Wednesday 13 September 2023

 We as a religious community have chosen to hide our religion from other communities. Yesterday evening I happened to join a session with a new Muslim preacher of Islam. He was a christian and Allah Almighty blessed him with guidance. He searched for the truth and reason behind his existence and in order to know it , he studied Bible, discussed many things with father and when found no answer tried to change the source and read Hinduism, Buddhism and other religions. He was very much confused that how it is possible for Jesus to be son of God, God and the soul. He wanted to reach to the Almighty, Jesus himself used to worship because when he is worshipping God how could he be a God?

He was brought up in a christian family that had biased and terribly negative thoughts about Islam so it took time for him to approach Islam for his quest of truth. But disappointed from every religion and ideology when he eventually tried to get close to Islam and read Quran, Muslims were in his way to stop him from reading the final book of Allah. But Allah paved the way and when he read Quran he got his questions answered and was able to find the purpose of life. He embraced Islam and tried his best to learn the basics of the religion and started preaching it . He is doing the same and has been successful to bring about 2500 people to Allah and to Islam. He was boycotted by his dears and nears, they made him fell isolated and hopeless but his beliefs were strong and he faced all the hardships with greater courage and patience.
When he narrated his story and some other new Muslims stories it was worth noting, eyes were full of tears and hearts were full of affection. He reminded Muslims of their holy duty and the greatest blessings they have; their religion Islam but with great amount of sorrows he was forced to say that Muslims hide it through their unislamic character and through their ignorance of religion. They must try to preach it, and make efforts to make it a known religion for every person on the planet.
Sanaullah Sadiq Taimi

 میرا شدت سے یہ احساس ہے کہ کوئی بھی نظام تعلیم جو اصل زندگی کے بنیادی تقاضوں سے دور ہو ، اس سے آراستہ لوگ سماجی سطح پر بڑا اثر ڈالنے میں ناکام ہوں گے ۔ اس تناظر میں ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کا جو ڈھانچہ استوار کیا ہے ، وہ بنیادی انسانی ضرورتوں کے کتنا قریب ہے اور طلبہ کو اس زندگی سے کس حد تک آگاہ کرپاتا ہے ۔

سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی تعلیم اگر زندگی کے حقائق سے ہم آہنگ نہ ہو یا اس زندگی کو بہتر سمت دینے کی صلاحیت سے مالا مال نہ ہو تو اپنی افادیت کھودے گی ۔ بر صغیر کی حد تک دیکھیے تو دینی تعلیم کے ادارے اس نہج پر استوار ہیں کہ وہاں کے پڑھنے والوں کو عام زندگی سے کم کم ہی واسطہ پڑتا ہے ، اوپر سے عام زندگی کے تقاضوں کو پڑھایا بھی کم کم ہی جاتا ہے ، دینی اداروں میں عملی مشق کی کوئی چيز نہيں پائی جاتی ، کھیت کھلیان ، تجارت، ملازمت تو دور کبھی دعوتی مشق کا بھی موقع نہیں نکلتا۔ یہ بات سننے میں شاید اچھی نہ لگے لیکن بالعموم جس معاشرے کو جاکر سدھارنے کا ذمہ دینی اداروں کے فیض یافتگان کو اٹھانا ہوتا ہے وہ اس معاشرے سے آگاہ ہی نہیں ہوتے ۔
کبھی اس حیثیت سے غور کیجیے کہ سب سے زیادہ عام زندگی میں ضرورت کس چيز کی پڑتی ہے ؟ معیشت کی ، اسی پر زندگی استوار ہوتی ہے ، اب ذرا اس پر غور کیجیے کہ دینی اداروں میں معیشت کی کتنی تعلیم دی جاتی ہے ؟ آج جو اصطلاحات رائج ہیں ، ان سے ہم کس حد تک واقف ہوتے ہیں ؟ کیا ان دینی اداروں کے فارغین واقعی اس معاملے میں رہنمائی کا فريضہ انجام دے سکنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں ؟
ہم جس ملک میں رہتے ہیں کیا اس ملک کے نظام حکومت سے آگاہ ہوتے ہیں ؟ اس نظام حکومت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اس پر کیا کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں ؟ کیا خود ہم اپنی بنیادی ضرورتیں بطور خود پوری کرسکتے ہيں ؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام اس معاملے میں ہمیں آگہی سے آراستہ کرتا ہے ؟ کیا اس قسم کے معاملات میں ہم دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکنے کی حالت میں ہوتے ہیں ؟
ہم نے نصاب کی تجدید کاری کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ہمارے طلبہ کو برائے نام انگریزی ، ہندی اور سائنس آ جائے جب کہ ہمارا دھیان اس پر ہونا چاہیے کہ جب ہمارے یہاں سے تعلیم پاکر ایک فارغ التحصیل معاشرے میں جائے تو وہ واقعی عالم ہو۔ اس پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ سماج اور اس کی ضرورتوں کو جان نہيں رہے ہوں گے تو رہنمائی کا فريضہ انجام کیسے دیں گے ؟
ان تلخ سچائیوں کے ساتھ ہم نے بالعموم اخلاقی نظام ایسا رکھا ہے کہ بھولا بھالا دکھنے والا یا اس کی اداکاری کرنے والا طالب علم اچھے اخلاق کا مالک سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شعور وآگہی کے تقاضوں کے تحت جس قسم کے سوالات پنپتے ہیں اور جن سے ایک صحت مند ڈسکورس کی سبیل نکلتی ہے ، وہ یہ خاص ماحول پنپنے نہيں دیتا اور بہت سی ذہانتیں یوں ہی دم توڑ دیتی ہیں ۔
ارباب اختیار کو ان حقائق پر غور کی نظر ڈالنی چاہیے ۔ تعلیم اگر زندگی سے ہم آہنگ نہ ہو تو چاہے جتنا ہنگامہ برپا کیا جائے ، وہ اپنی افادی حیثیت منوانے سے رہ جائے گی ۔ دو صدیوں کا لگ بھگ عرصہ ہورہا ہے ، جب سے یہ نظام رائج ہے ، دو صدیوں کے تجربات کی روشنی میں ان نکات پر غور کرنا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ورنہ شاید یہ ڈھانچہ ہی باقی نہ بچے۔
رہے نام اللہ کا
ثناءاللہ صادق تیمی

