Thursday 24 April 2014

خارجی فکر اور موجودہ انتہا پسندی
ثناءاللہ صادق تیمی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
       عالم اسلام ان دنوں بڑی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ قدم قدم پہ مسائل کا انبار اور  خارجی سازشوں سے لے کر داخلی پریشانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز ہوتا جاتا  ہے ۔ یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے ۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئي سی  ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔  اس صورت حال کو سمجھنے اور اس سے گلو خلاصی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم خارجی فکر کو سمجھیں اور تاریخی طور پر اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیں ۔
              احادیث رسول اور آثار صحابہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو خارجی فکر در اصل اپنے آپ کو بافراط صحیح باور کرنے اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے  سے عبارت ہے ۔ جس کے نتیجے کے طور پر تکفیر کے فتوے ،ظلم کے ریلے اور  بغاوت کی آندھی آتی ہے لیکن اس کے اوپر دین پسندی اور تقوی و پرہیزگاری کا خوبصورت غلاف بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے جس سے عامۃ الناس کا دھوکہ کھاجانا زیادہ ممکن ہو جاتا ہے ۔ دین کا یہ مظہر جسمانی ہوتا ہے اور روح کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ اس کے بطن سے فتنے ، فساد ، خونریزی اور بغض و عداوت کے جراثیم جنم لیتے ہیں اور الفت و محبت ، خوشحالی و ارتقاء اور سماجی ہم آہنگی کی کلیاں نہ صرف یہ کہ  مرجھا جاتی ہیں بلکہ چمن کا چمن ہی زد میں آجا تا ہے اور ہر طرف تخریب و تہدید کے الو قہقہ لگانے لگتے ہیں ۔ اس سلسلے کی چند احادیث پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا ۔
               ایک حدیث بخاری شریف کے اندر حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ کی روایت سے آئی ہے کہ جب حضرت علی رضي اللہ عنہ نے یمن سے اللہ کے رسول کے حضور سونا روانہ کیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار گروہوں میں تقسیم کیا اور وہ تھے  الاقرع بن حابس الحنظلی ، عیینہ بن بدر الفرازي، علقمہ بن علاثہ العامری پھر بنی کلاب کا کوئي شخص اور زید الخیر الطائی پھر بنی نبھان کا کوئی ایک فرد۔ ابو سعید الخدری بتلاتے ہیں اس پر قریش والے ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا : آپ نجد کے صنادید کو نواز رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہيں ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایسا ان کی تالیف قلب کے لیے کیا ہے ۔ پھر ایک آدمی آیا ۔ اس کی داڑھی گھنی تھی ، گال نکلے ہوئے تھے ، آنکھیں گہری تھیں ، پیشانی اٹھی ہوئی تھی اور سر چھلا ہوا تھا ۔ اس نے کہا : اے محمد اللہ سے ڈرو۔آپ نے فرمایا : اگر میں اللہ کی فرماںبرداری نہ کروں تو اور کون کرے گا ۔ اللہ مجھے سارے زمیں والوں پر امین بناتا ہے اور تم لوگ مجھے امانتدار نہیں سمجھتے ۔  صحابی رسول فرماتے ہیں ۔ پھر وہ آدمی لوٹنے لگا توقوم کے ایک فرد نے اسے قتل کردینے کی اجازت طلب کی ۔خیال ہے کہ وہ حضرت خالد بن الولید تھے ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کی نسل سے ایسے لوگ ہونگے جو قرآن پڑھینگے اور ان کی گردن سے آگے نہيں اترےگا ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کرینگےاور انہيں اہل اوثان کہیںگے ۔ وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائینگے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ اگرمیں انہيں پالوں تو عاد کی مانند قتل کرونگا ۔ ( رواہ البخاری : 3344 )
