Saturday 6 December 2014

میں نہيں مانتا
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئي دہلی
  ہمارا تعلق اتفاق سے اردو ادب سے بھی رہا ہے ۔ اردو شاعری میں اقبال ، غالب اور مومن کے بعد ہم نے زیادہ تر فیض کو پڑھا ہے ۔ فیض احمد فیض کی نظم " مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ "  مزے لے لے کر پڑھتا رہا ہوں ۔ اور ان کی نظم (جو خاصی طویل بھی ہے ) " رقیب سے !" ایک زمانے میں میری زبان پر ہی رہتی تھی ۔ اس میں بھی خاص طور سے یہ بند
عاجزی سیکھی ، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرمان کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مسائل کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رخ زرد کے معنی سیکھے
محبت اگر یہی سب کچھ سکھاتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہر آدمی کو محبت کرنی چاہیے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ فیض صاحب کو سکھانے کے بعد یہ محبت شاید سبق بھول گئی یا پھر لوگ ہی ایسے نہیں ملے ۔ خیر ان دنوں کی ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ہم ہر ترقی پسند آدمی یا ادیب کو فیض کی طرح ہی سمجھدار اور کامران سمجھتے تھے ۔ ہماری نظر میں ترقی پسندی اور فیض میں کوئی فرق نہيں تھا ۔ ہم یہ بھی سوچتے تھے کہ ہر ترقی پسند شاعر یا ادیب فیض کی طرح ہی کلاسیکل لہجے میں نئے خیالات کا اظہار کرتا ہوگا اور اس کی باتیں دلوں کو چھو جاتی ہونگیں  ۔ یہ راز تو بہت بعد میں ہم پر کھلا کہ فیض کے علاوہ ترقی پسند شعراء اور ادباء کی زيادہ تر تعداد  نعرہ باز اور جلالی واقع  ہوئی ہے ۔ علی سردار جعفری ، مخدوم محی الدین اور مجاز وغیرہ کے یہاں جو غصہ اور احتجاج تھا اس نے بتایا کہ ایک شاعری کا نمونہ یہ بھی ہے ۔ مجاز کے " اے  غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں "  کا بھی ہمارے اوپر ایک جادو  سا چڑھا رہا ۔ اور ظلم و ستم کے ہر ایک مظاہرے کو دیکھ کر طبیعت یہی چاہتی کہ بس یہ نوچ لوں اور وہ نوچ لوں ۔ انہيں دنوں ہم نے حبیب جالب کی نظم " میں نہيں مانتا "  پڑھی اور بس ایسی یاد کرلینی چاہی کہ کبھی بھلائی نہ جاسکے ۔ ان دنوں جب ہمارے دوست کوئی بات کہتے تو ہم ان سے بس یہی کہتے " میں نہيں    مانتا " اور وہ بس کھسیا کر رہ جاتے ۔ نظم تھی
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
     لیکن اپنا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلاکہ بھائی ہم تو ہر اچھی بری بات کو بس میں نہيں مانتا  ، میں نہیں مانتا کہ خانے میں ڈالتے جارہے ہیں اور اس  سے کوئی مسئلہ حل ہوتا دکھ نہيں رہا ہے ۔ تب ہم نے سوچا کہ احتجاج کرنے سے بہتر ہے کہ کوئی ایسا کا م کیا جائے کہ ہماری جگہ کوئی اور کہے میں نہیں مانتا ۔  " میں نہیں مانتا " کی پوری ذہنیت اگر غلط کو رد کرنے سے عبارت ہو تو بہت اچھی بات ہے ورنہ کبھی کبھی یہ انسان کی نفسیات کا حصہ بن جاتی ہے ۔  ممتا بنرجی نے جب بنگال میں حکومت ملنے کے بعد بھی دھرنا کی سیاست نہيں چھوڑنا چاہا تو ہمیں یہ بات اور بھی سمجھ میں آئی اور جب کیجریوال نے احتجاج کی سیاست ستا میں آنے کے بعد بھی جاری رکھی بلکہ وہ احتجاج کیا کہ خود حکومت کو تياگ دیا تو ہمیں سمجھ میں آیا کہ یہ ذہنیت کچھ اتنی اچھی بھی نہيں ہے ۔ لیکن معاف کیجیے گا سب کچھ مان لینے کی سیاست بھی کچھ اتنی اچھی بات نہيں ہے ۔ ہم نے اپنے کمیونسٹ دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے اکثر ان سے کہا کہ بھائی آپ لوگ ہنگامہ تو خوب کرتے ہیں ۔ لیکن آپ کا سارا زور میں نہيں مانتا پر ہوتا ہے ۔ بنگا ل اور کیرالہ میں آپ کی حکومت تھی آہستہ ہستہ وہاں سے بھی آپ کا پتہ کٹ گيا لیکن آپ اب بھی میں نہیں مانتا ، نہیں مانتا کی رٹ لگائے ہوئے ہيں ۔ غلط کوروکنے کا اچھا راستہ یہ ہے کہ اچھائی کو بڑھا وا دیا جائے ۔ روکنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ چلیے اور ایک نیا اچھا راستہ لوگوں کو دیجیے ۔ بالعموم ہم لوگوں کو غلط کہتے ہیں لیکن خود ایسا کچھ نہيں کرتے جس سے بھلائی کی راہ آسان ہو اور خیر کا سوتہ پھوٹے ۔  ہم مسلمانوں کے یہاں" افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر " ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ، کا چرچا خوب ہوتا ہے اور زیادہ تر لوگ غلط طریقے سے اپنے ہر ایک غلط سلط احتجاج کو اسی حدیث رسول سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہےکہ کلمہ حق کہنے کا رواج بڑھ بھی رہا ہے اور ظالم حکمرانوں کا رویہ اور سخت سے سخت بھی ہورہا ہے ۔ بات یہ ہے کہ بس الٹا سیدھا بول لینے کو ہم کلمہ حق کا اظہار سمجھ رہے ہیں ۔ ہمارے ایک دوست نے عرب ملکوں خاص طور سے سعودی عرب پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہاں لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے ۔ انہوں نے دو کتوں کی مثال دی اور کہا کہ ایک کتا مسکینی اور فاقہ کشی کی زندگی  جی رہا تھا جبکہ دوسرا عیش و عشرت میں  بسر کررہا تھا ۔ جب دونو ں میں بات ہوئی تو فاقہ کش کتے نے عیش میں جی رہے کتے سے کہا کہ اصل مزہ تمہارے ہیں کہ یہ عیاشیاں ہیں ۔ اس پر عیش و عشرت میں پل رہے کتے نے کہا کہ میرے بھائی اصل مزے تمہارے ہیں ۔ ہم سارے عیش کے باوجود خوش نہيں ہیں کہ ہمیں بھونکنے کی اجازت نہيں ہے ۔ یہ  اجازت تمہيں حاصل ہے ۔ ہم نے اپنے دوست سے کہا : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عربوں سے چاہتے ہیں کہ وہ بھوکیں ۔  ہمارا مسئلہ " ميں نہيں مانتا " کا ہے اور وہ بھی غلط طریقے سے حالا نکہ حبیب جالب کی نظم تو بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے ۔ زیادہ تر لوگ غلط منطق کے ذریعہ مفاہیم بدلتے ہیں ۔ خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہی کام کیا تھا ۔ ان الحکم الا للہ ( فیصلہ تو اللہ کا چلے گا ) کی رٹ لگا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تحکیم کے مسئلے پر گھیرنے کی کوشش کی تھی  ۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی رضي اللہ عنہ نے اس وقت بڑی اچھی بات کہی تھی ۔" کلمۃ حق ارید بھا الباطل " بات تو حق ہے لیکن اس سے باطل کو حاصل کرنے کا منشا ہے ۔ ہمارے عہد کے زیادہ تر لوگ خوارجی نظریے کے حامل ہیں ۔ بولتے ہیں کلمہ حق اور مراد حصول باطل ہوتا ہے ۔ اور ذاتی طور پر میں کلمہ حق کے باطل مراد کے بارے میں یہی موقف اپنا نا چاہتا ہوں کہ " ميں نہيں مانتا " ۔



