Wednesday 13 September 2023

 مسلم پرسنل لابورڈ کے نئے صدر کا انتخاب

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مسلم پرسنل لا بورڈ کے نئے صدر منتخب کیے گئے ہیں ۔ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ انتخاب اتفاق رائے سے ہوا ہے ۔ مولانا رابع حسنی ندوی کے انتقال کے بعد سے یہ بات گردش میں تھی کہ مولانا ارشد مدنی بورڈ کے صدر ہونے جارہے ہیں ، بعض ذرائع سے یہ بات بھی سامنےآئی کہ ارشد صاحب نے منع کردیا ۔ ان کے منع کرنےکے بعد کئی نام تھے جن پر غور کیا گيا بلکہ کئی تجویزیں بھی سامنے آئیں لیکن مانا جارہا تھا کہ ارشد صاحب کے منع کرنے کے بعد سب سے مقبول نام خالد سیف اللہ صاحب کا ہی تھا۔ مجھے دو تین روز قبل انتہائی موثوق بہ ذریعہ سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ خالد سیف اللہ رحمانی بورڈ کے صدر ہونے جارہے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر جیسا کہ ہوتا آیا ہے مبارکبادی کے ساتھ رد وقدح کا سلسلہ جاری ہے ۔ بڑی تعداد کو لگتا ہے کہ انتخاب بہت اچھا ہوا ہے اور خالد صاحب اس کے لیے موزوں شخصیت ہیں ، وہیں ایک تعداد ایسی بھی ہے جو مسلم پرسنل لاء پر احناف میں دیوبندی مکتب فکر کی اجارہ داری کے طور پراس انتخاب کو دیکھ رہی ہے ۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر کوئی بریلوی ، اہل حدیث یا کسی اور مکتب فکر کا معتبر عالم صدر کیوں نہيں ہوسکتا؟
میرے خیال میں یہ باتیں بس باتیں بھر ہیں ۔ زمینی سطح پر حقائق کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو اس قسم کی باتیں عام نہ ہوں ۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آزادی سے لے کر آج تک ملی قیادت احناف میں دیوبندی مکتب فکر کے پاس ہی ہے ،مسلم پرسنل لاء ہو ، جمعیت علمائے ہند ہو یا یہاں تک کہ مجلس مشاورت ہو ، ان تمام کی قیادت انہیں کے ہاتھ میں ہے اور ساری کوتاہیوں اور کمیوں کے باجود بہت حد تک عملی طور پر یہی ممکن بھی ہے ۔
انسان آرزو پالنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہی آرزوئیں پوری ہوتی ہیں جو حقائق کے قریب ہوں ۔ غور کی نظر ڈالیے تو شیعہ سنی کے بیچ کا تفاوت واضح نظر آ جائے گا ، اتنی بڑی سنی برادری پر کوئی شیعہ سربراہ ہو ، نظری طور پر جیسا خوش کن نظر آئے ، عملا ممکن نہيں ۔ اہل حدیث حضرات کی تعداد معلوم ہے ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ بہت کم تعداد میں ہیں اور یہاں آپ تعداد سے صرف نظر نہيں کرسکتے ۔ رہ گئی بات دیوبندی اور بریلوی حضرات کی تو یہاں یہ سوال جائز ہوسکتا تھا لیکن بریلویوں نے لگاتار خود کو ملت سے جس طرح کاٹ کر رکھا ہے ، تکفیر و علاحدگی کے رویے اپنائے ہیں ، ویسے میں یہ امکان لگ بھگ معدوم ہی ہوجاتا ہے ۔یوں جب آپ ان تمام امور پر دھیان دیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ ان تمام اداروں کا سربراہ ہو نہ ہو ، کوئی دیوبندی ہی ہوگا الا یہ کہ کوئی غیر دیوبندی استثنائی طور پر اپنی اہلیت ثابت کرلے جائے اور ملت اسے بطور سربراہ قبول کرلے تو اور بات ہے ۔
اس لیے میری نظر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا انتخاب ٹھیک ہے ، ویسے بھی وہ اس ادارے سے پہلے سے منسلک ہیں ، ان کے چچا قاضی مجاہد الاسلام صاحب بھی اس کے صدر رہ چکبے ہیں ، یہ خود سکریٹری کی حیثیت سے فريضہ انجام دے رہے تھے ، امید کی جانی چاہیے کہ وہ بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت کو فائدہ پہنچا سکیں گے ۔
ان تمام باتوں کے ساتھ ایک بات البتہ کہنی ضروری ہے کہ یہ بہرحال مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے تو اس میں ملت کی نمائندگی کا رویہ ضرور اپنایا جانا چاہیے ، یعنی ٹھیک ہے کہ اہم ترین پوسٹ احناف میں دیوبندی گروپ کے پاس ہو لیکن بقیہ مناصب میں دوسرے گروہوں کی بھی شمولیت ہونی چاہیے اور اسے نظر آنا چاہیے ۔ بورڈ اس پر عمل پیراں بھی رہا ہے ، اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے یعنی اہل حدیث ، بریلوی یا شیعہ حضرات کو بھی یہ ضرور لگناچاہیے کہ یہ ان کا بھی بورڈ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب مسائل سامنے آئیں تو اس وقت بھی ملت کے تمام مکاتب فکر کو ذہن میں رکھ کر اقدامات کیے جائیں ،بورڈ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی ہوگی کہ وہ تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویدار ہے اور قیادت کی بھی اصل آزمائش یہی ہے کہ وہ کسی بھی قضیے کے لیے لڑتے ہوئے ملت کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے کمزور کرنے کا نہیں ۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان نازک گھڑیوں میں بورڈ کو واقعی اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے اور اس انتخاب کو ملت کے حق میں کارگر بنائے ۔
ثناءاللہ صادق تیمی
All reactions:
Amanullah Sadique Taimi, Asif Tanveer Taimi and 147 others
36
13
Like
Comment
Share

No comments:

Post a Comment