     دوسری حدیث بھی حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے اور بخاری شریف ہی میں ہے کہ اسی بیچ کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ حصے تقسیم کررہے تھے ۔  آپ کے پاس بنی تمیم کا ایک آدمی ذوالخویصرہ آیااور بولا : اے اللہ کے رسول انصاف کیجیے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری خرابی ! اگر میں نہ انصاف کروں تو کون انصاف کرے گا ۔ تم تو ناکام و نامراد ہو جاؤ اگرمیں انصاف نہ کروں ۔ اس پر حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس شخص کی گردن اڑا دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، اس کے ایسے ساتھی ہونگے جن کی نمازاور روزے کے مقابلے میں تم میں کا ایک شخص اپنی نمازاور روزے کو کمتر خیال کرے گا۔ وہ قرآن پڑھینگے جو ان کی گردن سے نیچے نہيں اترے گا ۔ وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائینگے جیسے تیر کمان سےنکلتا ہے ۔ تیر کے اگلے پچھلے بیجچ والے تمام حصوں کو دیکھا جائے اور کچھ بھی نہ ملے ۔ جگر اور خون سے آگے نکل جائے ۔ ان کی نشانی ایک ایسا کالا آدمی ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی مانند ہوگا یا پھر گوشت کی مانند کہ ڈانواڈول ہے ۔ یہ لوگوں کے اختلاف کے وقت نکلیںگے۔ ( البخاری: 6163 )
      سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی ۔ میں نے کہا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے والد کا کیا ہوا ؟  میں نے کہا کہ ازارقہ نے انہیں قتل کردیا ۔ انہوں نے کہا : ازارقہ پر اللہ کی لعنت ۔ میں نے کہا صرف ازارقہ پر یا سارے خوارج پر ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، سارے خوارج پر ۔ میں نے کہا : بادشاہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے ساتھ جو کرتا ہے سو کرتا ہے ۔ سعید بن جمہان کہتے ہیں تو انہوں نے میرا ہاتھ لیا اور اسے زور سے دبایا اور کہا : اے ابن جمہان ، تمہیں سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر جاؤ اور جو کچھ تم جانتے ہو اسے بتاؤ، اگر وہ مان لیتا ہے تو ٹھیک اور نہیں مانتا تو اسے چھوڑ دو ۔ اس لیے کہ تم اس سے زیادہ نہيں جانتے ۔{ رواہ احمد (382/4) واللفظ لہ ، و ابن ماجہ (173 ) و حسنہ الالبانی ( السنۃ لابن ابی عاصم 905 ) }
      اسلام کی طویل تاریخ میں اس فکر نے بڑے پیمانے پر امت کو توڑنے ، پریشان کرنے اور اس کی شوکت کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے ۔ فتنہ ہمیشہ حق کا لباس پہن کر آتا ہے ۔ بظاہر ظلم کے خلاف آتا ہے ۔ حق کو غالب کرنے کے لیے آتا ہے ۔ لیکن یہ حق وہ نہيں ہوتا جو از روئے شریعت مطہرہ ثابت ہوتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اس کے مدعین اپنی طرف سے سمجھ لیتے ہیں ۔ اسی لیے احادیث کے اندر امیر کی اطاعت پر کافی زیادہ زور دیاگيا ہے اور فاسق و فاجر امیر کی فرمانبرداری کو بھی ضروری قرار دیاگیاہے کہ مبادا امن و امان کی صورت نہ بگڑجائے ۔ یہاں اس سلسلے کی چند احادیث پیش کی جاتی ہیں ۔
       حضرت عبداللہ بن عباس رضي عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کو اپنے امیر کے اندر کچھ ناپسندیدہ چیزنظرآئے تو وہ اس پر صبر کرے ۔  اس لیے کہ جو سلطان سے بالشت بھر الگ نکلا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئي ( البخاری :7053)
   حضرت زیدبن وہب عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد مفاد پرستی اور ایسی چیزیں ہونگیں جنہیں تم غلط جانوگے ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم ميں سے اگر کوئي اس وقت کوپالے تو آپ کیاحکم دیتے ہیں ؟  آپ نے فرمایا کہ تم اپنی ذمہ داری اداکرنااور اللہ سے اپنے حق کاسوال کرنا ۔ (  البخاری : 3603)
    حضرت نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے اس وقت کہ جب یزیدبن معاویہ کے وقت میں حرہ کا معاملہ چل رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ابوعبدالرحمن کے لیے تکیہ بچھاؤ۔ توانہوں نے کہا کہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث جو میں نے انہيں فرماتے سنا تھا سنانے آیا ہوں ۔ جس نے اطاعت سے ہاتھ اٹھایا اللہ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کی پاس کوئي حجت نہیں ہوگی اور جو مرگیا اور اس کی گردن میں بیعت نہيں تو وہ جاہیلت کی موت مرا ۔ ( مسلم :1851 )