Saturday 29 November 2014

غزل 
ساگر تیمی
 
یہ سلیقہ ہے وہ نبھائے گا
 
تم بلاؤ ، ضرور آئےگا
 
سوچتا ہے وہ کتنی شدت سے
 
اس کی شادی میں گانا گائے گا 
کیسی کھونے کی لت لگی ہوگی 
پا بھی جائے تو پا نہ پائےگا 
یہ عمارت نہیں ہے ، مسجد ہے 
توڑ کر بھی گرا نہ پائےگا 
تجھ سے غصہ ہے ، تیرا شیدائی 
تم مناؤ گے ، مان جائےگا 
اتنی الفت بھلی نہیں ہوتی 
بے وجہ بھی دوا کھلائےگا 
آپ ساگر سے مانگ کر دیکھیں 
مسکرائےگا ، جاں لٹائے گا

Monday 24 November 2014

ڈر
ساگر تیمی
میں ڈرتا ہوں
مگر یہ بات تم سے کہ نہيں سکتا
کہ تم اتنے بہادر ہو
یہ دنیا تم سے ڈرتی ہے
سر محفل ہی تم سدا
 حق بول دیتے ہو
مگر یہ سچ ہے  اب بھی حق
کا کلمہ ہی شکار ناتوانی ہے
تسلط ظلم کو حاصل ہے
ظالم کا زمانہ ہے
بہادر میں بھی ہوں لیکن
یہ سارے قصے ، سب کہانی میری جرات کی
بنائی ہے کہ میں تم سے کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں
مبادا ہار میری ہو نہ جائے ، جیت تم جاؤ
وگرنہ سینے میں بیٹھا
جریم راز جو میری طرح تیرا بھی بھیدی ہے
بتاتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں
اور سچے نہیں تم بھی 

Wednesday 29 October 2014

غزل
ساگر تیمی
جتنی سوچی تھی نہیں اتنی یہ دنیا کم ہے
  آپ یہ سمجھیں کہ  اس میں میرا حصہ کم ہے
اور بھی روپ ہیں آنکھوں کا دریچہ کھولو
تم نے یہ جھوٹ سمجھ رکھا ہے جلوہ کم ہے
تیرا کہنا ہے  کہ عالم ہے فسادوں سے بھرا
میں یہ کہتا ہوں بھلا ہے مگر ایسا کم ہے
آ بھی جاؤ کہ اندھیروں کا مقدر چمکے
 کیونکہ ان آنکھوں میں جینے کو اجالا کم ہے
اور اک بات ہے جینے کی تمنا لیکن
اور اک بات ہے مرنے کا ارادہ کم ہے
خواب تو یہ ہے تجھے سونے کی دنیا دے دوں
اور اک جیب ہے کم بخت کہ پیسہ کم ہے
ایک تو دل ہے اور اس پر بھی بلا کا غرہ
بات یہ بھی ہے کہ  سینے  میں وہ رہتا کم ہے
میں بھی اک بار تجھے چھوڑ کر جانا چاہوں
پھر یہ کہنا کہ" یہ ساگر ہے اور اچھا کم" ہے


غزل
ساگر تیمی
وہ جو کہدے وہی ایمان نہیں ہو سکتا
کوئي قول نبی قرآن نہیں ہو سکتا
تیرے چہرے پہ تعجب کی لکیریں ہیں غلط
تو بھی اس بات سے انجان نہیں ہو سکتا
اتنی خوبی سے اجالے کو اندھیرا لکھا
ہوگا انسان وہ شیطان نہیں ہو سکتا
اور اک بات کی چاہیں  تو ضمانت لے لیں
لینے والا کبھی ذیشان نہيں ہو سکتا
 چاند کے بن بھی یہ  رات چمک سکتی ہے
ہاں مگر صبح کا امکان  نہيں  ہو سکتا  
بس اسی آس میں برسات کا موسم گزرا
مینہ برس جائے گا نقصان نہیں ہو سکتا
اور اک بات ہے ساگر کہ دعا لگ جائے
ہاں مگر ہر کوئي دھنوان نہیں ہو سکتا