 مسلم پرسنل لابورڈ کے نئے صدر کا انتخاب

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مسلم پرسنل لا بورڈ کے نئے صدر منتخب کیے گئے ہیں ۔ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ انتخاب اتفاق رائے سے ہوا ہے ۔ مولانا رابع حسنی ندوی کے انتقال کے بعد سے یہ بات گردش میں تھی کہ مولانا ارشد مدنی بورڈ کے صدر ہونے جارہے ہیں ، بعض ذرائع سے یہ بات بھی سامنےآئی کہ ارشد صاحب نے منع کردیا ۔ ان کے منع کرنےکے بعد کئی نام تھے جن پر غور کیا گيا بلکہ کئی تجویزیں بھی سامنے آئیں لیکن مانا جارہا تھا کہ ارشد صاحب کے منع کرنے کے بعد سب سے مقبول نام خالد سیف اللہ صاحب کا ہی تھا۔ مجھے دو تین روز قبل انتہائی موثوق بہ ذریعہ سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ خالد سیف اللہ رحمانی بورڈ کے صدر ہونے جارہے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر جیسا کہ ہوتا آیا ہے مبارکبادی کے ساتھ رد وقدح کا سلسلہ جاری ہے ۔ بڑی تعداد کو لگتا ہے کہ انتخاب بہت اچھا ہوا ہے اور خالد صاحب اس کے لیے موزوں شخصیت ہیں ، وہیں ایک تعداد ایسی بھی ہے جو مسلم پرسنل لاء پر احناف میں دیوبندی مکتب فکر کی اجارہ داری کے طور پراس انتخاب کو دیکھ رہی ہے ۔ یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر کوئی بریلوی ، اہل حدیث یا کسی اور مکتب فکر کا معتبر عالم صدر کیوں نہيں ہوسکتا؟
میرے خیال میں یہ باتیں بس باتیں بھر ہیں ۔ زمینی سطح پر حقائق کو اگر ذہن میں رکھا جائے تو اس قسم کی باتیں عام نہ ہوں ۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ آزادی سے لے کر آج تک ملی قیادت احناف میں دیوبندی مکتب فکر کے پاس ہی ہے ،مسلم پرسنل لاء ہو ، جمعیت علمائے ہند ہو یا یہاں تک کہ مجلس مشاورت ہو ، ان تمام کی قیادت انہیں کے ہاتھ میں ہے اور ساری کوتاہیوں اور کمیوں کے باجود بہت حد تک عملی طور پر یہی ممکن بھی ہے ۔
انسان آرزو پالنے کے لیے آزاد ہے لیکن وہی آرزوئیں پوری ہوتی ہیں جو حقائق کے قریب ہوں ۔ غور کی نظر ڈالیے تو شیعہ سنی کے بیچ کا تفاوت واضح نظر آ جائے گا ، اتنی بڑی سنی برادری پر کوئی شیعہ سربراہ ہو ، نظری طور پر جیسا خوش کن نظر آئے ، عملا ممکن نہيں ۔ اہل حدیث حضرات کی تعداد معلوم ہے ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے مقابلے میں ظاہر ہے کہ بہت کم تعداد میں ہیں اور یہاں آپ تعداد سے صرف نظر نہيں کرسکتے ۔ رہ گئی بات دیوبندی اور بریلوی حضرات کی تو یہاں یہ سوال جائز ہوسکتا تھا لیکن بریلویوں نے لگاتار خود کو ملت سے جس طرح کاٹ کر رکھا ہے ، تکفیر و علاحدگی کے رویے اپنائے ہیں ، ویسے میں یہ امکان لگ بھگ معدوم ہی ہوجاتا ہے ۔یوں جب آپ ان تمام امور پر دھیان دیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ ان تمام اداروں کا سربراہ ہو نہ ہو ، کوئی دیوبندی ہی ہوگا الا یہ کہ کوئی غیر دیوبندی استثنائی طور پر اپنی اہلیت ثابت کرلے جائے اور ملت اسے بطور سربراہ قبول کرلے تو اور بات ہے ۔
اس لیے میری نظر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا انتخاب ٹھیک ہے ، ویسے بھی وہ اس ادارے سے پہلے سے منسلک ہیں ، ان کے چچا قاضی مجاہد الاسلام صاحب بھی اس کے صدر رہ چکبے ہیں ، یہ خود سکریٹری کی حیثیت سے فريضہ انجام دے رہے تھے ، امید کی جانی چاہیے کہ وہ بورڈ کے پلیٹ فارم سے ملت کو فائدہ پہنچا سکیں گے ۔
ان تمام باتوں کے ساتھ ایک بات البتہ کہنی ضروری ہے کہ یہ بہرحال مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے تو اس میں ملت کی نمائندگی کا رویہ ضرور اپنایا جانا چاہیے ، یعنی ٹھیک ہے کہ اہم ترین پوسٹ احناف میں دیوبندی گروپ کے پاس ہو لیکن بقیہ مناصب میں دوسرے گروہوں کی بھی شمولیت ہونی چاہیے اور اسے نظر آنا چاہیے ۔ بورڈ اس پر عمل پیراں بھی رہا ہے ، اسے مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے یعنی اہل حدیث ، بریلوی یا شیعہ حضرات کو بھی یہ ضرور لگناچاہیے کہ یہ ان کا بھی بورڈ ہے ۔دوسری بات یہ کہ جب مسائل سامنے آئیں تو اس وقت بھی ملت کے تمام مکاتب فکر کو ذہن میں رکھ کر اقدامات کیے جائیں ،بورڈ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی ہوگی کہ وہ تمام مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویدار ہے اور قیادت کی بھی اصل آزمائش یہی ہے کہ وہ کسی بھی قضیے کے لیے لڑتے ہوئے ملت کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنے کمزور کرنے کا نہیں ۔
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان نازک گھڑیوں میں بورڈ کو واقعی اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے اور اس انتخاب کو ملت کے حق میں کارگر بنائے ۔
ثناءاللہ صادق تیمی
All reactions:
Amanullah Sadique Taimi, Asif Tanveer Taimi and 147 others
36
13
Like
Comment
Share

 اظہار حق سب کے بس کا روگ نہیں ۔ یہ کام ہر زمانے میں اولو العزم افراد نے ہی انجام دیا ہے اور وہی انجام دیتے رہیں گے ۔ حق کا اظہار ہر زمانے میں جوکھم بھرا رہا ہے اور ہر زمانے میں جوکھم بھرا رہے گا ۔ ہر زمانے میں حق کہنے والوں سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ حق کہنے سے پہلے حق کہنے کا سلیقہ ضرور سیکھیں ۔ حق کہنا ہمت کی بات ہے لیکن نادان اپنی نادانیوں سے اظہار حق سے اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور حق کا بھی نقصان کر دیتا ہے لیکن وہ اس زعم میں پھٹا جا رہا ہوتا ہے کہ اس نے اظہار حق کا فریضہ انجام دیا ہے جب کہ دانا شخص اظہار حق کا یہی کام اس حکمت ، شعور اور قوت سے انجام دیتا ہے کہ کم از کم حق کا نقصان نہیں ہوتا ۔ وہ حق کہنے سے پہلے حق کہنے کے سلیقے کو برتنا سیکھتا ہے ، وہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنا بولنا ہے اور کہاں پر بولنا ہے اور بولنے پر ہونے والے اثرات کو بھی ذہن میں رکھتا ہے ۔

آپ ارد گرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ یہ بھی حق پر ظلم ہی ہے کہ اس کے حامی اپنی نادانیوں سے اس کا نقصان کر رہے ہیں ۔ جب کبھی آپ یہ دیکھیں کہ آپ جس حق کے لیے کھڑے تھے آپ کے اظہار حق میں کی گئی نادانی کی وجہ سے اب ساری بحث حق کی بجائے آپ کے اس جوش ، غیر صائب اسلوب یا کسی نازیبا بات کی طرف مڑ گئی ہے تو آپ کو حق کہنے کے طریقے پر ایک بار سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔
ایک بات اور نوٹ کرنے کی ہے کہ انسان کو بہر صورت اظہار حق کے سلسلے میں بھی اپنی نیت کا جائزہ لینا چاہیے ۔ یعنی یہ دیکھنا چاہیے کہ اظہار حق کا مقصد واقعی حق کی نصرت ہی ہے کوئی اور وجہ نہیں ۔ یہ مقصد ذہن میں اتنا محکم ہونا چاہیے کہ وہ خود آدمی کی رہنمائی کر سکے کہ اظہار حق کا کون سا پیرایہ کہاں پر کیسا رکھنا ہے ۔ ایک بات اور بھی سمجھنی ضروری ہے کہ اظہار حق میں حکمت مقصود ہے ہر وقت نرمی یا ہر وقت سخت کلامی نہیں یعنی نرمی کی ضرورت ہو تو نرمی اور دو ٹوک گفتگو کی ضرورت ہو تو دو ٹوک گفتگو ۔ اصل امتحان یہی ہے کہ آدمی اس ضرورت کو سمجھ سکے ۔
ساگر تیمی

