Wednesday 13 September 2023

 مولانا حشمت اللہ چترویدی رحمہ اللہ

ثناء اللہ صادق تیمی
مولانا حشمت اللہ چترویدی رحمہ اللہ کے نام سے کان بچپن سے آشنا رہا ۔ پہلی مرتبہ چترویدی صاحب کو اپنے گاؤں کے مدرسہ میں دیکھا ۔ مدرسة العلوم الإسلامية ، مرول میں بچوں کے سالانہ تقریری انعامی مقابلہ کے موقع سے اجلاس عام منعقد ہوا تھا ۔ آپ اسی میں بحیثیت مقرر تشریف لائے تھے ۔ آپ نے دیر تک تقریر کی تھی ، پروگرام ہال میں چند ہی غیر مسلم تھے ، آپ نے انہیں ہی اپنا مخاطب بنایا اور وید کی روشنی میں اسلام کی حقانیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت کی ۔ دوسرے دن سب سے زیادہ آپ ہی کی تقریر کا چرچا تھا ، ہر مکتب فکر کے مسلمان خوش تھے ۔ یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے لیکن ان کی تقریر سے جو فضا بنی تھی وہ اب تک ذہن کے کینوس پر تازہ ہے ۔
ہم جب جامعہ امام ابن تیمیہ میں داخل ہوئے تو وہاں سراج اللہ بھائی تھے ، معلوم ہوا کہ آپ چترویدی صاحب کے صاحب زادے ہیں ، ایک خاص قسم کی خوشی اور اپنائیت کا احساس ہوا ۔
بعد کے دور میں جب ہمارا دینی ، ملی اور سماجی شعور تھوڑا بڑھا اور دعوتی سطح پر ہم متحرک ہوئے تو چترویدی صاحب رحمہ اللہ کی بستی پرسا پریہار سیتامڑھی میں کئی مواقع سے حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا ، وہاں ان سے ملاقاتیں رہیں ، وہ مختلف موضوعات پر باتیں کرتے ، اپنی بعض تحقیقات پیش کرتے ، بعض چیزوں سے اپنا اختلاف درج کراتے اور دعائیں دیتے ۔
آپ سے ایک تفصیلی ملاقات 2013-14 میں جھارکھنڈ کے ڈالٹین گنج میں ہوئی ۔ اتفاق سے ایک ہی پروگرام میں ہم دونوں مدعو تھے ۔ آپ نے اپنے مخصوص انداز میں توحید و سنت اور اسلام کی حقانیت ثابت کی اور مجھے تاریخ اہل حدیث پر گفتگو کا حکم ملا ۔ پروگرام کے بعد دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔
آپ دعوتی سطح پر کافی سرگرم تھے ، پروگراموں میں جاتے اور قرآن و سنت کے ساتھ ہی وید وغیرہ سے استدلال کرکے اپنی باتوں کو اور زیادہ موثر بنا لیتے ۔ تقریر میں تفہیم کا رنگ غالب تھا ، دلائل سے لیس گفتگو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی ۔
زیادہ توجہ توحید پر ہوتی تھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو بہ دلائل جب ثابت کرنے لگتے تو منظر قابل دید ہوتا۔
چترویدی صاحب کی موت ایک متحرک داعی حق کی موت ہے ۔ ہمارے خطے کے لیے بطور خاص اور ملک کے لیے بطور عام یہ ایک بڑا خسارہ ہے ۔ وہ سرکاری اسکول کے ریٹائرڈ پرنسپل بھی تھے ، بہت سے لوگ انہیں اسی حیثیت سے جانتے ہیں ، انہوں نے اپنے طلبہ کی بھی اچھی تعداد چھوڑی ہے جو ان شاءاللہ تعالیٰ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہوں گے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ چترویدی صاحب کے ساتھ اپنے خاص فضل و کرم کا معاملہ کرے ۔ توحید و سنت کے اس شیدائی اور عظیم داعی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ۔ پسماندگان کو بطور عام اور بڑے بھائی ڈاکٹر سراج اللہ تیمی کو بطور خاص صبر جمیل دے ۔ آمین ۔

No comments:

Post a Comment