Wednesday 13 September 2023

 اس بات کی گنجائش تو ہونی ہی چاہیے کہ کسی بھی موضوع پر دلائل و براہین کی روشنی میں تہذیب و سلیقے سے گفتگو ہو لیکن اس بات کی قطعی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے کہ یہ مباحثہ کسی بھی قسم کی بد اخلاقی یا بد تمیزی کو شامل ہو ۔ 

علماء طبقہ کو یہ تہذیب اختلاف سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ خالص علمی مسئلہ جس میں اختلاف رائے کی گنجائش بنتی ہو، جس میں دلائل کو سمجھنے کے مختلف زاویے ہو سکتے ہوں اس میں اس انداز سے مباحثہ کرنا کہ جس سے بغض و عداوت کو ہوا ملے پرلے درجے کی نادانی اور حماقت ہے ۔ 

اس طبقے میں ایک بڑی عجیب خرابی یہ ہے کہ یہ دلائل و براہین کی روشنی میں گفتگو کرنے کی بجائے فریق مخالف کے علم و مطالعہ کو ناپنے لگ جاتا ہے ۔ فریق مخالف کو ہرانا چاہتا ہے اور ایک علمی بحث جو کسی اچھے نتیجے تک لے جا سکتی تھی وہ افسوسناک بدمزگی اور دشمنی پر جا ٹھہرتی ہے ۔ 

ایک موقع سے ہمارے ایک عزیز دوست نے کہا کہ آپ نے فلاں صاحب سے بحث و مباحثہ کا بازار گرم کیا تھا پھر آپ نے جواب دینا چھوڑ دیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے تب تک بحث میں حصہ لیا جب تک بحث کا تعلق موضوع سے تھا ، جب میں نے دیکھا کہ موضوع پر گفتگو کی بجائے  لیاقت ناپی جا رہی ہے تو مجھے سمجھ میں آ گیا کہ اب بحث غلط سمت جا پڑی ہے اور جن لوگوں کو اس کی بھی تمیز نہ ہو ان سے بحث کرکے علم کو رسوا نہیں کرنا چاہیے ۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب حق کی تائید کے ذہن کے ساتھ کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ حق کا ہی ہوتا ہے ۔ نہ معلوم ہمیں یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ حق کی توضیح ہماری ذمہ داری ہے حق منوا لینا یا کسی کو قائل کرکے رہنا نہ ہماری ذمہ داری ہے اور نہ ہمارے بس میں ہے ۔ 

ثناء اللہ صادق تیمی

No comments:

Post a Comment