Monday 18 November 2013



                  شرح النصوص الدینیۃ فیما بین العلماء و المفکرین


Text Box:  هناك مبادرات وتطورات تحمل فى طياتها أسباب السرور والسعادة فيما يبدو غير أنها تسبب مشاكل وفواجع لا تكون فى الحسبان وذلك لأن هذه المبادرات تتجاوز حدودها والتطورات تخرج من دائرتها شوتصل إلى مالا يجدر بها الوصول إليه. وحينئذ يندم الإنسان على ما شعر بتواجده السرور والتذ السعادة بمجرد إحساسه. ويتمثل هذا في المفكرين المسلمين الذين عنوا بالتعليم والثقافة وأحرزوا الفوز الباهر في ميادينهم الخاصة ثم إنهم تبادروا إلى العناية بالدين فهما وعملا. حملت هذه المبادرة إلى المسلمين أشعة جديدة وغمرهم الفرح ولكنها مالبثت ان انقلبت إلى الأسف و الحيرة. لأنهم جعلوا يتجاوزون الحدود فبدلا من أن يعتمدوا على العلماء فى شرح النصوص الدينية من القرآن والسنة, أنهم مالوا إلى الأخذ بناصية الأمر, فجعلوا يشرحونها حسب فهمهم وكثيرا ما يخطئ الفهم إذا لم يكن مقيداً بفهم السلف الصالح وعارفا بأصول الشرح ومبادئه.
ومما لاشك فيه أن هولاء المفكرين يملكون بعض المهارة فى العلوم الحديثة من التكنالوجيا و الهندسة والطب وما إليها و أنهم يعشون حياة رغيدة هنيئة, يسبقون العلماء الإسلاميين فى بعض الأمور ولاسيما الشئون الدنيوية ولهم رسوخ فى السياسة واعتبار فى المجتمع. فكلما تميل هذه الطبقة المثقفة إلى الدين عملا به و فهما يسر به المجتمع المسلم ويمرح به مرحا. يجلها ويكرمها و يكثرمن ذكرها و يرجومنها خيرا كثيرا على مستويات الدين والدنيا و هذا بديهى ولاشك فى أنه أمر يجلب الفرح والسرور.

ولكن المشكلة التى تقلق بال المخلصين وتكدر صفو حياتهم هى تجاوزهم حدودهم وظنهم فى أنفسهم ظنونا تدفعهم إلى أن يشرحوا الدين بما يبدو لهم وأنما يشرحونه لابد من أن يعتبربه. ابتلئ بهذه الطبقة المثقفة العالم الإسلامى كله غير أن شبه القارة الهندية ابتليت بها أكثر. ولأجل ذلك تكثرهنا الانحرافات التعبيرية والمشوشات الفكرية وحماقات ظاهرها الشعور وباطنها السفاهة.
فهل لهذه الظاهرة أسباب أم أنها بدون أسباب؟؟؟ إذن تقتضى المشكلة أن نأخذها بعدة جوانب تفتح حقيقتها ويمكن الوصول إلى الحل.
العلماء وشرح الدين: العلماء ورثة الأنبياء يعرفون الكتاب والسنة. بالإضافة إلى إلمامهم بجهود المحدثين والفقهاء وفهمهم مبادئ الدين وأسراره, فهم يستحقون شرح الدين وتوضيح النصوص ومازالت الأمة المسلمة تعتمد على العلماء بهذا الخصوص ولكنهم لما يخالفون النصوص القرآنية و السنن النبوية الواضحة للحفاظ على هويتهم الفقهية وانتماءاتهم السياسية فى شرح الدين وأحكامه وكثيرا ما يحدث هذا. فإن هذه الطبقة المثقفة تفقد الاعتماد على العلماء وصورتهم الصافية تشوه لديها شيئا فشيئا وحينئذ يجترؤن على أن يشرحوا الدين بأنفسهم بدون أن يسئلوا العلماء ويرجعوا إليهم.
كذلك يخطئ العلماء حينما لا يلتفتون إلى الآراء الصائبة والرؤية العلمية المفيدة والإشارات ذات الجذور العميقة يتقدم بها هولاء المثقفون إليهم, فهم يظنون فى العلماء ظنونا سيئة من اللاعقلانية إلى الرجعية وما إليها ويفهمون خطأ بأنهم أجدر من العلماء بشرح الدين و توضيح النصوص. ثم إنه كل من يتفرغ فى المدرسة العلمية يظن أنه عالم يقدر على شرح الدين وتوضيح الأحكام مهما كانت مقدرته العلمية و فهمه للنصوص !!!
فلا بد للعلماء من محاسبة أنفسهم وتحسين سلوكياتهم وفتح أذهانهم وقبول الآراء الصائبة, كذلك إن الطبقة المثقفة فى حاجة ماسة إلى الاعتراف بقصورها وتجاوز حدووها ويجب عليها أن تفهم بأن شرح الدين وتفسير النصوص ليس أمرا سهلا, أنه يتطلب عمقا وصلاحيات ودراسات متأنية لمبادئ الدين وأصوله وما يتفرع منه, وذلك لا يوجد إلا لدى العلماء الأكفاء. فإنهم إن رؤوا بعض الزلات عند العلماء فعليهم أن ينبهوهم على أخطاءهم كشأننا مع المهند سين يخطئون بعض الأحيان فى العمارة. فهل يعقل أن نسلب من المهندس منصبه ونقوم بالهندسة بأنفسنامع أننا لسنا من مهرة الهندسة؟؟؟
المفكرون و شرح الدين: هناك رجال فى هذه الطبقة عرفوا مبادئ الدين وأصوله وطرق استخراج المسائل بالإضافة إلى شعورهم بالقضايا المتجددة الحديثة وهم رحمة للمجتمع المسلم ومتاع كريم لايستهان به, ولكن معظمهم كسبوا المهارة فى ميادينهم الخاصة, لايعرفون الدين فى مبادئه وطرق استخراج مسائله وأصول التشريع وهم عرفوا ما عرفوا من الدين عن طريق الترجمة لا بالمصادر الأولوية من القرآن والسنة. ولهذه الطبقة فرقتان. فرقة حسنت نيتها وهى مخلصة فى خدمة الدين والمجتمع, تريد أن تعطى المجتمع المسلم خيرا وتجنبه شرا. فإنه من الضرورى أن يمد إليها يد العون والمساعدة وأن تشجع جهودها بالإضافة إلى تصحيح خطأها وإرشادها إلى الطريق السوي المستقيم بالحكمة والموعظة الحسنة واستخدامها ضد العقول المنحرفة المضلة التى لاتسمع إلا لأصحاب العلوم الحديثة المثقفين. وعلى هذه الفرقة المثقفة أن تبذل قصارى مجهوداتها لتعرف أصل الدين وتقوم بنشره وذلك بواسطة العلماء المخلصين والاستفادة من مناهجهم الوسطى بالإضافة إلى الدراسة العميقة للقرآن والسنة وإلا فإن زلة فى هذا الطريق تدفع بالإنسان إلى مالا يحمد عقباه.
وهناك فرقة أخرى لهذه الطبقة المثقفة وهى ماكرة مستأجرة. باعت دينها وإيمانها وتتبحر بعقلها وعلمها.
كل مالديها من المعرفة والشعور إنما هو جهل وكبرياء وغرور. أنها تريد أن تتلاعب بالنصوص الشرعية فتقوم باختبار الأحكام الدينية حسب عقولهم الرهينة وتجترأ على شرح النصوص وتوضيح الأحكام بطرق غريبة لا تلاءم مع مواقف السلف من الصحابة والتابعين. إنها فرقة ماكرة واهية. تنقب المجتمع المسلم مستمدة برخاءها فى الحياة وتطوراتها فى التسهيلات الدنيوية. فلا بد من اتخاذ الحذر ضدها ولكن العاطفية أو الشدة لاتغنى من الأمر شيئا. إننا نحتاج إلى أن نشعر بواجبنا تجاه هذه الفرقة وأعمالها التخريبية وذلك يتطلب منا التركيز على عدة أمور. أولها أن نحسن نظامنا التربوى لكى لا تفسد على جيلنا هذه المحاولات الضالة وثانيها أن نستخدم الطلبة المثقفة المخلصة للرد على هذه المجهودات بالإضافة إلى تأهيل العلماء بالمواهب العلمية حتى يستطيعوا بها الرد على هذه الأفاعيل الماكرة متخذين وسايل ممكنة متوافرة فلو أننا قمنا بواجبنا, فإن الله سيقوم بوفاء وعده. إن تنصرواالله ينصركم ويثبت أقدامكم.


