Friday 25 January 2013


بسم   اللہ الرحمن الرحیم
مونس دہلوی کی شاعری – مہذب افکار کا   گلدستہ
ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
ایک ایسے وقت میں  جبکہ شاعری پورے طور سے گمراہ کن نظریات و احساسات کی ترجمانی کا وسیلہ بنی ہوئی نظر آرہی ہو اور ہر چہار سو ایک فکری دیوالیہ پن کی کیفیت طاری ہو ۔ اہل علم و دانش اور صاحبان  فضل اسے بے کار کا مشغلہ مان کر اپنی الگ دنیا بسانے کی کوشش کررہے ہوں   اور باطل آب و تاب کے ساتھ اسے اپنی اشاعت کاذریعہ بنا کر اپنی کامرانی پر اترا رہا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں کوئی ایسا شعری سرمایہ کا ہاتھ لگ جانا کتنا سکون بخش اور راحت افزا ہو سکتا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے ذوق جمال کی تسکین کرے بلکہ بیک وقت آپ کے جمالیاتی حس کی تہذیب کا فريضہ بھی  انجام دینے کی دولت سے مالا مال ہو ۔
بڑے بھائی اور  صاحب قلم سیال جناب رفیع اللہ مسعود تیمی  کی ترتیب دی ہوئی مونس دہلوی  کی' کلیات مونس دہلوی ' کچھ اسی قسم کی شاعری کے نمونوں سے مزین ہے ۔ پہلے پہل جب کلیات پر نظر پڑی تو تعجب بھری خوشی ہوئی کہ جناب خواجہ قطب الدین شاعر بھی ہیں اور جب مجموعہ کلام  کا مطالعہ شروع کیا تو اس بات کا افسوس کھانے لگا کہ آخر اس بات سے میں اب تک ناواقف کیو ں رہا ۔سچ پوچھیے تو میں جناب قطب الدین مونس دہلوی کو بس اتنا جانتا ہوں کہ ایک آک دفعہ ان کے محلے میں واقع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی تو محبت و اپنائیت کے ساتھ ظہرانہ  کا نظم انہوں نے اپنے ہی دولت کدے پر کیا اور تھوڑی دیر دینی مسائل پر بات چیت ہوئی لیکن مجموعہ کلام کو پڑھ کر اور لوگوں کی آرا‏ء سے واقفیت کے بعد اس بات کا یقین ہو گیا کہ آپ واقعۃ صاحب خلق ہیں اور بیباک بھی ۔ اور حق کے معاملے میں کسی قیل قال اور شش و پنج کے شکار نہیں ہوتے ۔
ان کی شاعری در اصل ان کی شخصیت کا اظہاریہ ہے ۔ وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں  شاعری کے سارے ساز بھی اسی آہنگ میں بجتے ہیں اور  دیرپا اثر چھوڑجاتے ہیں ۔ عقیدہ وایمان ، سماجی معاملات، عشقیہ مضامین سب کے سب کا محور ان کا اپنا سرمیایہ تہذیب و شائستگی ہی ہے ۔وہ سلفی الفکر مسلمان ہیں ۔ اخلاق کی نعمت سے سرفراز ہیں ۔ بہتر سماج کی تشکیل کے متمنی  ہیں ۔حق کے علمبردار اور باطل کے خلاف صف آرا ہیں اور ان کی شاعری در حقیقت انہیں کاوشوں کی بازگشت ہے ۔
تیرا عروج اسی پر ہے منحصر مونس
ہو تیرے فکر کی حد لا الہ  الا اللہ
احمد مرسل کا  ثانی کوئی ہو سکتا نہیں
دست قدرت نے تراشا ہے کچھ ایسا آئینہ
آپ کو قرآن ناطق اس لیے کہتے ہیں سب
ہے وہی حکم خدا جو کچھ کہ فرماے رسول
یہاں حق بات کہ کر سو‏ئے مقتل کون جائیگا
روایت ہے یہ ہم جیسے ہی دیوانوں سے وابستہ
رہ دین خالص میں ہم سلفیوں کے
نمایاں نقوش قدم دیکھتے ہیں
