Wednesday 13 September 2023

 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عظیم فراست

ثناءاللہ صادق تیمی
موسم حج:
حج کا موسم چل رہا ہے ۔مسلمان انحائے عالم سےفريضہ حج ادا کرنے کے لیے اللہ کے سب سے پرانے گھر کا قصد کررہے ہیں ۔ ام القری کی گلیاں حاجیوں سے بھری ہوئی ہیں ، چاروں طرف ایمان کے جھونکے ہیں ، چہروں پر بشاشت اور مسرت کی لکیریں ہویدا ہیں اور عبادت و بندگی کے مظاہر عیاں ہیں ۔ عشرہ ذی الحجہ کے عظیم ایام کی عظمتیں اور برکتیں جاری ہیں ، عبادتوں کا اہتمام ہے ، اذکار واوراد کا حسین سلسلہ ہے اور دنیا کے کونےکونےمیں مسلمان ان ایام کو غنیمت جان رہے ہیں ، روزے رکھ رہے ہیں اور بقیہ دوسری نیکیوں سے انہیں آباد کررہے ہیں ۔
حجر اسود کی اہمیت وفضلیت :
طواف کی شروعات حجر اسود سے ہوتی ہے ۔ مسلمان اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں حجر اسود کو چھوتے اور چومتے ہیں ۔ اس کی فضلیت بھی وارد ہوئی ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : حجر اسود جنت سے اترا ہے (ترمذی 877، نسائی 2935،حدیث کو ترمذی نے صحیح کہا ہے ) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :حجر اسود جنت سے اترا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، اسے اولاد آدم کے گناہوں نے کالا کردیا {ترمذی877۔ احمد 2792، صحیح ابن خزیمہ (4/219) ۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : اللہ کی قسم اللہ تعالی قیامت کے دن حجر اسود کو اٹھائے گا،اس کی دو آنکھیں ہوں گیں جن سے وہ دیکھے گا اور ایک زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا ، جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہوگا اس کے سلسلے میں گواہی دے گا ۔{ترمذی 961، ابن ماجہ 2944، حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے }عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ :
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خسر اورعشرہ مبشرہ بالجنہ میں سے ایک ہیں ۔ بجا طور پرانہیں تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ بعض دانا نے یہ تک کہا کہ ہے کہ اسلام کے حق ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عمر بن خطاب جيسی عبقری شخصیت نے اسے قبول کیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سےدعا کی تھی کہ اللہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ھشام دوونوں میں سے کسی ایک سےاسلام کو تقویت پہنچا ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور جب عمر مسلمان ہوئے تو اہل اسلام کو خوشی و مسرت کے ساتھ بڑی قوت و سطوت بھی حاصل ہوئی ۔ایمانی صلابت اور فراست کے معاملے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے (احمد ، ترمذی ، حاکم )۔ شیطان ان سے پناہ مانگتا تھا ، چنانچہ جس گلی سے وہ گزر جاتے اس گلی سے شیطان نہیں گزرتا تھا۔حق و باطل کے بیچ تفریق کی عظیم قوت کی وجہ سےانہیں کو الفاروق کہا گيا اور عدل و انصاف کی وجہ سے خصوصی شہرت اور مقبولیت کے حامل ہوئے ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور اسلامی سلطنت کی توسیع کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت کی تقویت میں مثالی کردار ادا کیا ۔
حجر اسود اور عمر رضی اللہ عنہ کی فراست : بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چوما اور پھر کہا: میں جانتا ہوں کہ تم ایک پتھر ہو ، تم نہ نفع پہنچا سکتے ہو اور نہ نقصان ۔ اگر میں نے نہ دیکھا ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چوم رہے ہیں تو میں تمہیں نہیں چومتا۔{ بخاری1520، مسلم 1720}
اس ایک قول میں جیسے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے پورے اسلام کو سمو دیا ہے یعنی توحید و رسالت کی پوری روح اس قول میں سمٹ آئی ہے ۔ پہلے حصےپر غور کیجے کہ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ، تو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے کہ یہ کام تو اللہ تعالی کا م ہے ۔ نفع و نقصان کا مالک اللہ ہے اور کوئی نہيں اور یہی تو حید ہے ، حقیقت اسلام ہے اور نجات کی بنیاد ہے اور دوسرے حصے پر غور کیجیے کیا فرما رہے ہیں ؟ میں تمہیں اس لیے چوم رہا ہوں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ تمہیں چوم رہے ہيں ۔
یہی تو اتباع ہے ، سنت کی پیروی ہے ، رسول کی رسالت پر ایمان کا مطلب ہے کہ اپنی مرضی نہيں نبی کے حکم کے مطابق چلنا ہے ۔حجر اسود نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اورنہ فائدہ دے سکتا ہے ۔ اپنا چلانا ہوتا تو اسے کبھی نہیں چومتا لیکن مسلمان ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں ، آپ کے اعمال و سیرت کا شیفتہ ہوں ، چوم اس لیے رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوما ۔یہی تو لاا لہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مطلب اور تقاضا ہے اور کس فراست سے ان دونوں حقیقت کو اس بات میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان فرما دیا ہے ۔
یہاں ایک اور زاویے سے دیکھیے تو عمر رضی اللہ عنہ کی مومنانہ فراست کا مزید احساس ہوگا ۔ آدمی جس چيز کو چومے اس سے ایک خاص قسم کی عقیدت کا پیدا ہو جانا فطری ہے ، اس میں اس بات کا اندیشہ ہوسکتا ہے کہ یہ عقیدت اسے عقیدے کی گمراہی میں مبتلا کردے کہ وہ چومتے ہوئے اسی سے نفع و نقصان کو منسلک سمجھنے کی بھاری غلطی کر بیٹھے ، اس لیے دیکھ لیجیے کہ کس قوت سے عمر رضی اللہ عنہ یہ بات کہہ رہے ہيں اور ساتھ ہی چومنے کی وجہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہ عمل صرف اتباع سنت میں کیا جارہا ہے اور کوئی دوسرا جذبہ کارفرما نہیں ۔ مسلمانوں کو بس اسی ایک جذبے کے تحت اعمال انجام دینے ہیں ۔
یاد رکھیے کہ کوئی بھی عمل تب تک قبول نہيں ہوگا جب تک وہ صرف اللہ کے لیے نہ ہو ، اس کی توحید کے تقاضوں پر پورا نہ اترے اور جب تک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو ۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے مخصوص انداز اور نہایت گہری فراست سے اسی حقیقت کو اس قوت سے بیان کیا ہے ۔توحید وسنت کے اسی راستے سے نجات ممکن ہے اور ایک مسلمان انہیں دو بنیادوں پر کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے ۔اس لیے عمل کرنے سے قبل دیکھ لیجیے کہ وہ اللہ ہی کے لیے ہو ، اس کی توحید کے تقاضوں پر پورا اتر رہا ہو اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت اور سیرت واسوہ کےمطابق ہو ۔اگر ایسا نہ ہو تو یاد کھیے کہ عمل قابل قبول نہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment