Monday 1 April 2024

وقار اور انسان

 

انسان کو باوقار ہونا چاہیے ۔ باوقار ہونے کا یہ قطعا مطلب نہیں ہے کہ آدمی متکبر یا مغرور ہوبلکہ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ  اس کی اپنی نظر میں اس کا اپنا ایک خاص مقام ہو ، اس کی اپنی اخلاقی حیثیت ہو اور وہ اپنے اس رتبے کی سدا حفاظت کرتا ہو۔باوقار ہونے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ آپ کے پاس  آپ کی جگہ اور مقام کے حساب سے مطلوب صلاحیت ہو ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی جگہ پر ہوں ، آپ کے پاس مطلوب لیاقت بھی نہیں اور آپ اپنے وقار کی بھی حفاظت کر لے جائیں ۔صاحب خرد جگہ کے مطابق یا تو صلاحیت پیدا کرلیتا ہے یا پھر سلیقے سے جگہ ہی بدل لیتا ہے ۔

اس کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ اخلاقی اصول و آداب کے پابند ہوں ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی مسجد کے امام ہیں ، تقریراچھی کرتے ہیں ، تلاوت اچھی ہے ، اپنے فریضے کے معاملے میں پابندبھی ہیں لیکن اگر جہاں تہاں اٹھتے بیٹھتے ہیں ، ہوٹلوں میں جب تب بیٹھ کر عام لوگوں کے ساتھ باتیں بناتے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ کب کہاں جایا جاسکتا ہے اور کب کہاں جانا مخصوص سماجی آداب کے خلاف ہے تو آپ کو آپ کے حصے کا وقار نہيں مل پائے گا ۔ لوگ آپ کو ہلکے میں لے لیں گے ۔ ایک امام کو اتنا ہی بے تکلف ہونا چاہیے کہ لوگ اس سے اپنے مسائل دریافت کرسکیں ، اتنا نہیں کھلنا چاہیے کہ لوگ اس کی ہیبت ، مقام اور حیثیت ہی بھول جائیں ۔توازن کی اس کمی سے بہت سے لوگ اپنے حصے کے جائز احترام سے بھی محظوظ  نہیں ہوپاتے ۔

آدمی کے وقارکا تعلق اس کے سماجی زندگی سے بھی ہے ۔اگر آپ جیسے تیسے رہتے ہیں تو آپ کے ساتھ کسی کا حد سے نکل جانا نسبتا آسان ہو جاتا ہے ۔شخصی وقار اور ہیبت بہت سے برے ارادے کے لوگوں کو آپ سے دور رکھتی ہے لیکن جب وہ ہیبت نہ ہو تو ایسے لوگوں کا اپنے ارادے کے مطابق اقدام پر اتارو ہوجانا مستبعد نہیں ہوتا۔یوں یہ شخصی خوبی سماجی اہمیت کی بھی حامل ہے ۔

باوقار آدمی زندگی کے اصول و آداب کا پابند ہوتا ہے ۔ اس کے یہاں سچائی  ہوتی ہے ، وہ جھوٹ اور دروغ سے دور رہتا ہے ، وعدہ خلافی نہیں کرتااور اپنی باتوں کا پابند ہوتا ہے ۔ آپ اگر باوقار زندگی جینا چاہتے ہيں تو آپ کو اچھے اخلاق و آداب سے آراستہ ہونا چاہیے ۔ ان تمام چيزوں سے بچنا چاہیے جو انسان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں جیسےاپنی معیشت کو منظم  کریں ۔ اپنے اخراجات کو اپنی آمدنی کے اندر رکھیں ، قرض لینے سے بچیں ، اس لیے کہ اگر خرچ آمدنی سے بڑھے تو آپ قرض لینے پر مجبورہوں گےاور قرض دار آدمی کے لیے اپنے وقار کی حفاظت آسان نہیں ۔

وقار کا تعلق انسان کے مال و منال اور علم و آگہی سے کم اور اس کے برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور آداب و اخلاق سے زیادہ ہے ۔ آپ کو بہت سے لوگ مل جائیں گے جو علم میں اونچے مقام پر نظر آئیں گے لیکن ان کا کوئی وقار نہیں ہوگا ، وہیں بہت سے پیسہ والے مل جائیں گے جن کی کوئی حیثیت نظر نہيں آئے گی جب کہ کم علم والے اور کم پیسے والے اپنے اعتبار ووقار کی بلندی پر نظر آسکتے ہیں ۔علم کو وقار کے ذریعہ زیادہ کاگر بنایا جاسکتاہے جب کہ وقار نہ ہو تو علم کی افادیت مجروح ہو سکتی ہے ۔

