Wednesday 13 September 2023

 عورتوں کی بدخواہ عورتیں

لبرل خواتین صرف لبرل نہیں بے وقوف بھی ہوتی ہیں ۔ فیس بک پر آئے دن ایسی خواتین یہ گیان بھگارتی رہتی ہیں کہ اگر شوہر کسی قسم کی کوئی زیادتی کرے تو بیوی کو بھی پلٹ کر جواب دینا چاہیے ، یعنی اگر شوہر کبھی کسی نادانی میں بیوی پر ہاتھ اٹھا دے تو بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ آؤ دیکھے نہ تاؤ اور شوہر پر ہاتھ اٹھا دے ۔ لبرل خواتین یہ سبق سکھاتے ہوئے خوش رہتی ہیں کہ اس سے خواتین پر گھریلو تشدد رک جائے گا اور مرد اپنی اوقات میں آجائے گا ۔یہ خواتین بار بار مختلف طریقوں سے یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ مرد اور عورت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں اور دونوں مکمل طور پر برابر ہیں ۔
سمجھنےوالی بات یہ ہے کہ لبرل خواتین وہ ہیں جو بالعموم اعلا تعلیم سے لیس ہیں ، معاشی اعتبار سے مضبوط ہیں ، ذہنی طور پر اسلامی اصول ومبادی سے انہیں بہت زیاد ہ لینا دینا نہیں ہے ، اس لیے ان اقدامات سے جب ان کا گھر اجڑتا ہے تو انہیں فرق تو پڑتا ہے لیکن وہ مختلف قسم کی سرگرمیوں میں خود کو باندھ کر " سب کچھ ٹھیک " ہونے کا ناٹک آسانی سے کرلیتی ہیں ، پھر چوں کہ انہيں لکھنا بولنا آتا ہے تو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بھی کرلیتی ہیں ، انہیں ایک قسم کی فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے اس لیے جب وہ کسی انحراف کا شکار ہوتی ہیں تو ان پر سماجی اعتبار سے کچھ ویسا فرق نہیں پڑتا ، مطلب یہ ہے کہ لوگ اس بارے میں گفتگو تو کرتے ہیں لیکن ان کی گفتگو بالعموم ان خواتین کے کانوں تک براہ راست کم کم ہی پہنچتی ہیں ۔
لیکن اصل نقصان ان لبرل خواتین کی باتیں سننے والی ان گھریلو اور عام خاتون کا ہوتا ہے جو ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر بنیادی حقیقتیں بھول جاتی ہیں ۔ ان بے چاریوں کے پا س ان لبرل خواتین کی مانند سہولتیں نہیں ہوتیں ، وہ معاشی اعتبار سے اس طرح سے خود کفیل نہیں ہوتیں ، انگریزی تعلیم سے اس طرح آراستہ نہیں ہوتیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ دین سے اس طرح آزاد بھی نہیں ہوتیں لیکن ان کی باتوں میں آکر یہ سوچنے لگ جاتی ہیں کہ وہ واقعی ہر اعتبار سے اپنے شوہروں کے برابر ہیں ،یوں جو شوہر کی عزت ، احترام اور فرماں برداری کا جذبہ ہے وہ کمزور پڑنے لگتا ہے ، توتکار کی شروعات ہوتی ہے ، مطالبہ ہونے لگتا ہے کہ بچوں کو پالنے اور گھریلو کام انجام دینے میں ساتھ دیا جائے اور جب ایسا ہوتا ہے تو اب محبت و پیار کا ماحول رخصت ہونے لگتا ہے، تکرار بڑھنے لگتی ہے اور اچھا خاصا ہنستا کھیلتا گھر خراب ہوجاتا ہے۔
مرد کو مارپیٹ نہيں کرنی چاہیے ، کوئی اچھا مرد ایسی غلطی کرتا بھی نہیں ۔ بیوی کا خیال رکھنا چاہیے ، اس کے گھریلو کاموں میں اس کا ہاتھ بٹانا چاہیے اور اگر کبھی بیوی سے کوئی خطا ہوجائے تو در گزر سے کام لینا چاہیے ۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی اسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کا گارجین بن کر رہے ۔ تمام معاملات کو ٹھیک سے دیکھے اور حسب ضرورت نرمی و سختی سے کام لے ۔ لکھ لیجیے کہ جس طرح حکومت چلانے کے لیے حسب ضرورت نرمی اور سختی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح گھرچلانے کے لیے بھی حالات وظروف کے مطابق نرمی اور سختی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عقل مند آدمی سختی کو ہمیشہ آخری اختیار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اس میں بھی وہ حدیں کبھی نہیں بھولتا۔یوں تادیب کے لیے وہ لہجہ سخت تو کرسکتا ہے لیکن انتقامی جذبے کے تحت گالی گلوج کبھی نہیں کرسکتا۔
خواتین کو بار بار مختلف حیلوں سے یہ سمجھایا جاتا ہے کہ وہ مرد کی ہی مانند ہے ، یہ سچائی نہيں ہے ، اس لیے جب کبھی کوئی خاتون اپنے شوہر سے برابری کرنے لگتی ہے تو خود اپنے پاؤں پر کہلاڑی مارتی ہے اور اپنا سکون وچین کھو تی ہے ۔
خواتین سے محبت کرنے والی کوئی خاتون انہيں مردوں سے برابری کرنے کا مشورہ دے ہی نہیں سکتی کیوں کہ کم از کم خواتین کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے ۔یہ مشور ہ صرف وہی عورت دے سکتی ہے جو کسی عورت کی خیرخواہ نہ ہو ۔خواتین و حضرات کی نفسیات میں فرق پایا جاتا ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنے سے ہی گھر کا سکون باقی رہتا ہے ۔
مسلم خواتین کو سمجھنا چاہیے کہ ایسی خواتین کی باتوں میں آئیں گی تو نقصان آپ کا ہی ہوگا ۔دین و دنیا کی بھلائی مطلوب ہے تو اللہ اور اس کے رسول کے فرمودات کے مطابق شوہر کی عزت واحترام اور اس کی فرماں برداری کا رویہ اپنائیے ۔ اسی سے آپ کے لیے سعادتوں کے دروازے کھلیں گے ۔ ہاں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ چاہے کوئی ہو ، اگر وہ اللہ کی معصیت کا حکم دے تو اس کی بات نہیں ماننی ہے ۔
ساگر تیمی

No comments:

Post a Comment