سیتامڑھی کی ایک شام کے ایک خوبصورت منظر اور
دلفریب یاد کے نام
ایک نشیلی شام
ہوائیں تیز تھیں زلفوں کا شوخ بکھرا تھا
وہ مست مست نگاہوں کا نور نکھرا تھا
وہ اس کا رنگ تو آنکھوں سے تھا عیاں لیکن
گلابی ہونٹ تھے موہ لیتا ہوا مکھڑا تھا
وہ میری آنکھوں میں اس کا وہ گہر بار کنول
مچلتے دریا پر مانو گلاب بکھرا تھا
وہ ناز و شوخ سے آنا اور پھر چلے جانا
نشیلی شام تھی وہ چاند کا اک ٹکڑا تھا
غضب کا حسن تھا اس کے کتابی چہرے پر
دوچار تل بھی تھے مالی کا سخت پہرا تھا
بدن میں آیا تھا اس سے میرے عجیب نشاط
اور اس کے جانے پر ہر سو لگا کہ کہرا تھا
حسیں رخسار پہ اشکوں کی وہ حسین لری
کھلے گلاب پہ شبنم کا چند قطرہ تھا
وہ اس کا کھیلنا گڑیوں کے ساتھ مل مل کر
چمکتے تاروں میں وہ ایک چاند ابھرا تھا
دل میں
اس کے بھی تھا کچھ نہ کچھ چھپا لیکن
خموش نینوں سے واضح سجن کا دکھڑا تھا
وہ چلتی ایسے تھی جیسے کہ بڑھ رہی ہو لپٹ
عجیب جوش تھا مانو جوان بگڑا تھا
نگاہ گاڑ کر ہنستی تھی اور روتی تھی
دل ودماغ کے مابین جاری جھگڑا تھا
وہ خواب تھا کہ حقیقت تھی کچھ نہیں معلوم
کھلی جو آنکھ تو ساگر کا رنگ اترا تھا