Wednesday 27 February 2013


مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی بصیرت
ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی

              مولانا آزاد اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ علم و سیاست کی جس وادی میں آپ نے قدم رکھا اپنے انمٹ نقوش ثبت کردیے ۔قدرت نے آپ کو خلاقانہ ذہن سے نوازاتھا ۔ شعور و فکر کے جتنے گوشے آپ کے افکار عالیہ سے روشن ہوئے وہ آپ ہی کا حصہ ہیں ۔ ایسے بالعموم آپ کو اپنی سیاسی بالغ نظری ، علمی وقار اور دینی خدمات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن آپ کی ادبی بصیرت اور ادبی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے ۔
        مولانا آزاد کی ادبی بصیرت کو سمجھنے کی راہ میں  مولانا آزاد کی زندگی کے کئی سارے پہلو ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ معلوم بات ہے کہ مولانا آزاد نے سب سے پہلے نہایت کم عمری میں ایک ادبی گلدستہ جاری کیا۔ خدنگ نظر کی اہمیت سے اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمیں مولانا کے ذہنی اپروچ سے باخبر کرتا ہے ۔ اس سے بڑی ادبی بصیرت کیا ہوسکتی ہے کہ شاعری ایک انسان کے بچپن کا شوق ہو اور تھوڑا بڑا ہوکر وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلے یہ سوچ کرکہ  اس کے لیے نثر زیادہ بہتر پیرایہ اظہار ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ہر کوئی مولانا کے اس اقدام کی ستائش کرگا ۔
        مولانا کے رسالے لسان الصدق پر اگر نظر ڈالی جائے تو مولانا کی ادبی بصیرت اور بھی واشگاف ہوکرہمارے سامنے آتی ہے ۔ مولانا نے جس طرح ترجمہ کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے ، اصطلاحات کے اسرار و رموز سے  پردے ہٹائے ہیں اور لسانیاتی گتھیاں جس طرح سے آپ نے سلجھانے کی کوشش  کی ہے  اس سے آپ کی علمیت و گیرائی کے ساتھ ہی آپ کی ادبی بصیرت اور ذوق کا پتہ چلتا ہے ۔
          ارباب علم ودانش کو پتہ ہوگا کہ  مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ساتھ حظ و کرب اور درد والم کی  بحث کتنی دلچسپ رہی تھی اور اس معاملے میں مولانا کے کٹر نکتہ چیں ماہر القادری نے  بھی مولانا کے موقف کی ہی تائید کی تھی ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے بہیترے  دلکش نمونے   ان کی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ الھلال اور البلاغ سے لے کر تذکرہ ، ترجمان القرآن اور غبار خاطرکی  ایک ایک سطر آپ کے ادبی ذوق اور لسانی شعور کی غمازی کرتی ہے ۔ بر محل اشعار کے استعمال کا معاملہ ہو ، سجے سجائے نک سک سے درست جملوں کو نگینے کی مانند جڑنے کا معاملہ ہو ، اسلوب کی گرمی اور جذبے کی صداقت کا معاملہ ہو ، یا زبان و بیان کے تجدیدی اور خلاقانہ استعمال کا معاملہ ہو ہر جگہ آپ کی یہ بصیرت جلوہ گر ہے ایسےنہیں کہا گیا کہ اگر قرآن کریم نہ نازل ہو چکا ہو تا تو اس کے لیے ابوالکلام کی نثر یا اقبال کی نظم کا انتخاب عمل میں آتا ۔
            یہاں اس بات کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا نے اپنے گہر بار قلم سے جہاں علم و دانش کے کئی گوشے روشن کیے وہیں زبان وادب کے گلشن بھی آپ کی نظر عنایت سے محروم نہ رہے ۔ آزادیات کے ماہر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی تحقیق کے مطابق مولانا نے اردو کے اندر تین سو سے زیادہ الفاظ رائج کیے ۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی معمولی نظر آتی ہے لیکن غور کرنے پر  اس کی اہمیت و عظمت کا احساس ہوتا جاتا ہے ۔
       زبان وادب کا یہی شعور اور یہی بصیرت تھی جس نے قرآن حکیم کی لازوال تفسیر ترجمان القرآ ن سے ہمیں نوازا ۔ یوں تو قرآن کے  بہت سے ترجمے ہوئے لیکن وہ جو کہتے ہیں  نا
وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
رشید احمد صدیقی نے بجاطور پر یہ بات کہی ہے کہ قرآن کے اسلوب و آہنگ کو اگر اردو میں کسی نے منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ۔ اور سوچا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کس قدر ادبی بصیرت کی ضرورت ہوگي۔
        مولانا پر عام طور سے مشکل پسندی کا الزام لگایا جاتا ہے اور عربی فارسی کے الفاظ کے بے جا استعمال کا شکوہ کیا جاتا ہے بعض حضرات تو ان پر اس سلسلے میں زبان درازی کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مولانا کا کوئی ایک اسلوب نہیں ۔ وہ موقع اور محل کے اعتبار سے اسلوب اپناتے ہیں ۔ تذکرہ علما کے لیے لکھا تو اس زمانے کے علما کے اسلوب و آہنگ میں لکھا ، الھلال اور البلاغ کا مقصد امت کو بیدار کرنا اور عمل پر ابھارنا تھا تو اسی جوش وآہنگ کا سہارا لیا گیا ، ترجمان القرآن عام آدمی کے لیے لکھا گیا تو بالکل سلیس اور سادہ زبان استعمال کی گئی اور غبار خاطر کے اندر دل و نگاہ کی داستان چھیڑنی تھی تو رنگین ادبی اسلوب اختیار کیا گیا ۔اور یہ اگر کسی چیز کا پتہ دیتا ہے تو اس بات کا کہ مولانا کا لسانی زاویہ کتنا روشن اور ادبی بصیرت کتنی پختہ تھی ۔ آپ کے دفتری احکامات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے کس طرح انگلش کے بر محل الفاظ کے استعمال سے اردو کو  عام غیر اردوداں  انسان کے لیے بھی قابل فہم بنانے کی کا میاب کوشش کی ہے ۔