Saturday 16 November 2013


سیر دلی کی سرکاری بس سے
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
9560878759
بے نام خاں کا ماننا یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سہولت ملے تو اس کا فائدہ بھر پور انداز میں اٹھانا چاہیے ۔ اور اگر نہ ملے تو اسے حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہیے ۔ وہ اکثر اقبال کا یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں کہ 
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شی سے پیدا رم زندگی
وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ بیٹا اگر اقبال کی شاعری سمجھناہے تو بس ایک شعر سمجھ لے ان کا پورا فلسفہ اور ان کی پوری شاعری سمجھ میں آجائیگی ۔ اور جانتے ہو وہ شعر کیا ہے ۔ یہی کہ
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
اس لیے وہ ہمیشہ پرواز بھرنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چلتے رہنا چاہیے ۔ حرکت میں برکت ہے ۔ اقبال کا شاہین اسی لیے لپٹتا اور پلٹتا رہتا ہے ۔ یہ ذوق پرواز زندہ رہنا چاہیے ۔ آگے بڑھنے کی ہوس اور پیچھے نہ ہو پانے کی کوشش ہی انسان کی اصل روح ہے اور اسی میں اس کے کما ل کا راز پوشیدہ ہے ۔ ہمارے دوست کی باتیں گہری لگتی ہیں لیکن جب اس کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے تو اقبال کی شاعری شرمندہ ہوجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے خوبصورت دلہن کی تعریف کرتے ہوئے کوئی کہے کہ اس کی آنکھ  خراب نہيں ہے !  در اصل ہمارے دوست اقبال کی پوری شاعری کا یہ سارا فلسفہ بگھارنے کے بعد گویا ہوئے کہ چلو ڈی ٹی سی بسوں پر دہلی کی سیر کرتے ہيں ۔ بھائی اگر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلہ ملنے سے پاس کی سہولت میسر ہے تو کیوں نہ دہلی دیکھ لی جائے ۔ ہم نے پوچھا لیکن اس کے پیچھے کوئی مقصد؟ کوئی پلان ؟ بگڑ کربولے تبھی تو بیٹے مولانا لوگوں نے کوئی کارنامہ انجام نہيں دیا ۔ پہلے نکلو ، دنیا دیکھو ، لوگوں سے ملو ، کائنات کا مطالعہ کرو ، اپنے خول سے نکلو اور پھر تمہیں سمجھ میں آجائے کہ یہ دنیا کیا ہے ؟ اور مقصد خود کس طرح تمہارے پاس آجاتا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں
خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور ہمیں اپنے دوست کی شعرفہمی اور اقبال شناسی کا قائل ہوجانا پڑا ! خیر ان کے کہنے پر نہیں بلکہ اتنے زیادہ اعلا افکار و خیالات سننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ لیا کہ بھائي نکلنا ہی پڑے گا ورنہ بے نام خاں ہمیں کچھ بھی ثابت کرسکتے ہیں! جاہل ، بے وقوف ،نادان، کم فہم اور ناعاقبت اندیش !!!
          جہاں سے پاس بنوایا تھا وہیں سے دس قدم دور بس اسٹاپ پر آکر آدھا گھنٹے کے انتظار کے بعد 615 نمبر کی بس آئی ۔ اب جو دیکھتا ہوں تو آگے پیچھے انسان ہی انسان ہیں ۔ وہی یونیورسٹی کہ جب پہلی مرتبہ اندر آئیے تو ایساسناٹا نظر آئے کہ جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو اور اسی دانش کدہ جواہر لال نہرو میں بس ایسے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کا سارا قافلہ یہیں آکر ڈیرے ڈالے ہوا ہو ۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چڑھوں نہ چڑھوں کہ بے نام خاں کمال ہوشیاری اور دانشمندی سے سب سے پہلے سوار ہوگئے اور اندر جاکر خوب زور سے آواز دی کہ میں  بھی چڑھ جاؤں ۔ بے نام خاں کے آواز دینے کے انداز سے لوگ ڈر گئے اور اندر والے بھی باہر آگئے ۔ فائدہ بس یہ ہوا کہ ہم آسانی سے داخل ہی نہيں ہوئے بلکہ ہمیں سیٹ بھی مل گئی ۔ بعد میں جب ہم نے ان سے ادب و احترام کے ساتھ کہا کہ بھائی یہ تم نے کیا کیا تھا تو بولے بیٹا میری وجہ سے جگہ بھی ملی اور مجھے ہی سمجھا رہے ہو ۔ اب میں کیا بولتا !
            بھائی پھر ہم نے کہا کہ یہ بتلايے جانا کہاں ہے ؟ بولے ارے بھائی کونسا پیسہ خرچ ہورہا ہے ۔  جہاں پر کوئی دوسری سرکاری بس نظر آئیگی اسے چھوڑ کر اسے پکڑ لیںگے جہاں جائے گی چلینگے ۔ مختلف بسوں پر بیٹھین گے مختلف جگہوں کو دیکھینگے اور اس طرح پورا فائدہ اٹھائینگے پاس کا ۔ میں نے ایک بار پھر کہاکہ یار کچھ تو مقصد ہونا ہی چاہیے تو بولے اگر ایسی بات ہے تو یہ کرو کہ تم چلے جاؤ واپس اور میں گھومتاہوں بس میں ۔
         کیا کرتے بھائی ہم بھی بے نام خاں کے ساتھ لگے رہے ۔ زندگی کے سارے تجربات ایک ہی دن میں حاصل کرلینے کے ارادے سے نکلے تھے خان صاحب ۔ بسوں کی صورت حال کو دیکھ کر ساغر خیامی کی نظم بار بار یاد آرہی تھی ۔ ایسے بھی ہمیں بسوں میں' وہ' آتی ہے ۔ نہ معلوم کیوں اس دن تھوڑا زیادہ ہی آرہی تھی۔ ہماری بغل میں ایک محترمہ بیٹھیں تھیں ۔ ہم نے ان سے درخواست کیا کہ ہمیں کھڑکی کی  طرف جانے دیں اس لیے کہ ہمیں وہ آتی ہے اور محترمہ ناراض ہوکر بولنے لگیں ، صرف تمہیں ہی نہیں ہمیں بھی آتی ہے ۔ اور جب تھوڑی دیر بعد ان کے لباس فاخرہ پر ہمارے' وہ ' کی نظر کرم پڑی تو کیا منظر تھا بیان سے باہر ۔ ارے پہلے بھی تو بتا سکتے تھے ۔ کتنے غیر مہذب ہوتے ہیں یہ ۔ بسوں میں سفر بھی کرنے نہیں آتا ۔ اگر یہ سلیقہ نہیں تو بسوں میں چڑھتے ہی کیوں ہیں ۔ میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈم لیکن 'وہ' تو آپ نے کہا تھا کہ آپ کو بھی آتی ہے ۔ مجھے کیا خبر تھی کہ تمہاری 'وہ ' اتنی تباہ کن ہوگی ۔ میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں بھی میری طرح نیند آتی ہوگی ۔ اس درمیان بے نام خاں ہم سے اس طرح لاتعلق رہے جیسے ہمارا ان کا کوئی رابطہ ہی نہ ہو ۔ ہم نے شکایت کی تو بولے کون سا تم کمزور پڑرہے تھے کہ میں بیچ میں آتا اور یوں بھی جو کام اکیلے کر سکتے ہو ، اس میں مدد کی ذہنیت نہیں رکھنی چاہیے ۔ لیکن اصل مزہ تو تب آیا جب بے نام خاں ایک خاتونی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ایک محترمہ نے انہیں اٹھ جانے کا اشارہ کیا اور بے نام خاں یہ کہ کر اڑ گئے کہ میں پہلے آیا تھا اس لیے سیٹ پر بیٹھنے کا حق ہمارا ہے ۔ اس درمیان ہم نے دیکھ لیا تھا کہ اوپر طرف جلی حروف میں ' مہیلائیں ' لکھا ہوا ہے ۔ ہم نے اشارے سے بے نام خاں سے گزارش کی کہ بھائی اٹھ جاؤ ۔ بے نام خاں کو لگا کہ میں اس سے اپنی مدد نہ کرنے کا بدلہ لے رہاہوں اور وہ مجھے بھی غصیلی نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ اب جو ان محترمہ نے ہمارے دوست کو جاہل ، بے وقوف ، بہاری ، گدھے اور ایک پر ایک اعلا القاب کی سوغات دینی شروع کی تو بقیہ دوسرے تمام سواری ہی نہیں ڈرائیور تک ان محترمہ کے ساتھ ہوگئے ۔ ڈرائیور نے یہاں تک کہ دیا کہ یہ لفنگے بے مطلب گھوم رہے ہيں ۔ پاس لیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو پریشان کررہے ہیں ۔ پتہ چلا اس بس میں ہم لوگ دوسری مرتبہ سوار ہوئے ہیں اور ڈرائیور ہمیں پہچان گیاہے ۔ اب بے نام خاں کیا کرتے ۔ سیٹ تو انہیں چھوڑنی ہی تھی ۔ اگلے اسٹاپ پر بس سے اتر گئے اور دوسری بس آئی تو بغیر نمبر دیکھے سوار ہوگئے ۔ اور کیا بتایاجائے کہ وہ بس ہمیں کہاں لے گئی ؟؟؟
           رات کا گیارہ بج گيا اور ہم ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ اب جہاں تھے وہاں سے کوئي بس نہيں تھی ۔ چارو ناچار آٹو رکشا لینا پڑا اور اس سے پہلے کہ  ہم  بے نام خاں کو لعن طعن کرتے بے نام خاں الٹے ہمارے اوپر شروع ہوگئے اور کیا کچھ سخت سست نہيں کہا ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر بے نام خاں کے بتائے ہوئے سارے راستے غلط کیوں نکلتے تھے ۔ در اصل جب بے نام خاں کو پتہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اور بھی زیادہ اعتماد سے بولتےتھے اور اس طرح ہم بھٹک جاتے تھے ۔ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صرف اعتماد ضروری نہیں ہے بلکہ اعتماد تب فائدہ مند ہوگا جب اس کے ساتھ دولت علم بھی ہو ۔
        ہم آج بھی جب جب پاس بنواتے ہیں تو وہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور بے نام خاں ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ دلی دیکھنا حالانکہ اپنے  آپ میں ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے لیکن سرکاری بس میں یہ تھوڑا زیادہ ہی خوشگوار ہوجاتا ہے ۔ اور خاص طور سے جب آپ کے ہمراہ بے نام خاں ہوں ۔ ایک مرتبہ تو بھیڑ ایسی تھی کہ ہم نے ایک بزرگ کا ہاتھ یہ سمجھ کر پکڑ لیا کہ یہ بے نام خاں کا ہاتھ ہے اور اس پر جناب کیا بتلائیں کہ کیا ہنگامہ ہوا ۔ اس کے بعد تو ہم نے بس میں کسی کا بھی ہاتھ پکڑنے سے توبہ ہی کر لیا ۔ ایسے اگر دلی دیکھنا ہو تو اس سے اچھی اور کوئی شکل ہماری نظر میں ہے بھی نہيں ۔بے نام خاں کا ماننا ہے کہ سرکاری بس میں آدمی کی اہمیت گھٹتی ہو تو گھٹتی ہو لیکن پیسے کا بچاؤ ضرور ہوتا ہے ۔
            ہمارے دوست اسے اسلامی نقطہ نظر سے بھی ثابت کرتے ہيں اور کہتے ہیں کہ قل سیروا فی الارض تو کہا ہی گیا ہے ۔ لاتسرفوا اور ان المبذرین کا نوا اخوان الشیاطین بھی کہا گیا ہے ۔ اتنا ہی نہيں بلکہ اسلامی اعتبار سے دنیا کا مطالعہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے ۔ ایسے بھی سفر وسیلہ ظفر ہے ۔ اور اگر انسان تھوڑی مشکلوں کا سامنا نہ کرے تو اس کی عادت بگڑ جائیگی اور وہ آرام پسند ہوجائیگا ۔  اصغر گونڈوی کا شعر ہے ۔
                    چلاجاتاہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
                    اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے
وہ مجھے میرا ہی شعر یاد دلاتے ہیں کہ
                   کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی
                 مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا  ہے
ہمارے دوست ہم سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ تم یہ مت دیکھو کہ دنیا کیا کہے گی بلکہ یہ دیکھو کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ تمہارے رب کے مطابق اور تمارے اپنے اصولوں کے اعتبار سے درست ہے یا نہيں ۔ بس میں اس لیے سفر نہ کرنا کہ اس سے آپ کو لوگ کمتر خیال کرینگے ، انتہائی درجے میں کمتر ہونے کی دلیل ہے ۔ اگر اللہ نے صلاحیت دی ہے تو موٹر کار پہ گھومیے نہیں تو بس میں سفر کرنا کوئي خراب بات نہیں ۔ میرا بس چلے تو سارے لوگوں کے لیے بس کی سواری کو لازم کردوں کہ ٹریفک کا سارا معاملہ درست ہوجائے ۔ لیکن کیاکروں ۔ اپنے بس میں ہے ہی کیا۔ بے نام خاں کی حسرت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے ۔