عام طور سے وہ شعراء جو گردش ایام کا رونا روتے ہیں اور حالات کی مار پر شکوہ کناں ہوتے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ طور سے قنوطیت اور ناامیدی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی پوری کی پوری شاعری ایک طرح کا نوحہ یا ایک قسم کا مرثیہ ہو جاتی ہے اسے مونس دہلوی کا امتیاز ماننا پڑیگا کہ وہ ایک طرف شہر آشوب لکھتے ہیں اور دوسری طرف بڑے اعتماد و یقین کے ساتھ بہتر تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کسی قسم کی یاسیت کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے ۔
ہاں جہد مسلسل سے بدل جاتی ہے قسمت
ناکامی کو اے دوست مقدر نہیں کہتے
لاتقنطوا پہ مجھکو مکمل ہے اعتماد
میری نجات کی یہی بس اک دلیل ہے
میں تیرگی وقت سے مایوس نہیں ہوں
امید ہے سینے میں مرے یاس نہیں ہے
بہت سارے اشعار پڑھتےہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر نے قرآن حکیم یا حدیث رسول کا ترجمہ کردیا ہو۔کہیں کہیں پر یہ ترجمہ پن بھی جھلک جاتا ہے لیکن بیشتر مقام پر فن کی تازگی متاثر نہیں ہوتی  اور اچھے اشعار کا تحفہ بھی ہاتھ آجا تاہے ۔
آلام و مصائب کی جو ہم پہ گھٹا چھائی
خود اپنے گناہوں کی یہ ہم نے سزاپائی
مجھے لینا ہے کیا غیروں کے در سے
مرا   داتا   مرا   معبود  تو   ہے
دین پسند شعراء و ادباء بالعموم ایک قسم کی خشکی کی زد میں رہتے ہیں اور بدلتے حالات اور تغیر پذیر روایات کی انہیں معرفت نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ادبی حلقوں میں ان   کی پہچان بھی نہیں بن پاتی اور  گمنامی کے اندھیروں میں  ہی ان کا سارا فن مدفون ہوجاتا ہے ۔ مونس دہلوی اپنی انتہائی دین پسندی کے باوجود فکری خشکی کے شکار نہیں ہیں اور یہ بلا شبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے چہرے پر سجی ہوئی آنکھیں بصارت ہی نہیں بصیرت کی دولت سے بھی مالا مال ہیں ۔ان کے یہاں عصری شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ فکری جہات میں رنگا رنگی کے ساتھ ہی بے حیا اور ایمان سوز اقدارو روایات پر ان کے تیر و نشتر صرف شکوہ یا غصہ کی کیفیت نہیں  اجالتے بلکہ فکر و خیال اور شعور کی کئی راہیں وا کرتے ہیں ۔ اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آکر ان کا فنی کمال زیادہ جلوہ گر نظر آتا ہے ۔
بھٹک رہا ہے خیالوں  میں آج کا انساں
اسے بھی فکر کی آوارگی کہا جائے
چشم ظاہر تجھے کب نظر آئیگا
وہ اندھیرا جو دن کے اجالے میں ہے
رات اپنی ظلمتوں کے پنکھ پھیلاتی رہی
ہم چراغوں کو لہو دے کر سحر کرتے رہے
اے اہل حرم شمع حرم لےکے تو آؤ
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
ساری پرانی قدریں زوال آشنا ہوئیں
اب زاویے نظر کے بدل کر تو دیکھیے
ماضی کے خرابے میں تا دیر بھٹکتا ہوں
احساس کو ڈستی ہے  جب حال کی تنہائی
یہ ارتقائے خرد کی تجلیاں توبہ
کہ ظلمتوں نے ہر اک سو پڑاؤ ڈالا ہے
قدروں کے اس زوال کا ادراک کر سکے
اتنا بلند وقت کا معیار بھی نہیں
