Wednesday 13 September 2023

 جنگ: نہ آغاز اچھا نہ انجام خوش گوار

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ
اگر کسی قوم پر جنگ تھوپ دی گئی ہو اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہو تو الگ بات ہے ورنہ سمجھدار قومیں جنگ سے پناہ ہی مانگتی ہیں ۔ جنگ بظاہر قوت کے اظہار کا ذریعہ ہے لیکن اصلا وہ کسی بھی مرحلے میں سود مند ثابت نہیں ہوتی ۔ دنیا کی حالیہ تاریخ اس پر کھلی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا،ظاہر ہے کہ وہ اس وقت دو بڑی عالمی طاقتوں میں سے ایک تھا لیکن جب جنگ اختتام کو پہنچ رہا تھا تو وہ اپنی حیثيت کھو چکا تھا ۔ امریکہ نے بھی وہی غلطی دہرائی ، اس نے عراق پر حملہ کیا ، بظاہر وہ کامیاب بھی ہوگيا ، صدام حسین کو اس نے پھانسی بھی دے دی لیکن آخر کار نتیجہ یہی نکلا کہ اس جنگ نے اسے اندر سے کمزور کرکے رکھ دیا ، اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور بیس سالوں تک جنگ میں رہنے کے بعد آخر اسے منہہ کی کھانی پڑی اور اپنی حیثیث بھی کھوتا ہوا نظر آیا۔
یہ ان طاقتوں کا حال ہے جن کی قوت کا احساس پوری دنیا کو ہے پھر سوچیے کہ ان کا حال کیا ہوگا جن کے پاس ویسی طاقت بھی موجود نہ ہو اور وہ رہ رہ کر جنگ چھیڑنے کی حماقت کرے ۔ 26/11 کے دہشت گردانہ حملے کے بعد بہت سارے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا ، اس وقت پرنب مکرھرجی وزیر خارجہ تھے ، ہر دن صبح اٹھ کر وہ ایک بیان دیتے تھے جس میں پاکستان کو دھمکایا جاتا تھا لیکن بھارت نے کمال ہوشیاری سے ایسی کسی بھی نادانی سے خود کو روکے رکھا ، وہ دھمیکاں بھی در اصل اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے ارادے سے زیادہ دی جارہی تھیں ۔ نتیجہ یہ رہا کہ بھارت ترقی کی راہ پر بڑھتا گیا ، جنگوں سے جو اسباق پہلے مل چکے تھے انہیں ذہن میں رکھا گيا ۔ یہاں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے چین کی طرف سے کی جارہی جارحیت کے باوجود ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے غیر ضروری طور پر جنگ کی کوئی صورت حال پیدا ہو ، انہیں یقینا یہ احساس ہے کہ چین سے ٹکر لینا عقل مندی نہیں ۔ البتہ اس سلسلے میں کارگر ڈپلومیسی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
عالم اسلام بطور خاص مشرق وسطی کی صورت حال پر نظر درڑائیے تو آپ بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ غیر ضروری جنگوں نے کیا صورت حال پیدا کردی ۔ کبھی تو یہ ممالک عالمی طاقتوں کی زد میں اور زیادہ تر خانہ جنگی کا شکار ہوکر کہيں کے نہیں رہے ۔ اس حماقت نے چشم زدن میں ان سے ان کی خوش حالی ، ترقی ، امن اور سلامتی چھین لی ۔ آپ عراق ، لیبیا، یمن ، شام اور بر وقت سوڈان کی صورت حال کو نظر میں رکھیں ، بغیر کسی تامل کے آپ اس حقیقت تک پہنچ جائيں گے کہ جنگوں سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہيں ہوتا۔ ہر طرح کی ترقی ،خوش حالی اور بہتر زندگی کے لیے سب سے ضروری عنصر امن ہے ۔
اس خطے میں سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جس نے خود کو اس قسم کے جھمیلوں سے دور رکھنے کی باضابطہ کوشش کی اور اس کے فوائد بھی اسے حاصل ہوئے لیکن جب یمن کی جنگ میں اسے بھی کودنا پڑا تو بہر حال اس کے منفی اثرات اس پر بھی پڑے ۔ آج سعودی ولی عہد کی سربراہی میں پورا عالم عرب اس حقیقت کی طرف بڑھ رہا ہے کہ جنگ سے مسائل جنم لیتے ہیں ، ہم آپسی گفتگو سے مسائل حل کریں گے ۔ عرب ليگ کی حالیہ میٹنگ میں انہوں نے باضابطہ عہد لیا ہے کہ وہ اپنے اس خطے کو تنازعات سے بچائیں گے اور مثبت خطوط پر آگے بڑھیں گے ۔ پوری دنیا کو پورے جوش وخروش کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔ یقینا یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔
روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد جو اندازے لگائے تھے وہ پوری طرح درست ثابت نہیں ہوئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین کے مقابلے میں ایک بڑی طاقت ہے اور اس نے یوروپ کو بھی اس کی اوقات دکھائی ہے لیکن اس جنگ سے بہرحال اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جنگ جتنی لمبی کھنچے گی اتنا منفی اثر بڑھتا جائے گا۔اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور دن بہ دن یہ اثرات مزید گہرے ہوتے جائيں گے ۔ ظاہر ہے کہ جب جنگیں ہوتی ہیں تو راستے بند ہوتے ہیں ، تعلقات بگڑتے ہیں ، سڑکیں تباہ ہوتی ہیں ، امن و امان کی فضا مکدر ہوتی ہے اورپھر کوئی بھی معاملہ اپنی فطری حالت پر باقی نہیں رہتا۔ یوں مختلف سطحوں پر ضروریات زندگی متاثر ہوتی ہیں اور وہ لوگ بھی اس کی زد پر آتے ہیں جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ عالمی گاؤں اور عالمی بازار کےاس زمانے میں کسی بھی خطہ کی جنگ صرف اسی خطہ تک محدود نہیں رہتی ۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پوری دنیا کے باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو جنگوں سےروکنے کا کام کریں ، عوامی سطح پر بیداری پیدا کریں ، نہ خانہ جنگی ہونے دیں اور نہ کسی دوسری طاقت کو دخل دینے کےلیے آواز دیں ۔
اسلام نے بھی حتی المقدور جنگ سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔حدیث میں کہا گيا ہے کہ دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو ۔ ساتھ ہی اسلام نے صلح کو خیر کہا ہے ۔ والصلح خیر ۔اس حقیقت کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ صلح میں خیر ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کا بہت ہی روشن نمونہ ملتا ہے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع سے انہوں نے فریق مخالف کی صریح ظالمانہ شرطیں بھی قبول کرلیں کہ صلح ہو جائے اور دنیا جانتی ہے کہ اس کے بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔

No comments:

Post a Comment