یہاں چند مثالوں کے ذریعہ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تذکرہ کے اندر مولانا کا جاہ وجلال ،  زبان وبیان کا جوش وخروش اور ان کا عربی فارسی آمیز رویہ دیکھیے ۔
'پس حقیقت وہی ہے جس کو وحی الہی اور حاملین منصب نبوت علی الخصوص آخرھم و اعظمھم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب و اتباع نے دنیا کے آگے پیش کیا اور شک و ظن کی ظلمت و محجوبیت کی جگہ علوم سماویہ و نبویہ کی یقینیات وبراہین کا دروازہ نوع انسانی پر کھول دیا ، اور جس کے علم و عمل کا نمونہ سلف صالح و اوائل امت مرحومہ من السابقون الاولون من المھاجرین و الانصار والذین اتبعھم باحسان من ورثہ الانبیاء و خلفاء الرسل و ائمۃ الھدی ، رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ نے اخلاف و آخرامت کو ہمیشہ کے دکھلادیا ۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔'(تذکرہ ص 177 )
اب ذرا دیکھیے  کیا ایک یہی عبارت اس بات کے اثبات کے لیے کافی نہیں کہ در اصل اس کتاب کا مخاطب وہ طبقہ علماء ہے جس کے اندر عقیدے کی خرابیاں در آئی ہیں لیکن وہ اپنے کو علم و دانش کے میدان میں پیچھے نہیں سمجھتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایسے ہی طرز خطاب کی ضرورت تھی ورنہ وہ سرے سے کمتر سمجھ کر درخور اعتنا ء ہی نہ سمجھتے لیکن مولانا کا یہی اسلوب غبار خاطر میں ہمیں نہیں ملتا ۔
             'میں آپ کو بتلاؤں ، میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہوسکتاہے !جاڑے کاموسم ہو ، اور جاڑا  بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ، رات کا وقت ہو ، آتشدان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں ، اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھاہوں ، اور پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوں
من ایں مقام بدنیا و عاقبت ندہم
اگرچہ در پیم افتند خلق انجمنے
معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہوگا ! وہاں  کی نہروں کاذکربہت سننے میں آیا ہے ، ڈرتا ہوں کہ کہیں گرمی کا موسم نہ رہتا ہو!
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے ، وہ تری جلوہ گاہ  ہو
عجیب معاملہ ہے ۔ میں نے بارہا غور کیا کہ میرے تصور میں آتشدان کی موجودگی کو اتنی اہمیت کیوں مل گئی ہے ! لیکن کچھ بتلانہیں سکتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ سردی اور آتشدان  کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہوا ۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ۔ میں سردی کے موسم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچ ہی نہیں سکتا ، اگر آتشدان نہ سلگ رہا ہو ، پھر آتشدان بھی وہی پرانی روش کا ہو نا چاہیے ، جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے کندے جلائے جاسکیں ، بجلی کے ہیٹر سے میری تسکین نہیں ہوتی ، بلکہ اسے دیکھ کر طبیعت چڑ سی جاتی ہے ۔'  (غبار خاطر ص 172 )
         اب ذرا فیصلہ کیجیے کہ دونوں اسلوب  میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے ۔ جہاں تذکرہ میں گھن گرج اور جوش وخروش کے ساتھ علمیت کی گہری چھاپ ہے وہیں یہاں گفتگو کا طرز و انداز ہے  اور وہ بھی چاشنی اور لطف کے ساتھ ۔کیا اس کے بعد بھی اس اعتراض کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ مولانا کے یہاں  لفاظی اور ثقالت کا طومارہے ۔ اور اگر ترجمان القرآن پر ایک نظر ڈال لی جائے تو یہ حقیقت اور بھی روشن ہو جائیگی ۔
مولانا لکھتے ہیں ۔
' خدا کی سچائی ، اس کی ساری باتوں کی طرح ، اس کی عالمگیر بخشش ہے ۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خاص نسل و قوم سے ، اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے ۔تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنالی ہیں ، لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے ، اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ،نہ جماعتی حلقہ بندی ۔وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اورنوع انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے ۔ اگر تم خدا کی سچائی کی ڈھونڈھ میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈھو ۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے ۔ تمہیں زمانوں کا ،قوموں کا ، وطنوں کا ، زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔صرف خدا کا اور اس کی عالمگیر سچائی کا پرستار ہونا چاہیے اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں بھی آئی ہو ، تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو ۔(ترجمان القرآن جلد اول ص 411 )۔
مالک رام ترجمان القرآن میں پیش کیے گئے ترجمہ پر اپنی کتاب ' کچھ ابوالکلام کے بارے میں ' میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں :
'   یہ ترجمہ  ادبی لحاظ سے بھی  اتنا حسین اور برجستہ ہے کہ اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جانا چاہیے تھا ۔افسوس کہ اس پہلو سے کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔ مثال کے طور پر صرف سورہ فاتحہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