ساگر تیمی

موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں

 موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں

ساگر تیمی
ہم تو کہيں گے آپ بھی رمضان میں پڑھیں
گھر میں ہوں بند یا کہيں میدان میں پڑھیں
ہوگا اضافہ آپ کے ایمان میں پڑھیں
موسی نبی کا واقعہ قرآن میں پڑھیں
فرعون چاہتا تھا کہ بچوں کا قتل ہو
کوئی بچے نہیں کہ کہیں اس کا قتل ہو
بیٹی بچائی جائے مگر بیٹا قتل ہو
یوں اس کے مارے جانے کا اندیشہ قتل ہو
لیکن اسے اللہ کی حکمت پتہ نہیں
موسی پہ کیسی ہونی ہے رحمت پتہ نہیں
اس کے ہی گھر میں ملنی ہے عزت پتہ نہيں
اس نور سے چھٹے گی یہ ظلمت پتہ نہيں
موسی جواں ہوئے تو جوانی نےشان لی
ظالم کو ایک گھونسا لگایا تو جان لی
سازش کی اطلاع ملی موسی نے مان لی
یوں شہر سے نکلنے کی بندے نے ٹھان لی
نکلے جو دور چور تھکن سے ہوئے نڈھال
پروردگار میرے نکلنے کی رہ نکال
کنویں میں اپنی قوت بازو سے ڈول ڈال
موسی نے لڑکیوں کی حیا کا رکھا خیال
شادی کی بات طے ہوئی انعام بھی ملا
بکری چرانے کا انہیں اک کام بھی ملا
لوٹے جو اپنے ملک تو اکرام بھی ملا
لینے گئے جو آگ تو پیغام بھی ملا
اب حکم یہ ملا کہ محبت کی راہ چل
ظلم وستم کے بیچ بھی حکمت کی راہ چل
فرعون کی طرف بھی تو دعوت کی راہ چل
لے ساتھ اپنے بھائی کو عظمت کی راہ چل
جب معجزہ دکھایا گيا حق تھا سامنے
جادوگروں کو لایا گيا حق تھا سامنے
سجدے میں سر جھکایا گيا حق تھا سامنے
فرعون کا سہارا گيا حق تھا سامنے
پھر معرکہ ہوا تو بڑا معجزہ ہوا
موسی کےلیے بحر میں بھی راستہ ہوا
فرعون دریا برد ہوا واقعہ ہوا
مرنے کو مرگيا مگر عبرت کدہ ہوا
اللہ کےنبی کی مگر تھی عجیب قوم
بچھڑے کو پوجنے لگی یہ بدنصیب قوم
ظلمت سے کب نکلتی بھلا یہ غریب قوم
پھانسی پہ خود ہی چڑھنے لگی بے صلیب قوم
جاہل تھی من وسلوی سے انکار کردیا
نعمت ملی تو اس کو بھی بے کار کردیا
لڑنے کی بات آئی تو تکرار کردیا
یوں ہر قدم پہ ظلم کا انبار کردیا
ملعون یوں ہوئی کہ تکبر میں مست تھی
پستی میں ڈوبتی گئی ذلت پرست تھی
بندر بنایا رب نے کہ ظلمت میں سخت تھی
یعنی کہ بود ہوگئی حالاں کہ ہست تھی
موسی کی زندگی سے نصیحت بھی لیجیے
حق کی ہی جیت ہوگی یہ عبرت بھی لیجیے
یعنی غلط سے لڑنے کی قوت بھی لیجیے
چلنا ہے حق کی رہ پہ تو ہمت بھی لیجیے
جینے کی راہ جیت کا عنوان سیکھیے
ہر ہر قدم پہ فتح کا امکان سیکھیے
جنت میں کیسے جائےگا انسان سیکھیے
ساگر کی بات مانیے قرآن سیکھیے