شاعری اور وہ بھی اردو  کی غزلیہ شاعری  اگر عشق اور واردات عشق سے یکسر خالی ہو تو اسے معجزہ ہی سمجھنا چاہیے ۔ کم از کم اس معجزے کا الزام تو مونس دہلوی پر نہیں ڈالاجا سکتا ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے یہاں بھی عشق اور واردات عشق کے افسانے عام شعراء کے جیسے ہی ہیں ۔ ہر چند کے عشق کا یہ تصور ان کے یہاں متصوفانہ نہیں لیکن ایک حد تک   مومنانہ ضرور ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی اس پہ دوسرے رنگ بھی نظر آجاتے ہیں ۔ لیکن کم از کم حیاسوزی اور اخلاق باختگی کا تو کوئی سان گمان ان کی شاعری پر نہیں گزرتا ۔
آؤ صلاے عام ہے یاران میکدہ
ساغر جھلک رہے ہیں کسی کی نگاہ سے
یہ درد عشق کی شعلہ گدازیا ں مونس
سلگ رہاہوں مگر آنکھ تر ہے کیا کہیے
مہک اٹھیں گی فضائیں لہک اٹھیں گے چمن
لپٹ کے تیرے بدن سے جدھر صبا جائے
مصحف رخ کے تصدق مست آنکھوں کے نثار
کردیا   دنیا   و ما  فیھا   سے   بیگانہ   مجھے
نہیں اتنے بھی ہم آداب میخانہ سے ناواقف
بہ انداز  دگر شغل   مے و مینا ب ھی  آتا ہے
شاعر پند ونصائح سے بھی نوازتا ہے لیکن زیادہ تر اس میں ملائیت کی کارفرمائی نہیں بلکہ ایک درد مند دل کی صدا ہے اور ایک مشفق انسان کا خلوص  جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اورقابل ذکر یہ ہے کہ  فن کے دیے یہاں بھی مدھم نہیں پڑتے ۔
ایمان کی ضیا سے نکھرتی ہے زندگی
اس مشعل یقیں کو سدا اپنے پاس رکھ
تیری رفاقتوں کا زمانہ ہو معترف
تو اپنے حسن خلق کی ایسی اساس رکھ
آزار جسم و جاں بھی اٹھانا پڑے اگر
پھربھی نہ آپ حرف صداقت چھپائیے
پاکیزہ افکار وخیالات کے اس گلستاں میں پھولوں کے اوپر رعنائیوں کی کوئی باضابطہ کمی تو نہیں  البتہ پروف کی غلطیاں در آئی ہیں جو بسااوقات حسن و جمال کی جلوہ گری میں حائل ہو جاتی ہیں ۔خالص فنی نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو شاعری کلاسیکل روایات کی امین نظرآتی ہے البتہ جہاں ا س گلدستے کے زیادہ تر پھول زینت چمن ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگرنہ ہوتے تو حسن کی تمازت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ کہیں کہیں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تھوڑی اور توجہ دی ہوتی تو فنی زاویہ اور بھی بلند ہو جاتا ۔متقدمین اور ہم عصر شعراء سے استفادے کا احساس بھی کہیں کہیں پر گہرائی سے ہو تا ہے لیکن سرقہ یا نقل کی کیفیت کہیں نہیں ۔
اخیر میں اگر  مدون و مرتب کو مبارکباد نہ دیا جاے تو ایک طرح کی ناانصافی ہوگی ۔اس مجموعہ کلام کی تدوین وترتیب کے ذریعہ مدون نے بلا شبہ ایک اہم دینی اور ادبی فریضہ انجام دیا ہے ۔ اس سے جناب رفیع اللہ مسعود تیمی  کے ادبی ذوق اور مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے ۔البتہ  یہ امید تو کی ہی  جاسکتی ہے  کہ مدون  اگر اس کے دوسرے ایڈیشن میں  کچھ ضروری ترمیم سے کام  لینگے تو مجموعےکا حسن اور بھی بڑھ جائیگا ۔
میری نظر میں صاف ستھرے ادبی اور  دین کا کارآمد شعور رکھنےوالوں کو اس مجموعے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے ۔ اور اہل حدیثوں کو تو بطور خاص اسے ہاتھوں  ہاتھ لینا چاہیے ۔



