Wednesday 13 September 2023

 میں نے محسوس کیا ہے کہ بر صغیر میں وہ لوگ بھی بہ آسانی تمام دینی معاملات میں رائے زنی کرتے ہیں جنہیں دین کی بنیادی معلومات بھی نہیں ہوتی ۔ اچھا ، کمال کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ اپنے تخصص کے معاملے میں بڑا محافظانہ ذہن رکھتے ہیں ، کسی کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ ان کے تخصصات میں دخل در معقولات کرے۔ ابھی حج کے اس موسم میں مجھے بحمد اللہ مرکز بصیرت مکہ مکرمہ کے زیر اشراف کچھ دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا ۔ بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں سے مل کر یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ تھوڑا کچھ جان کر خود کو بڑا سمجھنے کا ذہن بہت زیادہ ہے ، اردو انگریزی کی مدد سے قرآن کریم اور بعض دینی کتابیں پڑھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام علماء سے بڑھ کر انہیں جانکاری ہے ۔ عام حالات میں وہ مولویوں کو کمتر سمجھتے ہیں ، عجیب تحقیر آمیز انداز میں گفتگو کرتے ہیں پھر جب ان پر کھلتا ہے کہ سامنے والا تو واقعی مضبوط قسم کا مولوی ہے تو پھر صورت حال دیدنی ہوتی ہے ۔

ہمارے یہاں ادعا اور خود کو تیس مار خاں سمجھنے کا زاویہ نیا نہیں ۔ یہ خرابی واقعی بڑی ہے اور اس کے بڑے خطرناک نتائج رونما ہوتے ہیں ۔ آپ جسے کمتر سمجھتے ہیں اس سے رہنمائی لے نہیں سکتے ، خود اس قابل نہیں ، اس لیے عجیب و غریب قسم کی گمراہیوں میں پڑے رہتے ہیں اور احساس بھی نہیں ہوتا ۔
علماء کا قصور یہ ہے کہ عوام کی تربیت کا جیسا ٹھوس نظام بنانا چاہیے تھا ، ویسا نظام ہم نے بنایا نہیں ہے ۔ معتبر علما عوام کی پہنچ سے بھی باہر ہیں ، پر جوش مقررین یا عام سے ملا جی لوگوں کو دیکھ کر اگر وہ علما کے بارے میں کوئی زاویہ بنا لیتے ہیں تو انہیں کچھ ویسا غلط بھی نہیں کہا جا سکتا ۔
یہ دو طرفہ معاملہ ہے ۔ علماء سے عوام مستغنی نہیں ہو سکتے اور علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح کا فریضہ انجام دیں ۔
ساگر تیمی

No comments:

Post a Comment