آدم سے بھول ہو گئی رستہ بھٹک گیا

 آدم سے بھول ہو گئی رستہ بھٹک گیا

ساگر تیمی
اللہ نے یہ چاہا کہ عالم سجایا جائے
آدم بنایا جائے خلیفہ بنایا جائے
اللہ کے فرشتوں نے لیکن یہ بات کی
ہم ہیں تو کس لیے کوئی دوجا بنایا جائے
اللہ نے دکھا دیا حکمت کی بات ہے
آدم وہ جانتا ہے جو عزت کی بات ہے
اللہ گر نہ چاہے تو کیا جانیں فرشتے
آدم کا ہونا رب کی مشیئت کی بات ہے
پھر حکم یہ ہوا کہ فرشتے ہوں سجدہ ریز
ابلیس بھی یہی کرے ہو جائے سجدہ ریز
مانا ملائکہ نے تو ابلیس نے کہا
مٹی کے آگے آگ کیوں ہو جائے سجدہ ریز
مٹی تو پست ہے سدا پستی میں جائے گی
جب بھی اٹھے گی آگ بلندی میں جائے گی
میں آدم خاکی کو بڑا کیسے سمجھ لوں
یہ ٹیس دور تک میری ہستی میں جائے گی
اللہ کو پسند نہیں آئی یہ تمکنت
لکھ دی گئی سدا کے لیے اس کی مذمت
اس نے بھی آدمی سے عداوت کی ٹھان لی
اور مانگ لی اللہ سے اس کی بھی اجازت
آدم کو اس کے رب نے تو جنت میں گھر دیا
نعمت کی زندگی دی محبت نگر دیا
حوا کو اس کی بیوی بنا کر قدیر نے
یوں زندگی کو ساری عنایت سے بھر دیا
جنت کی ساری نعمتیں آدم کے واسطے
ساری عنایتیں رہیں آدم کے واسطے
بس ایک ہی درخت سے روکا گیا اسے
ویسے تھیں ساری راحتیں آدم کے واسطے
ابلیس کو مگر نہیں بھائی یہ عنایت
اس نے یہ چاہا کیوں نہ ہو آدم کو بھی کلفت
آکر ملا تو پیار سے کہنے لگا ذلیل
کھالے درخت سے کہ ہمیشہ رہے نعمت
آدم میں تیرا دوست ہوں ، سچا ہوں ، یار ہوں
تیرے لیے میں کب سے بہت بے قرار ہوں
میرا کہا جو مان تو راحت میں رہے گا
میں ہوں تیرا صدیق تیرا غم گسار ہوں
روکا گیا ہے تجھ کو کہ محروم تو رہے
ایسا نہ ہو کہ واقعی محروم تو رہے
جنت میں اک درخت ہی تو ہے بہت عظیم
اس سے رہے جو دور تو محروم تو رہے
آدم سے بھول ہوگئی رستہ بھٹک گیا
دشمن کی میٹھی باتوں سے بندہ بھٹک گیا
جنت سے یوں نکالا گیا بے ستر ہوا
اب سوچ ہی رہا ہے کہ کیسا بھٹک گيا
آيا زمین پر تو ندامت بڑی ہوئی
اللہ بخش دے کہ خجالت بڑی ہوئی
ہم نے ہی اپنے نفس پہ یہ ظلم ہے کیا
کر درگزر کہ ہم سے حماقت بڑی ہوئی
بخشے گا تو نہیں تو ہم ہو جائیں گے تباہ
ہم سے تو ہو گیا ہے بہت ہی بڑا گناہ
لیکن تمہاری ذات غفور رحیم ہے
بخشش سے کر سفید یہ اعمال سب سیاہ
اللہ نے قبول کی آدم کی سب دعا
لغزش تو ہوگئی مگر سچی ہے یہ وفا
آنسو گرے تو رب نے رکھی لاج اشک کی
انسان بھول جاتا ہے لیکن یہی ادا
آدم کے واقعے میں نصیحت کی بات ہے
شیطان سے ہماری عداوت کی بات ہے
ساگر خدا کی مان لے شیطاں سے دور رہ
تیرے لیے یہی تو خلافت کی بات ہے

Wednesday 6 March 2024

 

ہمیں آپ کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے ۔ اللہ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور نعمت کی قدرکرنی چاہیے ۔ بڑے بڑے بول بولنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ انسان جب نعمتوں میں ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں بھی کرتا ہے جن میں ایک قسم کا غرور شامل ہوتا ہے ۔عجیب وغریب قسم کے نخرے اور چونچلے سننے کو ملتے ہیں اور آدمی بھول جاتا ہے کہ اس کے حالات بدل بھی سکتے ہیں ۔ 'میں تو ہمیشہ برانڈیڈ ہی استعمال کرتا ہوں' ، 'میں کبھی نچلے درجے کے ہوٹل میں نہیں ٹھہرتا' ، 'نہ معلوم لوگ ایسی خستہ گاڑیوں میں کیسے بیٹھتے ہیں' ، 'میں ایسی سستی چيزیں استعمال کروں تو میرا جسم ہی قبول نہیں کرتا'۔ یہ اور اس قسم کے جملے در اصل کبر وتعلی کی کوکھ سے نکلتے ہیں ، آدمی اس میں اپنی بڑائی دیکھتا ہے لیکن اصلا وہ اپنی عجیب وغریب نادانی کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے ۔ کسی کے ساتھ کوئی طبی استثنائی صورت ہو پھر بھی اسے بطور احساس تفاخر بیان کرنے سےبچنا چاہیے ۔

آپ جس کسی انسان کے سامنے تعلی سے پر ان احساسات کا اظہار کرتے ہیں ، اس کی نظروں  سے گر جاتے ہیں ، وہ اظہار کرے یا نہ کرے لیکن آپ کے بارےمیں اس کی رائے بن جاتی ہے کہ آپ ایک متکبر انسان ہیں اور دوسرا بھاری نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ بھی آپ سے ناراض ہوتا ہے ۔ اللہ کوبندوں کا تکبر بالکل پسند نہیں ۔ پوری کائنات کا اصل مالک تو اللہ ہی ہے ، آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کا انعام ہے ، وہ دینے والا چھین لینے پر بھی قادر ہے ۔ ہم نے اپنی چھوٹی سی زندگی میں ایسے کئی لوگوں کو رسوائی جھیلتے دیکھا ہے ۔

اللہ کی کسی بھی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے ، اپنے سے کمتر بندوں کو دیکھنا چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے نوازا ہوا ہے ، اگر اپنے سےکمتر کسی انسان کو دیکھ کر کبر وغرور کا ذہن بنے تو فورا اپنےسے برتر لوگوں کو دیکھ کر یہ احساس بیدار کرلینا چاہیے کہ بہت سے ہم سے بھی آگے ہیں ۔نخرے ، چونچلے نعمتوں کے دنوں میں اچھے لگتے ہيں لیکن جب حالات بدلتے ہیں تو یہی نخرے عذاب بن جاتے ہیں ۔ ایسی کسی بھی چيز سے دوری بنا کر رکھنا چاہیے جس کا انجام برا ہو ۔