Thursday 31 October 2013


سعودی عرب ، عالم اسلام اور ہندوستانی مسلمان
ثناءاللہ صادق تیمی  ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
     یوں تو پوری دنیا ہی افواہوں اور خوش فہمیوں کے زیر اثر جیتی ہے لیکن اس معاملے میں بر صغیر ہندو پاک کے اندر جینے والے مسلمانوں کو خصوصیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ  ہے کہ یہاں کا مسلمان زیادہ تر اپنے دینی معاملات میں خرافات کا شکار ہے اسے تحقیق سے مطلب نہیں ۔ سیاسی معاملات میں افواہوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور قاتل تک کو مسیحا اس لیے سمجھ لیتا ہے کہ کچھ ضمیر فروش قسم کے لوگ اسے مسیحا بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔ اور بین الاقوامی امور کو سمجھے بغیر خوش فہمیوں کے سہارے اپنی نہ صرف یہ کہ رائے قائم کرلیتا ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرنے لگتا ہے۔ سعودی عرب ایک موحد اور کامیاب حکومت ہے ۔ اس نظام کی اپنی خصوصیات اور اپنے امتیازات ہیں ۔ حکموت کی اپنی ترجیحات اور اپنے دینی و دعوتی مقاصد ہیں اور اسے پتہ ہے کب کون سا موقف اس کے دور بیں مقاصد کو بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے معاون ثابت ہوںگے ۔ اور اب تک کی تاریخ بتلاتی ہے کہ سعودی عرب کا سیاسی موقف نہ صرف یہ کہ اسے مضبوطی فراہم کرتا ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے حق میں فوائد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن معاملہ لچر فکر کے مالکوں کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ اندھے عقیدت مندوں کو صدام حسین کا ہر اقدام بہادری لگتا ہے ۔ ایران کی ہر بے وقوفی شجاعت کی تاریخ مرتب کرتی ہے لیکن سعودی عرب کا خالص دانشمندانہ قدم بھی بے وقوفی اور جہالت کا آئینہ دار ۔ بات اصل یہ ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو وابستگی یا پھر ناوابستگی کی نظرسے دیھکتے ہیں اور وہیں سے فیصلے بھی لیتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ در اصل حقائق کی بجائے فسانوں کی اس دنیا میں جیتے ہیں جو اگر حقیقت بن جائیں تو خود وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں ۔
            مصر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مصر عالم اسلام کا وہ واحد ایسا ملک ہے جہاں نام نہاد دانشوران کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے ۔ اخوان المسلمین کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ضرور ہے لیکن اس  تاریخ کے  بہت سے صفحے تشدد اور اپنے قائم کیے ہوئے خاص نظریے پر حماقت آمیز اصرار سے بھی عبارت ہيں ۔ مصر کے اندر جہاں نئی تعلیم سے آراستہ نام نہاد دانشوران کا وہ طبقہ ہے جو سوائے لبرل ، سیکولر اور لادین حکومت کے سوا کچھ نہيں چاہتا وہيں ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو خرافاتی دین کے علاوہ اور کسی دینی جماعت کے حق میں جانے کوتیار نہیں ۔ جو لوگ مصری اخبارت کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لیے صورت حال کی سچائی سے واقف ہونا بعید بات نہيں ۔ ایسے میں جب کسی ملک کا فوجی نظام اپنے ہاتھ میں اختیارات لے لے اور وہ بھی تب جب  عوام سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف نعرہ بازیاں کررہے ہوں کون سا موقف درست ہو سکتا ہے وہ یقینا قابل تفکیر معاملہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر بلاشبہ اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر اترے لوگ اسپانسرڈ تو نہیں ہیں لیکن کون سا موقف درست ہو سکتا ہے اس پر سوچنا اس سے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذہن میں رکھنا ضروری بھی ہے کہ فوج کے ہاتھ میں جب نظام آجا ئے تو اسے واپس لے پانا آسان نہیں ہوتا ۔ اور جب اس رسہ کشی میں ہزاروں جانیں تلف ہوچکیں ہوں تو یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے کہ کیا کیا جائے ۔ اگر انسانی جانوں کی قیمت ہے اور انتشار سے ملک کمزور ہوتا ہے اور دشمنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں  تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب کا موقف در اصل نہ صرف یہ دانشمندانہ اور مضبوط ہے بلکہ اس سے کئی سارے مفاسد کے راستے بند ہو جاتے ہیں ۔                  
         عالم اسلام کے حالات سے واقف لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل تشیع ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے خلاف صف آراء رہتے ہیں اور انہیں جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش سے نہيں چوکتے ۔ مصر ، لبنان اور دوسری جگہوں پر ان کے جو سیاہ کارنامے رہے ہیں ان کے پیش نظر بھی سعودی عرب کا یہ اقدام اس تناظر میں عالم اسلام کے لیے رحمت ہے کہ اس سے کم ازکم تشیع کے ناپاک عزائم کی تکمیل نہيں ہوپائیگی ۔  اب اگر ہندوستانی شیعوں کارونا دیکھا جائے یا پھر قبوریوں کی آہیں سنی جائیں تو سمجھ میں آنے والی بات لگتی ہے کہ ان کا دینی، سیاسی ہر طرح کا موقف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح موحد حکومت کمزور ہو لیکن سمجھداری کے دعویداران بعض پڑھے لکھے حضرات کی چیخ و پکار خود ان کی دانشورانہ حیثیت پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ان کے درون کے پردے بھی کھول دیتی ہے ۔ 
              بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت کا یہ موقف ناسمجھی یا پھر موقع پرستی کی مثال ہے لیکن ذرا سمجھداری سے سوچا جائے تو پتہ چلے کہ در اصل یہی دانشمندی کی مثال ہے ۔ جمہوریت کا رونا رونے والے نہیں جانتے کہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوریت نے عالم اسلام میں پر پھیلایا وہاں کا سب کجھ داؤ پر لگ گیا ۔ اخوان المسلمین کو اس پورے معاملے سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے وجہ کا تشدد نقصاندہ ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ ایک قائم دائم موحد حکموت کے خلاف زمین ہموار کرنے کی کوشش حماقت آمیز ہوتی ہے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی اندرونی یورشوں کے پیچھے یا تو شیعہ ہوتے ہیں  یا پھر یہی تحریکی حضرات ۔ در اصل ہندوستانی تحریکی حضرات کی مانند مصری تحریکیوں کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انہیں شورش برپا کرنے کا اتنا شوق ہو تا ہے کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ سوجھتا ہی  نہیں ۔ اور انہیں اپنی دینی ذمہ داری لگتی ہے کہ کسی بھی طرح حکموت ہاتھ آئے تاکہ وہ اپنے قائم کردہ معیاری نظام کو نافذ کرسکیں ۔ ہندوستان میں لگ بھگ ستر سال بعد ان کی سمجھ میں اب آیا ہے کہ صحیح موقف کیا ہو سکتا ہے اور ادھر جاکر انہوں نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو یہاں کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا ہے ۔ اللہ کرے کہ سمجھداری کی روش ان کے ہم فکر افراد کو مصر وغیرہ میں بھی اپنانے کی توفیق ملے ۔  ذرا اس پہلو سے سوچیے تو پتہ چلے کہ جو لوگ اپنی لچر فکر کی وجہ سے بڑا نقصان کر سکتے ہوں ، ان کے پے در پے حماقتوں پر پردہ ڈال کر ان کے ساتھ ہونا کتنا بڑا احمقانہ رویہ ہو سکتا ہے ۔ اور خاص طور سے اس وقت جب اس کے ساتھ جانا خود اس کے حق میں بہتر نہ ہو اور ملک داخلی انتشار کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے ۔ پھر دنیا جانتی ہے کہ اس آشوب زدہ دور میں سعودی عرب وہ واحد نظام ہے جس نے اسلام کے نفاذ کو عملا برت کر دکھلایا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کو متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نظام کی یہ کامیابیاں ایسے ہی نہيں حاصل ہوگئی ہیں بلکہ اس کے پیچھے دانشمندیوں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے لیکن یہ بات ان لوگوں کو کیسے سمجھ میں آئيگی جو تقریر کی لذتوں کے تو اسیر ہیں لیکن جنہیں عملی اقدامات کی اہمیت کا احساس نہیں یا پھر جو بڑی بڑی بولیاں بول لینے کو دانشمندی اور اظہار رائے کی معراج سمجھتے ہیں ۔ رہی بات سعودی عرب کے اس مضبوط سیاسی موقف پر بعض کم سوادوں کا سلفی الفکر حضرات کو مشق نشانہ بنانا تو اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ان بے چاروں کا حال تو یہ ہے کہ ادھر اپنی جرات رندانہ کا شور بھی مچاتے ہیں اور جب سعودی عرب کا کوئی وفد آجائے تو پھر جھوٹ سچ بول کر اپنی وفاداریوں کی داستان بھی جھوم جھوم کر سناتے ہیں  ۔ اس پورے معاملے میں جناب سلمان حسنی ندوی صاحب کی شجاعت کا شور تھوڑا زیادہ ہی ہے اور عالی جناب کا عالم یہ ہے امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس کی آمد کے موقعے پر حضرت نے اس  طرح جھوٹ سچ کا  کھیل کھیلا کہ ان کے اپنے بھی چیخے بغیر نہ رہ سکے ۔ اہل حدیثوں پر ان دنوں ستم اس لیے بھی زیادہ ہے کہ نئی نسل جوق در جوق حق و صداقت کی اس راہ پر بڑھ رہی ہے جس سے  ایوان اندھی  تقلید اور خرافات میں زلزلہ برپا ہے ۔ اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ اللہ اس صداقت کو اور بھی عام کرے ۔
         یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ سعودی حکومت سے غلطی ہو سکتی ہے جس پر اس کی ناصحانہ تنبیہ ضروری بھی ہے لیکن اسے اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع سمجھنا لینا یا پھر ایک خاص فکر کے لوگوں پر نشانہ سادھ لینا انصاف کا راستہ نہیں ۔ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک موحد حکومت ہے جو صحیح دین پھیلانے کی کوشش کرتی ہے اس لیے ہم اس کی مضبوطی کی دعا کرتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نکالا جائے کہ اس کی غلطیوں کو ہم اندھی محبت میں صحیح سمجھتے ہیں  لیکن اگر اس کا موقف دانشمندانہ ہو تو اس صرف اس لیے اس کا ساتھ نہ دینا کہ کچھ لچر فکر کے حاملین اس کے خلاف ہیں ہماری کمزوری کو درشاتا ہے ۔ اللہ ہمیں ایسی کمزوری سے بچائے ۔












  



























Friday 25 October 2013


ہوشیار ، خبردار میرے قافلہ والو!
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،
9560878759
     جب سے بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ ان کے سلسلے میں  مختلف قسم کے خیالات کا اظہار قومی سطح پر ہو رہا ہے جیسے ان کے علاوہ اور کوئی معاملہ پورے دیش میں ہو ہی نہيں ۔ جہاں سیکولر مزاج لوگوں نے مودی کےزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ساکھ  پرلگنے والے داغ کا قضیہ اٹھایا وہیں مودی کی فسطائي ذہنیت سے بھی پردے اٹھائے گئے ، ان کے اپنے صوبے میں مختلف میدانوں میں ان کی ناکامیابیوں کے ثبوت فراہم کیے گئے اور گجرات فساد کے اندر ان کے مشتبہ کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ وہیں میڈیا نے اپنی پوری قوت اس بات میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح مودی کو گجرات کے وکاس پرش کے طور پر پیش کرکے انہیں ملک کی قیادت کے لیے اہل ثابت کیا جائے ۔ آرایس ایس اور سنگھ کی  دوسری تنظیموں اور ان کے کارکنان اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں نکل آئے ۔ اس بیچ کئی صوبوں میں فساد پھیلانے کی منظم کوشش کی گئی ۔ یوپی  اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی موقع پرستیوں کی وجہ سے جلد آگ میں جھلس گیا ورنہ کوشش تو پورے ملک کو آگ میں جھونک کر اقتدار ہتھیانے کی ہے ۔ دریں اثنا مودی اڈوانی تنازع کو بھی بہت جگہ ملی لیکن آخر ہونا تو وہی تھا بوڑھے باپ کو ناہنجار اڑیل ضدی بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا اور سب کچھ ٹھیک ہوگيا ۔ لیکن اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو تھا بہی خواہان امت مرحومہ کی بہی خواہی کی زمزمہ سنجی کے ایک پر ایک انمول نمونے ۔ صاحبان جبہ و دستار سے لے کر متاع علم ودانش کے ٹھیکیداران تک نے متعصب ہندی میڈیا کی بولی بولنی شروع کردی کہ اگر مودی کو موقع ملا تو وہ مسلمانوں کا فائدہ کرینگے ۔ دین و مذہب کے رکھوالوں نے تو مودی سے خوف کھانے کو اللہ کی وحدانیت سے جا ٹکرایا اور وہ وہ  گل افشانیاں کی گئیں کہ واہ واہ ۔ حالانکہ ایسا پہلی مرتبہ نہيں ہوا لیکن بہرحال ضمیر فروشوں اور ملت کے سودائیوں کی روح کو بڑی تسکین ملی ہوگی جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ قوم کے اندر کئی ہیں جو ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں اور یہ باعث رسوائی نہيں کہ ملت فروشی کا دھندا اختیار کیا جائے ۔
          مودی سے جڑے ترقیوں کے تمام دعوؤں کوبفرض محال  درست مان لیا جائے تو بھی کیا وہ قاتل اس قابل ہے کہ اسے ہندوستان جیسے سیکولر ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔ اور کیا واقعی اس کے وزیر اعظم بننے سے اس ملک کی کایہ پلٹ ہوگی ؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی آر ایس ایس کا آدمی ہے اور آرایس ایس کو مسلمانوں کا محترم وجود ہندوستان میں برداشت نہيں ۔ اسے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی دھن ہے مسلم پرسنل لا کے وجود سے اسے چڑھ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں ۔ اس کا دھرم ہے کہ مسجدوں کو توڑا جائے اور مدارس پر پابندیاں عائد کی جائيں ۔ اور بلاشبہ مودی کی اب تک کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ وہ انہیں تخریب پسند افکار و خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنا یا پھر افسران کو یہ حکم دینا کہ ہندوؤں کو غصہ ٹھنڈا کرلینے دو یا پھر اپنی ریلی میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کرتا ٹوپی پہن کر آئیں یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ جب ضمیر فروش قسم کے مسلمان ٹوپی پیش کررہے ہوں تو بھی پہننے سے انکار کردینا کیا یہ سب یہی بتلاتا ہے کہ وہ آدمی اس ملک کی مظلوم دوسریڑی اکثریت کا کام کرے گا ؟؟؟ جو گجرات اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے میاں مشرف یا پھر میاں پٹیل کا خوف دکھلاتا ہو ، کیا وہ درندہ صفت آدمی ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی خیر خواہی چاہے گا۔
            مودی کے حق میں بیان دینے والے نام نہاد علماء ہوں یا سیاسی لیڈران  یا پھر دانشوران در اصل وہ سب کے سب یا تو بکے ہوئے ہیں یا پھر صورت حال کی نزاکت سے واقف نہيں ہیں اور میڈیائي پروپیگنڈے کی وجہ سے انہيں لگتا ہے کہ اگر مودی جیت گیا تو ان کا کیا ہوگا اس لیے پہلے ہی سے سیٹ بچا کر رکھو ۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے ۔
      مودی کو معاف کرنے کا مطلب صرف یہ نہيں کہ ہم بہت سے خون کے ضیاع کو بھول جائینگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لڑائي میں شکست قبول کرلی ۔ ہم نے ان تمام انصاف پسندوں کو  تھپڑ مار دیا جنہوں نے اپنے ضمیر کی صدا سنی اور مظلوموں کی لڑائی لڑنے کو تیار ہوگئے ۔ در اصل یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے دینی ، سیاسی ، سماجی ہر ایک وجود میں اپنی ثانوی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس نے  غیرت بیچ دی ہے اور حمیت کو اب اس سے کوئي سروکار نہیں ۔ کیا مسلمان اپنی اس صورت حال کو قبول کرنے کوتیار ہے ؟؟؟

