفرستان میں اسلامستان کی فضا پیدا ہو جائے گی ۔

مولوی صاحب ! آپ گدھے ہیں ، آپ کو رونا آتا ہی نہیں ، جوش دلانا بھی نہیں جانتے ، دعویداری بھی نہیں آتی ، چیخنے چلانے کی پریکٹس کافی کمزور ہے اور پھر سوچتے ہیں کہ اس میدان میں کریئر بنے گا تو آپ کیا سچ مچ میں گدھے نہیں ہیں ؟ یہ قوم مسلمان ہے ، گوشت خور قوم ہے ، جذبات اس کے سرد نہیں ، بھڑکائیے اور اونچائی پر پہنچتے جائیے ۔ علم ، سنجیدگی ، حکمت ، شعور، اخلاص اور صفائی لے کر نکلیے گا بے موت مر جائیے گا ۔ 

Friday 3 June 2016

چلو اک بار پھر سے بچپنے میں لوٹ جائيں ہم
ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
میری آغوش میں ایک پیارا سا بچہ تھا ، بے انتہا خوب صورت ، صحت مند اور کافی جاذب لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی ۔ میں اس کوشش میں کہ وہ مسکرائے اپنے کئی نسخے آزما چکا تھا لیکن اس بچے کے چہرے پر تجسس کی لکیریں تھیں جو گھٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔ میرے ساتھ میں کھڑے میرے دوست بے نام خاں نے ایک قدرے نحیف قہقہہ لگایا اور کہا : بیٹے ! اگر تم نے چائلڈ سیکولوجی ( بچوں کی نفسیات ) پڑھی ہوتی تو تمہیں  معلوم ہوتا کہ یہ بچہ ابھی تمہیں پہچاننے کے پہلے مرحلے سے ہوکر دوسرے مرحلے میں آیا ہے ، پہلے خوف کی کیفیت تھی ، اب دیکھو تجسس کی کیفیت بن گئی ہے اور دوچار ملاقات ہوگی تو ہوتے ہوتے مانوسیت اورمحبت کی کیفیت پیدا ہوجائے گی جب بچہ تمہیں اپنا سمجھنے لگے گا اور اس کے بعد ہمارے دوست کی چائلڈ اور ایجوکیشن سیکولوجی پہ زبردست تقریر چل نکلی ، بی ۔ ایڈ کے زمانے کی ساری محنت انہوں نے ہم پر انڈیل دیا اور ہم استفادے کے بغیر رہ بھی نہ سکے !!!
انسانی زندگی میں بچپن سے جڑی یادیں بہت معنی رکھتی ہیں ۔ ناسٹلجیا میں بچپن کا حصہ زيادہ ہی ہوتا ہے ۔ بچپن کو ہم معصومیت ، الھڑپن ، لاپروائی ، بے ریائی ، صدق ،  فطرت اورچھوٹی چھوٹی خواہشوں کے لیے  یاد کرتے ہیں ۔ شعراء ، ادباء اور مفکرین کے یہاں بچپن کی طرف پھر سے لوٹ چلنے کی حسرت مختلف اندازميں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ مولانا عبدالماجد دریابادی کی آپ بیتی میں جگہ جگہ جب یہ مصرعہ آتا تھا تو ہم کب سمجھتے تھے کہ مولانا کے یہاں یہ شدت کیوں ہے ؟
جوانی لے کے لوٹا دے میرا بچپن مجھے کوئی
بچپن بالعموم خوب صورت ہی ہوتا ہے ، اس محدود دنیا کی دانائیاں اور نادانیاں بڑی پر لطف ہوتی ہیں ، خواہشیں بنا پر کے اڑتی ہیں ، امنگوں کاشاہین پرواز بھرتا رہتا ہے ، مصلحتیں ، حکمتیں ، سمجھوتے راستے میں نہیں آتے لیکن دیکھتے دیکھتے یہ کب گزر جاتا ہے اور ہم کب بڑے ہوجاتے ہیں ، پتہ ہی نہیں چلتا اور پھر بہت جلد بڑے ہونے کی حسرت پھر سے بچہ ہوجانے کی حسرت میں بدل جاتی ہے ۔ منور رانا کا شعر ہے ۔
میری خواہش کہ میں پھر فرشتہ ہو جاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں
لیکن عربی اخبار میں چھپی ایک چھوٹی سی تحریر نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا ، مضمون نگار کا ماننا تھا کہ ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتےہیں ہمارا تجسس ، سوال کرنے کی للک ، سب کچھ جان لینے کی دھن ، سب کچھ اپنا لینے کی خواہش مدھم پڑتی جاتی ہے اور ہم تخلیقی قوت سے انجماد کی طرف بڑھنے لگتے ہیں ، ان کے حساب سے بچپنہ صرف معصومیت سے عبارت نہیں ہوتا ، بچپنہ تو امنگ ، تخلیقیت ، لگن اور رکنے کا نام نہ لینے والے سوالات سے عبارت  ہوتا ہے اور یہی اوصاف در حقیقت زندہ قوموں کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں ، مضمون نگار نے پوری عرب قوم سے گزارش کی تھی کہ چلیے ہم پھر سے بچے ہو جاتے ہیں ، جستجو کی طرف لوٹ چلتے ہیں ، سوالات کرتے ہیں ، جوابات سے مطمئن نہ ہونے پر پھر سوالات کرتے ہیں ، ساری بلندیاں حاصل کرلینے کی کوشش کرتے ہیں ، جھوٹ سچ کے چکر میں پڑے بغیر اپنے ہاتھوں سے اپنی کائنات بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، کئی گھروندوں میں کوئی نہ کوئی گھر نکل آئے گا ۔