Thursday 10 January 2013


ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

   ثناءاللہ صادق تیمی

 جواہر لال نہرو یونیورسٹی

پچھلے دنوں علماء صادقپور کی سرزمین پٹنہ میں دوچار دن گزارنے کی توفیق ارزانی ہو‏ئی۔ در اصل السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف قسم کے رفاہی اور دعوتی پروگرامز منعقد کیے گئے ۔ سعودی عرب سے بڑے بھائی جناب ڈاکٹر مولانا معراج عالم تیمی کا حکم ہوا کہ اگر بہار میں ان دنوں رہنا تو پروگرام میں شرکت کرنا اور نظامت کا فریضہ انجام دینا۔  حقیقت  تو یہ ہے کہ یہ شوشہ در اصل میرے دوست اور ساتھی مولانا آصف تنویر تیمی کاچھوڑا ہوا تھا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

نسیم     صبح   تیری   مہربانی

23 دسمبر سے یہ سفر شروع ہو کر 26 دسمبر تک چلا ۔ اس بیچ الحمد للہ کئی ایک کامیاب اور نہایت مفید پروگرام آرگنائز کیے گئے اور اہالیان پٹنہ نے بھر پور استفادہ کیا ۔  مختلف مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کے علاوہ اس پروگرام کی ایک خاصیت نے بطور خاص مجھے متاثر کیا کہ بڑا  پروگرام بھی  کافی زیادہ لمبا نہیں تھا۔ عصر سے شروع ہوکر عشاء تک ختم ہو گیا ۔ یعنی دعوتی کا م بھی ہو گیا اور معاملات زندگی متاثر بھی نہیں ہوے ۔ ایک دوسری بڑی اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ غریبوں کا نہ صرف خیال رکھا گیا کہ ان کہ درمیان کمبل تقسیم کیے گئے بلکہ دانشمندانہ قدم یہ اٹھایا گیا کہ جھگی جھوپڑی کے اندر ایک دینی مکتب بھی کھولا گیا کہ ان کی تعلیم کا بند و بست بھی ہو اور غریبی کے دیو سے مستقل پیچھا بھی چھوٹے۔ اس پروگرام کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے اندر ایک عرب شیخ  حمد بن محمد المھیزعی بھی شریک تھے ۔ آدمی متواضع اور دعوتی جذبے سے شرشار ۔ کئی ایک مواقع سے ان کے خطابات کو اردو زبان میں پیش کرنے کا خاکسار کو موقع نصیب ہوا۔ ہم پٹنہ سے مظفرپور موٹر کار سے شیخ کے ہمراہ جارہے تھے اور ہمارا ڈرائیور ہندو تھا ۔ مجھے جہاں یہ لکھتے ہوے انتہائی درجے میں خوشی ہو رہی ہے کہ شیخ نے اس آدمی کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور الحمد للہ اس شخص کا ریسپانس کافی پازیٹیو (جواب مثبت ) رہا وہیں اس بات کا انتہائی درجے میں افسوس ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں اور بطور خاص  علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ ورنہ صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ آج بھی یہ میدان وسیع ہے ۔ دنیا حق جاننے کو آمادہ ہے لیکن افسوس کہ جن کے پاس حق کی نعمت ہے وہ خود اس سے نابلد ہیں ۔ اللہ خیر کرے ۔ خاص طور سے برادران وطن کے اندر جو مختلف معبودوں کا تصور ہے اور انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے اس کی قلعی کھول کر اور اسلام کا صاف و شفاف چہرہ پیش کرکے ان کو تو اسلام سے قریب کیا ہی جا سکتا ہے ۔

اس تین چار دن کے اندر جس بات کا احساس سب سے زیادہ ہوا وہ یہ تھا کہ مسلم عوام کے اندر حق جاننے کا جذبہ کافی زیادہ ہے خاص طور سے جوانوں کے اندر یہ جوش و جذبہ فراواں بھی ہے اور توانا بھی ۔ ان میں سے بعض کے اندر تو داعیانہ اسپرٹ اور احساس ذمہ داری کی بھی جھلک نظر آئی ۔

ان کے سوالات کرنے کے رنگ ڈھنگ سے ان کے  شوق و رغبت کا اندازہ لگانا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ بلا شبہ یہ جوان مضبوط سرمایہ ہیں ، البتہ ان کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ اب ہمارے علماء کا رابطہ عوام سے کمزور پڑتا جارہا ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ ڈر ستا تا ہے کہ کہیں یہ جوش و جذبہ سے بھر پور جوان گمراہ کن عناصر کے شکار نہ ہو جائیں ۔ سلیم الفکر علماء کی غفلت کو نظروں میں رکھا جاے اور دوسرے لوگوں کے تگ و تاز کو بھی دیکھا جاے تو اسے اندیشہ ہاے دور دراز بھی نہیں  کہا جا سکتا ۔ تجربات بتلاتے ہیں کہ اپنی کاوش و لگن اور بغیر علماء کی تربیت کے بالعموم لوگ تشدد کی راہ اپنا لیتے ہیں اور تکفیری نقطہ نظر کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ انہیں ہر جگہ سب کچھ غلط ہی نظر آتا ہے اور اس طرح وہ کسی کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔

اس پورے معاملے پر السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سکریٹری اور بڑے بھائی مولانا صفات عالم زبیر عالم تیمی سے گفت و شنید ہوئی ۔ ان کے تجربات بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ واضح رہے کہ مولانا صفات عالم تیمی کویت میں دعوتی کاز سے جڑے ہوے ہیں ۔ اس کے علاوہ  آپ کی ادارت میں مقبول عام اردو ماہنامہ' المصباح ' پورے تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہوتا ہے اور عوام و خواص میں یکساں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔

آج کل بالعموم میگزین نکالنے کو دعوتی کام سمجھا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ مدارس کو دعوت کا اصل مرکز سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن کے سہارے ہی یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں میں جزوی سچائی ہے جسے ہم نے غلطی سے کلی سمجھ لیا ہے ۔ مدارس علماء پیدا کرتے ہیں جو دعوتی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہ ایک بالواسطہ طریقہ ہے اور ظاہر ہے کہ مدارس کے سارے فارغین دعوتی میدان میں تو رہتے بھی نہیں ۔ رسائل جرائد دعوتی کاز میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور ہم اپنے مضامین کے ذریعے بلاشبہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن نہ بھولیں کہ ہمارا ٹارگیٹ کم ہوجا تا ہے اور ساتھ ہی یہ نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام داعی کی سیرت اور اس کی عملی زندگی سے کافی جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ مضامین دیرپا ہو سکتے ہیں لیکن وہ سب تک نہیں پہنچ سکتے اور داعی کا عملی رویہ یہاں پر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے انکار نہیں لیکن لوگوں کی دینی تربیت ساتھ ساتھ انجام دینا اس سے کسی درجہ کم اہم نہیں ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے گاؤں گاؤں اور بستی بستی گھوم گھوم کر اس فریضے کو انجام دیا ہے اور الحمد للہ کہ ان کی کوششیں کافی بارآور ہوئی ہیں ۔ ہمیں مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کوششوں اور ان کی جانفشانیوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔

آج یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت سب سے فعال اور دعوتی سطح پر کامیاب جماعت ہے ، اس لیے نہیں کہ ان کے یہاں سب کچھ ٹھیک درست ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے جیالے لوگوں کے بیچ جاکر کام کرتے ہیں ۔ ان کا اور عوام کا بلاواسطہ رشتہ استوار ہوتا ہے اور پھر جو نتائج رونما ہوتے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ نہ معلوم کیوں بڑی بڑی تنظیموں کے ذمہ داران بھی اخبار نکالنے اور میگزین شائع کر لینے کو دعوت کا مکمل کام سمجھ بیٹھے ہیں ۔ جس کمیونیٹی کی آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہو ان کے دانشوران کی یہ سوچ کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔ یہ سب ہو اور ساتھ ہی لوگوں کے بیچ جاکر دعوتی اور تبلیغی مساعی بھی تو کیا کہنے ۔ اقبال نے کتنا درست کہا ہے ۔

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو

ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں  کے لیے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Saturday 5 January 2013