ہوشیار ، خبردار میرے قافلہ والو!
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،
9560878759
     جب سے بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ ان کے سلسلے میں  مختلف قسم کے خیالات کا اظہار قومی سطح پر ہو رہا ہے جیسے ان کے علاوہ اور کوئی معاملہ پورے دیش میں ہو ہی نہيں ۔ جہاں سیکولر مزاج لوگوں نے مودی کےزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ساکھ  پرلگنے والے داغ کا قضیہ اٹھایا وہیں مودی کی فسطائي ذہنیت سے بھی پردے اٹھائے گئے ، ان کے اپنے صوبے میں مختلف میدانوں میں ان کی ناکامیابیوں کے ثبوت فراہم کیے گئے اور گجرات فساد کے اندر ان کے مشتبہ کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ وہیں میڈیا نے اپنی پوری قوت اس بات میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح مودی کو گجرات کے وکاس پرش کے طور پر پیش کرکے انہیں ملک کی قیادت کے لیے اہل ثابت کیا جائے ۔ آرایس ایس اور سنگھ کی  دوسری تنظیموں اور ان کے کارکنان اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں نکل آئے ۔ اس بیچ کئی صوبوں میں فساد پھیلانے کی منظم کوشش کی گئی ۔ یوپی  اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی موقع پرستیوں کی وجہ سے جلد آگ میں جھلس گیا ورنہ کوشش تو پورے ملک کو آگ میں جھونک کر اقتدار ہتھیانے کی ہے ۔ دریں اثنا مودی اڈوانی تنازع کو بھی بہت جگہ ملی لیکن آخر ہونا تو وہی تھا بوڑھے باپ کو ناہنجار اڑیل ضدی بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا اور سب کچھ ٹھیک ہوگيا ۔ لیکن اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو تھا بہی خواہان امت مرحومہ کی بہی خواہی کی زمزمہ سنجی کے ایک پر ایک انمول نمونے ۔ صاحبان جبہ و دستار سے لے کر متاع علم ودانش کے ٹھیکیداران تک نے متعصب ہندی میڈیا کی بولی بولنی شروع کردی کہ اگر مودی کو موقع ملا تو وہ مسلمانوں کا فائدہ کرینگے ۔ دین و مذہب کے رکھوالوں نے تو مودی سے خوف کھانے کو اللہ کی وحدانیت سے جا ٹکرایا اور وہ وہ  گل افشانیاں کی گئیں کہ واہ واہ ۔ حالانکہ ایسا پہلی مرتبہ نہيں ہوا لیکن بہرحال ضمیر فروشوں اور ملت کے سودائیوں کی روح کو بڑی تسکین ملی ہوگی جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ قوم کے اندر کئی ہیں جو ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں اور یہ باعث رسوائی نہيں کہ ملت فروشی کا دھندا اختیار کیا جائے ۔
          مودی سے جڑے ترقیوں کے تمام دعوؤں کوبفرض محال  درست مان لیا جائے تو بھی کیا وہ قاتل اس قابل ہے کہ اسے ہندوستان جیسے سیکولر ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔ اور کیا واقعی اس کے وزیر اعظم بننے سے اس ملک کی کایہ پلٹ ہوگی ؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی آر ایس ایس کا آدمی ہے اور آرایس ایس کو مسلمانوں کا محترم وجود ہندوستان میں برداشت نہيں ۔ اسے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی دھن ہے مسلم پرسنل لا کے وجود سے اسے چڑھ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں ۔ اس کا دھرم ہے کہ مسجدوں کو توڑا جائے اور مدارس پر پابندیاں عائد کی جائيں ۔ اور بلاشبہ مودی کی اب تک کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ وہ انہیں تخریب پسند افکار و خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنا یا پھر افسران کو یہ حکم دینا کہ ہندوؤں کو غصہ ٹھنڈا کرلینے دو یا پھر اپنی ریلی میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کرتا ٹوپی پہن کر آئیں یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ جب ضمیر فروش قسم کے مسلمان ٹوپی پیش کررہے ہوں تو بھی پہننے سے انکار کردینا کیا یہ سب یہی بتلاتا ہے کہ وہ آدمی اس ملک کی مظلوم دوسریڑی اکثریت کا کام کرے گا ؟؟؟ جو گجرات اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے میاں مشرف یا پھر میاں پٹیل کا خوف دکھلاتا ہو ، کیا وہ درندہ صفت آدمی ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی خیر خواہی چاہے گا۔
            مودی کے حق میں بیان دینے والے نام نہاد علماء ہوں یا سیاسی لیڈران  یا پھر دانشوران در اصل وہ سب کے سب یا تو بکے ہوئے ہیں یا پھر صورت حال کی نزاکت سے واقف نہيں ہیں اور میڈیائي پروپیگنڈے کی وجہ سے انہيں لگتا ہے کہ اگر مودی جیت گیا تو ان کا کیا ہوگا اس لیے پہلے ہی سے سیٹ بچا کر رکھو ۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے ۔
      مودی کو معاف کرنے کا مطلب صرف یہ نہيں کہ ہم بہت سے خون کے ضیاع کو بھول جائینگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لڑائي میں شکست قبول کرلی ۔ ہم نے ان تمام انصاف پسندوں کو  تھپڑ مار دیا جنہوں نے اپنے ضمیر کی صدا سنی اور مظلوموں کی لڑائی لڑنے کو تیار ہوگئے ۔ در اصل یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے دینی ، سیاسی ، سماجی ہر ایک وجود میں اپنی ثانوی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس نے  غیرت بیچ دی ہے اور حمیت کو اب اس سے کوئي سروکار نہیں ۔ کیا مسلمان اپنی اس صورت حال کو قبول کرنے کوتیار ہے ؟؟؟

Tuesday 3 September 2013


غزل
ساگر تیمی
 آنکھیں چمک رہی ہوں لبوں پر حیا نہ ہو
اس طور سے تو رسم محبت ادا نہ ہو
اس نےتو  اس طرح سے چھپایا ہے حق تمام
جیسے کہ دل سیاہ ہو خوف خدا نہ ہو
پھر مچھلیاں تالاب کے اندر سہم گئیں
چارہ لذیذ ہے تو شکاری کھڑا نہ ہو
میرا بھی اپنا کام ہے رخصت بھی دیجیے
ڈر لگ رہا ہے پھر کہیں بیگم خفا نہ ہو
بھوکے تھے لوگ اتنے عبادت کو کھا لیا
مسجد کو یوں ہڑپ لیا جیسے خدا نہ ہو
اب تو شریف لوگ بھی سچے نہيں رہے
یہ تو امیر شہر ہیں ان کو سزا نہ ہو
ساگر وفا کی کھوج میں نکلے ہو تم کہاں
سب کہ رہے ہیں عشق ہو ذکر وفا نہ ہو