مضمون کو پڑھتے ہوئے کئی سالوں پہلے کا اپنا ایک واقعہ ہمیں شدت سے ياد آیا ، ہوا یوں کہ ہمیں اپنے ایک بھتیجے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا تھا ، اب جو راستے بھر اس نے سوالات پوچھے ہیں تو جوابات تھک گئے ہیں اورکئی بار جھنجھلا گیا ہوں ، لیکن اسے لے بھی جانا ہے سو ناراض نہیں کرسکتا اوریوں برداشت کرنا پڑا ہے ۔
ابو !
ہاں بیٹے !
یہ گھر ہے ؟
 ہاں بیٹے !
اور اس کے آگے وہ کالا کالا کیا ہے ؟
بھینس ہے بیٹا !
بھینس ایسا ہوتا ہے ؟
ہاں بیٹے !
اچھا اوروہ سفید والا کیا ہے ؟
وہ گدھا ہے بیٹا !
ابو وہ کالا کیوں نہیں ہے ؟
بیٹے ! وہ اس لیے کہ وہ بھینس نہیں ہے !
اچھا تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔ چچا بھینس ہیں وہ تو کالے ہیں
نہیں بیٹا ! وہ تو آپ کے انکل ہیں
پر ہیں تو وہ کالے !
  اور سوالوں کی کوئی انتہا نہیں ، وہ تو کہیے کہ وہ جگہ آگئی اور ہم بچ گئے ۔
رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے " انما شفاء العی السوال " نہ آئے تو پوچھنا چاہیے ، بہت سارے معاملوں میں شریعت کا بھی مطالبہ ہم سے یہی ہے کہ ہم پھر سے بچپن والی صفتیں اپنے اندر پیدا کرلیں جیسے نہ جانیں تو پوچھیں ، جیسے کسی کے لیے کینہ کپٹ نہ رکھیں جیسے بچپن میں نہ رکھتے تھے ، جیسے کبھی ان بن ہوجائے تو معاف کردیں ، جلد بھول جائيں جیسے بچپن میں کرتے تھے کہ ابھی لڑائی کی اور ابھی پھر مل گئے ، لا یحل لامری مسلم ان یھجر اخاہ فوق ثلاث ( مسلمان کےلیے جائزنہیں کہ اپنے بھائی کو تین سے زیادہ چھوڑے رکھے ) جو کام کریں دل سے کریں ، بے ریائی سے کریں جیسے بچپن میں کوئی دکھلاوا نہ تھا ۔ اپنی سلیم فطرت پر جئیں جیسے بچپن میں تھے " کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ "  کائنات کو خوب صورت کرنے کی کوشش کریں ، دوسروں کو گرائے بغیر خود آگے بڑھنے کے جتن کریں جیسے بچپن میں کرتے تھے ۔ سچ پوچھیے تو ہمیں اس بچپنے کی آج بہت ضرورت ہے جب دنیا شیطنت کے چنگل میں ہے ، تخلیقیت پر انجماد کے بادل ہیں ، امنگوں کے پر ٹھٹھر کر رہ گئے ہیں اور خواہشوں میں بلندی کی بجائے پستی آگئی ہے ۔ جب شاعر یہ تک کہنے لگا ہے !
مرے دل کے کسی کونےمیں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر دینا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
راجیش ریڈی
اس بچپنے کی طرف آئیے لوٹ چلیں جس میں تخلیقیت تھی ، امنگوں کے پرندے تھے ، سب کچھ حاصل کرلینے کاجذبہ تھا ، کائنات کو خوب صورت دیکھنے اور کرنے کی تمنا تھی ، ہمیں اس تخلیقیت کی آج بہت ضرورت ہے ۔ فرحت احساس کا بڑا پیارا شعر ہے
بچا کے لائیں کسی بھی یتیم بچے کو
اور اس کے ہاتھ سے تخلیق کائنات کریں
چھل کپٹ کی اس ماری دنیا میں اگر ہمارے اندر بچوں کی معصومیت اور تخلیقیت کے عناصر عود کر آئیں تو ہماری زندگی میں ایک بار پھر سے محبت کے گلاب کھل سکتے ہيں ، حسن کی کلیاں چٹک سکتی ہیں ، مسرت کی نسیم چل سکتی ہے ، ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں اور دینا اور بھی زيادہ حسین ہو سکتی ہے ۔ ندا فاضلی کا شعر ہے ۔
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ  بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
آئیے خود کو ہم بچپنے کے حوالے کردیتے ہیں ، مرنے سے پہلے پہلے تک اس بچپنے کو سنبھال کر رکھتے ہیں اور زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والی فرحت کی داغ بیل ڈالتے ہیں ۔