اللہ کے نام سے جو الرحمان الرحیم ہے ۔
ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے جوتمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے ۔ جورحمت والاہے ، اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کررہی ہے ، جو اس دن کا مالک ہے ، جس دن کاموں کابدلہ لوگوں کے حصے میں  آئیگا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے ، جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں ) مدد مانگتے ہیں ۔ (خدایا !) ہم پر سعادت کی سیدھی راہ کھول دے ، وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تونے انعام کیا ۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے ۔ اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے ۔
اس پر ترجمہ کا گمان ہی نہیں ہوتا ۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصنف نے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے اسے اصل میں لکھا ہی اس طرح ہو ۔'(ص83 )
 مولانا آزاد کا اسلوب ضرورتوں اور مواقع اور محل کے اعتبار سے بدلتارہاہے اور جس مصنف اور ادیب کو اس کی قدرت  ہو اور سامعین کی سمجھ کے مطابق باتیں رکھنے کا  اسے گڑ آتا ہو اس کی ادبی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے اس بحث کو ہم مولانا کے  اس اقتباس پر ختم کرنا چاہینگے جس کے اندر مولانا کا لسانی شعور بھی جلوہ گر ہے اور ادبی نیرنگی بھی ۔ اصطلاح     و ظائف کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں :
اصلی عبارت میں لفظ function ہے ۔انگریزی میں فنکشن اور ڈیوٹی دوایسے لفظ ہیں جن کے معنی اگرچہ متحد ہیں مگر محل استعمال مختلف ہے ۔عربی میں فنکشن کے لیے بحالت مفرد ' وظیفہ ' اور بحالت جمع 'وظائف ' آتا ہے ۔ ڈیوٹی کے لیے بحالت مفرد 'واجب ' اور بحالت  جمع ' واجبات ' استعمال کیا جاتا ہے  ۔ لیکن اردو میں فنکشن اور ڈیوٹی دونوں کے لیے لفظ ' فرض' ہی بولاجاتاہے جو اگرچہ اصولا غلط نہیں ہے مگر توسیع زبان اور تدقیق علمی کے لحاظ سے صحیح نہیں ۔اسی لیے ایک  عرصے سے ہم وظیفہ اور وظائف کو فرائض کےمعنوں میں استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے صحیح معنوں میں یہ الفاظ رائج ہو جائیں ۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اردو کے بڑے بڑے مترجموں نے بھی آج تک اس فرق کو محسوس نہیں کیا ، اور ہر جگہ فرض ہی کا لفظ لکھتے رہے ۔ جب تک ملک میں عربی داں مترجم علوم جدیدہ پیدا نہ ہوں گے ، اردو کی بد بختی لاعلاج رہے گی ۔ اس حقیقت پر روئیے تو بہت سے مدعیان علم وتراجم کو شاق گذرتا ہے ۔ یہ دوسری مصیبت ہے ۔' (مولانا ابوالکلام آزاد  فکرو عمل کے چند زاویے :ڈاکٹر وہاب قیصرص62 )





Monday 4 February 2013


'ظفر علی خاں –حیات، شاعری اور صحافت' پر ایک نظر
ثناءاللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی 
انیسوی اور بیسویں صدی کے ہندوستان سے واقف لوگوں کے لیے ظفر علی خاں کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہوگی ۔ مولانا ظفر علی خاں علم و ادب کے اس شجر پر بہار کا نام ہے جس کے سایے کی افادیت مسلم رہی ہے ۔وہ چوطرفہ اور ہر فن مولی قسم کی شخصیت کے مالک تھے ۔ شاعری ، خطابت، صحافت ، ترجمہ نگاری سےلے کر تصنیف تالیف ہر جگہ آپ کے جو ہر کھلتے تھے ۔ اسلاف کے اس گروہ سے آپ کا تعلق تھا جو راست گوئی ، حق بیانی ، صدق و صفا، حرکت ، ایمانداری اور دینی غیرت کے معاملے میں قابل تقلید اثاثہ چھوڑ گئے ۔ہندوسان کی آزادی کی راہ میں اپنی ساری توانائی صرف کردی ۔ اور جہاں رہے اسلام اور مسلم قوم کے بہادر سپاہی بن کر رہے ۔
مولانا رفیع اللہ مسعود تیمی نے 'ظفر علی خاں حیات ،شاعری اور صحافت ' جیسی اہم کتاب لکھ کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ خاص طور سے آج کی نوجوا ن نسل جس قسم کی فکری بے راہ روی اور ذہنی آوارگی کی شکار ہے ایسے میں اس قسم کے علماء ، مصلحین اور دانشوران قوم کو بہتر عصری اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش قابل ستائش ہے اور اس تناظر میں اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ 'ظفر علی خاں – حیات،شاعری اور صحافت ' تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں مصنف نے ظفر علی خاں کے پیدائش کے وقت میں بر صغیر ہند وپاک کی سماجی ،سیاسی اور ادبی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی حالات زندگی کو بیان کیا ہے ۔ اس درمیان مسلمانوں کے بیچ اٹھنے والی شاہ ولی اللہ دہلوی کی اصلاحی تحریک، سید احمد اور سید اسماعیل دہلوی کی تحریک جہاد ،علی گڑھ تحریک اور دیوبند تحریک کے ہمراہ ہی مصنف نے راجہ رام موہن رائے کی برہمو تحریک اور دیا نند سرسوتی کی آریہ سماج تحریک کا بھی ذکر کیاہے ۔اختصار کے ساتھ تجزیاتی رویہ اپنایا گیاہے ۔ لیکن انصاف کے تقاضے ملحوظ رکھے گئے ہیں ۔تحریک دیو بند کے ذکر میں جہاں یہ لکھ کر تحریک دیوبند کو آئینہ دکھلایا گیا ہے کہ