 آب زمزم : بندے کی غذا بھی مریض کی شفا بھی

ثناءاللہ صادق تیمی
زمزم کا پانی نام آتے ہی ایک خاص قسم کا تقدس اور ایک خاص قسم کی روحانیت اپنا سایہ دراز کر دیتی ہے ۔ جب ابراہیم خلیل علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجر اور بیٹے اسماعیل کو مکہ مکرمہ جیسے بے آب وگیاہ مقام پہ چھوڑ دیا اور بچے کو پیاس کی شدت نے ستایا تو ماں پانی کی تلاش میں صفا سے مروہ اور مروہ سے صفا دوڑتی پھریں ، اللہ کی رحمت جوش میں آئی ، اس نے جبریل امین علیہ السلام کو بھیجا ، انہوں نے ایڑی رگڑی اور زمزم کا چشمہ ابل پڑا۔
اس پانی کی شرعی و دینی اہمیت ہے اور اس کی ایسی خصوصیات ہیں جو دوسرے پانی میں نہیں پائی جاتیں ۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی اہل جاہلیت اس پانی کی اہمیت و فضیلت کے قائل تھے اور اسلام میں بھی اس کی فضیلت وارد ہوئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا اور اس کے پینے کی اہمیت بتلائی ۔ مسلم شریف کی ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " یہ بابرکت ہے اور کھانے والے کی غذا ہے " ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یہ " بیماری کی شفا ہے " (طیالسی ) ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " آب زمزم اس چيز کےلیے ہے جس کے لیے پیا جائے " (سنن ابن ماجہ) ۔ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ مکہ میں ایک مہینے رہے اور ان کی غذا آب زمزم ہی تھا۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ آب زمزم کو پانی اور غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ابن عباس رضی اللہ عنھما کے سلسلے میں آتا ہے کہ جب وہ آب زمزم پیتے تھے تو کہتے تھے : اے اللہ ہم تجھ سے نفع بخش علم ، کشادہ رزق اور ہر بیماری سےشفا مانگتے ہیں ۔
علماء نے آب زمزم پینے کے آداب بھی بتائے ہیں کہ اسے بسم اللہ کہہ کر پیا جائے ، تین سانسوں میں پیا جائے ، اتنا پیا جائے کہ آدمی آسودہ ہوجائے اور پینے کے بعد الحمد للہ کہا جائے ۔ آب زمزم کے سلسلسے میں بھی یہی ادب ہے کہ اسے بیٹھ کر پیا جائے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں جو یہ آیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے انہیں زمزم پلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے تو در اصل یہ بیان جواز کے لیے ہے ۔یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آب زمزم کھڑے ہو کر پینا ہی سنت ہے ۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنھا شیشی میں بھر کر زمزم کا پانی لے جاتی تھیں ، اور کہا کرتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھویا تھا ، آپ مریضوں کو یہ پانی پلاتے تھے اور ان پر انڈیلتے تھے ۔(ترمذی )بعض روایتیں ایسی آتی ہیں جو اپنی شواہد کی وجہ سے حسن درجہ کو پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن عمرو کو خط لکھا تھا کہ میرا خط صبح پہنچے تو شام سے پہلے اور شام پہنچے تو صبح سے پہلے مجھے آب زمزم بھیجنا۔
آب زمزم کا پینا بھی شفا کا باعث ہے اور اسےمریضوں پر چھڑکا بھی جاسکتا ہے ، پینے والا آدمی اپنے سر اور چہرے پر پانی انڈیل بھی سکتا ہے اور اس کے فوائد بھی حاصل ہوں گے ، اس سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ آدمی نیت اچھی اور محکم رکھے۔
آب زمزم اللہ کی عظیم قدرت کے نشانات میں سے ہے ، اس کا کنواں خانہ کعبہ سےاڑتیس گز پر واقع ہے ، اسے بئر اسماعیل بھی کہا جاتا ہے ۔ پوری دنیا سے مسلمان خانہ کعبہ آتے ہیں ، پیتے ہیں ، استعمال کرتے ہیں اور اللہ کی اس عظیم نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔فرشتے نے ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چا ک کرنے کے بعدآب زمزم ہی سے دھویا تھا۔ جاپان کے تحقیقی ادارے ہیڈو انسٹیٹیوٹ نے آب زمزم پر تحقیق کرنے کے بعد پایا کہ اس پانی میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں وہ کسی اور پانی میں نہیں پائی جاتیں ۔ اس کا بلور کسی اور پانی میں نہیں ، آب زمزم کسی اور پانی سے ملے تو اس میں بھی یہ خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں ، ری سائکلنگ سے بھی آب زمزم کی خصوصیات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔

 حکومت ہند ، تاریخ سے جنگ اور قومی منظرنامہ

ثناءاللہ صادق تیمی
سپریم کورٹ کے سابق جج مارکانڈے کاٹجو نے بجا طور پر ہندوستان کو مہاجرین کی سرزمین کہا ہے ۔قدیم زمانے سےمختلف قافلے اس سرزمین کی طرف آتے رہے ہیں اوریہاں کی مٹی سے اپنا رشتہ استوار کرتے رہے ہیں ۔ان قافلوں کی آمد سےتہذیبی لین دین اور افادہ واستفادہ کی روایت بھی پروان چڑھتی رہی ہے جس نے ہندوستان کی ثقافت، تمدن اور معارف و علوم کے ساتھ فکر ونظر کے دائروں کو بھی وسیع کیا ہے ۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں مادی وسا ئل سے لیس ممالک برین گین (حصول دماغ) کی کافی کوشش کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرکشش سہولتیں فراہم کرکے دوسرے ممالک کے اعلا تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین کو اپنے یہاں بلاتے ہیں تاکہ ان کے علم ، تجربہ او رصلاحیت سے استفادہ کرکے اپنے ملک کو مزید مستحکم کرسکیں ۔
ہندوستان میں آنے والے قافلوں میں ایک قافلہ مسلمانوں کا بھی تھا۔ عرب اور ہند کے تجارتی تعلقات کافی پرانے رہے ہیں ، اول اول اسلام سے اس سرزمین کا تعارف بھی اسی راستے سےہوا ، اس کے بعد محمد بن قاسم ثقفی کی قیادت میں منظم طریقے سے سندھ کی طرف بڑھا گیا اور ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی جو بعض سیاسی وجوہات کی بنیاد پر دیرپا نہیں رہی لیکن اسلامی زندگی کے اثرات نسبتا زيادہ پھیل گئے اور جنوبی ہند کا علاقہ اسلام اور مسلمانوں سے ناواقف نہیں رہا۔محمد غوری کے بعد سے مسلم عہد حکومت کا سلسلہ دراز رہا ، ان تمام نے ملک کے استحکام اور عوام کی خوش حالی کے لیے مثالی اقدامات کیے اورمغلوں نے تو ملک کے تمام خطوں پر حکمرانی کی اور ملک کی ترقی و تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔اسی سرزمین کی خدمت کی اور اسی سرزمین کے ہوکر رہ گئے ۔
انگریزوں نے جب مسلمانوں سے حکومت مکروفریب اورظلم و جبر کے راستے سے حاصل کی تو مسلمانوں کو ہی تختہ مشق بھی بنایا ، اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کےلیے انہوں نے بانٹو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور ہندو مسلمانوں کے بیچ نفرت کو ہوا دینے کے لیے ہر قسم کی اوچھی حرکتیں کی گئیں ، اس معاملے میں انہوں نے اور دوسری اوچھی حرکتوں کے ساتھ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرنےاور مسخ کرنے کا رویہ بھی اپنایا تاکہ اپنے مقاصد پورے کرسکیں ۔اس سلسلے میں متعصب انگریز مورخین کے ساتھ جادو ناتھ سرکار جیسے تاریخ نویس بھی رہے جنہوں نے اپنے آقا کے حکم پر وہ سب کچھ کیا جس سے انگریزوں کے نقطہ نظر سے تاریخ پیش ہو اور نفرت و عداوت کی آندھی مزید تیز ہوسکے ۔
آزادی کی لڑائی لڑنے والے جیالوں کو معلوم تھا کہ انگریزوں نے کس قسم کی نفرت عام کی ہے اور اس سے ملک کا کیا نقصان ہوا ہے اور ملک کی تعمیر وترقی کے لیے کس قسم کے زاویہ نظر کی ضرورت ہے ، وہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ مسلمانوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں زبردست کردار ادا کیا ہے ، مسلم عہد حکومت میں نظام حکومت سے لے کر عوامی زندگی تک میں عدل وانصاف کی کافرمائی رہی ہے اور اس کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس طویل مدت میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ۔چنانچہ آزادی کے بعد جب انہیں ملک کی تعمیر کا موقع ملا تو انہوں نے کوشش یہ کی کہ ملک کی بنیاد تکثیری معاشرے اور کثرت میں وحدت کے نظریے پر استوار ہو ، انہوں نے سیکولر آئین کے ساتھ تاریخ و تمدن کا وہ حقیقی چہرہ پیش کیا جس سے ملک کوآزادی بھی ملی تھی اور جس نے ملک کی ترقی و تعمیر میں اہم ترین کردار ادا کیاتھا۔
آزادی کے بعد ملک کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ سیکولر ، لبرل اور کمیونسٹ ذہن کے معتبر مورخین نے ہندوستان کی تاریخ رقم کی اور ازمنہ قدیمہ سے لے کر ازمنہ وسطی اور نئے دور تک کا حقیقی منظرنامہ پیش کیا ۔ یوں وہ ذہن بنا جسے آپ گاندھی –نہرو اور مولانا آزاد کے نظریے کے روپ میں دیکھ سکتے ہيں ۔
لیکن جد وجہد آزادی سے لے کر اس پورے نظریے کے خلاف مستقل ایک علاحدگی پسند نظریہ بھی کام کررہا تھا جسےسنگھ پریوار کا نظریہ سمجھنا چاہیے ۔ اس نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہیے ، یہاں رونما ہونے والے مذاہب کو قومی حیثیت ملنی چاہیے ، بقیہ دوسرے مذاہب جیسے اسلام ، یہودیت اور عیسائیت وغیرہ کو یہاں سے نکال باہر کیا جانا چاہیے ۔ اس نظریے کی دوسری بنیاد اس طبقاتی نظام پر استوار ہوتی ہے جسے منو کے نطام سے بیان کیا جاسکتا ہے جس کے تحت اعلا طبقات کو مخدوم اور ادنی طبقات کو خادم ہونے کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ بنیادی طور پر یہ نظریہ اعلا ذات کے ہندوؤں کی افضلیت اور فوقیت کے نظریے پر قائم ہے اور اس کا طریقہ کار شروع سے تشدد کے ساتھ ساتھ حقائق کو توڑ موڑ کرپیش کرنے کا رہا ہے ۔یہ دیش کے آئین کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی مدت تک اس نے قومی جھنڈے کو تسلیم کیا ہے ۔
دیش کی آزادی کے بعد پچھلے نودس سالوں سے اس نظریے کو مکمل طریقے سے کھل کرسامنے آنے کا موقع ملا ہے ،ملک پر اس نظریے کی حکومت ہے ، وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ اس نظریے کے پرچارک بھی رہے ہیں اور اسی کے عملی مظہر بھی ہیں ۔ اس نظریے کے حاملین بظاہر دیش بھکتی کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ سب دکھاوا بھر ہوتا ہے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ ان کا نظریہ دیش بھکتی ہی اصل حب الوطنی سے متصادم ہے ۔اس نظریے نے جہاں دیش کی آزادی کی کوششوں کی مخالفت کی اور انگریزوں کی مخبری کا فريضہ انجام دیا وہیں گاندھی جی کو قتل بھی کیا اور مستقل دیش میں نفرت و تشدد کو ہوا بھی دی۔اس نظریے کے تحت سیاست کی بنیاد مسلم دشمنی پر استوار ہے ، ملک کے بڑے بڑے آئینی عہدوں پر بیٹھنے والے اور آئین کی قسمیں اٹھانے والے اس نظریے کے لوگ پوری بے شرمی سے اس آئین کی روح کو تارتار کرتے رہتے ہیں ۔
اس نظریے کی پریشانیاں بہت ہیں ، قدم قدم پر حقائق اس نظریے کی تغلیط کرتے ہیں ، ان کے پروپیگنڈوں کی قلعی کھول کر انہیں نگاہیں نیچی رکھنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔مدت سے اس نظریے کے حاملین یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ تاریخ کو اپنے حساب سے پیش کریں ۔ یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ امت شاہ نے بار بار یہ بات دہرائی تھی کہ تاریخ کو پھر سے لکھنے کی ضرورت ہے ، اس سمت میں کوششیں بھی صرف ہوئیں ، نہرو کو ویلن اور ساورکر کو ہیر وبنا کر پیش کیا گيا ، گاندھی تک پر سوالات اٹھائے گئے لیکن ملک کے وزیر اعظم کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ملک کے باہر جاتے ہی انہیں انہیں عظیم لوگوں کا حوالہ دینا پڑے گا اور انہوں نے مختلف مواقع سے ایسا کیا بھی ۔اس لیے اس پوری پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اب تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے تاریخ کو مٹانے کا رویہ اپنایا گيا ہے ۔ این سی آرٹی سے مسلم عہد حکومت کو ہٹا دیا گیا ہے ، مولانا آزاد نکال باہر کیے گئے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اس قسم کی تبدیلیوں کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہيں ہوسکتی کہ اس کے پیچھے اسلام اور مسلمان دشمنی کی ذہنیت کام کررہی ہے ۔ساتھ ہی جہاں کہیں مسلم عہد حکومت کا ذکر آیا ہے تو کوشش کی گئی ہے کہ اسے مثبت کی بجائے منفی زاویے سے پیش کیا جائے ۔پچھلے دس سالوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کی صورت حال کیا رہی ہے وہ تو نہيں معلوم لیکن ان دس سالوں میں لگاتار مسلم شناخت کو مٹانے کی کوشش زوروں پر ہے ۔ تاریخ سے لے کر سڑک اور افراد تک کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ قومی منظرنامہ ابھی یہ بھی ہے کہ اس مسلم دشمنی کے نتائج اس نظریے کے حاملین کو بہت کارگر مل رہے ہیں ۔ وہ اسی بنیاد پر مختلف ریاستوں میں انتخاب جیت رہے ہیں اور لگاتار مرکز میں پوری اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہیں ۔
اس کھلی ہوئی داداگیری کے خلاف کہیں سے کوئی ویسی ٹھوس مخالفت بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ، مسلم کمیونٹی جسے اپنے وجود کو لے کر مسائل کا سامنا ہے وہ بھلا تاریخ اور تمدن کے مظاہر کے بارے میں کیا کچھ مزاحمت درج کراسکتی ہے ، ملک کا سیکولر اور دانشور طبقہ بھی جیسے خموشی میں ہی نجات دیکھ رہا ہے ، سیاسی بساط پر حزب اختلاف کی طرف سے بھی کوئی مضبوط مقابلہ آرائی نظر نہيں آرہی ۔ایسے میں ایک ایک کرکے جہاں مسلم شناخت کی علامتیں مٹائی جارہی ہیں وہیں تاریخ کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے جیسے اس ملک پر ساڑھے آٹھ سوسالوں تک حکومت کونے والے مسلمانوں نے اس ملک کو صرف نقصان ہی پہنچایا ہے ، اس لیے یا تو انہیں مٹادینا چاہیے یا پھر ان گھڑے گئے منفی کرداروں کو ہی بیان کرنا چاہیے ۔
قوت کے نشے میں چور اس ٹولے کو یہ لگ رہا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہے اور ایسا کرکے وہ اپنی تہذیبی برتری ثابت کرپائےگا اور ملک سے مسلمانوں کام نام ونشان مٹ جائے گالیکن اسے شاید یہ ادراک نہیں کہ یہ دیکھنے کا بہت سطحی زاویہ ہے ۔ طاقت کے زور پر آپ سچ کو دبا تو سکتے ہیں مٹا نہيں سکتے ۔ یہ سچ پھر سےنمودار ہوں گے اور جھوٹ کے متوالوں کو رسوا کر دیں گے ۔
مصطفی کمال اتاترک نے ترکی سے اسلام ، اسلامی شعائر ، اذان اور رسم الخط سب کچھ ختم کردیا تھا لیکن آج ترکی کو دیکھ لیجیے ۔انگریزوں نے ہندوستان کو اپنے حساب سے ڈھالنے کی کوشش کی تھی ، سارے حربے اور قوتیں لگا دی تھیں اور خوش تھے کہ انہیں شکست کا سامنا نہیں ہوگا ، آج دیکھ لیجیے کہ وہ کہاں ہیں ؟ حقائق نہيں مرتے ، وہ لوٹ آتے ہیں ، یہ حقائق بھی نہیں مریں گے ہاں اگر اس نظریے کا دورانیہ لمبا ہوا تو کئی نسلوں کو اس کے زیر اثر جہالت کی گہری تاریکی میں جینا پڑ سکتا ہے ۔یہ صرف مسلمانوں کے خلاف سازش نہيں ، اس ملک اور اس کے تمام باشندوں کے خلاف سازش ہے ۔آپ لاکھ کوشش کرلیں لیکن یہ حقیقت مٹ نہیں سکتی کہ آئین ہند کے معماروں میں مولانا آزاد بھی شامل ہیں ، تعلیمی ڈھانچے کو بنانے والے وہی ہیں ، انہوں نے ہی یوجی سی، ساہتیہ اکیڈمی ، للت کلا اکیڈمی اور آئی آئی ٹیز کی بنیاد رکھی ہے ۔ آپ مٹاتے جائیے لیکن آپ لال قلعہ اور تاج محل بنانے والوں کو مٹا نہیں سکتے ۔ اس مٹی کا ذرہ ذرہ ان کے روشن کارناموں کی گواہی دے گا۔بہت جلد وہ وقت آرہا ہے جب آپ کے لیے یہی تخریبی کاروائیاں سوہان روح ہو جائیں گی۔ فانتظروا انی معکم من المنتظرین ۔