Tuesday 21 October 2014

مولانا ادیب
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئي دہلی
 آپ شاید نہ مانیں لیکن ہمارے دوست بے نام خان ہمیں جب چڑھانا چاہتے ہیں تو اسی طرح پکارتے ہیں ۔ اور میرے ناراض ہونے پر بڑے اعتماد اور سنجیدگی سے کہتے ہیں کہ بھائی ٹھیک ہے تم ادیب نہيں ہو کہ کوئي مولانا ادیب ہو بھی نہیں سکتا لیکن مولانا تو ہو نا! اس میں اس قدر برہم ہونے کی کوئي ضرورت نہیں ہے ۔ اور اس کے بعد ہمارے اور ان کے درمیان ادیب اور مولانا کے موضوع پر پوری بحث چل پڑتی ہے ۔ ہمارے دوست کے حساب سے مولانا ہونے کا مطلب ہی یہ ہوا کہ اس کے اندر ادیبوں والی فراخدلی ، اعلا ظرفی ، وسعت نظر اور تحمل نہیں ہوگا اور ادیب ہونے کا مطلب ہی ہے کہ اس کے اندر مولاناؤں والی کج فکری ، ضد ، جوش اور اشتعال انگیزی نہیں ہوگي ۔ پھر بھلا ایک ہی آدمی ادیب اور مولانا کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ صفات ایک ساتھ جمع کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یہ تو آپس میں ضدین ہیں ؟
   آپ ہوں تو نہ معلوم کیا کریں لیکن میں انہیں اپنی طرف سے مثالیں دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی تو مولانا تھے اور عربی کے ادیب بھی تھے ۔ مولانا عبدالماجد دریابادی مولانا تھے اور صاحب انشاپرداز اور  صاحب طرز خاص ادیب بھی تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد مفسر قرآن بھی تھے اور باضابطہ ادیب بھی تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی مولانا بھی تھے اور ماہر لسانیات ادیب بھی تھے اور میں مثالیں پورے جوش و ولولے کے ساتھ دیتا چلا جاتا ہوں ۔ اس درمیان وہ اس طرح سنتے ہيں جیسے اب وہ قائل ہوگئے ہیں اور جب میں سامنے والی میز پہ جوش و اعتماد کے عالم میں اپنی ہتھیلی مارتا ہوں تو ہولے ہولے مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں تو انہيں دلائل کے سہارے آپ اتنی لمبی چوڑی ہانک رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ آپ  مجھے چت کردینگے ۔
   جناب!  مولانا ابوالحسن علی ندوی کو اردو والے تو خیر ادیب سوچنے کی بھی غلطی نہیں کرتے اور عربی والے انہيں ہندوستانیوں میں ایسا عالم مانتے ہیں جنہیں عربی بھی لکھنے بولنے آتی ہے ۔ اور لکھنے کی بھی صلاحیت دوسرے ہندوستانیوں کے بالمقابل اچھی مانتے ہیں عربوں کے بالمقابل نہیں ۔ ایسے ان کے اندر خود ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی ادیب نہیں سمجھا ۔ یوں بھی تخلیقی ادب میں ان کی کوئي حصہ داری ہے بھی نہیں ۔
   مولانا عبدالماجد دریابادی بے چارے ادیب ضرور تھے اور صاحب طرز ادیب لیکن آپ کو دھوکہ نہ کھانا چاہیے وہ مولانا نہیں تھے ۔ در اصل ان کے اوپر مولانا لوگوں نے جال پھینک دیا اور بے چارے سیدھے آدمی پھنس گئے اور خود کو مولانا سمجھ بیٹھے اور اس غلطی میں پڑنے کی وجہ سے ایسی ایسی ادیبانہ غلطیاں ان سے ہوئیں کہ آج بھی ادب کا سنجیدہ طالب علم ان سے نالاں ہی رہتا ہے ۔' انگارے' کے بارے میں ان کے مولویانہ خیالات بتلاتے ہیں کہ آدمی اگر مولوی نہ بھی ہو اور اس کے اندر مولانائیت آگئی تو وہ کس قدر ذہنی طور پر سکڑ جاتا ہے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی مولانا سے زیادہ عالم تھے البتہ ادیب انہیں نہیں کہا جاسکتا ۔ اردو کی ابتداء اور نشو و نما کے بارے میں ایسے بھی ان کی رائے کمزور ہی مانی گئی ہے ۔ ان کی زبان میں رچاؤ تو ہے لیکن تخلیقی ادب میں ان کی کوئی حصہ داری نہیں ۔ شاعری کی تو وہ بھی بہر حال قابل ذکر نہیں ہے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ بڑے اچھے صحافی اور سیاست داں مانے گئے ہیں لیکن ان کی ادیبانہ اور مولویانہ دونوں حیثيت تسلیم شدہ حقیقت نہيں ہے ۔ مولانا کو مولوی لوگ ادیب اور ادیب لوگ مولوی سمجھتے ہیں ۔ ہاں البتہ یہ دونوں انہیں صحافی اور سیاستداں ضرور مانتے ہیں ۔ اور ایسے بھی میری نظر سے دیکھیے تو تذکرہ جیسی کتاب لکھنے والا آدمی ادیب ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ اللہ ہی جانے وہ کتاب انہیں خود بھی سمجھ میں آئی تھی یا نہیں ۔ میں آپ کو صحیح صحیح بتارہا ہوں کہ آج کے ننانوے فیصد ادیب کو تذکرہ دیکھ کر پڑھنے میں اچھی خاصی دشواری کا سامنا ہوتا ہے سمجھنے کا مرحلہ تو بعد کا ہے ۔
    مولانا ! یہ سب بڑے بودے دلائل ہیں ۔ سچی بات یہی ہے کہ کوئي مولانا مولانا رہتے ہوئے ادیب نہیں ہو سکتا اور کوئي ادیب ادیب رہتے ہوئے مولانا نہیں ہو سکتا ۔ آپ خود کو دونوں سمجھتے ہو اس لیے دیکھو کہیں نہيں ہو ۔
      میں نے پھر بھی ان سے کہا کہ ادیب ہونے کی خوبی تسلیم لیکن مولوی ہونے کے جو خصائل آپ نے گنوائے ہيں وہ آپ کو نہيں لگتا کہ آپ کی جھلاہٹ کے  آئینہ دار ہیں ۔ بھئي مولانا لوگ تو سادگی ، بے ریائی اور خدمت خلق سے بھرپور زندگی بسر کرتے ہیں اور آپ ان کے اوپر کیا کیا الزام دھر رہے ہیں ۔ ان کی تو پوری زندگی عبادت ، صبر وتوکل اور زہدو ورع سے عبارت ہوتی ہے ۔
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئي تھی کہ میرے دوست نے مجھے خاموش کرتے ہوئے کہا : شاید کبھی یہ باتیں درست رہی ہونگیں ۔ لیکن اب اللہ کے واسطے ان الفاظ کو مولانا لوگوں سے جوڑ کر ان کا تقدس پامال مت کرو ۔ دنیا میں دو بدنام پیشے ہیں سیاست اور مولویت ۔ اور یاد رہے کہ سیاست بھی اتنی چوکھی نہیں ہوتی جتنی مولانائيت ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اللہ کے بندے آج بھی اجداد کی وراثت سنبھالے ہوئے ہونگے اور بہت ممکن ہے کہ مولانا لوگوں میں بھی کچھ اللہ والے ہوںگے لیکن یہ ہونگے بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔ تم میرا منہ نہ ہی کھلواؤ تو اچھا ہو ورنہ خود تمہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملیگی ۔ اور دیکھو اس موضوع کو یہیں بند کرو تو بھلا ہو ۔ مجھے تاریخ کا بھی علم ہے اور آج کی صورت حال سے بھی واقف ہوں ۔ تم مولویوں کا دکھڑا یہی ہے کہ تم کل کی عظمتوں کا گنگان کرتے نہيں تھکتے اور آج کی غلاظتوں پر نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ بھائی میں ان باتوں میں جانا اچھا نہیں سمجھتا ۔ البتہ ادیب ہونے کے لیے مولانائيت سے توبہ کرنا ضروری ہے ۔ جب نیاز فتح پوری نے مولانا لوگوں سے پیچھا چھڑایا ہے تب کہیں جاکر اتنے بڑے ادیب بنے ہیں ۔ مثالیں تو اور بھی ہیں ۔ لیکن چھوڑو اور تم مولویوں کا حال کیا ہے ۔ اردو لکھتے ہو تو لگتا ہے جیسے سارے بھاری بھرکم الفاظ ایک ہی جملے میں استعمال کرلینے ہیں ۔ قومہ ، فل اسٹاپ اور دوسرے علامات کی کیا معلوم کوئي خبر ہوتی بھی ہے یا نہيں ۔ عربی اور فارسی کے ایسے ایسے الفاظ کہ توبہ بھلی ۔ 'ھلم جرا' اور' وقس علی ھذا' لکھ کر سوچتے ہو شیر مار گرایا ہے ۔ اب تم لوگوں کو کون بتلائے کہ بھائی صاف ستھری اور سادہ زبان میں پیغام پہنچ جائے تو اسے ہی ادب کہتے ہیں لیکن تمہیں  تو اپنی علمیت ، ادبیت اور نہ جانے کیا کیا تیت کی دھونس جھاڑنی ہوتی ہے ۔ ارے مولانا ! مسئلہ یہ بھی ہے کہ تم مولانا لوگ ادیبوں کو تو اس قابل سمجھتے نہیں کہ انہيں پڑھا جائے اور پھر جب تمہارے لکھے ہوئے ' اعلا مقالات ' لوگوں کو پسند نہیں آتے تو الٹے کہتے ہو کہ نام نہاد ادیبوں نے لوگوں کا ذوق بگاڑ دیا ہے ۔ مجال جو خود احتسابی کا جذبہ ابھر جائے ۔ مولانا مودودی ، سلیمان ندوی ، شبلی نعمانی ، ابوالکلام آزاد اور عبدالماجد دریابادی کا نام لے کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش تو کرتے ہو لیکن کبھی ان کی طرح لکھنے کی اور انہیں کی طرح محنت کرنے کے بارے میں سوچتے ہو ؟ شاعری میں علامہ اقبال پر خوب فخر کرتے رہو لیکن کبھی تو یہ کوشش بھی کرو کہ کچھ اچھی شاعری کے نمونے تمہارے دم سے بھی معرض وجود میں آئیں ۔ کبھی شاعری کرتے ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے بوڑھا آدمی سکرات الموت میں مبتلا ہے ۔
میں نے دیکھا کہ میرے دوست بالکل میرے (مولویانہ ) انداز میں نصیحت کرنے لگے ہیں اس لیے میں نے بحث تمام کیے بغیر بھاگ لینے کو اچھا سمجھا ۔ آپ کیا کرتے آپ سوچیے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔





Sunday 19 October 2014

غزل
ساگر تیمی
بجھی ہوئي ہے تو کتنی اداس لگتی ہے
مری گڑیا کسی وحشی کے پاس لگتی ہے
 یہ زندگی کہ جسے میں حیات کہتا ہوں
یہ نک چڑھی مجھے جھگڑالو ساس لگتی ہے
کسی نے کیا دیا باتیں! دعا کے لہجے میں
تمام عمر ہی نذر سپاس لگتی ہے
بہت ہی دور ہے نزدیک جاکے دیکھو تو
وہی وفا جو یہيں آس پاس لگتی ہے
اسی کو کہتے ہیں شاید وفا کی مضبوطی
وہ ڈانٹتی ہے مگر بے ہراس لگتی ہے
نقاب اچھا ہے فتنوں کو روکتا ہے مگر
حیا نہ ہو تو نظر بے لباس لگتی ہے
مزہ تو ویسے بہت ہے کلاس لینے میں 
مزہ بھی آئے جب اپنی کلاس لگتی ہے
یہی ہے زندگی ساگر مرے تجربے میں
حسین ہے مگر اکثر اداس لگتی ہے


Wednesday 24 September 2014

خرد   
ساگرتیمی
  وہ شام کا وقت تھا ۔  سارے لڑکے لڑکیاں کینٹین میں چائے نوشی کے لیے آیا ئے ہوئے تھے ۔ یہ یونیورسٹی کاعام مزاج تھا ۔ لائبریری سے نکل کر کبیر نے بھی کینٹین کی راہ لی ۔ کینٹین میں جوہی  پہلے سے چائے کا آرڈر دے کر اس کے انتظار میں تھا ۔ کبیر نے چائے لی اور اپنے نئے خوبصورت موبائل کے ساتھ میسجینگ میں مصروف ہو گیا ۔  جوہی  کو برا لگا لیکن وہ جانتا تھا کہ اب اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا ۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اس سے معذرت کرتا ہوا نکل گیا ۔ فیس بک کی اہمیت کا احساس اسے اس دن کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا ۔
   " میں تہمیں فیس بک پر دیکھتی رہی ہوں "
"اچھا ؟"
" تم بہت اچھے لگتے ہو "
" تصویر میں یا سچ مچ؟ "
" دونوں جگہ "
" تو ؟ "
" میں تم سے ملنا چاہتی ہوں اگر تمہیں مجھ سے مل کر خوشی  ہو "
" ٹھیک ،کل شام چائے پر ملتے ہیں "
     کبیر نے اسے ہلکے میں لینے کی کوشش ضرور کی تھی ۔ لیکن اب اسے شام کا انتظارشدت سے تھا ۔اس کی باتوں سے اس کی لیاقت بول رہی تھی ۔ اس نے بغیرملے ہی اسے اپنا گرویدہ بنا لیاتھا ۔ اس کی طبیعت نے بارہا اسے اکسا یا کہ وہ اس سے بات کرے لیکن در اصل وہ ہمت نہ کرسکا۔  اسے لڑکیوں سے باتیں کرنے اور ان کے ساتھ  چھیڑ کرنے کی عادت سی تھی لیکن اس مرتبہ اس کے دل کی کشتی خود ہی ڈانواڈول تھی ۔  فلسفےدم توڑ چکےتھے اور ترکیبوں کا کوئی مطلب بھی  نہیں تھا  ۔
     دوسرے دن کی  شام گوری رنگت کی ایک چلبلی سی لڑکی اس کے سامنے تھی ۔ میانہ قد ، چوڑی پیشانی، چمکداربولتی ہوئي آنکھیں اس کے بھولے  سے چہرے پر سلیقے سے سجی ہوئی تھیں ۔ اس پر اس کے پتلے سے دونوں لب جیسے پھول کی  دو پتیاں ۔ اس نے اس کے سراپے پر ایک نطر ڈالی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہ پاتا اس نے کہا " ہائے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔"
" اور میں کبیر ۔۔۔۔۔۔"
چائے لیتے ہوئے دونوں کی گفتگو آگے بڑھنے لگی جیسے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ پچھلے کئی مہینوں سے چل رہا ہو ۔ کبیر نے دوسری بار اس کے مقابلے اپنی شکست قبول کی ۔ بولتے ہوئے اس کے دانتوں کی چمک اور مسکراتے ہوئے اس چہرے کی دمک نے اسے کہیں کا نہيں چھوڑا تھا  ۔ آج اسے بھی اپنے سمارٹ ہونے کا احساس ہو رہا تھا کہ بہر حال پہل تو اسے نے کی تھی ۔  اس کے خیالات کی دنیا پھیلتی چلی گئی۔ اور دل کے دریچوں سے خوشبوؤں کی آمد سی ہونے لگی ۔ اورپھر وہ اس کے ساتھ کچھ ایسے آئی جیسے بہار نہ جانے کے لیے آگئی ہو ، جیسے نسیم کے چلنے کا سلسلہ رکے گا نہيں ،  جیسے صبح و شام کے یہ حسین نظارے کبھی فنا نہیں ہوںگے ، جیسے گلاب کے اوپر صبح کے وقت  شبنم کے حسین قطرے گرتے رہینگے ۔ 
     اس کا نام نورین  تھا ۔ ہندو ماں اور کمیونسٹ باپ کے بیچ پروش پانے والی اس لڑکی کے اندر غضب کا حسن جمع ہو گیا تھا ۔ ایک طرف اس کے اندر پرانے ہندو خاندان کی تہذيب تھی  تو دوسری طرف کمیونسٹوں کی سی روشن خیالی ، لاابالی پن اور زبردست سماجی شعور ۔ یونیورسٹی کے اندر اپنے شروعاتی دنوں میں اس نے بایاں محاذ کی  پارٹیاں بھی جوائن کی تھی ۔ اسی لیے بولنے کے معاملے میں خاصی بے باک اور اپنے نکتے واضح کرنے کے سلیقہ سے آراستہ تھی ۔ سیاست ، سماج ، مذہب اور جرائم کی نفسیات پر گفتگوکرتےہوئےاس کی سنجیدگي کےساتھ ہی اس کے نکتے اس کی غیر معمولی ذہانت کے گواہ ہوتے ۔
         کبیر جب اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی باتیں شیئر کرتا تو اس کے دوست مسکرا کر رہ جاتے جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو لیکن جب وہ اس سے مل لیتے تو پھر کبیر کی خوش نصیبی  پر رشک کا اظہار ضرور کرتے اور یہ بات کبیرکو بہت اچھی لگتی ۔ ان میں سے ایک نے جب یہ کہا کہ اسے نورین کی بجائے خرد کہا کرو تو اسے یہ نام بہت پسند آیا اور پھر نورین خرد بن گئی ۔ بات یہ تھی کہ خود نورین کو بھی اپنی شخصیت سے جڑی یہ تعریف اچھی لگتی تھی ۔ ایسے کبیر ایک عام سا طالب علم تھا ۔ سیاست ، مذہب اور فلسفہ سے اسے کوئی زیادہ سروکار نہیں تھا ۔ وہ اپنے سبجیکٹ میں اچھا تھا اور دیکھنے میں ایسا کہ لڑکیاں اعتماد سے اپنی سہیلیوں سے اس کے بارے میں اپنے عشق کا قصہ بیان کرسکیں ۔ خرد کو اس کے مردانہ وجاہت نے ہی اس کے اتنا قریب کردیا تھا ۔
        خرد کی یادداشت بلا کی تھی  ۔ اسے پڑھنے کا بھی شوق بہت تھا ۔ کبیر اسے اپنے موضوع پر لاکر بات کرتا کہ لٹریچر میں تو کم از کم اپنی برتری ثابت ہو لیکن وہ ادب پر گفتگو کرتے ہوئے بھی کہيں سے کمزور نہ پڑتی ۔ خرد کی باتیں سن کر اسے " لندن کی ایک رات " کی شیلا گرین یاد آجاتی۔ ایک روز اس نے اس سے کہا ۔
