Wednesday 13 September 2023

 من یصلح الملح اذا الملح فسد

ثناءاللہ صادق تیمی
سفیان ثوری رحمہ اللہ امیر اھل الحدیث ہیں ۔ آپ 97 ہجری میں پیدا ہوئے اور 161 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی دانا حکیم تھے ۔ اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ حق کہنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی دنیاوی مادی ضرورت اور منصب و جاہ کی طلب ہے ۔ اس لیے حدیث کی تعلیم و تدریس سے وابستگی کے باوجود تجارت کرکے پیسے کماتے تھے تاکہ رزق حلال مہیا رہے اور ہر قسم کے منصب سے بھاگتے تھے کہ صاحبان اقتدار ہلکے میں نہ لے سکیں ۔ایک مرتبہ کسی نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ ان دیناروں کو کمانے میں لگے ہوئے ہیں تو انہوں نے اس آدمی کو ڈانٹا اور کہا : اگر یہ دینار نہ کمائیں تو صاحبان اقتدار ہمیں اپنے ہاتھ کا رومال بنالیں ۔ کہا کرتے تھے کہ پہلے مال فتنہ تھا لیکن اس وقت مومن کا ہتھیار ہے ۔
مضمون کی سرخی انہی کی طرف منسوب شعر کا ایک مصرع ہے ۔ پورا شعر یوں ہے :
یا رجال العلم یا ملح البلد
من یصلح الملح اذا الملح فسد
اے علما اے ملک کے نمک !اگر نمک خراب ہوجائے تو اسے کون ٹھیک کرے گا ۔
فارسی کا ایک مصرع یاد آ گیا۔
چوں کفراز کعبہ برخيزد کجا ماند مسلمانی
اس شعر سے متعلق ایک دلچسپ قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس سے ایک صاحب ایمان خاتون کی حکمت و دانائی ، شرافت و عزت اورغیرت وحمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی کی اپنی چچا زاد بہن سے شادی تھی ، اس کی بیوی نہایت حسین وجمیل تھی ، ایک مرتبہ خاندانی زمین جائداد کو لے کر اس کی چچا زاد بھائیوں سے لڑائی ہوگئی جس کے بعد اسے اپنا قبیلہ اور گاؤں چھوڑ کر دور کہیں اور کسی دوسرے قبیلے اور گاؤں میں جاکر بسنا پڑا۔ وہاں جاکر وہ اس معاشرت کا حصہ بن گیا اور قبیلے کے سردار کی محفل میں بھی بیٹھنے لگا۔ ایک مرتبہ قبیلے کے سردار کی نظر اس کی بیوی پر پڑ گئی اور وہ اس کے حسن وجمال سے گھائل ہوکر اس کی محبت میں پڑ گیا اور ترکیبیں سوچنے لگا کہ آخر کس طرح اس تک رسائی حاصل کرسکے ۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں جگہ پر وافر مقدار میں پانی ہے ، میں اس کی تحقیق کرنا چاہتا ہوں ، اس کی خاطر مجھے تم میں سے کچھ لوگوں کو وہاں بھیجنا پڑے گا تاکہ وہ مجھے درست کیفیت سے آگاہ کریں ۔ اس نے چار لوگوں کو جانے کا حکم دیا جس میں ایک اس خاتون کا شوہر بھی تھا۔ وہاں آنے جانے میں کم از کم تین دن لگنے تھے ۔
جب رات زیادہ ہوگئی تو وہ اس خاتون کے گھر گیا ، دروازے کے کھمبے سےٹکرانے کی وجہ سے آواز پیدا ہوئی ، خاتون سورہی تھی ، بیدار ہوگئی اور اس نے بلند آواز سے پوچھا کہ اس وقت دروازے پر کون ہے ؟ قبیلے کے سردار نے کہا : میں قبیلے کا سردار ہوں ، میں نے تمہاری ایک جھلک دیکھی ہے ، تمہارے حسن پر فریفتہ ہو گیا ہوں ، تیرا جمال مجھے بے چین رکھے ہوا ہے ، تیری قربت کا جویا ہوں ، اسی لیے آیا ہوں ۔
خاتون نے جواب دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میری ایک شرط ہے ۔ پہلے آپ ایک چیستاں حل کیجیے ، یہ پہیلی آپ سمجھا دیجیے پھر تشریف لائیے ۔ سردار نے شرط مان لی تو خاتون نے کہا : جب گوشت کے خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو لوگ اس پر نمک رکھتے ہیں لیکن اگر نمک خراب ہو جائے تو کیا رکھا جائے گا ؟
سردار کو اس کا کوئی جواب پتہ نہیں تھا ، اس نے جواب جاننے کے بعد واپس آنے کی بات کہی ۔ دوسرے دن اس نے سارے لوگوں کو جمع کیا اور یہ بات ان کے پاس رکھی اور جواب طلب کیا ۔ کسی کو جواب نہیں معلوم تھا ۔ سب چلے گئے لیکن ایک بزرگ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے ۔ جب سب جا چکے تو انہوں نے کہا : سردار ! یہ پہیلی آپ سے کس نے کہی ہے ؟ سردار پریشان ہواٹھا۔ بزرگ نے کہا : دیکھیے ، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے کسی خاتون پر نگاہ بد ڈالی ہے ، آپ نے جرات بے جا سے کام لینا چاہا ہے اور اس خاتون نے حکمت و دانائی سے اپنی عصمت بچانے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے حضرت سفیان ثوری کے شعر کی طرف ذہن ملتفت کرائی ہے کہ علماء اور سردار نمک کی مانند ہیں کہ جب عوام بگڑیں تو یہ انہیں ٹھیک کرتے ہیں لیکن اگر یہ خود ہی بگڑنے لگیں تو انہیں کون ٹھیک کرے گا ؟ اس خاتون نے آ پ کو سمجھداری سے اس برائی سے رکنے کی نصیحت کی ہے ۔
قبیلے کے سردار کو بات سمجھ میں آگئی ، نادم ہوا اور اس نے اس بزرگ سے گزارش کی کہ وہ اس پر پردہ رکھے اور اس راز کو فاش نہ کرے ۔

No comments:

Post a Comment