'تحریک دیوبند رفتہ رفتہ تقلیدی جمود اور موہوم ہندی ویدانتی تصوف کے خول میں سمٹ کر رہ گئی حالانکہ اس کا خمیر بھی وہی تھا جو شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے تیار کیا تھا ' وہیں یہ خراج تحسین بھی پیش کی گئی ہے ۔
'تحریک دیوبند کا مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح ، غلط رسوم ورواج کے استیصال ،دین کی ترویج واشاعت ،فرق ضالہ سے مناظرہ، ملک کے علمی و روحانی سرمایے کے تحفظ میں زبردست کردار رہاہے ۔ اس تحریک نے درس وتدریس کے لامتناہی سلسلے کے آغاز میں جو پیہم کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فارسی و عربی زبان وادب کے ساتھ اردو کو بھی فروغ حاصل ہوا۔'
لیکن یہی رویہ علی گڑھ تحریک پر قلم اٹھاتے ہوئے نہیں روا رکھا گیا ہے ۔ مصنف نے سرسید کی دینی کوششوں کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس سے ایک قسم کی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے ۔ 'سر سید ایک مذہبی آدمی تھے اور انہوں نے عقل سلیم کے ذریعہ اسلام کی مدافعت کی اور یہ ثابت کردیا کہ اسلام زمانے کے نئے تقاضو ں کو نہ صرف قبول کرتاہے بلکہ نئے حقائق کی توضیح کی بھی صلاحیت رکھتاہے ۔ علی گڑھ تحریک نے یہ بھی واضح کیا کہ انگریزی تعلیم اسلام کے بنیادی نظریات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔چنانچہ فقہ و فلسفہ کے ساتھ ساتھ اس تحریک نے اسلام کی تفہیم میں عقلی نقطہ نظر بھی استعمال کیا اور اس کی حقانیت کو ایک نیا ثبوت فراہم کیا۔'
سر سید اپنی جملہ خوبیوں کے باوصف دین کی تفہیم کے معاملے میں بڑی چوک کے شکار ہوئے ہیں ۔ عقل کے بے لاگ استعما ل سے اسلام کے بنیادی عقائد تک پر حرف آگئے ہیں ۔ان کی تعریف اور ان کے کارناموں کے ذکر کے ساتھ ہی اس طرف اشارہ بھی بہت ضروری ہے ۔
باب اول میں مصنف نے ان حالات اور ان کے پڑنے والے اثرات کی روشنی میں مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی اچھی کوشش کی ہے ۔ان کی زندگی ، عملی اور علمی کارناموں پر محبت اور اپنائیت کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کامیا ب کوشش کی ہے ۔ خاص طور سے ان کے اخلاق حمیدہ کا ذکر دلکش بھی ہے اور مسحور کن بھی ۔ان کی افتاد طبع اور نفسیات سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے اور اس طرح ان کی شخصیت کا اچھا مطالعہ سامنے آیا گیا ہے ۔ اس کا کچھ اندازہ ان ذیلی عنوانات سے لگایا جاسکتاہےجو اس طرح ہیں ۔ظفرعلی خاں کا خاندانی پس منظر ، ولادت، نشوونما، تعلیم وتربیت، عقیدہ و فکر، اخلاق و عادات ، ظفر علی خاں میدان عمل میں ، ظفر علی خاں بحیثیت مسلما ن،ظفرعلی خاں بحیثیت انسان ، ظفرعلی خاں بحیثیت سیاسی رہنما ، ظفر علی خاں اور جد وجہد آزادی ، ظفرعلی خاں اور ملکی اور بین الاقوامی مسائل ، تصنیفات وتراجم ، وفات ، اولاد ، ظفر علی خاں معاصرین کی نظر میں اور ظفر علی خاں مشاہیر کی نظر میں ۔اس باب کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ ظفر علی خاں کے ساتھ ساتھ اس عہد کے بہت سے سیاسی ، دینی اورعلمی مباحث کا بھی ذکر آگیا ہے جو بلاشبہ فائدے سے خالی نہیں ہے ۔
دوسرے باب میں ظفر علی خاں کی شاعری سے بحث کی گئی ہے ۔ان کی حمدیہ شاعری ، نعتیہ شاعری ، جدید نظم ، قصائد ، مراثی ، طنزو مزاح ، غزلیں اور مناجات کی روشنی میں ان کے فکرو فن کا جائزہ لیا گیا ہے ۔مثالوں اور ناقدین فن کے آراء نقل کرکے ان کی شاعری کی خصوصیا ت اجاگر کی گئی ہیں ۔اس معاملے میں مصنف پوری طرح کامیا ب نظر آتے ہیں کہ قاری اس کتا ب کو پڑھنے کے بعد کم از کم ظفر کی شاعری کے مختلف اور متنوع رنگ و آہنگ سے واقف ہو ہی جائے۔ ان کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے بارے میں مصنف شورش کاشمیری کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں کہ ان کے یہاں غلو کا نام تک نہیں ۔لیکن جہاں اس قسم کی خرابیاں در آئی ہیں ، ان کی طرف اشارہ نہیں کرتے جیسے مولانا کا یہ حمدیہ شعر
نہ ہوتی گر خودی ہم میں تو جو تھا وہی ہم تھے
یہ پردہ کس لیے ڈالا ہے یارب درمیاں تونے
یا اسی طرح نعت کا ایک شعر
سب سے اونچا پایہ ہے اس کا اور تیرے اوپر سایہ ہے اس کا
ملت بیضا‌ء پھر تجھے کیا غم صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف نے غالبا اس جانب اس لیے اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ ایسی لغزشوں کو بہت کم راہ مل پائی ہے ۔ ان کی شاعری ، اس کی خصوصیات اور اردوشاعری میں ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ان کے جوش وجذبہ، فی البدیہ شعر کہنے کی لاجواب صلاحیت ، رونما ہونے والے حالات وواقعات پر ایک پر ایک دلکش نظموں کی سوغات اور ان کی شاعرانہ طبیعت کی روانی کا تذکرہ خوب ہے ۔تجزیے کی خاطر جن نظموں ، نعتوں ، حمدیہ کلام ، مراثی اور غزلوں کا انتخاب عمل میں آیا ہے وہ مصنف کے حسن انتخاب اور بہتر ذوق کا آئینہ دار ہے ۔یہ اشعار یاد رکھے جانے کے قابل ہیں ۔
قدسیوں میں ہو رہی تھیں آج یہ سرگوشیاں
عنقریب اسلام کی فصل بہار آنے کو ہے
سلیقہ مے کشی ہو کاہو تو کرلیتی ہے محفل میں
نگاہ مست ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
ہوائیں نشیلی ، فضائیں رنگیلی
بہار اپنی تصویر کھنچوارہی ہے
انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت لکھے گئے یہ اشعار آج بھی داد کے طالب ہیں ۔
صدر اعظم کی سخاوت میں نہیں ہم کو کلام
لیکن ان سے پوچھتے ہیں ہم کہ ہم کو کیا دیا
کاغذی گھوڑا دیا ہم کو سواری کے لیے
5
اک کھلونا بھیج کر بچو ں کا دل بہلادیا
میوہ خوری کے لیےچننے لگے جب گول میز
رکھ لیا خود مغز چھلکوں پر ہمیں ٹرخادیا

تیسرے باب میں ان کی صحافت پرروشنی ڈالی گئی ہے ۔مصنف نے اس سلسلے میں ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ اردو صحافت کی تاریخ پر ایک سرسری لیکن کارآمد نظر ڈالی ہے ۔افسانہ، دکن ریویو ، پنجاب ریویو ، ستارہ صبح، ہفتہ وار زمیندار اور روزنامہ زمیندار پر قدرے مفصل گفتگو کرتےہوئے ظفرعلی خاں کی صحافتی خدمات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئ ہے ۔ان کے اسلوب نگارش کے امتیازات تلاشے گئے ہیں اور ان کی اداریہ نویسی کی خصوصیات پر بھی نطرڈالی گئی ہے اور اردو صحافت میں ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی طرف بھی پیش قدمی کی گئی ہے ۔ جو ایک قابل تحسین عمل ہے ۔تیسرا باب اس لیے بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ بالعموم ظفرعلی خاں کو صرف زمیندار کی ادارت کے لیے ہی جانا جاتا ہے جب کہ ان کی خدمات صرف زمیندار تک محدود نہیں رہی ہے ۔ مولانا کی یہ کتا ب ظفر علی خاں کی ادارتی صلاحیتوں کو دوسرے رسائل کی روشنی میں بہتر طریقے سے پیش کرتی ہے ۔ ظفر علی خاں کے یہاں گھن گرج ، جوش ، خروش ،چھاجانےوالا اسلوب اور خطابت کے جو عناصر پائے جاتے ہیں ان تمام کا ذکر آیا ہے اور آب وتاب کے ساتھ آیاہے ۔ ہمارا ماننا ہے کہ تیسرا باب ظفر علی خاں کی صحافتی خدمات پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے ۔
مولانا رفیع اللہ مسعود تیمی علمی حلقوں میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں ۔ آپ کے تیز رو قلم سے کئی کتابیں منظر عام پر آکر اصحاب ذوق کی علمی تسکین کا ذریعہ بن چکی ہیں ۔ ان کی یہ کتا ب ظفر علی خاں کی شخصیت ، ان کی شاعری اور صحافت کی تفہیم کے باب میں ایک اہم تصنیف ہے ۔ کتاب کا اسلوب علمی ہونے کے باوجود خشک نہیں ہے ۔ قاری کے اوپر اکتاہٹ کی کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔ تحریر میں دلکشی ہے اور رچاؤ بھی ۔ مصنف نے قابل قدر مواد فراہم کردیا ہے ۔کتا ب کی ایک بڑی خوبی اس کا حوالہ جات سے مزین ہو نا ہے جو اسے وقار واعتبار عطا کرتا ہے ۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی کم ہیں ۔کتاب کی طباعت عمدہ ہے۔پیش گفتار میں پروفیسر ابن کنول نے درست لکھاہے کہ مصنف کا ذہن و مزاج محققانہ ہے ۔ کتاب میں اس کے نمونے بکھرے ہوئے ہیں ۔مقدمہ کے اندر مصنف نے کتاب اور ظفر علی خاں سے متعلق اجمالا گفتگو کی ہے ۔ یہ کتاب ظفر علی خاں کے محاسن وخدمات کا بہتریں مرقع ہے البتہ اگر ان کی فنی یا دینی کمیوں کی طرف بھی اشارے ہو جاتے تو سونے پر سہاگا ہو جاتا ۔ کتا ب اس قابل ہے کہ اسے خرید کر پڑھا جائے ۔ میں مصنف کو اس علمی کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

Sunday 3 February 2013


The World Accepts Islam
Sanaullah Sadique Taimi
Center Of Arabic And African Studies
Jawahar Lal Nehru University

            It's very possible to be fully surprised by reading the headline of this article. Where the whole world is against the Muslim community. They try their best to defame Islam and insult prophet Mohammad (peace be upon Him). They take every initiative  to alienate Muslim community from the main stream. Where there is no any value of what belongs to Muslims. The entire community lives in a sense of fear. They are usually taken for granted. In this critical situation if someone claims that the world is accepting Islam, then really it seems to be a miracle. Particularly when it does not mean to mention the increasing number of those who accept Islam and become Muslims. Undoubtedly the world reaches to Islam as well as Islam reaches the world. The number of intellectuals and academics entering Islam is highly inspiring. West fears the domains of Muslims on Europe if this continues. Ironically Hindu fundamentalist organizations like RSS and another extremist outfits are frightened to be surrounded by the population of India in which Muslims consist the majority. The most interesting point is that they feel that Muslims believe  in polygamy   and get marriages with four women and use them as the source of begetting uncountable children. There is no need to analyze the irrelevance of this false claim.
         To claim that the world accepts Islam here means that they willingly or unwillingly forced to bow down to the reality of Islam and the relevance of Islamic thoughts and teachings in resolving the problems facing them. This could be proved with many evidences. Let's try to explore it.