" کبیر ! ہم سب اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ "
" خرد ! مجھے اس قسم کے سوالات الجھن میں ڈالتے ہيں ۔ اس لیے میں اس طرف سوچتا بھی نہیں "
" لیکن یہ مسئلے کا حل تو نہيں ہے  نا "
" ہاں ، لیکن میں بے مطلب الجھنا بھی نہیں چاہتا ۔ یوں بھی ہم سے پہلے لوگ سب کچھ کر کراکر تھک چکے ہيں "
" لیکن اس سے ہماری ذمہ داری ختم تو نہيں ہو جاتی ۔"
" خرد ! میں جب کبھی اس پر سوچتا ہوں کنفیوزڈ ہو جاتا ہوں "
" تو یہ کرو نا کہ سوچنے کی بجائے بس کرنا شروع کردو ۔ کوئي ایسا کام جس میں سب کی بھلائی ہو ۔ ہماری تمہاری اور سب کی ۔ میرا مطلب ہے انسانوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
      اسی درمیان کبیر کی  کال آگئی اور اسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔  
اس بیچ وہ دونوں کئی بارملے ۔ باتیں ہوئیں ، مناقشے ہوئے ، بحث و تکرار میں لڑائی کی نوبت بھی آئی لیکن ان کی محبت پروان بھی چڑھتی رہی ۔ خرد اس درمیان یہ کوشش کرتی رہی کہ کبیر زندگی کے اس افادی پہلو کو سمجھے جس پر وہ ایمان رکھتی ہے ۔ اس کبیر سے بلا کی محبت تھی اور اس معاملے میں اس کا کوئي اختیار بھی نہیں تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا ہم سفرایک عام سے فکر کا آدمی ہو جو بس کمانے کھانے کو زندگی سمجھتا ہو ۔
 کئي  دنوں بعد خرد نے باتوں باتوں میں کبیر سے پوچھا ۔
" کبیر ! ایسے تم کرنا کیا چاہتے ہو ؟ "
" پہلے تو بہت زیادہ متعین ہدف نہیں تھا ۔ بس نوکری کرنا چاہتا تھا لیکن اب ۔۔۔۔۔۔"
"لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
" اب تم سے ملنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے تمہارے نظریے سے اختلاف کرنا آسان نہیں تو کیوں نہ تسلیم ہی کرلیا جائے "
 خرد کی آنکھوں میں بجلی کی سی چمک آئی۔ اس نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پیار سے دباتے ہوئے کہا ۔
" کبیر اب تک تم اپنی مادی شخصیت کی وجہ سے میرے لیے مرکز توجہ تھے ۔ میں نے جب تمہیں دیکھا تھا تم مجھے سمارٹ کے ساتھ ہی ذہین لگے تھے ۔ لیکن آج جب تم نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے پوری دنیا مل گئی ۔ جان من ! تم اس راستے پر آگے بڑھو ، تمہاری  خرد سدا تمہارے ساتھ  ہوگی ،ہم اس دنیا  کو بدلینگے ۔ اونچ نیچ ، بھید بھاؤ اور تفریق کی لعنت کے خلاف ہم لڑینگے ۔ ہم سیاست کا مفہوم بدلینگے ۔ کبیر آج میں حد سے زیادہ خوش ہوں ۔ آج میں اپنے پاپا سے کہ سکوں گی کہ میں نے ایک ایسے مرد کو چنا ہے جو ان کی طرح ترقی پسند خیالات کا مالک ہے اور جو اپنی کوششوں سے بہتر سماج بنانے کا خواہشمند ہے  "
" ہاں خرد ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اب یہ زندگی ایک مقصد کے تحت چلے گی۔ تمہارا ساتھ رہا تو میں پہاڑوں سے گزر جاؤنگا  "
" کبیر! میں نے تمہیں منتخب کیا تھا ۔ تم میرا یقین مانو کہ وہ بھی میری خود اعتمادی تھی ۔ تم یہ سوچ کر خوش ہو سکتے ہو کہ تہمیں ایک لڑکی نے چنا لیکن میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوں وہ لڑکی میں تھی اور میرے دل نے جو کہا وہ میں نے کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اے کاش میری ہی طرح اس دیش کی ہر لڑکی کو اس کی اپنی  پسند سے اپنی زندگی کا ہم سفر چننے کی آزادی حاصل ہو تی ۔ "
" خرد ! ہم لڑینگے اس آزادی کے لیے ، تمہارے لیے ،اپنے لیے،سب کے لیے"
       پھر وہ دونوں خود اعتمادی ، اپنی مدد آپ اور انسانیت کی بھلائی کے بارےمیں دیر تک باتيں کرتے ۔ لمبی چوڑی اور کبھی ختم نہ ہونے والی باتيں ۔ " کبیر ! میں ایسے لوگوں کو نکما اور فالتو سمجھتی ہوں جو اپنا کام خود نہيں کر سکتے ۔ میں نے اپنی ایک لڑکی دوست سے اپنا تعلق اس لیے توڑ لیا کہ وہ ایک لڑکے کو چاہتی تھی اور  وہ یہ چاہتی تھی کہ میں اس لڑکے تک یہ بات پہنچاؤں کہ میری دوست اس پر مرنے لگی ہے ۔ میں نے اسے صاف لفظوں میں کہا تھا  کہ یہ ذلیل حرکت مجھ سے نہيں ہوگی ۔ اگر اس کے  اندر ہمت ہے تو جا کر اظہار عشق کرے ورنہ آہیں بھرنے والوں اور دکھڑا سنانے والوں سے مجھے کوفت ہی  ہوتی ہے ۔" اور کبیر مسکرائے بغیر نہيں رہ سکا تھا ۔
       آج سالوں بعد جب سماج سدھار کے کام میں کبیر کی شناخت بن گئی تھی ۔ عورت ، بچہ اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑائی جاری تھی اور کبیر کو ایک آئیکن کے روپ میں دیکھا جارہا تھا ۔ غریب لوگ اسے مسیحا سمجھ رہے تھے  ۔ اپنے آنگن میں بیٹھا کبیر خرد کی گود میں گلکاریاں لے رہے اپنے بیٹے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور خرد محلے کے ایک لڑکے کو سمجھا رہی تھی کہ اگر تم امتحان پاس کرنے کے لیے سفارش کے محتاج ہو تو بتاؤ زندگی کے امتحان کیسے پاس کروگے ۔ اور اسے وہ منظر بہت شدت سے یاد آرہا تھا جب خرد نے اس کے ایک دوست سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ۔ " جوہی  ! اگر وہ لڑکی تمہيں اچھی لگتی  ہے تو جاؤ اس سے خود اپروچ کرو ۔ جب ایک  معمولی لڑکی  سے اپنی بات نہيں کہ سکتے تو اس ظالم دنیا کے سامنے تمہاری زبان کیسے کھلے گی ۔ یوں بھی مجھے دلوں والا کام بالکل بھی پسند نہيں " ۔