ساگر تیمی

 

Wednesday 3 January 2024

 

عظیم علمی و دینی شخصیات اور علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

ثناءاللہ صادق تیمی

آج سے کئی سال قبل مؤقر عربی رسالہ " ثقافۃ الھند " کے مولانا آزاد نمبر کے لیے میں نے ایک مقالہ لکھا تھا ۔ اس میں  امام الھند کی کتاب " تذکرہ " کی روشنی میں ان کی زندگی کا جائزہ لیا گيا تھا ۔ میں نےاس میں لکھا تھا کہ امام الھند بزرگوں کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں جیسے انہیں تذکروں میں  ان کا بھی تذکرہ موجود ہو، وہ انہيں کے ساتھ خود کو پاتے ہوں اور انہیں کے جیسے بننا چاہتے ہوں ۔

حسن اتفاق یہ ہے کہ ہمارے محسن ومربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کے خود نوشت سوانح حیات  کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی کچھ یہی احساس دامنگیر رہا ۔ آپ نے محدثین کا تذکرہ جس محبت اور جوش سے لکھا ہے اس سے خود آپ کی شخصیت بھی جلوہ گر ہوتی ہے ۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ہمارے مربی جن بزرگوں سے بہت متاثر رہے ہیں ان میں ایک نام اما م الھند مولانا ابوالکلام آزاد کا بھی ہے ۔

علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی کو جاننے والے اور ان کے خود نوشت سوانح " کاروان حیات " سے استفادہ کرنے والے یقینا جانتے ہوں گے کہ انہوں نے بھرپور علمی اور عملی زندگی جی ہے ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ ، کلیۃ خدیجہ الکبری لتعلیم البنات اور ڈی ایم ایل پبلک اسکول کو دیکھ کر سوائے اندھے متعصب کے کوئی بھی ان کا قائل ہوجائے گا اور اگر اوپر سے اس کے سامنے آپ کی علمی و ادبی تصنیفات بھی ہوں تو رشک کیے بنا نہ رہ سکے گا ۔

ہر بڑے انسان کی کوئی نہ کوئی ایسی مابہ الامتیاز چيز ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کا بنیادی فیچر بن جاتی ہے جس کے ذریعے اسے دور سے پہچانا جاسکتا ہے اور اس کی شناخت کی جاسکتی ہے ۔علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور قابل ذکر فیچر کتاب وسنت سے محبت اور دین اسلام کی سربلندی کی چاہت ہے اور جیسے ہر ایک کام کے پیچھے یہی بنیادی سبب کارفرما ہے ۔ آپ اگر ان کے ذریعے کیے گئے کاموں پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ان کی تصنیفات و تالیفات پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی اور اگر آپ کو الصادق الامین ، اھتمام المحدثین ، تیسیر الرحمن لبیان القرآن اور کاروان حیات کے مطالعہ کا موقع مل جائے توآپ کا رواں رواں اس کی گواہی دینے لگے گا ۔

علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی شخصیت کا بنیادی محور یہی ہے ۔ یہیں سے کسی کے ساتھ ان کے تعلقات کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے ۔ کاروان حیات شروع سے اخیر تک پڑھ جائیے آپ کو قدم قدم پر اس کی شہادیتیں بکھری ہوئی ملیں گی ۔ چنانچہ جب وہ اپنے خاندان کے افراد کا ذکر تے ہیں تو ان بزرگوں کو یاد کرتے ہیں جو کتاب وسنت پر عمل کرنے والے اور اللہ کی عبادت میں زندگی کھپانے والے تھے ۔اپنے دادا کا بار بار ذکر خیر کرتے ہیں کہ وہ تحریک شہیدین کا حصہ تھے اور اٹھارہ سال کا عرصہ اسی راہ میں لگایا تھا ، دارالعلوم احمد یہ سلفیہ کے اپنے اساتذہ کا محبت وعقیدت کے ساتھ تذکرہ چھیڑتے ہیں اور اپنی ممنوینت کا اظہار کرتے ہيں کہ انہوں نے آپ کے اندر کتاب وسنت کی محبت اندر تک اتاردی ۔کتاب وسنت سے محبت اور شوکت اسلام کا یہی جذبہ ہے کہ وہ ہر اس آدمی سے محبت کرتے ہیں جو انہیں اس راہ کا راہی نظر آتا ہے ، شاہ فیصل کے بارے میں کاروان حیات میں جس جوش عقیدت سے آپ نے لکھا ہے اس سے یہ حقیقت اور بھی مترشح ہوتی ہے کیوں کہ شاہ فیصل ایک طرح سے  شوکت اسلام اور غلبہ دین کی علامت بن گئے تھے ۔