  یہ چند احادیث ہیں ورنہ اس معاملے میں انہیں مفاہیم کی بہت سی حدیثیں آئی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ جب تک باضابطہ کفر کا صدور نہ ہو اور امراء نماز پڑھنا نہ ترک کردیں اور جب تک کہ وہ معصیت کا نہ حکم دینے لگیں ۔ اس وقت تک ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے ۔  کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی بغاوت سے سوائے فتنہ اٹھنے ، خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے اور شوکت اسلام کے کمزور ہونے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسلام کی نظر میں فتنہ کو روکنے کے لیے بعض مظالم اور کمیاں برداشت کرلی جائیں ، یہی حکمت اور دانائی کا راستہ ہے ۔
        تاریخ بتلاتی ہے کہ اس قسم کی ساری کوششیں مضرت رساں ہی رہی ہيں ۔ اب چاہے یہ کوششیں باغیانہ رہیں ہوں جن کا مقصد صرف حصول اقتدار رہا ہو یا پھر ایسی باغیانہ رہیں ہوں جن کا مقصد اصلاح احوال رہا ہو ۔ ہر دو صورت میں نتیجہ غلط ہی رہا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ان الحکم الا للہ کے ذریعہ استدلال کرکے فتنہ اٹھانے والوں کا گروہ رہا ہو یا حجاج بن یوسف کے خلاف اس کے مظالم کی داستان سنا کر اس کے خلاف بغاوت کرنے والے ابن الاشعث کا گروہ انجام کار صرف نقصان ہی ہواہے ۔ نقصان کی یہ داستان ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے بلوائیوں کی بدمعاشیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور یہی داستان یزید بن معاویہ کے خلاف اٹھنے والے اہل مدینہ کی کوششوں سے بھی باہر آتی ہوئی نظر آتی  ہے ۔ اس سے آگے نکلیے تویزید بن مہلب کی باغیانہ کوشش ہو یزید بن عبدالملک کے خلاف یا پھر محمد بن عبداللہ بن الحسن کی کوششیں ابو جعفر منصور کے خلاف اس طرح کی ہر ایک کوشش سے امت کا شیرازہ منتشر ہوا ہے ۔ طاقت گھٹی ہے اور بے مطلب جانوں کا زیاں ہواہے ۔ تاریخ کے صفحات بتلاتے ہیں کہ ان مساعی نے حق و انصاف کے حصول اور دفع ظلم و ناانصافی کے نام پر کتنا زیادہ ظلم و ستم کو بڑھاوا دیا ہے ۔  خارجی فکرو عمل کی خمیر میں بغاوت کے ساتھ ہی تکفیر و تنفیر کے اجزاء شامل رہے ہيں ۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تکفیر و تنفیر در اصل جہالت اور غرور کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔ اور اس باریکی کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کےاس اسوہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو خوارج سے  ان کی گفتگو میں روشن ہو کر سامنے آتا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا : میں تمہارے پاس مہاجر و انصار صحابہ کے پاس سے آیا ہوں ۔ اللہ کے رسول کے چچازادبھائی اور ان کے رشتہ داروں کے پاس سے آیا ہوں ۔ اور ان کے اوپر ہی قرآن نازل ہوا ہے تو وہ تم سے زیادہ بہتر اس کا مفہوم و مراد سمجھ سکتے ہیں ۔ اور ان میں سے کوئی بھی تم میں نہیں ہے ۔ {المستدرک للحاکم : (150/2) ، السسن الکبری للبیھقی : (309/9 )}
حق و انصاف کی خاطر راہ بغاوت پر نکلنے والے بھول جاتے ہیں کہ بغاوت و خروج تین شرطوں کے پائے جانے پر ہی ہے ورنہ نہیں ۔ اور تین شرطوں کا تعلق فعل ، اس کو انجام دینے والے فاعل اور اس  صورت حال سے ہے جس میں وہ انجام دیا گیا ۔ فعل میں شرط یہ ہے کہ اس فعل کا کفر واضح ہو اور اس میں تاویل کی کوئ گنجائش نہ ہو جیسے کوئي  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے ، اپنے آپ کو مسلمان نہ بول کر کسی اور دین کا ماننے والا بتلائے ، اسلام کو ظلم و تعدی کا مذہب بتلائے یا اس طرح کی بات کہے کہ اسلام آج کے زمانے کے لائق نہیں ہے ۔ اس طرح کی واضح صورتوں میں جہاں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسے افعال کفریہ ہیں اور ان میں تاویل کی کوئي گنجائش نہیں ۔ دوسری شرط کا تعلق فاعل سے ہے اور وہ یہ کہ حاکم جو کفریہ کام کررہا ہے اس کی کوئی تاویل ، کوئی زبردستی اور کوئي مجبوری کی کیفیت نہ بنتی ہو ۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں " تکفیر کا تعلق وعید سے ہے ۔ کیوں کہ ہر چند کہ آدمی کی بات اللہ کے رسول کے کلام کی تکذيب ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ آدمی کی شناسائی اسلام سے نئي نئی ہو ، اس کی نشوونما دیہاتوں میں ہوئی ہو ، اس لیے اس قسم کا آدمی صرف اپنے انکار کی وجہ سے کافر نہ گردانا جائيگا جب تک کہ اس کے اوپر حجت نہ ثابت ہو جائے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی نے نصوص جانا ہی نہ ہو یا اگر اس نے سنا ہو تو اسے اس کی صحت کا یقین ہی نہ ہو ۔ یا پھر اس کے سامنے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہو جس کی وجہ سے اس نے تاویل کی ہو اور تاویل غلط ہوگئي ہو ۔ میں ہمیشہ وہ حدیث یاد کرتا رہتا ہوں  جو صحیحین میں ہے اس آدمی کے بارے میں جس نے کہا تھا کہ اگر میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا پھر مجھے دور لے جانا اور سمندرمیں پھینک دینا ۔ اس لیے کہ قسم بخدا اگر اللہ میرے اوپر قادر ہو گیا تو مجھے ایسے عذاب سے دوچار کرے گا جو اس نے کسی کو نہ دیا ہو ۔ لوگوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔  اللہ نے اس سے کہا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا : میں تجھ سے ڈر رہا تھا۔ اور اللہ نے اسے بخش دیا ۔ اس آدمی نے اللہ کی قدرت اور ہلاک کیے جانے کے بعد دوبارہ اٹھانے جانے میں شک کیا۔ بلکہ اس نے یہ اعتقاد کیا کہ وہ دوبارہ نہ اٹھایا جائیگا۔ اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کفر ہے لیکن وہ جاہل تھا ، جانتا نہیں تھا ۔ وہ مومن تھا اللہ سے ڈرتا تھا کہ اللہ اسے سزا دے گا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ اور اہل اجتہاد میں سے تاویل کرنے والے اسوہ رسول کی پیروی کرنے والے تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں معاف کردیا جائے ۔  ( مجموع الفتاوی : 231/3 )
    جہاں تک صورت حال کا تعلق ہے تو یہ ضروری ہے کہ بری صورت حال کو بدلنے والا آدمی اس صورت حال کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ اس کا مکلف ہی نہیں ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ( البقرۃ: 286 )  اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اگر میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے اس پر عمل کرو"  اور دوسری شرط یہ ہے کہ جو صورت حال ہو اس کے بعد اس سے بری صورت حال پیدا نہ ہو اور اس بات پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہے ۔
          اسلام کے ان احکام ، تاریخ کے حقائق اور بغاوت کے ان شروط پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بغاوت و تکفیر کے یہ راستے نہ تو اسلامی رہے ہیں اور نہ کسی بھی شکل میں بہتر نتیجہ دینے والے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ تاریخ کے پیٹ میں موجود عبرت کی ہزاروں مثالیں پڑی ہوئی ہيں اور انسان انہیں غلطیوں کو دہرا رہا ہے ۔
        آج وہ مسلم دنیا جہاں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بغاوت و خروج کے فتنے سر اٹھا رہے ہیں اور سارا امن و امان غارت کرکے رکھا ہواہے تو وہيں وہ مسلم معاشرہ جہاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں اقتدار نہیں وہاں تکفیر و تفریق کی  چھریاں گھمائی جارہی ہیں ۔ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ اپنی شیخی بگھارنے میں لگا ہوا ہے اور ایسے ایسے فتوے صادر کیے جارہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ علماء کی قدر گھٹائی جارہی ہے اور ایسے ایسے نام نہاد علماء منصب فتوی پر متمکن ہیں جنہيں فتوی نویسی کے اصولوں کی کوئی خبر نہیں ۔ دین کے وہ پہلو جن کا تعلق نرمی ، حکمت ، محبت ، انسان دوستی ، صبر ، تحمل اور عفو و درگذر ہے انہيں بالکلیہ فراموش کیا جارہا ہے اور جن کا تعلق وعیدوں سے ہے انہیں زبردستی سیاق و سباق سے کاٹ کر تکفیر و تفریق کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ امت راہ اعتدال کو ترس رہی ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی علوم کے بحر نا پیدا کنار میں شناوری سے محروم جہاں نام نہاد انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کا رول ہے جو اپنے ذہن اور خیال کے مطابق دین کا قالب تیار کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور جو کوئي اس راہ میں آتا ہے اس پر تکفیر کے گولے داغ دیئے جاتے ہیں ۔ وہیں ان مسلک و گروہ پرست علماء کا بھی کم ہا تھ نہیں ہے جو دین کی بنیادوں سے تو اچھی واقفیت نہیں رکھتے البتہ احکام کے بعض مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے تفریق و تکفیر کی کھیتی کرتے   اور مزے سے اپنی دنیا بنا تے  ہیں ۔ مسلم ملکوں میں ایسا کرنے والے اپنی عزیمت سمجھ کررہے ہيں تو غیر مسلم ملکوں میں ایسا کرنے والے اپنی مظلومیت کا رونا روکر کررہے ہیں جبکہ ہر دو جگہ حمکت ، محبت ، نصیحت ، بہتر لائحہ عمل اور کارگر طریقوں سے ان سے زیادہ بہتر نتائج کا حصول ممکن ہے ۔ خارجی فکر کی بنیاد جہالت ، احساس تقوی و پرہیزگاری ، غرور اور تشدد ہے اور بد قسمتی سے آج کی مسلم دنیا اور مسلمانوں کے پاس ہلاک کرنے والے یہ اوزار فراوانی کے ساتھ دستیاب ہیں ۔ اسلام کی سربلندی اور کفر و لادینیت کی بیخ کنی  کے نام پر چلائے جانے والی تحریکوں کے فدائی اے کاش اس اسلام کو جانتے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہے اور جو نفرت کے بجائے محبت اور تششد کے بجائے حکمت کا علمبردار ہے ۔








Tuesday 15 April 2014

غزل
ساگرتیمی
وفا پرست جفاؤں کی زد میں آئیگا
چراغ ہے تو ہواؤں کی زد میں آئیگا
تجھے خبر ہے معالج بھی کاروباری ہے
مریض شخص دواؤں کی زد میں آئيگا
غریب آنکھوں میں حسرت بھری ہوئي ہے بہت
امیر اب کہ بلاؤں کی زد میں آئیگا
تجھے ہے ظلم سے لڑنے کا عارضہ لاحق
تو دیکھ لینا خداؤں کی زد میں آئیگا
اسے بھروسہ ہے قسمت پہ ، شک کا بندہ ہے
مجھے خبر ہے " دعاؤں " کی زد میں آئیگا
بہت حسین ہیں آنکھیں کسی کے چہرے پر
نہ دیکھ ورنہ اداؤں  کی زد میں آئیگا
مجھے یقین ہے ساگر خدا کی ہستی پر
جفا پرست جفاؤں کی زد میں آئیگا



غیر علماء دعاۃ
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی  110067
        تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ علماء اسلام کے شانہ بشانہ اور دوسرے مسلمانوں نے بھی انجام  د یا ہے ۔ اسلام کے شروعاتی دور کو نگاہوں میں رکھا جائے تو اس میں تاجر حضرات کا زیادہ ہی کردار نظر آئیگا ۔ یوں بھی اسلام ان معنوں ميں کوئی فلسفہ یا تھیوری نہیں جن معنوں میں فلسفہ اور منطق کو سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام توکارآمد زندگی  جینے ، آخرت سنوارنے اور بہتر اخلاق و کردار کے ساتھ امن و عافیت کی راہ پر چلتے ہوئے اللہ رب العزت کے مطابق اس ادھار  کی زندگی کو بتانے سے عبارت ہے ۔ یہ زندگی کا وہ دستور ہے جو انسان کو اندر سے مخلص اور باہر سے باعمل بناتا ہے ۔ جو انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے ۔ خدمت خلق پر ابھارتا ہے ۔ صرف ایک اللہ کی پرستش کی دعوت دیتا ہے ۔ ظلم کو ملیامیٹ کرنے اور انصاف کو قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ زندگی کے ہر معاملے میں خوف خدا سے دامن بھرے رکھنے اور مفاد پرستی سے روکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ماننے والے تجارت پیشہ افراد جہاں جہاں گئے لوگوں نے ان کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا ۔ باعمل مسلمانوں کو دیکھ جن میں علماء اور غیرعلماء سب شامل تھے ، لوگوں نے اللہ کے اس پیغام کو قبول کیا اور دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو ئے ۔
        غیر عملماء دعاۃ کی تاریخ بہت بھرپور اور زبردست ہے ۔ اس میں در اصل اس اسلامی تربیت کا اچھا خاصا حصہ رہا ہے جو عام طور پر مسلمان بچوں  کو ان کے گھروں میں ملتی  رہی ہے ۔ دعوت کے علاوہ بھی اسلامی علوم کی ترویج واشاعت میں غیر علماء افراد کا کردار روشن رہا ہے ۔ آج کی اس سائنٹفک دنیا میں جسے بجاطور پر نالج اکسپلوزن کا دور بھی کہا جاتا ہے ، اس طرف آکر غیر علماء افراد کی دلچسپی نہ صرف یہ کہ اسلامی علوم اور اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھی ہے بلکہ ان کے اندر دعوت اسلامی کا جذبہ بھی پروان چڑھا ہے ۔ مختلف ملکوں میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو باضابطہ علماء نہیں ہيں لیکن جن کے اندر اسلامی علوم اوردعوت کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے ۔ انتہا پسند ، کم فہم اور کم ظرف قسم کے بعض علماء کی جانب سے ان کی  مخالفت بھی ہورہی ہے جو ظا ہر ہے کہ اپنی ناجائز چودھراہٹ کے ختم ہو جانے کے اندیشے سے پریشان ہيں ۔ اس سلسلے میں بعض باشعور علماء کا کردار بلاشبہ قابل صد ستائش ہے کہ انہوں نے ان کا خیر مقدم بھی کیا ہے اور انہیں کام کی سنگینی سے بھی باخبر کیا ہے اور ساتھ ہی  سنجیدگی اور متانت اپنانے کی تلقین کی بھی  ہے ۔