            Last month a Para-medical student was brutally gang-raped in New Delhi in a moving bus. The incident led to a multifaceted  discussion on the factors and solutions. Although there were many suggestions but the most forceful and prevailing was indicating towards intensifying the need of severe punishment , following Saudi Arabia model of conduct and the need of civilized dress of women in addition to morale education. Even some women rights activists and swamis demanded the   enforcement of Islamic Sharia in this particular respect. Delhi high court stressed in a report recently published in The Hindu that the link between alcohol and crime is very strong. It advised the government to take reformative steps to tackle the problem. Well known Bollywood actor Amir Khan's TV program SATYAMEV JAYATE  which successfully raised some social issues like child abuse, female feticide , parents' rights , dowry and so on. It also focused in a program on the dilemma of alcoholism. In an affective and appealing manner brought to the people the dangers of this inhumane habit. Jawed Akhtar  of film industry admitted that he committed all his mistakes when he was drunk. To  Islam     wine is the mother of evils. It is totally prohibited in Islam and those who defy it would be dealt with severe punishment to protect the society and human wisdom.
              Three years back the world witnessed a record breaking recession all over the globe. The economic system of America was fully unable to do  any good in this regard. World famous economists were clueless. Unemployment spread out from east to west and south to north. At that juncture when they wanted to find out the factors, interest and accumulation of wealth appeared as  the occupying main reasons behind the terrific failure. Islamic economic system is free from interest and monopoly. Interest is unlawful in Islam and a Muslim is bound to spend at least 2%5 of his wealth on poor section of the society. When this system was fully applied in the regime of  Umar bin Abdul Aziz, known as fifth caliph of Islam, there were abundance of wealth and prosperity. After math of recession people rushed towards Islamic banks, particularly European countries started experimenting Islamic banking system mainly to avoid the recession. That was  a reminder for the whole world to accept the reality and follow the rule of Allah. They actually realized the effectiveness of Islamic system but are afraid and little bit ashamed to announce it. China is known all over the world for its one child policy. In the recent past it was considered to be  a role model in controlling the birth ratio in another countries also. This policy made China a nation of old aged people. The system would be collapsed due to this unreasonable policy. The sign of change is apparent, hence it has been started. To the recent amendment, if a man has first child daughter , he will be allowed for second child  also. It was also forced to allow the people have  a limited ownership of their belongings. It’s a start ,the most has to come.
              In Europe people are rushing towards spirituality. They are tired of the culture of desires. Women are recovering their sense of chastity and dignity. They seek the  peace in Hijab. Although they didn't announce their Islam but their approach tends to announce it. A number of working women in India expressed their increasing tensions due to double responsibility of office and home. They advocated for the women to remain in homes , engaged in useful activities close to their nature like  home affairs and children care etc. The Hindu last year brought  these discussions on open page in its Sunday edition. In the light of these facts to claim that the world is accepting Islam is not a false claim. The people all over the world are compelled to accept the relevance of Islamic values and teachings. They are obedient to the rule of Allah in their natural demand , then why they are not willing to obey it by choice. This also calls on the Islamic scholars to focus on preaching more and more and tirelessly  try to uncover the veils of misconceptions  imposed on Islam advertently .The circumstance is fully in the favor of Islam if they are able to avail the opportunities. May Allah bless them.    