آپ لکھتے ہیں " لو‏گوں نے انہيں گولی مارے جانے کے کئی اسباب ووجوہ بیان کیے ہیں لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امت اسلامیہ کو جگانا شروع کردیا تھا اور خلافت راشدہ کے پیٹرن پر خلافت اسلامیہ یا اتحاد المسلمین کی آواز اٹھائی تھی اور اس کی پہلی کانفرنس پاکستان میں ہوئی تھی جس میں یوغنڈا کے صدر عیدی امین نے شاہ فیصل کا ہاتھ پکڑ کر نہایت عزت واحترام کے ساتھ اٹھایا تھا اور کانفرنس میں شریک تمام زعمائے اسلام کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آئيے ، ہم سب مل کر انہیں اپنا خلیفہ بنالیں اور جواب میں شاہ فیصل نے کہا تھا کہ ابھی وقت نہيں آيا۔ یعنی ہمیں یہی کچھ کرنا ہے لیکن ابھی ایسا کرنا قبل از وقت ہوگا "

 " کاروان حیات " میں علامہ نے اپنے بہت سے اساتذہ کو یاد کیا ہے لیکن جن کا تعلق کتاب وسنت اور توحید و اتباع سے رہا ہے ان کے بارے میں لکھتے ہوئے آپ کے قلم کی جولانی دیدنی ہے ، محبت و مودت اور احترام و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے چلے جاتے ہیں اور جن کے یہاں تقلید و جمود کے جراثیم پائے جاتے ہیں ان کے ذکر میں احترام و ادب کے باوجود وہ کیفیت آہی جاتی ہے جو کتاب وسنت اور توحید و اتباع کا جذبہ رکھنے والوں کے یہاں آجائے گی ۔

جن عظیم علمی و دینی شخصیات سےآپ کا رشتہ رہا ان میں ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی ، مولانا مختار احمد ندوی ، مولانا حفیظ الرحمن عمری اور  علامہ احسان الہی ظہیر بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ آپ ان تمام شخصیات کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سب کے سب مختلف حیثیتوں سے کتاب وسنت کی اطاعت کے داعی اور شوکت اسلام کے لیے کام کرنے والے ہیں ۔ کاروان حیات میں علامہ نے ان تما م سے  اپنی محبت کا ذکر جس طرح سے کیا ہے اس سے خود ان کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی تو خیر سے ان کے محسن تھے اور مولانا مختار احمد ندوی ان کے بزرگ لیکن شیخ حفیظ الرحمن عمری اور علامہ احسان الہی ظہیر تو ساتھی تھے لیکن جس انداز میں ان کی خوبیوں اور علمی فتوحات کا اعتراف کیا ہے وہ یقینا بہت خاصے کی چيز ہے ۔

ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی  رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں " ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ایک ممتاز سلفی عالم اور ماہر وموثر خطیب بھی تھے ، اپنی تقریروں کے ذریعہ مجلس پر چھاجاتے تھے ۔ توحید باری تعالی اور اتباع قرآن وسنت پر ان کی ساحرانہ تقریریں بہت مشہور ہیں ۔ مطب اور دارالعلوم کی گوناگوں مشغولیتوں کے باجود علاقے میں گھوم گھو م کر دعوت و ارشاد کا کام کرنا انہی کا خاصہ تھا "کاروان حیات ص 43

امام الھند اور شیخ حفیظ الرحمن عمری کو دیکھیے کس طرح یاد کرتے ہيں " اسی سرزمین مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میں برادر گرامی قدر جناب شیخ حفیظ الرحمن عمری حفظہ اللہ کے ساتھ رشتہ اخوت و محبت میں بندھ گیا اور انہوں نے ہی امام الھند کی کتابوں کے مطالعہ کی رغبت دلائی ، چنانچہ میں امام الھند  کی کتابیں ہندوپاک سے منگاکر اور احباب سے حاصل کرکے پڑھنے لگا اور روزانہ ڈیرھ دوبجے رات تک ان کا مطالعہ کرنے لگا اور امام الھند کے انقلابی اور تجدیدی افکار مجھ میں اثر کرنے لگے اور جب ہندوستان جاتا تو انہی کے لب ولہجہ اور اسلوب خاص میں اپنی گفتگو اور تقریروں کو ڈھالنے لگا اور غیر شعوری طور پر امام الھند میرے آئڈیل بن گئے ۔ ان کی سلفیت ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے غایت درجہ ان کی محبت اور اپنے خاندان کی قبرپرستی ، پیر پرستی اور سلفیوں سے ان لوگوں کی انتہا درجہ کی نفرت کے باوجود ان کا برملا اعلان حق پرستی اور قرآن وسنت کو اپنی تالیفات میں سب کچھ پر مقدم رکھنے کا شیوہ انقلاب انگیز میرے اور ان کے درمیان قدر مشترک بن گیا " کاروان حیات ص 73

علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی ایک تقریر پر اپنا تاثریوں رقم کرتے ہیں "  ۔۔۔ پھر اس اللہ کے شیر کی تقریر شروع ہوگئی اور مسلک اہل حدیث کی حقانیت پر قرآن وسنت سےدلائل کا ایک انبار لگانے لگے اور ان سے استدلال واقامت حجت کے ایسے ایسے محیرالعقول اور اچھوتے اطوار واسالیب بیان کرنے لگے کہ مجھے لگا یہ دلائل و براہین میں آج اپنی زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ علامہ رحمہ اللہ کی اس تقریر کو سننے کے بعد ان کے رعب و جلال کا ایک ملا جلا تاثر میرے قلب و نظر کی گہرائیوں میں ثبت ہوچکا تھا اور ل نے گواہی دے دی کہ علامہ  رحمہ اللہ ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک ہو چکے ہیں اور میدان خطابت میں ان کا اس زمانہ میں کوئی ثانی نہیں " کاروان حیات ص 93- 94

علامہ قرآن وسنت کے عالم بھی ہیں اور ان کے شیدائی بھی ۔ زندگی کے تمام مسائل کا حل انہيں قرآن وسنت میں موجود نظر آتا ہے ۔ وہ ان تمام فقہا محدثين سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے قرآن وسنت سے مسائل مستنبط کیے ، ہر معاملے میں قرآن وسنت کو رواج دیا ، منطق وفلسفہ کی بجائے آيات و احادیث کو محور بنایا اور تقلید و آرائے رجال کی پروا نہیں کی   بلکہ ہر ہر معاملے میں قرآن وسنت کو عام کرنے کا کام کیا ۔

مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں " مولانا جیسا باغیرت سلفی میں نےبہت کم  دیکھا ہے ۔ قرآن وسنت کی رفعت وبلندی کے سلسلہ میں وہ کبھی کسی مدارات و مجاملت کو گوارہ نہیں کرتے تھے ۔ ان کے تعلقات بہت سے غیر سلفی علماء اور مفکرین ودعاۃ سے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی زندگیوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے لیکن ان حضرات کی مجلسوں میں بھی موقع پاکر ضرور قرآن وسنت اور فکر سلفیت کی بات کرتے اور چوں کہ نہایت ہی ذہین آدمی تھے اس لیے اپنی بات مختلف انداز میں پیش کرنے کی پوری استعداد و صلاحیت رکھتے تھے اور کبھی کسی سے مرعوب نہيں ہوتے تھے اور نہ اپنی بات  کہنے میں ہچکچاتے تھے " کاروان حیات ص 510-511

مولانا مختار احمد ندوی کے بارے میں ہی  گفتگو کرتے ہوئے دعائیہ کلمات میں لکھتے ہیں  " رب العالمین ! تیرے حبیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تیرا و عدہ ہے کہ تو ان دو آدمیوں کو بھی اپنے عرش کے سایہ میں قیامت کے دن جگہ دے گا جنہوں نے دنیا میں ایک دوسرے سے تیری خاطر محبت کی ہوگی ۔ اے اللہ ! اگر جانتا ہے کہ ہم دونوں کی محبت تیری خاطر تھی تو ہم دونوں کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے دینا " کاروان حیات ص 512-513

آپ نے امام الانبیاء محمد بن عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حقیقی آئیڈیل ماننے کے بعد جن بزرگوں کو بطور آئيڈیل پیش کیا ہے اور جن سے اپنی محبت کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ان میں امام اہل السنۃ والجماعہ احمد بن حنبل ، امام المحدثین والفقہاء محمد بن اسماعیل بخاری ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ، آپ کے استاذ اور مرشد سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ، محدث عصر حاضر محمد ناصرالدین البانی اور امام الھند ابوالکلام آزاد ہيں ۔اور ان تمام عظمائے اسلام کے یہاں قدر مشترک اگر کوئی چیز ہے تو وہ جذبہ محبت رسول اور اتباع قرآن وسنت ہی ہے ۔ آپ نے ان تمام شخصیات پر لکھتے ہوئے دل نکال کر رکھ دیا ہے ، ایک ایک لفظ سے محبت ٹپکی پڑتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تذکرہ لکھتے ہوئے وہ بالکل کسی اور دنیا میں چلے گئے ہیں ۔آپ نے بصراحت لکھا بھی ہے کہ آپ کی محبت کی بنیاد یہی ہے کہ یہ تمام کے تمام اعاظم قرآن وسنت کو ہی ہر ایک مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ، سنت رسول کو ہی عام کرنے کا کام کرتے ہیں اور کسی بھی محاذ پر قرآن وسنت سے سر مو انحرا ف نہیں کرتے ۔اپنے خود نوشت سوانح میں اگر کوئی شخص اپنے آئيڈیل بزرگوں پر دوسو صفحات لکھے اور وہ بھی انتہائی درجے کی محبت اور ولولہ کے ساتھ تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کے یہاں عقیدہ و عمل اور فکر ونظر کی ترویج و اشاعت کتنا زیادہ معنی رکھتی ہے ۔