            ذاتی طور پر مجھے دہلی میں اس دعوت سے جڑے بہت سے نوجوان مسلمانوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملا ہے ۔ ان کے اندر شدید تڑپ ، گہرا احساس ، بھرپور اخلاص اور کام کرنے کا انتھک رویہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ اللہ کے یہ بندے ہر اتوار کو مختلف پارکوں ، بازاروں اور دوسرے عوامی جگہوں کا دورہ کرکے قرآن حکیم اور احادیث کی کتابوں کی تقسیم کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم حضرات تک صحیح اسلام پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسٹریٹ دعوت کا یہ نظریہ انتہائي درجے میں کارگر اور مفید ہے ۔ انفرادی ملاقاتوں ، بات چيت اور گفتگو سے وہ مدعو کے مسئلہ کو بھی سمجھتے ہیں اور انہيں سمجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ماشاءاللہ کامیابی بھی پاتے ہیں ۔ ان کا نیٹ ورک آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے ۔ اللہ کا دین لوگوں تک پہنچ رہا ہے اور ماشاءاللہ توحید کی دعوت عام ہورہی ہے ۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ذرائع کا استعمال کرکے یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہيں ۔ ان کی باتیں ایک ایک گھرمیں پہنچ رہی ہیں اور خوب اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ بعض علماء ان کی بعض نادانیوں اور فروگذاشتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ان کے خلاف محاذ کھولنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ ایسےلوگوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ اپنا کام لینے والا ہے لےہی لے گا ۔ آپ جب اس کام کے لیے اخلاص کے ساتھ میدان میں نہیں آئينگے تو اللہ کسی  نہ کسی سے تو یہ کام لے گا ہی اور وہ لے رہا ہے ۔ بلاوجہ کی مخالفت کرکے اپنی عاقبت بگاڑنے کا کام نہ کریں ۔ جہاں جہاں غلطی نظر آئے وہاں ناصحانہ تنبیہ کی  ضرورت بھی ہے اور یہ آپ کا فریضہ بھی  ہے ۔
       دعوت سے جڑے ہمارے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ بھی بہر حال علماء نہیں ہیں اس لیے خا ص طور سے فتوی وغیرہ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہ لیں اور صالح اور صاحب علم علماء کی نگرانی ہی میں دعوت کی یہ ذمہ داری ادا کریں ۔ یہ نوجوان بڑا اثاثہ ہيں ۔ اگر ان کی صحیح تربیت ہو جائے تو یہ روایتی علماء سے زیادہ دعوت کا کام کرسکتےہیں ۔ اس لیے کہ ان کی رسائی بھی روایتی علماء سے کہيں زیادہ ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق دے  ۔ آمین









Sunday 13 April 2014

نیک مطلب بے وقوف
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
       ہمارے دوست بے نام خاں ایک ایک پر ایک تھیوری اور فلسفہ دیتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ انہيں بھی تھیوری باز کا لقب دے دیا جائے لیکن وہ اپنے لیے خود ہی اتنے القاب و آداب استعمال کرتے رہتے ہیں کہ ایسا کرنے کا کوئی مطلب بھی نہیں بن پاتا ۔ ہمارے دوست کے حساب سے تھیوری بنانے ، پیدا کرنے میں انہيں جتنی دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ان سے کہیں زیادہ انہیں منوانے کے لیے  پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ حالانکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ تھیوری پیدا کرنا آسان ہے لیکن تھیوری کو تھیوری کی حیثيت سے منوا لینا آسان نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو اگر کوئي تم سے بات کرتے ہوئے کہے کہ آپ بہت سمجھدار آدمی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ تمہیں ہوشیار سمجھ رہا ہے ۔ پھر وہ سمجھدار اور ہوشیار کا فرق بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سمجھدار آدمی بس سمجھدار ہوتا ہے ۔ وہ چیزوں کو صحیح طریقے سے سمجھتا ہے اور غلط سلط رویے نہیں اپناتا ۔ ایسا آدمی اصلا شریف بھی ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس ہوشیار آدمی کے اندر منافقت اور چاپلوسی کے عناصر پائے جاتے ہیں ۔  وہ معاملہ فہم تو ہوتا ہے لیکن اس کا استعمال عموما غلط طریقے سے اپنے مفاد کے حصول کے لیے کرتا ہے ۔ ایسا آدمی بالعموم شرافت کی نعمت سے محروم ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی بات کرتے ہوئے تم سے کہے کہ آپ کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ پائي جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آدمی تمہیں مکمل معنوں میں چالباز ، ذلیل اور بے ہودہ سمجھ رہا ہے ۔ اگر وہ زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو تو تمہيں کہے گا کہ آپ تو سیاسی آدمی ہیں ۔ اور اس طرح تم ناراض ہو سکتے ہو لیکن پڑھا لکھا آدمی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تمہیں اس طرح بے وقوف بناتا ہے کہ بات بھی بن جائے اور بد مزگی بھی نہ ہو ۔ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ میرے بھائی آج کی دنیا استعاروں پہ ہی چل رہی ہے ۔ اور یوں بھی پڑھا لکھا ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدمی غلط سلط چیزوں کو تہذیب سے رکھنا سیکھ جاتا ہے ۔ مہذب انداز میں جھوٹ بولنے کا ہنر جان لیتا ہے ۔ گالی گلوج میں اعتدال و توازن پیدا کرلیتا ہے اور عام فہم الفاظ کی جگہ زیادہ نوکیلے لیکن زرا دیر سے سمجھ میں آنے والے الفاظ استعمال کرنے لگتا ہے ۔ غالب کو جب ذوق سے چھیڑ کرنی تھی تو انہوں نے اپنی لیاقت کا کتنا صحیح فائدہ اٹھایا ۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
کہا جاتا ہے کہ جب سراج الدولہ کے پاس اس کے قتل کا فرمان آیا تو اس نے بڑے ہی اعتماد کے عالم میں پڑھا تھا ۔
لاؤ تو قتل نامہ ذرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئي
سراج الدولہ کا واقعہ تو خیر بہادری ، جوانمردی اور شجاعت و بسالت کا غماز ہے لیکن تاریخ میں استعاروں کے استعمال کے ایک پر ایک نمونے ملتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں بادشاہوں ، جابر حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز اٹھانا بہت مشکل ہوتا تھا ۔ ایسے میں پڑھے لکھے لوگ استعاروں کا ہی استعمال کرتے تھے اور وہ انسانوں کی بجائے جانوروں کے استعاروں سے کام لیتے تھے ۔ جنگلات اور جانوروں کے کرداروں کے ذریعے سماج کی تصویر کشی کی جاتی تھی اور اس طرح بادشاہ وقت کو نصیحت کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا۔ عربی زبان و ادب کی شاہکار تصنیف کلیلہ دمنہ اسی سلسلے کی روشن اور مضبوط کڑی ہے ۔ یہ کتاب اصلا سنسکرت سے فارسی اور فارسی سے عربی میں منتقل کی گئی ہے لیکن کمال کا اسلوب ہے اس کتاب کا ۔ کبھی پرانی ہونے والی نہیں ۔ عباسی دور کی یادگار ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ عربی ہندوستانی ادیب مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کتاب کو کئی ایک بار پڑھا تھا ۔ خیر یہ باتیں تو از راہ تذکرہ آگئیں ورنہ یہ سچ ہے کہ جو سماج جتنا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوتا جائیگا اس کے اندر استعاروں کا نظام اتنا ہی زیادہ مستحکم ہوتا جائیگا ۔ در اصل تعلیم و تہذیب کے بعد بولنا اتنا آسان نہيں ہوتا ۔ سوچنا پڑتا ہے بولنے کے لیے ۔ آدمی اگر پڑھا لکھا اور باشعور نہ ہو تو وہ بغیر سوچے بولتا ہے اس لیے بھر مطلب بولتا ہے ۔ پڑھنے لکھنے کے بعد عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ انسان بولے گا تبھی جب تول چکا ہوگا ۔ اسی لیے زیادہ پڑھے لکھے لوگ عام طور سے تقریر نہیں کرپاتے اور معمولی لوگ خوب تقریریں کرتے ہیں ۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگ بھی جب زیادہ بولنے لگتے ہیں تو لوگ انہيں جاہلوں کی صف میں ہی رکھ کر دیکھنے لگتے ہیں ۔ اور کمال یہ ہے کہ زیادہ بولنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی اول فول ہی بکتے ہیں ۔ اسی لیے کبھی کبھی جاہل لوگ بھی کم بولنے کی عادت ڈال کر اپنے آپ کو دانشمندوں کے زمرے میں رکھوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے اندر بعض اساتذہ بھی اسی فارمولے پر عمل کرتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ خاصے کامیاب بھی  ہوتے ہیں ۔