     





Monday 15 September 2014

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر
ثناءاللہ صادق تیمی ، ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
   اناؤ سے لوک سبھا کے ممبر پارلیامنٹ جناب ساکشی مہاراج نے الزام لگایا ہے کہ مدارس کے اندر صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اگر یہ مدارس حب الوطنی سکھاتے ہیں تو ان پر ترنگا کیوں نہیں لہرایا جاتا ؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ہے لو جہاد کے لیے مسلم ممالک یہاں کے نوجوانوں کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سکھ لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 11 لاکھ روپے ، ہندو لڑکی سے شادی کرنے کے لیے 10 لاکھ روپیے ، جین لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 8 لاکھ روپیے اور دیگر برادری کی لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 6 لاکھ روپیے دیئے  جاتے ہیں ۔
   ابھی یوپی کی صورت حال انتہائي درجے میں پریشان کن ہے ۔ پورا ملک بالعموم اور اترپردیش بالخصوص آگ کے شعلوں پر کھڑا ہے ۔ بی جے پی کے بڑے بڑے نیتا گمراہ کن اور بھڑکیلے بیان داغ رہے ہيں ۔ ان کو معلوم ہے کہ اسی طرح سے ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ووٹ کی اس سیاست میں البتہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بولتی نہ جانے کیوں پوری طرح بند ہے ۔ ہمارے دیش کے نئے وزیر اعظم جنہیں اپنے بارے میں ایک پر ایک خوش گمانیاں ہيں ،اچھے دن لانے والے  وکاش پرش اس پوری صورت حال پر نہایت سمجھداری سے خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہيں ۔ لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کل کے پیٹ میں کس کے لیے کیا مقدر ہے ۔ اقتدار کا نشہ اتنا بھی نہ چھاجائے کہ آدمی آدمی ہی نہ بچے ۔
اس سے پہلے مرکز میں جب بی جے پی کی حکومت تھی تب اس وقت کے وزیر خارجہ ایل کے اڈوانی، جنہیں آج کل کسی قابل نہیں سمجھا جاتا ، نے بھی مدارس کو اپنے گمراہ کن اور لچر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنی ساری مکارانہ سیاست کے باوجود مدارس کا کچھ بگاڑ نہیں پائے تھے ۔ بی جے پی کے لوگوں کو شاید یہ بات نہیں معلوم کہ اگر مدارس دہشت گردی کے اڈے ہوتے تو پھر اس پورے ملک کا کیا ہوتا ! ساکشی مہاراج اگر ایک دن بھی ایک مدرسے کے اندر چلے جائیں اور وہاں کچھ پڑھ لکھ نہ بھی سکیں صرف وہاں کے ربانی اور روحانی ماحول ، پدارنہ شفقت ، بے مثال محبت اور انسانیت نوازي کا مشاہدہ کرلیں اور ان کے سینے میں دل بھی ہو تومارے شرم کے پانی پانی ہو جائیں کہ انہوں نے کیا کچھ کہ دیا لیکن سوال تو یہی ہے نا کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کے سینے میں دل ہوتا کب ہے ؟ کل اڈوانی جی بھی جانتے تھے اور آج ساکشی مہاراج اور دوسرے وہ نیتا بھی جانتے ہیں جو نفرت اور تفریق کی سیاست کرتے ہیں کہ مدارس کی چہار دیواری میں  قرآن وسنت کی تعلیم دی جاتی ہے ، انسانیت نوازی اور صبر و تحمل کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ، خدمت خلق کی ٹریننگ دی جاتی ہے ، ایمانداری اور صالح اقدار سے بچوں کو لیس کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت کے اظہار سے تو سیاست کا چولہا بجھ جائےگا اور  اقتدار کا لڈو مل نہيں پائے گا تو سچ کا اظہار کیوں کیا جائے ؟
         ساکشی مہاراج کے بیان کے اوپر مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا بیان آيا ہے کہ مہاراج کو تاریخ نہیں معلوم ورنہ ہندوستان کو آزاد کرانے والے ہمارے پروجوں میں بہت سے  علماء شامل تھے جو انہيں مدارس کے تربیت یافتہ تھے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر مدارس کے خوشہ چیں علماء آزادی کی لڑائی میں اپنی جانوں کا نذرانہ نہ بھی پیش کیے ہوتے تو بھی کیا مدارس کو یوں ہی دہشت گردی کے اڈوں سے موسوم کرنا جائز ہو جاتا ؟ مدارس کے خوشہ چینوں نے نہ صرف یہ کہ ملک کو آزاد کرایا ہے بلکہ پورے دیش کے سیکولر مزاج کو برقرار رکھنے میں بھی اپنی پوری حصہ داری نبھائی ہے ۔ ہندوستان کے لگ بھگ تمام کے تمام مدارس عوامی چندوں کے سہارے بغیر کسی حکومتی مدد کے چلتے ہیں اور سماج کے غریب، ناداراور بے بس بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں جس کی ذمہ داری ظاہرہے کہ حکومت کی ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مدارس کتنی بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ دیش کی بھی اور دیش کی ترقی کے راستے کھولنے کے معاملے میں بھی ۔ ایسے مجھے ذاتی طور پر ساکشی مہاراج کے اس بیان پر ہنسی ہی آئی کہ اگر مدارس کے اندر حب الوطنی کی تعلیم دی جاتی ہے تو ان میں ترنگے کیوں نہیں لہرائے جاتے ؟ میں خود ایک مدرسے کا فارغ ہوں ۔ مجھے آج تک ایک بھی مدرسہ نہيں ملا جہاں پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کے موقع سے ترنگا نہ لہرایا جاتاہو اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور جن من گن کے نغمے  فضائے بسیط میں نہ گونجتے ہوں ۔
    بی جے پی کے راج نیتا بھولتے جارہے ہيں کہ نفرت کی سیاست سے کرسی تو مل سکتی ہے لیکن دیش کا امن غارت ہو جائےگا اور امن و امان کے غارت ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ دیش کی ترقی رکتی ہے بلکہ دیش واسی کی زندگیاں بھی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہيں ۔ اتنے سارے مذاہب ، زبانیں اور علاقے والے ملک میں لوگ اگر ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور ایک دوسرے کے دین کا احترام کرتے ہيں تو اس کے پیچھے بلاشبہ ہمارے آباءو اجداد کی وہ حکمت پوشیدہ ہے جو انہوں نے اس دیش کو جمہوی اور سیکولر بنا کردکھلایا تھا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس دیش کو اصل خطرہ اقلیت کی انتہا پسندی سے نہیں اکثریت کی انتہا پسندی سے لاحق ہے ۔ بی جے پی کے راج نیتا آرایس ایس کی رہنمائی میں جس قسم کی سیاست کررہے ہيں اس سے پنڈت نہرو کے خدشات حقیقت کی طرف تیزي سے قدم بڑھانے لگے ہیں ۔ اس طرح کی سیاست نہ تو بی جے پی کے حق میں ہے اور نہ دیش کے حق میں ۔ عوام نے نریندر مودی کی قیادت کواس لیے بھی قبول کیا ہے کہ انہوں نے ترقی اور شفافیت کا وعدہ کیا تھا ، لوگ کانگریس سے اوب چکے تھے اور کوئی دوسرا ملکی پیمانے پر متبادل بھی نہيں تھا ۔ ظلم ، افواہ اور تشہیر کی سیاست پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ بی جے پی بھی اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ مجھے نہيں معلوم کہ اس بات کو کتنے لوگ سچ سمجھینگے یا تسلیم کرینگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت امن پسند اور آپس میں محبت کرنے والی ہے ۔ اس ملک کی مٹی میں رواداری ، محبت اور احترام باہم کی خوشبو ملی ہوئی ہے اور یہاں کا پورا تاریخی اثاثہ یہی بتاتا ہے کہ غیر جمہوری ، نفرت خیزاور اشتعال انگیز سیاست وقتی طور پر تھوڑا بہت کامیاب تو سکتی ہے لیکن وہ پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ مجھے اپنا ہی شعر یاد آتا ہے ۔

