Thursday 31 October 2013


سعودی عرب ، عالم اسلام اور ہندوستانی مسلمان
ثناءاللہ صادق تیمی  ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
     یوں تو پوری دنیا ہی افواہوں اور خوش فہمیوں کے زیر اثر جیتی ہے لیکن اس معاملے میں بر صغیر ہندو پاک کے اندر جینے والے مسلمانوں کو خصوصیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ  ہے کہ یہاں کا مسلمان زیادہ تر اپنے دینی معاملات میں خرافات کا شکار ہے اسے تحقیق سے مطلب نہیں ۔ سیاسی معاملات میں افواہوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور قاتل تک کو مسیحا اس لیے سمجھ لیتا ہے کہ کچھ ضمیر فروش قسم کے لوگ اسے مسیحا بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔ اور بین الاقوامی امور کو سمجھے بغیر خوش فہمیوں کے سہارے اپنی نہ صرف یہ کہ رائے قائم کرلیتا ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرنے لگتا ہے۔ سعودی عرب ایک موحد اور کامیاب حکومت ہے ۔ اس نظام کی اپنی خصوصیات اور اپنے امتیازات ہیں ۔ حکموت کی اپنی ترجیحات اور اپنے دینی و دعوتی مقاصد ہیں اور اسے پتہ ہے کب کون سا موقف اس کے دور بیں مقاصد کو بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے معاون ثابت ہوںگے ۔ اور اب تک کی تاریخ بتلاتی ہے کہ سعودی عرب کا سیاسی موقف نہ صرف یہ کہ اسے مضبوطی فراہم کرتا ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے حق میں فوائد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن معاملہ لچر فکر کے مالکوں کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ اندھے عقیدت مندوں کو صدام حسین کا ہر اقدام بہادری لگتا ہے ۔ ایران کی ہر بے وقوفی شجاعت کی تاریخ مرتب کرتی ہے لیکن سعودی عرب کا خالص دانشمندانہ قدم بھی بے وقوفی اور جہالت کا آئینہ دار ۔ بات اصل یہ ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو وابستگی یا پھر ناوابستگی کی نظرسے دیھکتے ہیں اور وہیں سے فیصلے بھی لیتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ در اصل حقائق کی بجائے فسانوں کی اس دنیا میں جیتے ہیں جو اگر حقیقت بن جائیں تو خود وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں ۔
            مصر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مصر عالم اسلام کا وہ واحد ایسا ملک ہے جہاں نام نہاد دانشوران کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے ۔ اخوان المسلمین کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ضرور ہے لیکن اس  تاریخ کے  بہت سے صفحے تشدد اور اپنے قائم کیے ہوئے خاص نظریے پر حماقت آمیز اصرار سے بھی عبارت ہيں ۔ مصر کے اندر جہاں نئی تعلیم سے آراستہ نام نہاد دانشوران کا وہ طبقہ ہے جو سوائے لبرل ، سیکولر اور لادین حکومت کے سوا کچھ نہيں چاہتا وہيں ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو خرافاتی دین کے علاوہ اور کسی دینی جماعت کے حق میں جانے کوتیار نہیں ۔ جو لوگ مصری اخبارت کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لیے صورت حال کی سچائی سے واقف ہونا بعید بات نہيں ۔ ایسے میں جب کسی ملک کا فوجی نظام اپنے ہاتھ میں اختیارات لے لے اور وہ بھی تب جب  عوام سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف نعرہ بازیاں کررہے ہوں کون سا موقف درست ہو سکتا ہے وہ یقینا قابل تفکیر معاملہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر بلاشبہ اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر اترے لوگ اسپانسرڈ تو نہیں ہیں لیکن کون سا موقف درست ہو سکتا ہے اس پر سوچنا اس سے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذہن میں رکھنا ضروری بھی ہے کہ فوج کے ہاتھ میں جب نظام آجا ئے تو اسے واپس لے پانا آسان نہیں ہوتا ۔ اور جب اس رسہ کشی میں ہزاروں جانیں تلف ہوچکیں ہوں تو یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے کہ کیا کیا جائے ۔ اگر انسانی جانوں کی قیمت ہے اور انتشار سے ملک کمزور ہوتا ہے اور دشمنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں  تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب کا موقف در اصل نہ صرف یہ دانشمندانہ اور مضبوط ہے بلکہ اس سے کئی سارے مفاسد کے راستے بند ہو جاتے ہیں ۔                  