خامشی چھپاتی ہے عیب اور ہنر دونوں
شخصیت کا اندازہ گفتگو سے ہوتا ہے
ایک معروف یونیورسٹی کے صدر شعبہ کے بارے ميں یہ بات خاصی مشہور تھی کہ تقریری امتحانات میں وہ کچھ بولتے ہی نہیں تھے اور اگر کہیں کوئی بات بحث میں آگئي تو وقفے وقفے سے صرف سراٹھا کر مسکرالیتے تھے ۔ اور جب ایک بار بولنے کی مجبوری آگئي تو ان کے شاگردوں کو بہت تکلیف ہوئي کہ سر کو کیوں بولنے پر مجبور کیا گیا جب سر کی مرضی نہیں تھی ۔ ایسے یہ وہ شاگردان تھے جو ان کی جی حضوری کے ذریعے کسی نہ کسی طرح پروفیسرشپ کے متمنی تھے ۔ ورنہ بقیہ طلبہ اور اساتذہ تو مزے میں تھے ۔ یوں بھی بڑے لوگوں کی چوری پکڑ لینے کے بعد چھوٹے لوگ مزہ لینے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔
       ہمارے دوست نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں اگر تمہیں کوئي یہ کہے کہ آپ بہت نیک آدمی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ بے وقوف ہیں ۔ آپ کو ٹھگا جاسکتا ہے ۔ آپ کے اندر چونکہ معاملہ فہمی نہيں ہے اس لیے اللہ والے بنے ہوئے ہیں ۔ موقع نہيں ملا اس لیے پارسا ہیں ۔ دماغ نہيں کہ کچھ قابل ذکر کارنامہ انجام دے سکیں اس لیے شرافت اور نیکی کا بت ڈھوکر اپنے آپ کو کسی طرح تسلی دینے کی کوشش کررہے ہيں ۔ جو آدمی تمہيں نیک کہ کر تمہاری تعریف کرتا ہے تمہارے پاس سے جب اٹھتا ہے تو سب سے پہلے وہ تمہيں گالی دیتے ہوئے بیوقوف ہی کہتا ہے ۔ اب پچھلے دنوں کی بات ہی کو دیکھ لو ہمارے دوست ہیں ایک مولانا ۔ ان سے لاکھ کہا کہ اپنے بیٹے کی شادی میں کچھ نہ کچھ ڈیمانڈ ضرور رکھیں ۔ لیکن ان کی نیکی ان کے آڑے ہاتھوں آگئی اور اب بے چارے رونا روہے ہيں ۔ سارا سماج ان پر تھو تھو کر رہا ہے اور بے چارے چہرہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔ ڈیمانڈ کیا ہوتا تو کم از کم دوچار لاکھ تو مل ہی جاتا ۔ لڑکی والے بات کرتے ہوئے کہ رہے تھے کہ بے وقوف بنا دیا ۔ ایک مرتبہ ہمیں اپنے ایک شناسا کے کاموں میں خلوص و للہیت اور افادیت کی حصہ داری نظر آئی اور ہم  نے انہیں خوش کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا کہ بھائی آپ تو ماشاءاللہ کافی نیک ہیں ۔ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایسی توقع نہيں تھی ۔ میں نے کہا کہ لیکن میں نے تو کچھ ایسا غلط نہیں کہا ۔ دل نے جو محسوس کیا زبان نے ایمانداری سے ادا کردیا۔ اس پر وہ اور ناراض ہوگئے اور کہا : اس کا مطلب آپ مجھے دل سے بے وقوف سمجھتے ہیں ؟  سماج میں نیک کا مطلب بے وقوف ہی ہوتا ہے اسی لیے جس کو موقع ملتا ہے وہی اپنے حساب سے نیک آدمی کو دانشورانہ مشورہ دے ڈالتا ہے ۔ نیک آدمی کو صرف بے وقوف سمجھا جائے تو چلو چلے بھی لوگ ایسے لوگوں کو کمزور بھی کم نہیں سمجھتے ۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی ایسا کرکے آدمی گھاٹے کا سودا بھی کرتا ہے ۔ اصل میں کچھ لوگ جو نیک نہیں ہوتے ہیں وہ بھی نیکوں والی صورت بنا کر لوگوں کو الٹا دھوکہ دیتے ہیں ۔ میرے بھائی نیک ہونے کا یہ معاملہ ہر طرح سے پیچیدہ ہے ۔ اسی لیے نہ تو ہم نیک ہیں اور نہ کسی کو نیک ہونے یا بننے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ آپ کو اگر نیک بلفظ دیگر بے وقوف بننا ہے تو آگے آپ کی مرضی ۔ ہمارے مدرسے کے  زمانے میں کسی طالب علم کے نیک ہونے کا مطلب بے وقوف ہی ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست اپنا سارا سامان ایک مسافر کے حوالہ کرکے ٹکٹ لینے گئے ۔ واپس آئے تو مسافر اپنے سفر پر نکل چکے تھے ۔ ہمارے دوست مدرسہ پہنچے تو انہوں نے اپنا واقعہ بتلاتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ  اسی درمیان اس مسافر کی ٹرین آگئی ہوگی اور اس  بے چارے نے  ٹرین پکڑ لیا ہوگا ۔ ہم تمام لوگوں نے ان کی اعلا ظرفی کو سلام نہیں کیا تھا جناب ۔ ہم کہ رہے تھے کہ ہمارے دوست نیک ہیں اور ہم سب اس لفظ کا معنی بھی سمجھ رہے تھے ۔