بسم اللہ الرحمن الرحیم

زنا بالجبر،عورت، ہم اور ہمارا سماج

ثناءاللہ صادق تیمی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی -67

دہلی کی چلتی بس کے اندر ایک طالبہ کے ساتھ ہوے گینگ ریپ (جماعتی زنا بالجبر) کے شرمناک حادثہ نے نہ صرف یہ کہ پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اگر یہ کہا جاے کہ اس سے پوری دنیا ہل گئی تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ اس حادثہ کے بعد اس پورے مسئلے پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی اور کئی طرح کے حل اور نقطہ ہاے نظر سامنے آئے ۔ جہاں ایک طرف کچھ لوگوں نے مجرموں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا وہیں کچھ اور لوگوں نے پھانسی کو مسئلے کا حل نہ مان کر عورتوں کی سیکوریٹی یقینی بنانے کے مختلف طریقوں کے اپنائے جانے پر زور دیا ۔ ایک طرف بعض حضرات نے اسے عورتوں کی غیر ذمہ دارانہ طرز رہائش اور حیا سوزلباس کا شاخسانہ قراردیا تو دوسری طرف کچھ اللہ کے بندے اسلامی سزا کے نفاذ کی مانگ بھی کر بیٹھے اور اس طرح جتنے منہ اتنی بات کی مثال ہمارے سامنے آگئی ۔ اس تعلق سے بیان بازیوں کو چھوڑ کر اگر سنجیدہ مضامین کی طرف نظر دوڑائی جاے تو وہاں بھی بالعموم عورتوں کی سیکوریٹی بڑھانے ،مختلف قسم کے سخت قوانین اپنانے ،عورتوں کو مزید آزادی دینے اور مساویانہ حقوق کو نافذ کرنے کی باتیں کہی گئیں لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پورے مسئلے پر صحیح طریقے سے نظر نہیں ڈالی گئی ، شاید اس لیے بھی کہ بہی خواہان خواتین خود بھی کھلی بحث اور منظم حل کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دلچسـپ بات یہ ہے کہ اس بیچ ججوں کا ایک پینل بھی بنا دیا گیا ہے جو کارگر قانون پر غور وخوض کر رہا ہے ، اس سلسلے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی آراء بھی طلب کی گئی ہیں ۔

                یہ بات In General درست ہے کہ عورتیں مظلوم ہیں اور سماج میں ان کو ان کا واقعی مرتبہ اور حق نہیں مل پاتا۔ قدم قدم پر ان کی راہیں مشکلات سے بھری ہوئی ہیں اور ان کی عصمت پر ڈاکے کب پڑ جائیں ،اس کا ٹھکانہ نہیں اور بلا شبہ اس ترقی یافتہ دنیا کے لیے یہ شرم کی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے مسئلے کا واقعی حل کیا ہے اور کہاں ہے۔

              نئی تہذیب کے متوالوں اور اشتراکی مفکرین کی مانیں تو عورت اور مرد برابر ہیں ۔ دونوں کے حقوق یکساں ہیں ۔ عورت پر عزت وعصمت کا اخلاقی دبا‎ؤ ڈالنا مرد کی چال ہے ۔ عورت کو پوری آزادی دستیاب ہونی چاہیے ۔ وہ کیا پہنے ، کیا اوڑھے ، کیا سوچے ،کس طرح پیار کرے اور کس طرح جیے ، یہ اس کا اختیار ہے ، اسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں ہی نہیں بلکہ انسان کے روپ دیکھا جاے اور اسے Absolute Freedom (لامتناہی آزادی) دی جاے ۔ اگر کوئی اس کے ساتھ زنا بالجبر کرتا ہے تو اسے قرار واقعی سزا دی جاے لیکن موت یا پھانسی نہیں ۔ عورت کے ذہن سے خوف نکالا جاے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کی آدھی حصہ داری یقینی بنائی جاے تب جا کر ان مسا‏‏ئل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے ۔

                انہیں افکار وخیالات کا اظہار ہندوستان کے مختلف صوبوں سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت انگریزی روز نامہ The Hindu کے 30 دیسمبر 2012 کے صفحہ اول پر چھپے ایڈیٹوریل میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔

But even if the six are hanged , and even if our legislators, in a fit of conveniently misplaced concern, prescribe the death penalty for rape, the pathology we are dealing with will not be so easily remedied…….It is this leader less vacuum that ordinary citizens must step into in order to affirm the right of women. The right to be born and fed, the right to dress and travel and love as they please.