 جنگ: نہ آغاز اچھا نہ انجام خوش گوار

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ
اگر کسی قوم پر جنگ تھوپ دی گئی ہو اور وہ دفاع کرنے پر مجبور ہو تو الگ بات ہے ورنہ سمجھدار قومیں جنگ سے پناہ ہی مانگتی ہیں ۔ جنگ بظاہر قوت کے اظہار کا ذریعہ ہے لیکن اصلا وہ کسی بھی مرحلے میں سود مند ثابت نہیں ہوتی ۔ دنیا کی حالیہ تاریخ اس پر کھلی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا،ظاہر ہے کہ وہ اس وقت دو بڑی عالمی طاقتوں میں سے ایک تھا لیکن جب جنگ اختتام کو پہنچ رہا تھا تو وہ اپنی حیثيت کھو چکا تھا ۔ امریکہ نے بھی وہی غلطی دہرائی ، اس نے عراق پر حملہ کیا ، بظاہر وہ کامیاب بھی ہوگيا ، صدام حسین کو اس نے پھانسی بھی دے دی لیکن آخر کار نتیجہ یہی نکلا کہ اس جنگ نے اسے اندر سے کمزور کرکے رکھ دیا ، اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور بیس سالوں تک جنگ میں رہنے کے بعد آخر اسے منہہ کی کھانی پڑی اور اپنی حیثیث بھی کھوتا ہوا نظر آیا۔
یہ ان طاقتوں کا حال ہے جن کی قوت کا احساس پوری دنیا کو ہے پھر سوچیے کہ ان کا حال کیا ہوگا جن کے پاس ویسی طاقت بھی موجود نہ ہو اور وہ رہ رہ کر جنگ چھیڑنے کی حماقت کرے ۔ 26/11 کے دہشت گردانہ حملے کے بعد بہت سارے لوگوں کو یہ توقع تھی کہ بھارت پاکستان پر حملہ کردے گا ، اس وقت پرنب مکرھرجی وزیر خارجہ تھے ، ہر دن صبح اٹھ کر وہ ایک بیان دیتے تھے جس میں پاکستان کو دھمکایا جاتا تھا لیکن بھارت نے کمال ہوشیاری سے ایسی کسی بھی نادانی سے خود کو روکے رکھا ، وہ دھمیکاں بھی در اصل اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے ارادے سے زیادہ دی جارہی تھیں ۔ نتیجہ یہ رہا کہ بھارت ترقی کی راہ پر بڑھتا گیا ، جنگوں سے جو اسباق پہلے مل چکے تھے انہیں ذہن میں رکھا گيا ۔ یہاں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے چین کی طرف سے کی جارہی جارحیت کے باوجود ایسا کوئی اقدام نہیں کیا جس سے غیر ضروری طور پر جنگ کی کوئی صورت حال پیدا ہو ، انہیں یقینا یہ احساس ہے کہ چین سے ٹکر لینا عقل مندی نہیں ۔ البتہ اس سلسلے میں کارگر ڈپلومیسی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
عالم اسلام بطور خاص مشرق وسطی کی صورت حال پر نظر درڑائیے تو آپ بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ غیر ضروری جنگوں نے کیا صورت حال پیدا کردی ۔ کبھی تو یہ ممالک عالمی طاقتوں کی زد میں اور زیادہ تر خانہ جنگی کا شکار ہوکر کہيں کے نہیں رہے ۔ اس حماقت نے چشم زدن میں ان سے ان کی خوش حالی ، ترقی ، امن اور سلامتی چھین لی ۔ آپ عراق ، لیبیا، یمن ، شام اور بر وقت سوڈان کی صورت حال کو نظر میں رکھیں ، بغیر کسی تامل کے آپ اس حقیقت تک پہنچ جائيں گے کہ جنگوں سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہيں ہوتا۔ ہر طرح کی ترقی ،خوش حالی اور بہتر زندگی کے لیے سب سے ضروری عنصر امن ہے ۔
اس خطے میں سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے جس نے خود کو اس قسم کے جھمیلوں سے دور رکھنے کی باضابطہ کوشش کی اور اس کے فوائد بھی اسے حاصل ہوئے لیکن جب یمن کی جنگ میں اسے بھی کودنا پڑا تو بہر حال اس کے منفی اثرات اس پر بھی پڑے ۔ آج سعودی ولی عہد کی سربراہی میں پورا عالم عرب اس حقیقت کی طرف بڑھ رہا ہے کہ جنگ سے مسائل جنم لیتے ہیں ، ہم آپسی گفتگو سے مسائل حل کریں گے ۔ عرب ليگ کی حالیہ میٹنگ میں انہوں نے باضابطہ عہد لیا ہے کہ وہ اپنے اس خطے کو تنازعات سے بچائیں گے اور مثبت خطوط پر آگے بڑھیں گے ۔ پوری دنیا کو پورے جوش وخروش کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے ۔ یقینا یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔
روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد جو اندازے لگائے تھے وہ پوری طرح درست ثابت نہیں ہوئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین کے مقابلے میں ایک بڑی طاقت ہے اور اس نے یوروپ کو بھی اس کی اوقات دکھائی ہے لیکن اس جنگ سے بہرحال اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جنگ جتنی لمبی کھنچے گی اتنا منفی اثر بڑھتا جائے گا۔اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور دن بہ دن یہ اثرات مزید گہرے ہوتے جائيں گے ۔ ظاہر ہے کہ جب جنگیں ہوتی ہیں تو راستے بند ہوتے ہیں ، تعلقات بگڑتے ہیں ، سڑکیں تباہ ہوتی ہیں ، امن و امان کی فضا مکدر ہوتی ہے اورپھر کوئی بھی معاملہ اپنی فطری حالت پر باقی نہیں رہتا۔ یوں مختلف سطحوں پر ضروریات زندگی متاثر ہوتی ہیں اور وہ لوگ بھی اس کی زد پر آتے ہیں جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ عالمی گاؤں اور عالمی بازار کےاس زمانے میں کسی بھی خطہ کی جنگ صرف اسی خطہ تک محدود نہیں رہتی ۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پوری دنیا کے باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو جنگوں سےروکنے کا کام کریں ، عوامی سطح پر بیداری پیدا کریں ، نہ خانہ جنگی ہونے دیں اور نہ کسی دوسری طاقت کو دخل دینے کےلیے آواز دیں ۔
اسلام نے بھی حتی المقدور جنگ سے بچنے کی تلقین کی ہے ۔حدیث میں کہا گيا ہے کہ دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو ۔ ساتھ ہی اسلام نے صلح کو خیر کہا ہے ۔ والصلح خیر ۔اس حقیقت کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ صلح میں خیر ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کا بہت ہی روشن نمونہ ملتا ہے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع سے انہوں نے فریق مخالف کی صریح ظالمانہ شرطیں بھی قبول کرلیں کہ صلح ہو جائے اور دنیا جانتی ہے کہ اس کے بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوئے ۔