عظیم دینی اور علمی شخصیات سے علامہ کے تعلقات کی گیرائی و گہرائی اور کتاب وسنت کے علمبرادروں سے آپ کی محبت و الفت کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ جامعہ امام ابن تیمیہ کا ایک مرتبہ دورہ کرلیجیے ۔ یہ دیکھیے اصل ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ  ہے ۔ کلیہ کا نام کلیۃ السید نذیر حسین لاصول الدین ہے۔ بنات کا نام کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات ہے ۔شعبہ حفظ کا نام زیدبن ثابت لتحفیظ القرآن ہے ۔ لائبریری کا نام مولانا ابوالکلام آزاد سنٹرل لائبریری ہے ۔ بحث و تحقیق کے ادارے کا نام علامہ ابن باز للدرسات الاسلامیہ ہے ، کانفرنس ہال کا نام علامہ البانی ہال ہے اور جامع مسجد کا نام جامع احمد بن حنبل ہے ۔

ان عظیم دینی و علمی شخصیات سے تعلق کی بنیاد جہاں دعوت قرآن وسنت اور  توحید و اتباع کا جذبہ فراواں ہے وہیں معاصر شخصیات سے  خود علامہ کو بھی بہت محبت والفت اور وقار و احترام ملا ہے اور اس کی مثالیں ہمیں  ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی ، علامہ احسان الہی ظہیر ، مولانا حفیظ الرحمن عمری اور مولانا مختار احمد ندوی سے لے کر علامہ البانی ، سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ اورسماحۃ الشیخ  ابن باز ہر ایک کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ آپ نے جہاں ان بزرگوں اور دوستوں سے قرآن وسنت کی محبت کی بنیاد پر محبت کی ہے وہیں ان لوگوں نے بھی آپ کو اسی محبت کا مستحق سمجھا ہے ۔

قرآن وسنت اور دعوت توحید کی اشاعت کا یہی جذبہ ہے جو آپ کو ان تمام لوگوں کے ذکر خیر پر ابھارتا ہے جن کے اندر یہ خوبی کسی درجے میں پائی جاتی ہے ۔ اس مضمون میں مذکور علما و دعاۃ اور اساطین کے علاوہ آپ نے اپنے جن اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ، ان سے بھی یہی کچھ مترشح ہوتا ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس راہ میں جن لوگوں سے آپ کو تعاون ملا ان کو بھی آپ اسی طرح یاد کرتے ہیں ۔ یہاں بطور خاص اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کا ذکر مناسب ہوگا جن کو آپ نے بڑی محبتوں سے یاد کیا ہے ۔ ہم او رآپ اس تعلق کو پڑھ کر یقینا دونوں شخصیات کی عظمت کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں آپ لکھتے ہیں " ایک بار دہلی میں انہوں نے میری دعوت کی ، میں ڈاکٹر خالد انور تیمی کے ساتھ ان کے گھر پہنچا ۔وہاں سے ہم دونوں کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر ایک ایسے بڑے ہائی کلاس ریسٹورنٹ میں لے گئے جہاں ہم غریبوں کی تکریم کی خاطر پہلے سے انہوں نے ایک بڑی دعوت کا انتظام کررکھا تھا ، ہم اپنی ذرہ نوازی پر جھینپتے رہے اور وہ ایک کریم النفس میزبان کی طرح ہماری خاطر مدارات میں لگے رہے اور جب ان کی گاڑی رکی تو فورا باہر نکل کر میری طرف کا دروازہ کھول کر ایک خانساما کی طرح کھڑے ہوگئے اور میں شرم سے پانی پانی ہوگيا اور ان سے کہا کہ آپ میرے حال پر رحم کیجیے اور ایسا نہ کیجیے تو کہنے لگے کہ اللہ کے جس ایک بندہ نے اتنی بڑی اسلامک یونیورسٹی بنائی ہے وہ میری ہر تکریم کے مستحق ہیں " کاروان حیات ص 506-507 

دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمارے محسن ومربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلا مقام دے اور جن بزرگوں سے آپ نے اللہ کے لیے محبت کی ان کے ساتھ آپ کو جنت میں رفاقت نصیب ہو۔ آمین

 

Wednesday 13 September 2023

 We as a religious community have chosen to hide our religion from other communities. Yesterday evening I happened to join a session with a new Muslim preacher of Islam. He was a christian and Allah Almighty blessed him with guidance. He searched for the truth and reason behind his existence and in order to know it , he studied Bible, discussed many things with father and when found no answer tried to change the source and read Hinduism, Buddhism and other religions. He was very much confused that how it is possible for Jesus to be son of God, God and the soul. He wanted to reach to the Almighty, Jesus himself used to worship because when he is worshipping God how could he be a God?