غزل
ساگر تیمی
 آگ ، ہوا ، پانی کہلائے
یہ دنیا فانی کہلائے
چھوٹی بچی عقل کی بولی
بولے تو نانی کہلائے
بہتر  ورثہ راہ خدا میں
دے دے تو دانی کہلائے
ہر لڑکی کی ایک ہی خواہش
کہلائے رانی کہلائے
ضد ہے ان کی کوئی بھی ہو
ان کا نہ ثانی کہلائے
اللہ تیری اس دنیا میں
کوئی نہ زانی کہلائے
جان جو دوست کی خاطر دے دے
وہ یار جانی کہلائے
ساگر دنیا میں ہر انساں
آنی اور جانی کہلائے


ایکسٹرنلائیزیشن آف دی پرابلم
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی -67
  اور کسی کام کے بارے میں تو نہیں لیکن کم از کم میں سفر کے بارے میں تو یقین کے ساتھ آپ کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ اکیلے اور تنہا سفر بالکل بھی نہ کریں ۔ اب آپ سے چھپانا کیا ۔ ہوا یوں کہ ہم جامعہ امام ابن تیمیہ میں اپنی بھتیجی نگارش صادق بنت عبداللہ کو داخل کرکے لوٹ رہے تھے ۔ ہمارا ارادہ کوئیلہ کے کانوں کے لیے جانا جانے والا شہر دھنباد کا تھا کہ بھائی صاحب ایک حضرت نے ہماری تھوڑی سی غفلت کا بھر پور فائدہ اٹھاکر ہمارے بیگ پر نہ صرف یہ کہ غلط نگا ہ ڈال دیا بلکہ اگر ہم جلد چوکنا نہ ہوپاتے تو پھر ہم ہوتے اور ہماری حسرتوں اور آہوں کا شور جو صرف ہمیں سنائی دیتا اور پھر سوچیے وہ کتنا خطرناک ہوتا ۔ جناب والا لوگوں نے کہا کہ ہم اس قدر شور کیوں کر رہے ہیں اور ہم نے کہا کہ بھائی ہماری طرح کبھی آپ کی بھی کوئی ایسی تھیلی غائب ہو جائے جس میں نہ صرف یہ کہ آپ کے مختلف کارڈس ہوں بلکہ آپ کا اکلوتا لیپ ٹاپ بھی ہو جس میں آپ کی مختلف نثری اور شعری تخلیقات ہوں تو سمجھ میں آئے کہ اکیلے سفر میں اس قسم کے غم کا حشر کیا ہوتا ہے ۔ آپ یقین مانیں کہ الحمد للہ اللہ کی مدد ، فضل اور مہربانیوں نیز اس ہنگامہ آرائی کی بدولت ہمارا جھولا ہمیں واپس بغل والی کیبن میں پڑا ہوا مل گیا اور ہم چپ ہو بیٹھے ۔
           خیر یہ بات تو از راہ تذکرہ آگئی ورنہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ آپ کو اس حادثے کی جانکاری دیں ۔ البتہ اگر آپ ہوشیاری کا سبق اس سے سیکھ لیں تو میری سعادت اور یہ محنت وصول ۔ لیکن بات تو تب ہوئی جب گنگا ساگر ایکسپریس میں ہماری ملاقات ایک حضرت سے ہوئی ۔ سلام و کلام کے بعد جیسا کہ علماء کی روش ہے کچھ تبادلہ خیالات کی نوبت آئی اور دیکھتے دیکھتے لمبی کھینچ گئی ۔ بات وہی امت مسلمہ کی ناگفتہ حالت اور دگرگوں صورت حال کی تھی ۔ حضرت کا اصرار تھا کہ اس کے پیچھے در اصل یہود ونصاری کی سازش کام کر رہی ہے ۔ انہوں نے مصر ، لیبیا ، پاکستان ، شام اور عراق کے ساتھ اک ہی سانس میں افغانستان تک کا نام گنوایا اور کہا بتلائیے کہ کہاں کمینے یہود ونصاری نے اپنی کمینگی کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ انہوں نے ہندوستان تک میں حکمراں طبقہ اور ہندو فاسسٹ طاقتوں کو خوب جلی کٹی سنایا اور اس طرح اپنے موقف کو مدلل کرتے ہوے ہماری طرف فاتحانہ انداز میں سرہلاتے ہوے دیکھا ۔ تھوڑی دیر تک تو ہم انہیں دیکھتے رہے اور پھر ہمارے سامنے بے نام خاں کا چیلینج آ گیا ۔ بولو بیٹے بہت ہوا میں اڑتے ہو۔ آج ملا ہے کوئی مد مقابل ۔ بولو ،  ہوگئی نا بولتی بند ۔ حالانکہ حضرت غلط ہیں لیکن تم ان کا جواب دے نہیں پاؤگے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بے نام خاں مجھے ورغلانے کی لک بھگ کامیاب کوشش کررہا ہے ۔
     معاملہ صرف بے نام خاں کا ہوتا تو چل بھی جاتا جناب بات تو ان سارے لوگوں کے سامنے اپنی سبکی کی بھی تھی جو ہمیں صرف مولانا نہیں بلکہ ایک دانشور کے روپ میں دیکھ رہے تھے جے این یو کا ٹیگ جو لگا ہوا تھا ۔ ایسے جے این یو جاکر ہمار اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ لوگ ہمیں اندر سے مضبوط سمجھنے لگے ہیں کیوں کہ باہر سے تو خیر ہم جو ہیں سو ہیں ہی ۔ اکثر ہمارے دوست ہمارے دبلے پن کا مذاق اڑا لیتے ہیں اب انہیں کون سمجھائے کہ موٹاپا تو بیماری ہے ؟ خیر ہم نے بے نام خاں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھے سادھے اور دانشورانہ سنجیدگی کے ساتھ حضرت کو کم اور دوسرے موجود لوگوں کو زیادہ اس بات سے مطلع کرنا شروع کیا کہ بھائی دشمن تو ہمیشہ پیچھے لگا رہتا ہے ۔ ہر طاقت دوسری طاقت کو پچھاڑنا چاہتی ہے ۔ اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے ۔ رسول نے دعوت کی شروعات کی تب سے لے کر ایک ایک موڑ پر دشمن نے شمع اسلام کو بجھا دینا چاہا اور اس کے لیے ہر ایک حربہ اختیار کیا گیا ۔ گالی گلوج سے لے کر ،مار پیٹ ، قتل کی کوشش ، سازشوں کا طومار ، ایک پر ایک افواہ ،اور کیا کیا ۔ لیکن ساری کوششیں رائیگاں اور اکارت گئيں کیوں ؟ اس لیے کہ ہمارا معاملہ اندر سے مضبوط تھا ۔ ہم اپنے ایمان ، شعور ، اعتقاد اور تیاری میں کمزور نہیں تھے ۔ ہم اپنی خامیوں پر نظر رکھتے تھے ۔ اور خوبیوں سے کام لیتے تھے ۔ ہم نے تین سو تیرہ ہو کر بھی ایک ہزار کو شکست دیا ۔ ایک لمبی مدت تک ہم نے دنیا کو اپنی شاگردی میں رکھا اور ہزار مخالفانہ  کوششوں کے باوجود ہمارا قائدانہ مقام باقی رہا ۔ جب ہم شوکت و شہرت کی زندگی جی رہے تھے تو ایسا بالکل نہيں تھا کہ سازشیں نہیں تھیں ، دشمن کی چالیں نہیں تھیں ، حاسدوں کا حسد اور مکاروں کی مکاریاں نہیں تھیں لیکن بات یہ تھی کہ تب ہم اپنی بنیادوں پر مضبوط کھڑے تھے ۔ ہمارا ایمان مثالی تھا ، ہماری نمازیں لاجواب تھیں ، ہمارا یقین اللہ پر زبردست تھا ، ہمارا رویہ عملی اور مثبت تھا ، ہم اپنی غلطیوں سے سیھکتے تھے ۔ ہمیں دیکھ کر لوگ اخلاق ، راست گوئی ، ایمانداری ، شرافت اور اصول پسندی سیکھا کرتے تھے ۔ جہاندیدہ دشمن تک ہماری فتح پر ایمان رکھتا تھا اور ہم ہر سطح پر کامران و کامیاب ہوا کرتے تھے ۔ اب صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ ہم نے آج تک نہيں سوچا اگر دشمن ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے تو ہم کیا کررہے ہیں ؟ کیا دشمن ہمیں عام زندگی میں جھوٹ بولنے ، دھوکہ دینے ، بے ایمانی کرنے ، غلط طرز عمل اپنانے پر مجبور کرتا ہے ؟ کیا ہم جب اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں تب بھی یہ دشمن کی سازش ہوتی ہے ؟ کیا اپنے بچوں کی بہتر تربیت پر دھیان دینے کی بجائے انہیں یونہی چھوڑ دینے پر ہمیں دشمن ہی لگاتا ہے ؟ کیا اللہ کا ڈر دلوں سے دشمن نے ہی نکال دیا ہے ؟ کیا مسجدوں کا نمازیوں سے خالی رہنا بھی یہودیوں کی سازش ہے ؟ اگر ذرا غور کیجیے تو ان تمام چیزوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش نکل آئيگی ۔ نئی تہذیب کی مار ، مال ودولت کی ریل پیل ، بے تحاشا دنیا کی آمد ،  ٹی وی ،  انٹرنیٹ اور نت نئے چوکا چوند کرنے والے فیشن ۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ چاہیں تو کہ سکتے ہیں کہ در اصل یہ سب دنیا کی سازشیں ہیں کہ امت مرحومہ کو نیست و نابود کیا جاسکے ۔ اور میں آپ کا ساتھ دونگا کہ یہ سب درست بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن سوال باقی رہے گا کہ کیا اس سے ہماری اپنی ذمہ داری ختم ہو جائیگی ۔ دنیا میں ہمیشہ سے حق و باطل میں معرکہ آرائی رہی ہے لیکن حق کے ماننے والوں نے حق کی حفاظت و صیانت اور فتح و کامرانی کے لیے جاں توڑ کوشش کی ہے ۔اپنی ساری توانائی صرف کی ہے ۔ اپنا جائزہ لیا ہے ۔ اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور تب تاریخ بنائی ہے حق و انصاف کی فتحیابی کی ۔ چشم فلک نے ہر معاملے میں دوسروں کو ذمہ دار سمجھنے والوں کو کبھی کامیاب نہيں دیکھا ۔ یہ در اصل شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے ۔ سمجھدار قوم اپنے بل پر کھڑی ہوتی ہے اور اپنی کمیوں کا اعتراف کرکے انہیں ختم کرنے کی ایماندارانہ اور ذمہ دارانہ کوشش کرتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے جہاں ایک طرف دشمن کے سازشی ذہن سے یہ کہ کر پردہ اٹھایا ہے کہ ' یہود و نصاری تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک تم ان کی پیروی نہ کرنے لگو ' اور ' البتہ تم ایمان والوں کے لیے یہود اور مشرکین کو زیادہ سخت دشمن پاؤگے ' وہیں دوسری طرف یہ کہ کر کہ ' اگر تم نے تقوی اختیار کیا اور صبر سے کام لیا تو ان کی سازش تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ' یہ بھی صاف کر دیا ہے کہ اصل ذمہ داری ہماری ہے اور سارا معاملہ پر آکر ٹک جاتا ہے کہ ہم اپنے معاملات کیسے رکھتے ہیں ۔ اللہ فرماتاہے کہ ' جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے ' ۔