ش ةخرهىل d in New Delhi in  Indieart of India , the relevance of Islamic thuoughts

   
      

1
دنیا مسلمان ہور ہی ہے
ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو  یونیورسٹی
           سرخی دیکھ کر تعجب کا پیدا ہو جانا بہت فطری ہے ۔جہاں ایک طرف پوری دنیا اسلام کو بدنام کرنے کی انتھک کوشش کر رہی ہو ،قدم قدم پر اسلام کی راہ میں روڑ ے اٹکا ئے جارہے ہوں ، اسلام کے نام لیواؤں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے سارے جتن کیے جارہے ہوں ،اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ہوئی ہر ایک چیز بے وقعت یا خطرناک سمجھی جارہی ہو اور اللہ کے آخری دین کے نمائندے بظاہر ہر سطح پر پسپائی اختیار کر رہے ہوں ۔وہاں دوسری طرف کسی شخص کا یہ کہنا کہ دنیا مسلمان ہو رہی ہے  دیوانے کا بر  یا شیخ چلی کا خواب ہی نظر آتا ہے ۔لیکن یہ اتنا غیر متعلق بھی نہیں ہے ۔
            یہاں یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا کے مسلمان ہو نے کا مطلب یہاں پر یہ نہیں ہے کہ لوگ دین اسلام قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔ہر چند کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی بھی ہے اور بڑی تیزی سے خاص طور سے پڑھے لکھے لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا ہے ۔کفر و شرک کی غلاظتیں لوگوں پر ظاہر ہورہی ہیں ، خدا بیزار نظام حیات کا کھوکھلاپن سامنے آرہاہے  اور امن و سکو ن اور مسائل حیات کا واقعی حل ڈھونڈنے والے اللہ کے دین کوقبول کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔اور اہالیان کفر وشرک اور شیطنت کے خیمے میں ہلچل مچی ہوئی ہے کہ آنے والے وقت میں خود یورپ کے اندر اسلام کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائیگی ۔ہندوستان کے تناظر میں دیکھیے تو آر۔ایس ۔ ایس اور اس جیسی ہندو انتہا پسندتنظیموں کو بھی یہ ڈر ستاتاہے کہ آنے والے وقت میں مسلمان ہندوستان کی اکثریت میں آجائیگا۔ہاں ہندوستان کی  یہ  انتہاپسند  تنظیمیں اس کا سبب مسلمانوں کی کثرت تولید اور انجاب کو بتلاتی ہیں  ۔جو بلا شبہ ایک لغو بات ہے ۔ یہاں پر یہ کہنے کا مطلب کہ دنیا مسلمان ہو رہی
2
ہے یہ ہے کہ دنیا چار و ناچار اسلام کی سچائیوں کو تسلیم کررہی ہے ۔وہ زبان سے بھلے قبول نہ کرے لیکن تسلیم کررہی ہے کہ اسلام ہی میں نجات ہے ۔اس دعوے کو کئی سطحوں پر دلائل و براہین سے ثابت کیا جاسکتاہے ۔
               پچھلے دنوں دہلی میں گینگ ریپ(اجتماعی عصمت دری ) کا ایک واقعہ پیش آیا ۔اس پر مختلف قسم کی آراء سامنے آئیں ۔ لیکن جو رائے سب سے مضبوط تھی وہ یہ تھی کہ خواتین پردے کا التزام کریں اور زانی کو سعودی عرب کی طرح پھانسی کی سزادی جائے بلکہ یہ بات بھی کہی گئی کہ نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو باضابطہ طور پر داخل کیا جا ئے ۔تبھی جاکر اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے ۔یہاں یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کا اس سلسلے میں موقف کیا ہے ؟بلکہ بہت سے  مفکرین اور سماجی خدمت گاروں نے تو باضابطہ طور سے اس معاملے میں اسلامی شریعت کےنفاذ کا مطالبہ تک کیا۔خواتین کی بہبودی سے جڑی خواتین  کے ہمراہ بہت سے سوامی حضرات کا ماننا یہی ہے کہ اس معاملے میں اسلام ہی بہتر اپائے (حل) پیش کرتا ہے ۔
THE HINDU                         میں چھپی رپورٹ کے مطابق  دلی ہائی کورٹ کے ججوں کا ماننا ہے  کہ زنا بالجبر سمیت اور دوسری سماجی اور اخلاقی برائیوں کی بنیادی وجہ شراب نوشی ہے ۔اس لیے قانون کو اس سلسلے میں بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلام کا مانناہے کہ شراب نوشی برائیوں کی ماں ہے ۔ہندوستانی سنیماکے مشہور ادا کار عامر خان کے ٹی وی پروگرام  SATYA MEV  JAYATE'سچ ہی کی جیت ہوگی ' کو بڑا  شہرہ ملا اورظاہر ہے کہ ایک فلم اسٹار کا کچھ  اس قسم  کےپروگرام کا پیش کرنا اپنے آپ میں ایک  قابل ذکر واقعہ ہے ہی۔اس کے اندر جہاں بہت سی سماجی برائیوں سے پردہ اٹھایا گیا اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی وہیں  شراب کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بھی بتلائی گئیں اور ایک دن کا پورا پروگرا م اسی موضوع پر رکھا گیا ۔فلم جگت کی ایک دوسری مشہور شخصیت جاوید اختر بھی اس پروگرام میں شریک تھے ۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ زندگی کی ہر بڑی غلطی ان سے شراب کی حالت  میں  سرزد ہوئی۔ا سلام شراب کو ام الخبائث کہتاہے ۔ اور سمجھا جاسکتاہے کہ آج دنیا بہ شکل دگر ہی سہی یہ تسلیم کر رہی ہے ۔
            