He was brought up in a christian family that had biased and terribly negative thoughts about Islam so it took time for him to approach Islam for his quest of truth. But disappointed from every religion and ideology when he eventually tried to get close to Islam and read Quran, Muslims were in his way to stop him from reading the final book of Allah. But Allah paved the way and when he read Quran he got his questions answered and was able to find the purpose of life. He embraced Islam and tried his best to learn the basics of the religion and started preaching it . He is doing the same and has been successful to bring about 2500 people to Allah and to Islam. He was boycotted by his dears and nears, they made him fell isolated and hopeless but his beliefs were strong and he faced all the hardships with greater courage and patience.
When he narrated his story and some other new Muslims stories it was worth noting, eyes were full of tears and hearts were full of affection. He reminded Muslims of their holy duty and the greatest blessings they have; their religion Islam but with great amount of sorrows he was forced to say that Muslims hide it through their unislamic character and through their ignorance of religion. They must try to preach it, and make efforts to make it a known religion for every person on the planet.
Sanaullah Sadiq Taimi

 میرا شدت سے یہ احساس ہے کہ کوئی بھی نظام تعلیم جو اصل زندگی کے بنیادی تقاضوں سے دور ہو ، اس سے آراستہ لوگ سماجی سطح پر بڑا اثر ڈالنے میں ناکام ہوں گے ۔ اس تناظر میں ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کا جو ڈھانچہ استوار کیا ہے ، وہ بنیادی انسانی ضرورتوں کے کتنا قریب ہے اور طلبہ کو اس زندگی سے کس حد تک آگاہ کرپاتا ہے ۔

سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی تعلیم اگر زندگی کے حقائق سے ہم آہنگ نہ ہو یا اس زندگی کو بہتر سمت دینے کی صلاحیت سے مالا مال نہ ہو تو اپنی افادیت کھودے گی ۔ بر صغیر کی حد تک دیکھیے تو دینی تعلیم کے ادارے اس نہج پر استوار ہیں کہ وہاں کے پڑھنے والوں کو عام زندگی سے کم کم ہی واسطہ پڑتا ہے ، اوپر سے عام زندگی کے تقاضوں کو پڑھایا بھی کم کم ہی جاتا ہے ، دینی اداروں میں عملی مشق کی کوئی چيز نہيں پائی جاتی ، کھیت کھلیان ، تجارت، ملازمت تو دور کبھی دعوتی مشق کا بھی موقع نہیں نکلتا۔ یہ بات سننے میں شاید اچھی نہ لگے لیکن بالعموم جس معاشرے کو جاکر سدھارنے کا ذمہ دینی اداروں کے فیض یافتگان کو اٹھانا ہوتا ہے وہ اس معاشرے سے آگاہ ہی نہیں ہوتے ۔
کبھی اس حیثیت سے غور کیجیے کہ سب سے زیادہ عام زندگی میں ضرورت کس چيز کی پڑتی ہے ؟ معیشت کی ، اسی پر زندگی استوار ہوتی ہے ، اب ذرا اس پر غور کیجیے کہ دینی اداروں میں معیشت کی کتنی تعلیم دی جاتی ہے ؟ آج جو اصطلاحات رائج ہیں ، ان سے ہم کس حد تک واقف ہوتے ہیں ؟ کیا ان دینی اداروں کے فارغین واقعی اس معاملے میں رہنمائی کا فريضہ انجام دے سکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ؟
ہم جس ملک میں رہتے ہیں کیا اس ملک کے نظام حکومت سے آگاہ ہوتے ہیں ؟ اس نظام حکومت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اس پر کیا کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں ؟ کیا خود ہم اپنی بنیادی ضرورتیں بطور خود پوری کرسکتے ہيں ؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام اس معاملے میں ہمیں آگہی سے آراستہ کرتا ہے ؟ کیا اس قسم کے معاملات میں ہم دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکنے کی حالت میں ہوتے ہیں ؟
ہم نے نصاب کی تجدید کاری کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ہمارے طلبہ کو برائے نام انگریزی ، ہندی اور سائنس آ جائے جب کہ ہمارا دھیان اس پر ہونا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں سے تعلیم پاکر ایک فارغ التحصیل معاشرے میں جائے تو وہ واقعی عالم ہو۔ اس پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ سماج اور اس کی ضرورتوں کو جان نہيں رہے ہوں گے تو رہنمائی کا فريضہ انجام کیسے دیں گے ؟
ان تلخ سچائیوں کے ساتھ ہم نے بالعموم اخلاقی نظام ایسا رکھا ہے کہ بھولا بھالا دکھنے والا یا اس کی اداکاری کرنے والا طالب علم اچھے اخلاق کا مالک سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شعور وآگہی کے تقاضوں کے تحت جس قسم کے سوالات پنپتے ہیں اور جن سے ایک صحت مند ڈسکورس کی سبیل نکلتی ہے ، وہ یہ خاص ماحول پنپنے نہيں دیتا اور بہت سی ذہانتیں یوں ہی دم توڑ دیتی ہیں ۔
ارباب اختیار کو ان حقائق پر غور کی نظر ڈالنی چاہیے ۔ تعلیم اگر زندگی سے ہم آہنگ نہ ہو تو چاہے جتنا ہنگامہ برپا کیا جائے ، وہ اپنی افادی حیثیت منوانے سے رہ جائے گی ۔ دو صدیوں کا لگ بھگ عرصہ ہورہا ہے ، جب سے یہ نظام رائج ہے ، دو صدیوں کے تجربات کی روشنی میں ان نکات پر غور کرنا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ورنہ شاید یہ ڈھانچہ ہی باقی نہ بچے۔
رہے نام اللہ کا
ثناءاللہ صادق تیمی