        میرے بھائی ! دنیا کا دستور ہے کہ جب بھی کہیں کچھ خطرہ ہوتا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ مضبوط تیاری کی جاتی ہے ۔ اگر ہمارے خلاف سازشوں کا طوفان ہے تو ہمیں ان کا الزام دھرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کا کاٹ پیدا کرنا پڑیگا اور وہ ہے ہمارا مضبوط ایمان ، صبر ، تقوی ، اتحاد ، آخرت رخی زندگی ، تیاری اور ہر سطح پر احساس ذمہ داری ۔ ان ہتھیاروں کو آزمائیے اور پھر دیکھیے کہ کون آپ کا کیا بگاڑ پاتاہے ؟ پرابلم کو دوسروں سے نہیں خود سے جوڑ کر دیھکیے اور پھر دیکھیے کیا نتیجہ نکلتاہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ادب ، ادیب ، سماج اور ہم
ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
بر صغیر ہندو پاک کی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کی زبان اردو ہے ۔ عربی کے بعد شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس کے اندر اسلامی ادب کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہو جتنا اردو میں ہے ۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے ادب کا اپنا مقام ہوتا ہے ۔ ادب کی قدر و قیمت سے زبان کا معیار واعتبار بھی قائم ہوتا ہے ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اردو کو پروان چڑھانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں سب سے بڑا رول علماء کرام کا رہاہے ۔ اب اردو ناول کے باوا آدم ڈپٹی نذیر ہوں یا اردو تنقید کے بنیاد گزار مولانا الطاف حسین حالی ۔ اردو کے دامن کو علم و آگہی کے موتی سے  بھرنے والے سرسید احمد ہوں تو یا اسے انشاء و نگارش کے اوج پر پہنچانے والے مولانا ابوالکلام آزاد ۔ علم و تنقید کے پیش رو شبلی نعمانی ہوں یا گيسو اردو کو سنوارنے والے بابائے اردو مولوی عبد الحق ۔ ہر جگہ مولانا لوگوں کی کاوشوں کا تارا چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے بعد کے ادوار میں علماء نے ادب کے سارے دروازوں کو  اپنے  لیے بند کر لیا  ۔ انہوں نے ناول ، افسانہ، ڈرامہ ، شاعری اور دوسرے اصناف سخن سے خود کو دور ہی رکھا کہ مبادا کچھ غلط نہ ہو جائے ۔
    ادب کے اس پورے میدان کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ ادب کے اوپر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جائے جو ادب کے نام پر ساری بے حیائی ، بے ادبی، بے دینی اور باطل کی ترویج و اشاعت کو  اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں ۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ ترقی پسند تحریک سے لے کر جدیدیت تک اور جدیدیت سے لے کر مابعد جدیدیت تک ہر جگہ ایسے ایشوز ادب کا موضوع بنتے رہے جن کا نہ تو صالح سماج سے اور نہ باکردار انسانوں سے کوئی تعلق ہو ۔ ترقی پسندی نے ایک طرف اگر مزدوروں اور کمزوروں کے حقوق کی بات کی دوسری طرف دین کے ساری بنیادوں پر نشتر زنی کرنا بھی ضروری سمجھا  ۔
جدیدیت نے ذاتیت کے خول میں خود کو ایسا بند کیا کہ ادب اور سماج کا کوئی تعلق باقی نہیں بچا اوپر سے انتہائی درجے کے خاص تعلقات تک کو رمز و کنایہ اور سمبولزم کے نام پر عام کیا جانے لگا ۔ اور اس پورے عرصے میں ہمارا علماء طبقہ لاتعلق سا بنا رہا جیسے زبان حال سے کہ رہا ہو ' ڈوم کے بھوج ہمیں کیا کھوج' ۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو خالص بے حیا اوربد تہذیب تحریروں کو عام کرنے کا  ادبی طبقے نے ٹھیکہ لے لیا اور بڑی ربے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ منٹو جیسے لوگوں کی برہنہ تحریروں کو ادب کے نام پر سماج ميں عام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس طرف آکر جس طرح منٹو صدی منائی گئی اور جس طرح منٹو منٹو کا رٹ لگایا گیا اس سے تو ایسا لگا جیسے منٹو کے علاوہ اور کوئی کچھ ہو ہی نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں نے کچھ بھی اچھا پیش نہيں کیا یا پھر یہ کہ منٹو کے یہاں سب کچھ غلط ہی ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج جس قسم کا ذہن ادبی سطح پر بنا دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے فارغین بھی یونیورسٹی کے اندر آکر جب تحقیقی کاوشوں سے جڑتے ہیں یا تنقیدی سطح پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے بیچارے اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے خود کو  لبرل اور سیکولر بتلاتے ہیں ۔ علماء کا یہ طبقہ یہ کہتا ہوا ملتا ہے کہ دین کو ادبی مباحث سے دور ہی رکھا جائے ۔
                       چوں کفر ازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
   یہاں پر ہم بازاری ادب کے اس پورے ذخیرے سے بھی آنکھ نہیں موڑ سکتے جو ہر ایک چوراہے پر سماج کے قتل کرنے میں لگا  ہوا  ہے  اور جن پر ہماری کوئی نظر نہيں ہے ۔ خیر سے یہ تو شروع سے ذرا الگ خانوں میں رہا کیا ہے ۔ اور بالعموم چھپ چھپا کر ہی لوگ اسے پڑھا کیے ہیں ۔ یعنی اسے غلط سمجھا ضرور گیا ہے لیکن کیا کبھی ان ڈائجسٹوں کی ہم نے خبر لی ہے جو مشرقی تہذیب کے فروغ کے نام پر کیا کچھ نہیں پھیلاتے ۔ اوردھڑلے سے ہمارے گھروں میں پہنچتے ہیں ۔ جن کے اندر عقیدے کی خرابی سے لے کر عملیات محبت اور نہ جانے کیا کیا خرافات ہوتے ہیں ۔        
              کبھی اگر محاسبے کے پہلو سے سوچیے تو سمجھ میں آئیگا کہ ایک طرف نہایت مرصع ، سلیس اور سادہ زبانوں میں باطل کے فروغ کا کام نام نہاد معیاری ادب انجام دے رہاہے تو دوسری طرف بازاری ادب کا طومار ہے جو ایک عام آدمی تک آسانی سے پہنچتا ہے اور تیسری طرف ہے وہ جیسا تیسا دینی ڈائجسٹ جو اتنا غلط دین پھیلاتا ہے کہ الاماں والحفیظ اور ان تینوں کے مقابلے میں ہمارا حال یہ ہے کہ یاتو ہمارا کوئ اپنا لٹریچر نہیں اور اگر ہے تو وہ اتنا افسردہ کہ کسی کو اپنی طرف کھینچنے سے قاصر ہی رہے ۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اتنے سارے دینی رسالے نکلتے ہیں لیکن ان کا جتنا اثر ہونا چاہیے وہ نادارد ہے ۔