 من یصلح الملح اذا الملح فسد

ثناءاللہ صادق تیمی
سفیان ثوری رحمہ اللہ امیر اھل الحدیث ہیں ۔ آپ 97 ہجری میں پیدا ہوئے اور 161 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی ۔ عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی دانا حکیم تھے ۔ اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ حق کہنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی دنیاوی مادی ضرورت اور منصب و جاہ کی طلب ہے ۔ اس لیے حدیث کی تعلیم و تدریس سے وابستگی کے باوجود تجارت کرکے پیسے کماتے تھے تاکہ رزق حلال مہیا رہے اور ہر قسم کے منصب سے بھاگتے تھے کہ صاحبان اقتدار ہلکے میں نہ لے سکیں ۔ایک مرتبہ کسی نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ ان دیناروں کو کمانے میں لگے ہوئے ہیں تو انہوں نے اس آدمی کو ڈانٹا اور کہا : اگر یہ دینار نہ کمائیں تو صاحبان اقتدار ہمیں اپنے ہاتھ کا رومال بنالیں ۔ کہا کرتے تھے کہ پہلے مال فتنہ تھا لیکن اس وقت مومن کا ہتھیار ہے ۔
مضمون کی سرخی انہی کی طرف منسوب شعر کا ایک مصرع ہے ۔ پورا شعر یوں ہے :
یا رجال العلم یا ملح البلد
من یصلح الملح اذا الملح فسد
اے علما اے ملک کے نمک !اگر نمک خراب ہوجائے تو اسے کون ٹھیک کرے گا ۔
فارسی کا ایک مصرع یاد آ گیا۔
چوں کفراز کعبہ برخيزد کجا ماند مسلمانی
اس شعر سے متعلق ایک دلچسپ قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس سے ایک صاحب ایمان خاتون کی حکمت و دانائی ، شرافت و عزت اورغیرت وحمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی کی اپنی چچا زاد بہن سے شادی تھی ، اس کی بیوی نہایت حسین وجمیل تھی ، ایک مرتبہ خاندانی زمین جائداد کو لے کر اس کی چچا زاد بھائیوں سے لڑائی ہوگئی جس کے بعد اسے اپنا قبیلہ اور گاؤں چھوڑ کر دور کہیں اور کسی دوسرے قبیلے اور گاؤں میں جاکر بسنا پڑا۔ وہاں جاکر وہ اس معاشرت کا حصہ بن گیا اور قبیلے کے سردار کی محفل میں بھی بیٹھنے لگا۔ ایک مرتبہ قبیلے کے سردار کی نظر اس کی بیوی پر پڑ گئی اور وہ اس کے حسن وجمال سے گھائل ہوکر اس کی محبت میں پڑ گیا اور ترکیبیں سوچنے لگا کہ آخر کس طرح اس تک رسائی حاصل کرسکے ۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ فلاں جگہ پر وافر مقدار میں پانی ہے ، میں اس کی تحقیق کرنا چاہتا ہوں ، اس کی خاطر مجھے تم میں سے کچھ لوگوں کو وہاں بھیجنا پڑے گا تاکہ وہ مجھے درست کیفیت سے آگاہ کریں ۔ اس نے چار لوگوں کو جانے کا حکم دیا جس میں ایک اس خاتون کا شوہر بھی تھا۔ وہاں آنے جانے میں کم از کم تین دن لگنے تھے ۔
جب رات زیادہ ہوگئی تو وہ اس خاتون کے گھر گیا ، دروازے کے کھمبے سےٹکرانے کی وجہ سے آواز پیدا ہوئی ، خاتون سورہی تھی ، بیدار ہوگئی اور اس نے بلند آواز سے پوچھا کہ اس وقت دروازے پر کون ہے ؟ قبیلے کے سردار نے کہا : میں قبیلے کا سردار ہوں ، میں نے تمہاری ایک جھلک دیکھی ہے ، تمہارے حسن پر فریفتہ ہو گیا ہوں ، تیرا جمال مجھے بے چین رکھے ہوا ہے ، تیری قربت کا جویا ہوں ، اسی لیے آیا ہوں ۔
خاتون نے جواب دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میری ایک شرط ہے ۔ پہلے آپ ایک چیستاں حل کیجیے ، یہ پہیلی آپ سمجھا دیجیے پھر تشریف لائیے ۔ سردار نے شرط مان لی تو خاتون نے کہا : جب گوشت کے خراب ہونے کا ڈر ہوتا ہے تو لوگ اس پر نمک رکھتے ہیں لیکن اگر نمک خراب ہو جائے تو کیا رکھا جائے گا ؟
سردار کو اس کا کوئی جواب پتہ نہیں تھا ، اس نے جواب جاننے کے بعد واپس آنے کی بات کہی ۔ دوسرے دن اس نے سارے لوگوں کو جمع کیا اور یہ بات ان کے پاس رکھی اور جواب طلب کیا ۔ کسی کو جواب نہیں معلوم تھا ۔ سب چلے گئے لیکن ایک بزرگ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے ۔ جب سب جا چکے تو انہوں نے کہا : سردار ! یہ پہیلی آپ سے کس نے کہی ہے ؟ سردار پریشان ہواٹھا۔ بزرگ نے کہا : دیکھیے ، مجھے لگتا ہے کہ آپ نے کسی خاتون پر نگاہ بد ڈالی ہے ، آپ نے جرات بے جا سے کام لینا چاہا ہے اور اس خاتون نے حکمت و دانائی سے اپنی عصمت بچانے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے حضرت سفیان ثوری کے شعر کی طرف ذہن ملتفت کرائی ہے کہ علماء اور سردار نمک کی مانند ہیں کہ جب عوام بگڑیں تو یہ انہیں ٹھیک کرتے ہیں لیکن اگر یہ خود ہی بگڑنے لگیں تو انہیں کون ٹھیک کرے گا ؟ اس خاتون نے آ پ کو سمجھداری سے اس برائی سے رکنے کی نصیحت کی ہے ۔
قبیلے کے سردار کو بات سمجھ میں آگئی ، نادم ہوا اور اس نے اس بزرگ سے گزارش کی کہ وہ اس پر پردہ رکھے اور اس راز کو فاش نہ کرے ۔

 حج اسلام کا پانچواں رکن ہے ، صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ، یہ اگر خالص اللہ کے لیے ہو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو اور اس میں کوئی خلاف شرع کام نہ کیا جائے تو اس سے پچھلے گناہ مٹ جاتے ہیں ، آدمی ایسا ہو جاتا ہے کہ جیسے آج ہی پیدا ہوا ہو اور اس کا بدلہ جنت ہے ۔

سارے نیک کام اللہ کے لیے کرنے چاہیے لیکن حج کے سلسلے میں اللہ پاک کا باضابطہ فرمان ہے: و أتموا الحج و العمرة لله
کہ اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ہی معاملات میں اسوہ ہیں اور ہر معاملے میں آپ کے ہی طریقہ کی پیروی باعث نجات ہے لیکن حج کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص فرمایا: خذوا عني مناسككم یعنی مجھ سے اعمال و احکام حج اور طریقہ سیکھ لو ۔
ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حج کرنے کا ارادہ کر رہا ہے تو اپنی نیت اللہ کے لیے خالص کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر حج ادا کرے ۔ علماء سے پوچھتے ہوئے بھی یہی پوچھنا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ بتائیں ۔
لکھ لیجیے کہ کسی بھی نام پر کسی بھی شکل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے علاوہ کوئی بھی طریقہ قابل قبول نہیں ۔ آپ کو گناہوں کو معاف کروانا ہے ، اعمال قبول کروانے ہیں اور جنت کی طلب ہے تو سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے اور کوئی بھی راستہ آپ کے کام کا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے سوا سارے طریقے الٹے نتائج کے حامل ہوں گے یعنی نجات کی بجائے عذاب کا ذریعہ بن جائیں گے ۔
ساگر تیمی