         عالم اسلام کے حالات سے واقف لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل تشیع ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے خلاف صف آراء رہتے ہیں اور انہیں جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش سے نہيں چوکتے ۔ مصر ، لبنان اور دوسری جگہوں پر ان کے جو سیاہ کارنامے رہے ہیں ان کے پیش نظر بھی سعودی عرب کا یہ اقدام اس تناظر میں عالم اسلام کے لیے رحمت ہے کہ اس سے کم ازکم تشیع کے ناپاک عزائم کی تکمیل نہيں ہوپائیگی ۔  اب اگر ہندوستانی شیعوں کارونا دیکھا جائے یا پھر قبوریوں کی آہیں سنی جائیں تو سمجھ میں آنے والی بات لگتی ہے کہ ان کا دینی، سیاسی ہر طرح کا موقف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح موحد حکومت کمزور ہو لیکن سمجھداری کے دعویداران بعض پڑھے لکھے حضرات کی چیخ و پکار خود ان کی دانشورانہ حیثیت پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ان کے درون کے پردے بھی کھول دیتی ہے ۔ 
              بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت کا یہ موقف ناسمجھی یا پھر موقع پرستی کی مثال ہے لیکن ذرا سمجھداری سے سوچا جائے تو پتہ چلے کہ در اصل یہی دانشمندی کی مثال ہے ۔ جمہوریت کا رونا رونے والے نہیں جانتے کہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوریت نے عالم اسلام میں پر پھیلایا وہاں کا سب کجھ داؤ پر لگ گیا ۔ اخوان المسلمین کو اس پورے معاملے سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے وجہ کا تشدد نقصاندہ ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ ایک قائم دائم موحد حکموت کے خلاف زمین ہموار کرنے کی کوشش حماقت آمیز ہوتی ہے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی اندرونی یورشوں کے پیچھے یا تو شیعہ ہوتے ہیں  یا پھر یہی تحریکی حضرات ۔ در اصل ہندوستانی تحریکی حضرات کی مانند مصری تحریکیوں کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انہیں شورش برپا کرنے کا اتنا شوق ہو تا ہے کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ سوجھتا ہی  نہیں ۔ اور انہیں اپنی دینی ذمہ داری لگتی ہے کہ کسی بھی طرح حکموت ہاتھ آئے تاکہ وہ اپنے قائم کردہ معیاری نظام کو نافذ کرسکیں ۔ ہندوستان میں لگ بھگ ستر سال بعد ان کی سمجھ میں اب آیا ہے کہ صحیح موقف کیا ہو سکتا ہے اور ادھر جاکر انہوں نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو یہاں کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا ہے ۔ اللہ کرے کہ سمجھداری کی روش ان کے ہم فکر افراد کو مصر وغیرہ میں بھی اپنانے کی توفیق ملے ۔  ذرا اس پہلو سے سوچیے تو پتہ چلے کہ جو لوگ اپنی لچر فکر کی وجہ سے بڑا نقصان کر سکتے ہوں ، ان کے پے در پے حماقتوں پر پردہ ڈال کر ان کے ساتھ ہونا کتنا بڑا احمقانہ رویہ ہو سکتا ہے ۔ اور خاص طور سے اس وقت جب اس کے ساتھ جانا خود اس کے حق میں بہتر نہ ہو اور ملک داخلی انتشار کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے ۔ پھر دنیا جانتی ہے کہ اس آشوب زدہ دور میں سعودی عرب وہ واحد نظام ہے جس نے اسلام کے نفاذ کو عملا برت کر دکھلایا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کو متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نظام کی یہ کامیابیاں ایسے ہی نہيں حاصل ہوگئی ہیں بلکہ اس کے پیچھے دانشمندیوں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے لیکن یہ بات ان لوگوں کو کیسے سمجھ میں آئيگی جو تقریر کی لذتوں کے تو اسیر ہیں لیکن جنہیں عملی اقدامات کی اہمیت کا احساس نہیں یا پھر جو بڑی بڑی بولیاں بول لینے کو دانشمندی اور اظہار رائے کی معراج سمجھتے ہیں ۔ رہی بات سعودی عرب کے اس مضبوط سیاسی موقف پر بعض کم سوادوں کا سلفی الفکر حضرات کو مشق نشانہ بنانا تو اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ان بے چاروں کا حال تو یہ ہے کہ ادھر اپنی جرات رندانہ کا شور بھی مچاتے ہیں اور جب سعودی عرب کا کوئی وفد آجائے تو پھر جھوٹ سچ بول کر اپنی وفاداریوں کی داستان بھی جھوم جھوم کر سناتے ہیں  ۔ اس پورے معاملے میں جناب سلمان حسنی ندوی صاحب کی شجاعت کا شور تھوڑا زیادہ ہی ہے اور عالی جناب کا عالم یہ ہے امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس کی آمد کے موقعے پر حضرت نے اس  طرح جھوٹ سچ کا  کھیل کھیلا کہ ان کے اپنے بھی چیخے بغیر نہ رہ سکے ۔ اہل حدیثوں پر ان دنوں ستم اس لیے بھی زیادہ ہے کہ نئی نسل جوق در جوق حق و صداقت کی اس راہ پر بڑھ رہی ہے جس سے  ایوان اندھی  تقلید اور خرافات میں زلزلہ برپا ہے ۔ اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ اللہ اس صداقت کو اور بھی عام کرے ۔
         یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ سعودی حکومت سے غلطی ہو سکتی ہے جس پر اس کی ناصحانہ تنبیہ ضروری بھی ہے لیکن اسے اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع سمجھنا لینا یا پھر ایک خاص فکر کے لوگوں پر نشانہ سادھ لینا انصاف کا راستہ نہیں ۔ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک موحد حکومت ہے جو صحیح دین پھیلانے کی کوشش کرتی ہے اس لیے ہم اس کی مضبوطی کی دعا کرتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نکالا جائے کہ اس کی غلطیوں کو ہم اندھی محبت میں صحیح سمجھتے ہیں  لیکن اگر اس کا موقف دانشمندانہ ہو تو اس صرف اس لیے اس کا ساتھ نہ دینا کہ کچھ لچر فکر کے حاملین اس کے خلاف ہیں ہماری کمزوری کو درشاتا ہے ۔ اللہ ہمیں ایسی کمزوری سے بچائے ۔












  



























Friday 25 October 2013


ہوشیار ، خبردار میرے قافلہ والو!
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،
9560878759
     جب سے بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ ان کے سلسلے میں  مختلف قسم کے خیالات کا اظہار قومی سطح پر ہو رہا ہے جیسے ان کے علاوہ اور کوئی معاملہ پورے دیش میں ہو ہی نہيں ۔ جہاں سیکولر مزاج لوگوں نے مودی کےزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ساکھ  پرلگنے والے داغ کا قضیہ اٹھایا وہیں مودی کی فسطائي ذہنیت سے بھی پردے اٹھائے گئے ، ان کے اپنے صوبے میں مختلف میدانوں میں ان کی ناکامیابیوں کے ثبوت فراہم کیے گئے اور گجرات فساد کے اندر ان کے مشتبہ کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ وہیں میڈیا نے اپنی پوری قوت اس بات میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح مودی کو گجرات کے وکاس پرش کے طور پر پیش کرکے انہیں ملک کی قیادت کے لیے اہل ثابت کیا جائے ۔ آرایس ایس اور سنگھ کی  دوسری تنظیموں اور ان کے کارکنان اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں نکل آئے ۔ اس بیچ کئی صوبوں میں فساد پھیلانے کی منظم کوشش کی گئی ۔ یوپی  اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی موقع پرستیوں کی وجہ سے جلد آگ میں جھلس گیا ورنہ کوشش تو پورے ملک کو آگ میں جھونک کر اقتدار ہتھیانے کی ہے ۔ دریں اثنا مودی اڈوانی تنازع کو بھی بہت جگہ ملی لیکن آخر ہونا تو وہی تھا بوڑھے باپ کو ناہنجار اڑیل ضدی بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا اور سب کچھ ٹھیک ہوگيا ۔ لیکن اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو تھا بہی خواہان امت مرحومہ کی بہی خواہی کی زمزمہ سنجی کے ایک پر ایک انمول نمونے ۔ صاحبان جبہ و دستار سے لے کر متاع علم ودانش کے ٹھیکیداران تک نے متعصب ہندی میڈیا کی بولی بولنی شروع کردی کہ اگر مودی کو موقع ملا تو وہ مسلمانوں کا فائدہ کرینگے ۔ دین و مذہب کے رکھوالوں نے تو مودی سے خوف کھانے کو اللہ کی وحدانیت سے جا ٹکرایا اور وہ وہ  گل افشانیاں کی گئیں کہ واہ واہ ۔ حالانکہ ایسا پہلی مرتبہ نہيں ہوا لیکن بہرحال ضمیر فروشوں اور ملت کے سودائیوں کی روح کو بڑی تسکین ملی ہوگی جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ قوم کے اندر کئی ہیں جو ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں اور یہ باعث رسوائی نہيں کہ ملت فروشی کا دھندا اختیار کیا جائے ۔
          مودی سے جڑے ترقیوں کے تمام دعوؤں کوبفرض محال  درست مان لیا جائے تو بھی کیا وہ قاتل اس قابل ہے کہ اسے ہندوستان جیسے سیکولر ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔ اور کیا واقعی اس کے وزیر اعظم بننے سے اس ملک کی کایہ پلٹ ہوگی ؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی آر ایس ایس کا آدمی ہے اور آرایس ایس کو مسلمانوں کا محترم وجود ہندوستان میں برداشت نہيں ۔ اسے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی دھن ہے مسلم پرسنل لا کے وجود سے اسے چڑھ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں ۔ اس کا دھرم ہے کہ مسجدوں کو توڑا جائے اور مدارس پر پابندیاں عائد کی جائيں ۔ اور بلاشبہ مودی کی اب تک کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ وہ انہیں تخریب پسند افکار و خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنا یا پھر افسران کو یہ حکم دینا کہ ہندوؤں کو غصہ ٹھنڈا کرلینے دو یا پھر اپنی ریلی میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کرتا ٹوپی پہن کر آئیں یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ جب ضمیر فروش قسم کے مسلمان ٹوپی پیش کررہے ہوں تو بھی پہننے سے انکار کردینا کیا یہ سب یہی بتلاتا ہے کہ وہ آدمی اس ملک کی مظلوم دوسریڑی اکثریت کا کام کرے گا ؟؟؟ جو گجرات اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے میاں مشرف یا پھر میاں پٹیل کا خوف دکھلاتا ہو ، کیا وہ درندہ صفت آدمی ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی خیر خواہی چاہے گا۔
            مودی کے حق میں بیان دینے والے نام نہاد علماء ہوں یا سیاسی لیڈران  یا پھر دانشوران در اصل وہ سب کے سب یا تو بکے ہوئے ہیں یا پھر صورت حال کی نزاکت سے واقف نہيں ہیں اور میڈیائي پروپیگنڈے کی وجہ سے انہيں لگتا ہے کہ اگر مودی جیت گیا تو ان کا کیا ہوگا اس لیے پہلے ہی سے سیٹ بچا کر رکھو ۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے ۔
      مودی کو معاف کرنے کا مطلب صرف یہ نہيں کہ ہم بہت سے خون کے ضیاع کو بھول جائینگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لڑائي میں شکست قبول کرلی ۔ ہم نے ان تمام انصاف پسندوں کو  تھپڑ مار دیا جنہوں نے اپنے ضمیر کی صدا سنی اور مظلوموں کی لڑائی لڑنے کو تیار ہوگئے ۔ در اصل یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے دینی ، سیاسی ، سماجی ہر ایک وجود میں اپنی ثانوی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس نے  غیرت بیچ دی ہے اور حمیت کو اب اس سے کوئي سروکار نہیں ۔ کیا مسلمان اپنی اس صورت حال کو قبول کرنے کوتیار ہے ؟؟؟

ہوشیار ، خبردار میرے قافلہ والو!