            علماء کرام کا بے ہودہ ادب سے دور رہنا وقت کی بھی ضرورت ہے اور ان کی دینی ذمہ داری بھی ۔ لیکن  پورے طور پر ادبی منظرنامے سے الگ ہوجانے کو ایک طرح کی حماقت نہیں بھی   تو افسوسناک سادہ لوحی سے  تعبیر کیا جانا چا ہیے ۔ لوگ ادب پڑھتے ہیں اگر انہیں اچھا ادب نہیں ملے گا تو وہ غلط ادب پڑھینگے اور جب غلط ادب پڑھینگے تو غلط اثرات قبول نہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا ۔ جماعت اسلامی سے جڑے چند ادباء نے دانستہ کوشش کی تھی کہ کچھ صالح ادب تیار ہو سکے بلاشبہ وہ ایک اچھا قدم تھا اسے زیادہ اونچی سطحوں اور بڑے پیمانوں پر عام کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا ہو نہیں پایا ۔ لیکن وہ ضرورت ختم نہیں ہوئی ہے ۔ ہميں کئی سارے عزیز بگھروی ، حفیظ میرٹھی ، ماہرالقادری ، ابوالمجاہد زاہد، تابش مہدی اور فضاابن فیضی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ  سوچنا پڑے گا کہ ہم کس طرح خرم مراد ، ابن فرید اور مائل خیر آبادی جیسے لوگ زیادہ سے زیادہ سامنے لاسکیں ۔
             آج کی ضرورت صرف یہ نہیں کہ ایسے لوگوں کی کھیپ تیار کی جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر سطح پر اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ کی کوشش کی جائے ۔ ہم ایک بار پھر سے معیاری ادب کو ' مسلمان' بنانے کی کوشش کریں ۔ ہم ایسے دینی ڈائجسٹ نکالیں جو عام لوگوں تک پہنچ بھی سکیں اور وہ انتہائی درجے میں سادہ بھی ہوں اور دلکش بھی ۔ کم از کم یہ تو ضرور کریں کہ ہمارا جو بھی دینی رسالہ نکلتا ہے اسے پرکیف اور مؤثر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے اندر صالح ادب کو  شامل کریں  ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ سبعہ معلقہ کے اندر امرؤا لقیس کی شاعری کو مدارس کے نصاب تعلیم کا حصہ بنانے والے علماء کرام اردو کے ادبی سرمایوں کو کیوں شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں ۔ بے ہودہ غزلوں اور فحش ادب کا بائیکاٹ ضروری ہی نہیں اشد ضروری ہے لیکن ساتھ ہی پاکیزہ شاعری اور صالح ادب کا پیدا کرنا اس سے کم اہم نہیں ۔ شتر مرغ کی طرح خود کو چھپالینے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے ۔ اس پورے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ مشاعروں میں دھرلے سے پہنچنے والے علماء دوسروں کے بعض دینی میلان رکھنے والے اشعار پر جس طرح اچھلتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ وہ خود اس سے زیادہ معیاری اور بہتر کلام کہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ خاتون مشرق جیسا نہایت غیر معیاری رسالہ خرید کر اپنی خواتین کو پیش کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی لیکن کوئی اچھی ادبی کوشش کرنے کو وہ اپنے لیے ہتک عزت سمجھتے ہیں ؟
                  دیکھو  یہ   پندار  تقوی   ٹھیک  نہیں  ہے   مولانا
                 شعر و ادب کا ذکر چھڑے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہو
مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر لکھا ۔ اس کے اندر ادبی لطافت اور چاشنی پیدا کی ۔ لوگ پڑھنے پر مجبور ہوے تو نہ صرف یہ ان کا ادبی معیار اونچا ہو ابلکہ دینی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی ۔ شبلی نے  شعر العجم لکھا تو لوگوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی ۔ اقبال کی شاعری تو خیر یوں بھی مدارس کی چہار دیواری میں  زیادہ گونجتی ہے ۔ ماہرالقادری کے تبصروں پر ادبی دنیا نے بھی سر دھنا حالانکہ وہ اسلامی ادب کے علمبرداران میں سے تھے ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے اپنی قوت فکرو فن کے سہارے لوگوں کو مجبور کیا ۔ آج علماء کا طبقہ نہ جانے کیوں اپنے آپ کو اس سے الگ کرنا چاہتاہے ؟ بزرگی اور للہیت کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ وسایل جن کا استعمال کرکے دشمان دین باطل کی ترویج و اشاعت کا کام لے رہے ہوں حق کے علمبرداران ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ علماء کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ علامہ ابن تیمیہ نے متکلمین اور اہل کلام کے ہی ہتھیار سے لیس ہو کر ان کا ناطقہ بند کیا ۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اسلامی ادب کی ایک تحریک سامنےآئی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اردو میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟ اگر ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ اسلامی ادب کا نام سن کر بدک جائینگے تو سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ بغیر نام لیے ہم اپنی تخلیقات کو معروف و مقبول رسالوں کی زینت کیوں نہیں بناتے ؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے مدارس سے خوشہ چینی کرکے نکلنے والے اسکالرس بھی ہماری تخلیقات کو ادبی تنقید کا نہ صرف یہ کہ موضوع نہیں بناتے بلکہ سرے سے انہیں اس قابل سمجھتے ہی نہیں ؟ کیا یہ ایک طرح کا  احساس کمتری ہے یا پھر سچائی یہی ہے کہ ہمارے علماء کی تحریرں ایسی ہوتی ہی نہیں کہ ان پر تحقیقی کام کیا جاسکے ؟ ظاہر ہے کہ ہر دو صورت تکلیف دہ ہے ہر چند کہ پہلی حالت کا امکان زیادہ اور دوسری کا بالکل کم ہے ۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ اس لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں کے فکر و فن پر بالعموم کام کیا جارہاہے کم از کم علماء کی تحریرں ان سے زیادہ وقیع ، علمی اور جانداروشاندار تو ضرور ہوتی ہیں ۔
             دنیا کے کسی بھی میدان میں اپنی مضبوط حصہ داری اور پہچان کے ذریعے ہی بات منوائی جاتی ہے ۔ ہماری ادبی بساط کمزور ہے تبھی تو مولانا سید سلیمان ندوی کی ادبی کاوشوں پر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ مولانا مودودی کے لٹریچر میں ادبی زاویے نہیں تلاشے جاتے ۔ مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں میں ادبی لطافت کے گوشے نہیں ڈھونڈے جاتے ۔عزیز بگھروی ، ابوالمجاہد زاہد کو ادبی حلقہ نہیں پہچانتا ۔ حفیظ میرٹھی کی بات نہیں ہوتی ۔ حد تو یہ ہے کہ فضا ابن فیضی جیسے عظیم ادبی شاعر کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ لیکن منٹو کی تحریریں کھوج کھوج کر چھاپی جاتی ہیں ۔ عصمت چغتائی کی بے حیائی اور برہنگی کو ادبی حسن کا نام دیا جاتاہے ۔ ندافاضلی جیسے گھٹیا افکار کے لوگ نہ صرف یہ کہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں بلکہ ان کے نہایت گرے ہوے اشعار بھی زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں ۔  میرا یقین ہے کہ آج بھی کسی حالی کی ضرورت ہے جو مسدس حالی لکھ سکے ۔ آج بھی شاہنامے کی اپنی اہمیت باقی ہے لیکن کیا ہمارے درمیان کوئی حفیظ جالندھری ہے ؟ ہمارا ادبی قد کیوں بونا ہوتا جارہا ہے ؟ ہم کبھی اتنے تہی داماں تو نہیں تھے ؟ پھر آج کیوں ؟ تو کیا یہ امید کی جائے یہ آوازصدا بصحرا نہیں جائیگی ؟؟؟
                     اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
                    مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک بات ذہن میں رکھنے کی یہ بھی ہے کہ ادھر آکر خود ادبی حلقے کے اندر ایک مضبوط آواز ایسے لوگوں کی بھی ہے جو غیر دینی افکار و خیالات کے بانجھپن سے تنگ آچکے ہیں ۔ جو زندگی کی سچائیوں میں مذہب کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں ۔ صالح اور بہتر بنیادوں پر سماج کی تعمیر و تشکیل چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کا طبقہ ایسے لوگوں کو کوئی سپورٹ فراہم کرنے کو تیار ہے ؟ کیا وہ اپنے خول سے نکلنے کو تیار ہیں ؟ کیا وہ اپنی چو طرفہ ذمہ داریوں کو سمجھنے کو تیار ہیں ؟ آج جب کہ لادین افکار و نظریات کا کھوکھلاپن واضح ہو چکا ہے یہ سوال اہم بھی ہے اور بسرعت جو اب کا طالب بھی ۔