                اس کے بالمقابل ایک دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جسے ہم غیر انسانی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کہ سکتے ہیں۔ اس رویے کا اظہار مختلف قسم کے طنزیاتی پیرایہ بیان سے ہوتا ہے جس کے اندر ہر طرح کی ذمہ داری عورت کے سر باندھ دی جاتی ہے ۔ یہ نقطہ نظر سے زیادہ عیاش اور منحرف ذہنوں کا تبریری رویہ ہے لیکن بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے ضرور ۔

              ان دونوں کے بالمقابل ایک نقطہ نظر اور بھی ہے یعنی اسلامی نقطہ نظر۔ اسلام کے مطابق مرد و عورت اللہ کی تخلیق ہیں ۔ دونوں کے دونوں کو اللہ نے اس دنیا میں بھیجا کہ وہ بہتر عمل کے ذریعے جنت پانے کا حق حاصل کرلیں ۔ یہ دنیا فانی ہے اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ انسان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی اس زمین پر جور و ظلم کی بجاے عدل و انصاف قائم کریں ۔ اسلام کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ذریعہ سکون و تسکین ۔ دونوں بطور انسان برابر ہیں البتہ اپنی فطری ضرورتوں اور جسمانی تقاضوں کے مطابق ان کی ڈیوٹی قدرے مختلف ہے ۔ عورت بنیادی طور پر گھر، گھر ہستی اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ دار ہے اور مرد رزق  اور اس کے ذرائع حاصل کرنے کا ۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ عورت کا تعلیم حاصل کرنا یا تجارت وغیرہ میں مصروف ہونا ممنوع یا معیوب ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ باہر جب نکلے تو با پردہ رہے اور حیا و شرم کی چادر اوڑھے رہے۔ اسلام کا یہ بھی ماننا ہے کہ بالغ ہونے پر مرد شادی کرلے جب وہ اپنی ہونے والی بیوی کی خاص ضرورت اور اس کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا نظم کر سکتا ہو ۔ اور جب لڑکی بالغ ہو جاے تو اس کے اولیاء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی مناسب جگہ شادی کردیں۔ اسلامی ہدایات کے مطابق عورت و مرد یکساں طور پر اس بات کہ مکلف ہیں کہ وہ اپنی نگاہوں کی اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ خالص اسلامی نقطہ نظرسے دیکھا جاے تو عصمت وعفت صرف عورت کا ہی نہیں مرد کا بھی بے آمیز کردار سب سے اہم اور قیمتی سرمایہ  ہے ۔

                اسلام کی ان ہدایات کو صرف سماجی تناظر میں دیکھنا صحیح نہیں  ہوگا ۔ اسلام تو سب سے پہلے اللہ واحد کا عقیدہ دیتا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور جس کے ہاتھ میں انسان کی جان ہے ۔ یہ دنیا در اصل آخرت کی کھیتی ہے اور انسان اپنے اعمال کے مطابق ہمیشہ کی زندگی میں جنت یا جہنم کا مستحق ہوگا ۔ ایک ایک عمل کا انسان کو بدلہ دیا جائیگا ۔ اور ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ بلا شبہ انسانی کردار کو بہتری کی طرف مہمیز کرنے میں سب سے مضبوط اور دیرپا اثر ڈالتے ہیں ۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق اگر اللہ اور آخرت پر ایمان کی قوت اور ایک صالح معاشرے کے دوسرے اسلامی ہدایات انسان کو برا‏‏ئي سے نہ روک سکیں تو ویسی صورت میں شادی شدہ زانی مردوعورت کو سنگسار کیا جائیگا اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطن۔

             اس تناظر میں دیکھا جاے تو ان لوگوں کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے جو ہندوستان میں اسلامی سزا کے نفاذ کی مانگ کرتے ہیں ۔ سزا کی یہ بات تب کارگر ہوگی جب ہم اسلامی معاشرہ بھی بنا پائیں ۔ ایک ایسا سماج جس میں خواتین اور حضرات اپنی حدوں میں جیتے ہوں اور پھر کوئی اگر اپنی حدوں سے باہر نکلے تو سزا لاگو کی جاے تبھی جاکر اسلامی سزائیں اور حدود و تعزیر کا نظام اپنا اثر دکھلا پائیگا ۔