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،
9560878759
     جب سے بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ ان کے سلسلے میں  مختلف قسم کے خیالات کا اظہار قومی سطح پر ہو رہا ہے جیسے ان کے علاوہ اور کوئی معاملہ پورے دیش میں ہو ہی نہيں ۔ جہاں سیکولر مزاج لوگوں نے مودی کےزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ساکھ  پرلگنے والے داغ کا قضیہ اٹھایا وہیں مودی کی فسطائي ذہنیت سے بھی پردے اٹھائے گئے ، ان کے اپنے صوبے میں مختلف میدانوں میں ان کی ناکامیابیوں کے ثبوت فراہم کیے گئے اور گجرات فساد کے اندر ان کے مشتبہ کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ وہیں میڈیا نے اپنی پوری قوت اس بات میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح مودی کو گجرات کے وکاس پرش کے طور پر پیش کرکے انہیں ملک کی قیادت کے لیے اہل ثابت کیا جائے ۔ آرایس ایس اور سنگھ کی  دوسری تنظیموں اور ان کے کارکنان اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں نکل آئے ۔ اس بیچ کئی صوبوں میں فساد پھیلانے کی منظم کوشش کی گئی ۔ یوپی  اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی موقع پرستیوں کی وجہ سے جلد آگ میں جھلس گیا ورنہ کوشش تو پورے ملک کو آگ میں جھونک کر اقتدار ہتھیانے کی ہے ۔ دریں اثنا مودی اڈوانی تنازع کو بھی بہت جگہ ملی لیکن آخر ہونا تو وہی تھا بوڑھے باپ کو ناہنجار اڑیل ضدی بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا اور سب کچھ ٹھیک ہوگيا ۔ لیکن اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو تھا بہی خواہان امت مرحومہ کی بہی خواہی کی زمزمہ سنجی کے ایک پر ایک انمول نمونے ۔ صاحبان جبہ و دستار سے لے کر متاع علم ودانش کے ٹھیکیداران تک نے متعصب ہندی میڈیا کی بولی بولنی شروع کردی کہ اگر مودی کو موقع ملا تو وہ مسلمانوں کا فائدہ کرینگے ۔ دین و مذہب کے رکھوالوں نے تو مودی سے خوف کھانے کو اللہ کی وحدانیت سے جا ٹکرایا اور وہ وہ  گل افشانیاں کی گئیں کہ واہ واہ ۔ حالانکہ ایسا پہلی مرتبہ نہيں ہوا لیکن بہرحال ضمیر فروشوں اور ملت کے سودائیوں کی روح کو بڑی تسکین ملی ہوگی جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ قوم کے اندر کئی ہیں جو ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں اور یہ باعث رسوائی نہيں کہ ملت فروشی کا دھندا اختیار کیا جائے ۔
          مودی سے جڑے ترقیوں کے تمام دعوؤں کوبفرض محال  درست مان لیا جائے تو بھی کیا وہ قاتل اس قابل ہے کہ اسے ہندوستان جیسے سیکولر ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔ اور کیا واقعی اس کے وزیر اعظم بننے سے اس ملک کی کایہ پلٹ ہوگی ؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی آر ایس ایس کا آدمی ہے اور آرایس ایس کو مسلمانوں کا محترم وجود ہندوستان میں برداشت نہيں ۔ اسے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی دھن ہے مسلم پرسنل لا کے وجود سے اسے چڑھ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں ۔ اس کا دھرم ہے کہ مسجدوں کو توڑا جائے اور مدارس پر پابندیاں عائد کی جائيں ۔ اور بلاشبہ مودی کی اب تک کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ وہ انہیں تخریب پسند افکار و خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنا یا پھر افسران کو یہ حکم دینا کہ ہندوؤں کو غصہ ٹھنڈا کرلینے دو یا پھر اپنی ریلی میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کرتا ٹوپی پہن کر آئیں یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ جب ضمیر فروش قسم کے مسلمان ٹوپی پیش کررہے ہوں تو بھی پہننے سے انکار کردینا کیا یہ سب یہی بتلاتا ہے کہ وہ آدمی اس ملک کی مظلوم دوسریڑی اکثریت کا کام کرے گا ؟؟؟ جو گجرات اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے میاں مشرف یا پھر میاں پٹیل کا خوف دکھلاتا ہو ، کیا وہ درندہ صفت آدمی ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی خیر خواہی چاہے گا۔
            مودی کے حق میں بیان دینے والے نام نہاد علماء ہوں یا سیاسی لیڈران  یا پھر دانشوران در اصل وہ سب کے سب یا تو بکے ہوئے ہیں یا پھر صورت حال کی نزاکت سے واقف نہيں ہیں اور میڈیائي پروپیگنڈے کی وجہ سے انہيں لگتا ہے کہ اگر مودی جیت گیا تو ان کا کیا ہوگا اس لیے پہلے ہی سے سیٹ بچا کر رکھو ۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے ۔
      مودی کو معاف کرنے کا مطلب صرف یہ نہيں کہ ہم بہت سے خون کے ضیاع کو بھول جائینگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لڑائي میں شکست قبول کرلی ۔ ہم نے ان تمام انصاف پسندوں کو  تھپڑ مار دیا جنہوں نے اپنے ضمیر کی صدا سنی اور مظلوموں کی لڑائی لڑنے کو تیار ہوگئے ۔ در اصل یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے دینی ، سیاسی ، سماجی ہر ایک وجود میں اپنی ثانوی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس نے  غیرت بیچ دی ہے اور حمیت کو اب اس سے کوئي سروکار نہیں ۔ کیا مسلمان اپنی اس صورت حال کو قبول کرنے کوتیار ہے ؟؟؟