 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عظیم فراست

ثناءاللہ صادق تیمی
موسم حج:
حج کا موسم چل رہا ہے ۔مسلمان انحائے عالم سےفريضہ حج ادا کرنے کے لیے اللہ کے سب سے پرانے گھر کا قصد کررہے ہیں ۔ ام القری کی گلیاں حاجیوں سے بھری ہوئی ہیں ، چاروں طرف ایمان کے جھونکے ہیں ، چہروں پر بشاشت اور مسرت کی لکیریں ہویدا ہیں اور عبادت و بندگی کے مظاہر عیاں ہیں ۔ عشرہ ذی الحجہ کے عظیم ایام کی عظمتیں اور برکتیں جاری ہیں ، عبادتوں کا اہتمام ہے ، اذکار واوراد کا حسین سلسلہ ہے اور دنیا کے کونےکونےمیں مسلمان ان ایام کو غنیمت جان رہے ہیں ، روزے رکھ رہے ہیں اور بقیہ دوسری نیکیوں سے انہیں آباد کررہے ہیں ۔
حجر اسود کی اہمیت وفضلیت :
طواف کی شروعات حجر اسود سے ہوتی ہے ۔ مسلمان اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں حجر اسود کو چھوتے اور چومتے ہیں ۔ اس کی فضلیت بھی وارد ہوئی ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : حجر اسود جنت سے اترا ہے (ترمذی 877، نسائی 2935،حدیث کو ترمذی نے صحیح کہا ہے ) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :حجر اسود جنت سے اترا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، اسے اولاد آدم کے گناہوں نے کالا کردیا {ترمذی877۔ احمد 2792، صحیح ابن خزیمہ (4/219) ۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : اللہ کی قسم اللہ تعالی قیامت کے دن حجر اسود کو اٹھائے گا،اس کی دو آنکھیں ہوں گیں جن سے وہ دیکھے گا اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا ، جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہوگا اس کے سلسلے میں گواہی دے گا ۔{ترمذی 961، ابن ماجہ 2944، حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے }عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ :
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر اورعشرہ مبشرہ بالجنہ میں سے ایک ہیں ۔ بجا طور پرانہیں تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ بعض دانا نے یہ تک کہا کہ ہے کہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عمر بن خطاب جيسی عبقری شخصیت نے اسے قبول کیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سےدعا کی تھی کہ اللہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ھشام دوونوں میں سے کسی ایک سےاسلام کو تقویت پہنچا ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور جب عمر مسلمان ہوئے تو اہل اسلام کو خوشی و مسرت کے ساتھ بڑی قوت و سطوت بھی حاصل ہوئی ۔ایمانی صلابت اور فراست کے معاملے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے (احمد ، ترمذی ، حاکم )۔ شیطان ان سے پناہ مانگتا تھا ، چنانچہ جس گلی سے وہ گزر جاتے اس گلی سے شیطان نہیں گزرتا تھا۔حق و باطل کے بیچ تفریق کی عظیم قوت کی وجہ سےانہیں کو الفاروق کہا گيا اور عدل و انصاف کی وجہ سے خصوصی شہرت اور مقبولیت کے حامل ہوئے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور اسلامی سلطنت کی توسیع کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت کی تقویت میں مثالی کردار ادا کیا ۔
حجر اسود اور عمر رضی اللہ عنہ کی فراست : بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چوما اور پھر کہا: میں جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو ، تم نہ نفع پہنچا سکتے ہو اور نہ نقصان ۔ اگر میں نے نہ دیکھا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چوم رہے ہیں تو میں تمہیں نہیں چومتا۔{ بخاری1520، مسلم 1720}
اس ایک قول میں جیسے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے پورے اسلام کو سمو دیا ہے یعنی توحید و رسالت کی پوری روح اس قول میں سمٹ آئی ہے ۔ پہلے حصےپر غور کیجے کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ، تو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے کہ یہ کام تو اللہ تعالی کا م ہے ۔ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اور کوئی نہيں اور یہی تو حید ہے ، حقیقت اسلام ہے اور نجات کی بنیاد ہے اور دوسرے حصے پر غور کیجیے کیا فرما رہے ہیں ؟ میں تمہیں اس لیے چوم رہا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ تمہیں چوم رہے ہيں ۔
یہی تو اتباع ہے ، سنت کی پیروی ہے ، رسول کی رسالت پر ایمان کا مطلب ہے کہ اپنی مرضی نہيں نبی کے حکم کے مطابق چلنا ہے ۔حجر اسود نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اورنہ فائدہ دے سکتا ہے ۔ اپنا چلانا ہوتا تو اسے کبھی نہیں چومتا لیکن مسلمان ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں ، آپ کے اعمال و سیرت کا شیفتہ ہوں ، چوم اس لیے رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ۔یہی تو لاا لہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مطلب اور تقاضا ہے اور کس فراست سے ان دونوں حقیقت کو اس بات میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان فرما دیا ہے ۔
یہاں ایک اور زاویے سے دیکھیے تو عمر رضی اللہ عنہ کی مومنانہ فراست کا مزید احساس ہوگا ۔ آدمی جس چيز کو چومے اس سے ایک خاص قسم کی عقیدت کا پیدا ہو جانا فطری ہے ، اس میں اس بات کا اندیشہ ہوسکتا ہے کہ یہ عقیدت اسے عقیدے کی گمراہی میں مبتلا کردے کہ وہ چومتے ہوئے اسی سے نفع و نقصان کو منسلک سمجھنے کی بھاری غلطی کر بیٹھے ، اس لیے دیکھ لیجیے کہ کس قوت سے عمر رضی اللہ عنہ یہ بات کہہ رہے ہيں اور ساتھ ہی چومنے کی وجہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ عمل صرف اتباع سنت میں کیا جارہا ہے اور کوئی دوسرا جذبہ کارفرما نہیں ۔ مسلمانوں کو بس اسی ایک جذبے کے تحت اعمال انجام دینے ہیں ۔
یاد رکھیے کہ کوئی بھی عمل تب تک قبول نہيں ہوگا جب تک وہ صرف اللہ کے لیے نہ ہو ، اس کی توحید کے تقاضوں پر پورا نہ اترے اور جب تک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو ۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے مخصوص انداز اور نہایت گہری فراست سے اسی حقیقت کو اس قوت سے بیان کیا ہے ۔توحید وسنت کے اسی راستے سے نجات ممکن ہے اور ایک مسلمان انہیں دو بنیادوں پر کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے ۔اس لیے عمل کرنے سے قبل دیکھ لیجیے کہ وہ اللہ ہی کے لیے ہو ، اس کی توحید کے تقاضوں پر پورا اتر رہا ہو اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت اور سیرت واسوہ کےمطابق ہو ۔اگر ایسا نہ ہو تو یاد کھیے کہ عمل قابل قبول نہ ہوگا۔

 جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ثناءاللہ صادق تیمی
بے نام خاں آج اداس بھی تھے اور ناراض بھی ۔ انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا اور یوں منہ پھلا کر بیٹھ رہے جیسے ساس اپنی بہو کی کسی بات سے چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے ۔ میں نے بھی تھوڑا نظر انداز کیا کہ خان صاحب کا یہی کارگر علاج رہا ہے ۔ نشانہ تیر بہدف ثابت ہوا ، خان صاحب خود ہی گویا ہوئے : یار مولانا! ہم کتنے عجیب لوگ ہیں ، ہم میں سے ہر ایک کو دوسرے سے شکایت ہے ، سب کے سب سب کے سب سے جلتے ہیں ۔ کوئی نہيں جو اپنی جگہ مطمئن ہو اور کسی کے بارے میں کوئی مثبت زاویہ رکھتا ہو ۔
غریب لوگ مالداروں کو لاحق ہونے والی کسی پریشانی سے خوش ہورہے ہیں ، مالداروں کو لگتا ہے کہ غریبوں میں ہی مسئلہ ہے کہ غریب بنے ہوئے ہیں، حکمراں طبقہ عوام سے نالاں ہے اور عوام حکمرانوں سے پریشان ہیں ، انہیں گالیاں دیتے ہیں اور اپنی ساری تکلیفوں کا سبب انہیں ہی سمجھتے ہیں ۔ مولانا! تم جس طبقے میں بیٹھ جاؤ وہ دوسرے طبقے کے سلسلے میں شکوہ سنج ملےگا ۔ کہیں کوئی مثبت زاویہ نظر نہيں ، محسوس ہوتا ہے کہ سب کے سب جلے ہوئے ہيں ۔ کیا ذہنیت پروان چڑھی ہوئی ہے ، استغفر اللہ !!! جون ایلیا کا شعر یاد آگيا۔
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
میں نے خان صاحب کی باتوں کی معقولیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک سوال رکھا : خان صاحب! کبھی آپ نے اس کیفیت کے اسباب وعوامل پر غور کیا ہے ؟ آپ نے سوچا ہے کہ اس کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں ؟ خان صاحب نے میری طرف جواب طلب نگاہوں سے دیکھا کہ جیسے اگر یہ نکتہ آپ اٹھا رہے ہیں تو جواب بھی آپ ہی فراہم کریں ۔
میں نے کہا : خان صاحب ! انسان اس مادی دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ، یہاں ہر آدمی آگے بڑھنا چاہتا ہے اور آگے بڑھنے کی راہ ہمیشہ مشکلات سے بھری ہوتی ہے ، اب اگر وہ سمجھدار اور توفیق یاب ہو تو اپنی پریشانیوں کا سبب تلاش کرتا ہے اور سمجھداری سے اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ وہ خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی پر الزام رکھ کر خود کو مطمئن کرلیتا ہے۔ انسان کی کامیابی یا ناکامی کے پیچھے اصل اس کا اپنا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس کی سمجھ نہيں ہوتی ، وہ لازما اسباب کہیں اور تلاش کرکے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طبقے کو دوسرے طبقے سے شکایت ہے ۔ ہمارے ایک دوست ہیں ، ان کا تعلق معاشی اعتبار سے نبستا ایک کمزور پریوار سے تھا، شروع شروع میں ان کی نفسیات یہ تھی کہ وہ مالداروں کو ساری برائی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ، پھر انہیں سمجھ آئی اور کڑی محنت اور لگن سے انہوں نے اپنا مقام بنایا ، کچھ سالوں بعد وہ سماج کے مڈل کلاس کا حصہ بن گئے ، انہوں نے اور بھی کوششیں جاری رکھیں اور سماج کے ایلٹ گروہ میں گنے جانے لگے ۔ ہر طرح کی سہولتیں انہيں دستیاب ہوئیں اور بڑے آدمی کا اسٹیٹس مل گيا۔ ایک روز جب میری ان سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا : مولانا صاحب !میں نے تو تینوں طبقات میں جی کر دیکھا ہے ، ہم تینوں در اصل ایک ہی ہیں ، ایک ہی نفسیات ہے ، تینوں کو اپنےعلاوہ دوسرا مسئلہ لگتا ہے اور برائیوں کی جڑ ۔ میں غریب تھا تو سارے غریب متوسط اور مالدار طبقوں سے جلتے تھے ، انہیں گالیاں بکتے تھے ، ان کے اندر ایمانداری ، اخلاقیات اور شرافت کو قبول نہیں کرتے تھے ، میں جب مڈل کلاس سے جڑا تو پتہ چلا کہ اس طبقے کو تو دونوں سے ہی مسئلہ ہے ، یہ غریب کو حقیر اور مسائل کی بنیاد بھی مانتا ہے اور مالداروں کو غاصب اور بے ایمان بھی ۔ اس کی نظر میں غریب میں اعلا تہذیبی قدریں نہيں ہوتیں اورمالداروں میں غیرت و حمیت کا چلن نہیں ، سر تا پا بد عنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور جب ایلیٹ کلاس سے جڑا ، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو دونوں کو ہی حقیر سمجھتا ہے ، اس کی نظر میں بھی سارا مسئلہ انہی دو کمزور طبقات سے پیدا ہوتا ہے ، غریب مفت کی سہولتیں حاصل کرتا ہے اور مڈل کلاس اوقات سے باہر خود کو ایلیٹ کلاس سے بڑھ کر سمجھنے کی غلطی کرتا ہے ۔ ہمارے دوست نے ہنستے ہوئے کہا : جب کہ یہ ساری درجہ بندی اللہ پاک کی اپنی مشیئت ہے اور ہر انسان کے لیے میدان کھلا ہوا ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی توجہ صرف کرنے کی بجائے اپنے کل کو روشن کرنے کی کوشش کرے تو وہ کہیں سے کہیں نکل جائےو ۔ مجھے دیکھو کہ اللہ کی توفیق سے میں نے بہت جلد اس حقیقت کو پالیا اور آج جہاں ہوں وہاں بہت خوش ہوں ۔ مجھے کسی سےشکایت نہیں کہ میں سب کو جانتا ہوں اور کسی سےجلن نہيں کہ میں سب سے اچھی طرح واقف ہوں ۔
ویسے خان صاحب ! اس پورے منظرنامہ کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بہر حال موازنہ کرتا ہے اور اسی موازنے سے خوشی یا غم کشید کرنے کی غلطی کرتا ہے ۔ غریب جب مڈل کلاس اور ایلٹ کلاس کی فروانی دیکھتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے ، اب وہ مختلف طریقوں سے اس تکلیف کو خوشی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ ان دوطبقات میں بد عنوانی ، بے حیائی ، بے دینی اور نہ جانے کیا کیا ڈھونڈ نکالتا ہے کہ وہ اپنی تکلیف کم کرسکے اور خود کو جھوٹی تسلی دے سکے لیکن اس سے بہر حال یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے اندر اپنی نا مرادیوں اور محرومیوں کو جھیلنے کی سکت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مڈل کلاس کو غریبوں کا سکون اور مالداروں کی حیثیت پریشان کرتی ہے اور وہ دونوں میں کمیاں نکال کر خود کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، اس طرح اسے ان دونوں کے مقابلے میں خود کو برتر مقام دینے کا راستہ مل جاتا ہے اور یوں وہ بھی زندگی کی ناہمواریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو آمادہ کرلیتا ہے اور جہاں تک ایلیٹ کلاس کی بات ہے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ساری سہولتوں ، دولتوں اور قوتوں کے باوجود جو سکون ، چین ، بشاشت اور مسرت ان دو طبقات کو حاصل ہے وہ اسے نہیں ، اسے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ساری سہولتوں سے دور رہ کر بھی زندگی کو اتنی آسانیوں سے کیسے کاٹ سکتا ہے اور یوں وہ ہر طرح کی خرابیاں تلاش کرکے خود کو ہر اعتبار سے برتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، و ہ سوچتا ہے کہ چلو یہ اچھی نیند کے مزے لے رہے ہیں ، سکون سے جی رہے ہیں لیکن ان میں تہذیب کہاں ہے ؟ ان کے پاس دولت کہاں ہے ، ان کو جانتا کون ہے ؟ ان کے یہاں شرافت کہاں ہے ؟ ان تمام کوششوں سے در اصل یہ طبقہ بھی اپنی برتری اور خوش فہمی کو تازہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ زندگی اور نت نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرسکے ۔ خان صاحب ! یہ کیفیت نہ ہو ، یہ مقابلہ نہ ہو ، یہ موازنے کی نفسیات نہ ہو تو سماج کو ایک قسم کا ٹھہراؤ بھی لاحق ہوسکتا ہے اور ترقی رک بھی سکتی ہے ۔ لیکن میرے دوست ! غلطی ہماری یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کا مطمح نظر دنیا ہے ، اس لیے ہم ہمیشہ خود کو بڑے لوگوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور حسد وجلن کے جراثیم ہمارے ذہن ودل پر قبضہ جما لیتے ہيں ۔ ہمارا نصب العین اگرآخرت ہو تو ہم دنیا کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب اپنے سے کمتر کو دیکھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہم بہر حال نعمت میں ہیں اور دین کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھیں کہ ہم واقعی بہت پیچھے ہیں ، اس لیے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اگر ایسا ہو تو مقابلے کا فائدہ بھی حاصل ہو اور حسد وجلن کی کیفیت بھی نہ ہو ۔ سچ پوچھو تو اللہ پر صحیح ایمان ، توکل ، خود پر توجہ اور اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھنا یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے لیس ہوکر آدمی ان منفی جذبوں سے بچ کر اپنا سفر کامیابی سے آگے بڑھا سکتا ہے ورنہ ان اقدار و عقائد کی کمی کا ہی نتیجہ ہے جس کی تم شکایت بھی کررہے ہو اور جس میں ہم تم بری طرح ملوث بھی ہیں !!!