3
 ابھی تین چار سالوں قبل دنیا ایک بڑے مالی بحران سے دوچار ہوئی ۔ امریکی معیشت کی کمر ٹوٹ سی گئی ۔ عالمی سطح پر بے روزگاری کے سنگین مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ۔ معیشت کی دنیا کے بڑے بڑے دماغ پھسڈی ثابت ہوگئے۔اب اس کے اسباب کا پتہ لگایا جانے لگا تو بنیادی طورسے دو باتیں ابھر کر سامنے آئیں ۔ ایک تو یہ کہ سودی نظام کی وجہ سے یہ سارے مسائل پیدا ہوئے اور دوسرے یہ کہ مال کے احتکار و ادخار اور صرف چند افراد کے پاس  سرمایے کے جمع ہو جانے کے سبب یہ خطرناک منظر سامنے آیا ۔اسلام نے سود کو حرام قراردیا  اور مال صرف مالداروں کے پاس نہ رہ جائے اس کے لیے زکوۃ کا نظام  دیا ۔ اور یہ  معلوم ہے کہ جب بیت المال کا مکمل نظام  خلیفہ خامس عمر بن عبد العزیز  کے زمانےمیں نافذ کیا گیا تو خوشحالی کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی آدمی زکوۃ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ معیشت کی اس صورت حال کے فورا بعد اسلامی بینکنگ اور اسلامی نظام اقتصاد کی معنویت پر چرچا بڑھنے لگا  اور دیکھتے دیکھتے امریکہ اور یورپ میں کئی ایک اسلامی بینک کھل گئے ۔
 دیا رنج  بتوں نے تو خدا یاد آیا
                  چین کو ایک انسان ایک بچے کی پالیسی والے ملک کے طور بڑی شہرت حاصل ہے اور ایک زمانے تک آبادی کنٹرول کرنے کے معاملے میں اس کی مثال دی جاتی رہی ہے ۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے ۔ وہاں نوجوا نوں کی بجائے معیشت کا دارومدار بوڑھوں پر ہے اور یہ  ا س کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ تبدیلی کے آثار بہت واضح ہیں ۔اور یہ طے ہے کہ یہ تبدیلی آکر رہے گی جس کی شروعات ہو بھی چکی ہے ۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق اگر کسی کی پہلی اولاد بچی ہے تو وہ دوسری اولاد پیدا کرنے کا مجاز ہوگا۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
                خاص طور سے یورپ اور امریکہ کے اندر لوگوں نے مادیت سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے ۔اب وہ تھک چکے ہیں ۔ وہ سکون کی تلاش میں کبھی تصوف تو کبھی اور دوسری روحانی قدروں کی طرف مائل ہونے لگے ہیں ۔اور یہ اس بات کا اشاریہ ضرور ہے کہ وہ اپنی شکست  کے معترف ہیں ۔ایسے لوگوں کا  اصل اسلام تک پہنچ جانا
4
کافی فطری ہے اور ان شاء  اللہ وہ دن دور نہیں جب وہ وہاں  ضرور پہنچ  جائینگے ۔ یورپی خواتین کے اندر حجاب کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اور عصمت و عفت کے احساس میں آئی تیزی سے اس بات کا اندازہ لگانا قطعا مشکل نہیں کہ عملا ان خواتین نے اسلام کی حقانیت کو قبول کرلیا ہے  ہر چند کہ وہ باضابطہ اس کا اعلان واعتراف نہ کررہی ہوں ۔
THE HINDU  کے OPEN PAGE پر  نوکری پیشہ خواتین سے متعلق  کچھ مہینوں پہلے جس قسم کی ڈیبیٹ چلی اور جس طرح WORKING WOMEN   کی اچھی خاصی تعداد نے  خواتین  کے خاتون خانہ ہونے کو اس کا اچھا اور قابل فخر نصیب قراردیا  وہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو کیا یہ کہنا غلط ہے کہ  دنیا مسلمان ہورہی ہے ۔ اے کاش وہ دنیا جو مجبورا اس نعمت کو قبول کررہی ہے اپنی چاہت سے بھی قبول کر لیتی تو دین و دنیا کی ساری بھلائی اس کا مقدر ہو جاتی ۔ یہ انسان فطری تقاضوں کے مطابق تو ایسے بھی اللہ کے قوانین کا پابند ہے پھر وہ کیوں نہ اختیاری طور پر اس کو اپنا تاہے کہ سرخرو ہو جائے ۔ ساتھ  ہی علماے اسلام کو کیا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ نے اتنے سارے مواقع فراہم کردیے ہیں پھربھی وہ اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا سامان نہیں کرتے ۔