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر

کہيں یہ ملک ہی نہ ڈوب جائے 

Monday 8 September 2014

القاعدہ ، مسلمان اور ہندوستان
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی
    آئے دن ایسی خبریں اور واقعات لگاتار رونما ہورہے ہيں جن سے امت مسلمہ کی بے چین اور ڈانواڈول زندگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ کبھی بوکو حرام کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو کبھی داعش کی فتنہ پروری ، کبھی انڈین مجاہدین کا شوشہ تو کبھی القاعدہ کی بربریت ۔ اور ان سب کے سامنے آنے سے اور کچھ تو نہيں ہوتا ہاں اس امت کی شبیہ بگڑتی ہے ۔ سیدھے سادھے مسلمانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔ دینی اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ دنیا ایک خاص مشتبہ اور مشکوک نگاہوں سے مسلمانوں کودیھکنے لگتی ہے اور پوری امت خوف کی نفسیات کا شکار ہو جاتی ہے ۔
     القاعدہ کو عالمی سطح پر ایک شدت پسند اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد سے لے کر اب تک یہ تنظیم بطور خاص عتاب کا شکار رہی ہے اور عالمی سطح پر دہشت کی کاروائیوں کے سرے اس سے جوڑے گئے ہیں ۔ اس قسم کے بعض اقدامات کو اس نے خود بھی اپنا کارنامہ مانا ہے ۔ ایسے جب پوری دنیا میں دہشت گردی اور اسلام کو ایک ساتھ ملا کر دیکھا گیا ہے تب بھی عام طور سے یہ بات مانی گئی ہے اور اسے سراہا بھی گيا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان دہشت گردانہ تنظیموں سے رابطہ نہيں رکھتے ۔ یہ امن پسند اور صلح جو ہیں اور ہندوستان کی مشترکہ تہذيب اور رواداری کے اصولوں کو مضبوط کرتے ہيں ۔ ایسے میں ابھی جب القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی طرف سے ایک ویڈیو جاری کیا گیا ہے اور اس کے اندر یہ دھمکی دی گئی ہے کہ القاعدہ ہندوستان کے مختلف صوبوں بشمول گجرات میں اپنی شاخ کھولے گا اور اب ہندوستان کو باضابطہ ٹارگیٹ کرے گا تو عالمی سطح پر ایک پریشانی کی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ ملک عزیز کے سمجھدار لوگوں نے حکومت کو چوکسی برتنے اور خفیہ ایجنسیوں کو پوری طرح ہوشیار رہنے کے مشورے دینے شروع کردیۓ ہیں ۔ حکومت نے بھی اس مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے اور لگ بھگ کاروائی شروع ہوگئی ہے ۔ اس بیچ اس دھمکی کے آنے کے فورا بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی مرکز دیوبند نے کڑے لفظوں میں اس کی مذمت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان القاعدہ کے ذریعہ پھیلائی گئي گمراہیوں کے شکار نہیں ہونگے ۔
  اس سلسلے میں ہندوستان کے لیڈنگ نیوز پیپرز نے اس کو اپنے ایڈیٹوریل کا موضوع بنایا ہے اور لگ بھگ سارے معتبر انگریزی کے اخبارات نے جہاں اس دھمکی کو سنجیدگی سے لینے کی بات کہی ہے وہيں حکومت اور خفیہ ایجینسیوں سے یہ گزارش بھی کی ہے کہ دیش کے ایک خاص طبقہ ( ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے ) کو اس معاملے میں ناجائز طور پر نہ گھسیٹا جائے ۔ اس بات کا خاص خیال رکھاجائے کہ کوئی بے گناہ نہ پھنس جائے ۔ اس اعلان کے بعد ملک کے مسلمانوں کے اندر بطور خاص سراسمیگی پائی جارہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس خوف کو بے وجہ بھی نہیں قراردیا جا سکتا ۔ پچھلے کئی سالوں کے تجربات ہندوستانی میڈیا ، خفیہ ایجینسی اور پولیس محکمہ کے  متعصب رویے کی چغلی کھاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک لے دے کر ایک عدلیہ کا ہی معاملہ تھوڑا بہت تشفی بخش نظر آتا ہے جہاں سے مسلمانوں کو انصاف کی امید بھی رہتی ہے اور وہ عدلیہ کی طرف اسی نگاہ سے دیکھتے بھی ہیں ۔
   مسلمانوں کے اندر خوف اس لیے بھی تھوڑا زيادہ گہرایا ہوا ہے کہ ابھی مرکز میں آرایس ایس کے زير نگرانی چل رہی بی جے پی کی حکومت ہے جو عام حالات میں مسلمانوں کے بارے میں بہت اچھے خیالات کی حامل نہیں سمجھی جاتی ۔ نریند مودی کی قیادت میں چل رہی موجودہ حکومت نے جہاں مختلف ممالک سے تعلقات قائم کرنے اور اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کی سمت کچھ اچھے اقدامات کیے ہیں وہيں یوگی آدتیاناتھ جیسے متنازع فیہ لیڈر اور امت شاہ جیسے ملزمین کو پارٹی میں معمول سے زیادہ اہمیت دے کر ملک کی اقلیت کو عجیب و غریب قسم کی پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ یوپی کے اندر جس طرح سے لو جہاد کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے اور پورے ملک کو فرقہ وارانہ خطوط پہ جس طرح بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے اس نے ملک کے سیکولر اور سمجھدار طبقہ کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ ہر چند کہ بی جے پی نے لو جہاد کے ایشو کو باضابطہ طور پر اپنے ایجینڈا میں شامل نہيں کیا ہے لیکن ایک خاص طبقے کی طرف سے ایک خاص کمیونٹی کی لڑکیوں کو پھانسنے جیسی بات در اصل لو جہاد کی اصطلاح سے بچنے کے لیے ہی کہی گئی ہے ورنہ پارٹی کے ایجینڈے میں کوئی فرق نہيں آیا ہے ۔ پورے دیش میں بڑھ رہے فرقہ وارانہ جنون پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی بھی کافی معنی خیز ہو تی جارہی ہے ۔ سیکولرزم کی بجائے ہندوستانی پارلیمنٹ سے اس آواز کا بلند ہونا کہ ہندتوا اس دیش کی پہچان اور فخر ہے ، کم بڑی تشویشنا ک صورت حال کا غماز نہیں ۔ اس پر سے بھارتی جنتا پارٹی کے سربراہ امت شاہ کا یہ بیان بھی پارٹی کے کئی خفیہ ارادوں کی قلعی کھولتا ہے کہ اگر یوپی میں فرقہ وارانہ صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو آئندہ حکومت ان کی ہی بنے گی ۔
اس پوری صورت حال میں اگر القاعدہ کی طرف سے اس قسم کا کوئی ویڈیو جاری کیا جاتا ہے جس کے اندر اس ملک کے امن و امن کو سبوتاژ کرنے کی بات کہی جاتی ہے تو اسے کئی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد ہنوستان کے کمزور ، بے بس اور بے گناہ مسلم نوجوان پر ہی غازہ گرتا ہے ۔ اس لیے اگر سے عالمی صہیونی شازش کے طور پر اگر کچھ لوگ دیکھ رہے ہیں تو اسے اتنا بعید ازقیاس بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ جبکہ یہ معلوم بات ہے کہ ہندوستان کے شدت پسند فسطائی طاقتوں کا صہیونیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ بھی رہا ہے اور ایسا کرکے کئی سارے صوبوں میں اقلیت کے خلاف اکثریت کا ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کا ایک تجربہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہو بھی چکا ہے ۔
اس انتہائی گمبھیر صورت حال میں جہاں حکومت کی حکمت عملی بہت اہمیت رکھتی ہے وہیں امت کے باشعور اور سربرآوردہ طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں نوجوانوں کے اندر سے خوف کی نفسیات کو کھرچنے کی کوشش کریں وہيں ایسے تعمیری اقدامات بھی کریں جن سے پیشگی طور پر امت کے افراد کو ان منحرف افکار و خیالات کے مالک آرگنائزیشنس سے بچایا جاسکے ۔ وہیں پوری جوانمردی اور مکمل اعتماد کے ساتھ کسی بھی قسم کے  غیر منصفانہ رویے کے مقابلہ کے لیے  ملک کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے کے مطابق خود کو تیار رکھیں ۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کو اپنی شناخت ، حقوق اور وجود کی حفاظت کے لے نہ ختم ہونے والی جد و جہد کرنی ہی پڑتی ہے ۔ ہميں اللہ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ اس ملک کے امن و امان کو قائم رکھے ۔ دہشت پسندوں کے برے ارادوں پر پانی پھیرے اور عالمی سطح پر پریشان امت مرحومہ کی حفاظت کا سامان کرے آمین ۔