           اس پورے معاملے میں سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی آج کی بے حیا اور بے پردہ تہذیب پر انگلی نہیں اٹھاتا ۔ ٹی وی ،فلم، اشتہارات، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور ان سب کے اوپر انٹرنیٹ کا پورا کا پورا جال بس اور بس بے حیائی کے فروغ میں کوشاں ہے۔ اس قدر گرے ہوے اور گھٹیا نغمے دن رات چلتے رہتے ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔ کسی بھی چیز کا اشتہار ہو نیم عریاں دوشیزہ کا جلوہ ضروری ہوتا ہے ۔ گویا ہر چہار جانب سے ہم عورت کو سامان تعیش و مستی بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اس کی Dignity اور Honor کی بات کرتے ہیں ۔ خدا بیزار دنیا کے سامنے اتنے ہیجان انگیز مناظر پیش کیے جاتے ہیں ، اخلاق حمیدہ اور  عمدہ خصائل کی باتوں کو گئے دنوں کا بکواس سمجھا جاتا ہے اور پھر جب اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو بے مطلب ہم ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں ۔

                 اگر ہم واقعۃ اس قسم کے مسائل کا پائیدار حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس پورے معاملے پر از سرے نو غور کرنا ہوگا ۔ اگر بر سر روز گار خواتین (Working Women ) کو جنسی استحصال کا سامنا ہے ، اگر خواتین گھروں کے باہر غیر محفوظ ہیں ، اگر مردوں کا رویہ عورتوں کے تئیں غیر منصفانہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا علاج نہ تو احتجاج ہے نہ ہی سرکار پر الزام اور نہ ہی عورت کی مکمل آزادی کا غیر عملی اور نہایت خطرناک مطالبہ۔

                    عورتوں کو خوف کی نفسیات سے نکالنے اور اسے ہر میدان میں مرد کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے بھول جاتے ہیں عورت کی کچھ دوسری فطری ضرورت بھی ہے اور نفسیاتی مانگ بھی ۔ وہ نہ تو اپنی جسمانی ساخت میں اور نہ ہی نفسیاتی رسا‏ئی ميں مردوں کی طرح ہے ۔

                   اگر انسان کے اندر اللہ کا خوف ، جنت کی چاہت ، جہنم سے نفور اور بہتر اخلاقی تربیت کے زیور سے آراستگی آ جاے تو ایک ایسے سماج کی تشکیل عمل ميں لانا عین ممکن ہے  جہاں ہر کوئی اپنی حد میں جیے اور مسرت بھری زندگی کا لطف حاصل کرے ۔ میرے اپنے ایمان  اور سمجھ کے مطابق سوائے اسلامی نظام حیات کے اور کوئی بھی نظام کے پاس انسان کے جملہ مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں اور اس معاملے میں تو اور بھی نہیں ۔ اور ہر چند کہ بھارت میں اسلامی سوسائٹی نہیں لیکن اگر سنگساری کا نظام نافذ کر دیا جاے تو دوسرے قوانین سے زیادہ اثر انگیز تو ضرور ہوگا ۔ ہاں اسلامی قانون کا اصل مزہ تو تبھی سمجھ میں آئيگا جب اسلامی سماج بنانے کی کوششیں بھی ہونگی ۔ اس معاملے میں اشتراکی نقطہ نظر تو حد درجہ گمراہ کن ہے اور غیر عملی بھی ۔ اشتراکی فکر کے مطابق انسان سماج کی پیداوار ہوتا ہے ،بے قید Sex  انسان کی ضرورت ہے ،شراب نوشی انسان کا داخلی معاملہ ہے ، اس میں اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آ خر یہ خدابیزار فکر انسان کو لے کہاں جانا چاہتی ہے ، کس قسم کا انسانی سماج بنانا چاہتی ہے جہاں عصمت وعفت کا تصور بھی غلط ہو ، بے حیائی کے ذرائع بھی درست ہوں اور یہ یقین بھی رکھا جاے کہ معاشرہ ہر طرح سے مامون بھی رہیگا ۔ مرضی سے ہو تو ہر طرح کے        Sex  کو نہ صرف یہ کہ درست سمجھا جاے بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوا بھی دیا جاے ۔ اوپر سے اللہ کو مانا ہی نہ جاے اور آخرت میں جوابدہی کے کسی تصور سے کوئی مطلب بھی نہ ہو ۔ تضاد کی مثالیں دنیا میں اور بھی ہوںگيں لیکن اس کے مقابلے کی شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