Friday 17 April 2015

غزل
ساگر تیمی
پاؤں اتنا نہ بڑھا شہر میں وسعت کم ہے
میں نے سمجھا تھا چمک ہے تو مصیبت کم ہے
شیخ واقف ہیں نئی رت کے تقاضوں سے بہت
دیکھ ہنگامہ تو برپا ہے ، عبادت کم ہے
کل احباب نے تعریف کی اور مجھ سے کہا
 یہ تو  اظہار محبت ہے ،سیاست کم ہے
شيخ و زاہد بھی ہیں اس کاکل پیچاں کے اسیر
 میں اگر اس پہ فدا ہوں تو یہ  شدت کم ہے ؟
مجھ کو لگتا ہے کسی اور کی خاطر ہے حیات
ویسے خدمت کے لیے دوست یہ مدت کم ہے
شہر کے میر کو اس غم نے گھلا رکھا ہے
کیوں فقیروں سے زیادہ نہيں شہرت، کم ہے
اب تو ساگر ذرا اللہ سے ڈریے بھائی
یہ ہے دنیا اور اس دنیا کی حقیقت کم ہے


' تم نے خواب دیکھا ہے '
ساگر تیمی
بتایا میں نے اپنے لوگوں کو
 احباء کو عزیزوں کو 
 کہ میں نے شہر سے باہر
 عجب اک دنیا دیکھی ہے
جہاں پر ظلم پر انصاف بھاری ہے
محبت دلنشیں ہے اور نفرت پر بھی حاوی ہے
کوئي الجھن ہے اور نہ ہی کوئی ٹنشن ہی طاری ہے
حسیں منظر ہیں ، سارے گل چمن میں مسکراتے ہیں
جو آتے ہیں وہ خوش ہيں اور جو جاتے ہیں شاداں ہیں
عجب خوشبو سی پھوٹی جارہی ہے ساری دنیا میں
کوئی چہرہ بھی دیکھو حسن کا گلدستہ لگتا ہے
کسی سے بھی ملو وہ عشق کا پروردہ لگتا ہے
زمیں لگتی ہے جیسے ماں کے دونوں ہاتھ
مصروف دعا ہوں
 اور اوپر آسماں جیسے
کہ کوئی رحم دل والد لٹائے جارہا ہو بے خطر
اپنی کمائی اپنے بچوں پر
بہت شاداں ہو اندرسے
 کہ جیسے اس کو قدرت نے بڑا انعام بخشا ہو
میں بولے جارہا تھا کہ
 میرے احباب یہ بولے
اٹھو اب نیند سے جاگو
تم آنکھیں کھول لو ساگر!
تمہیں ہم یہ بتاتے ہیں
 کہ تم نے خواب دیکھا ہے !
اور تمہیں یہ تو پتہ ہے
خواب کی تعبیر

سیدھی ہو نہیں سکتی !!!
غزل
ساگر تیمی
جتنی سوچی تھی نہیں اتنی یہ دنیا کم ہے
  آپ یہ سمجھیں کہ  اس میں میرا حصہ کم ہے
اور بھی روپ ہیں آنکھوں کا دریچہ کھولو
تم نے یہ جھوٹ سمجھ رکھا ہے جلوہ کم ہے
تیرا کہنا ہے  کہ عالم ہے فسادوں سے بھرا
میں یہ کہتا ہوں بھلا ہے مگر ایسا کم ہے
آ بھی جاؤ کہ اندھیروں کا مقدر چمکے
 کیونکہ ان آنکھوں میں جینے کو اجالا کم ہے
اور اک بات ہے جینے کی تمنا لیکن
اور اک بات ہے مرنے کا ارادہ کم ہے
خواب تو یہ ہے تجھے سونے کی دنیا دے دوں
اور اک جیب ہے کم بخت کہ پیسہ کم ہے
ایک تو دل ہے اور اس پر بھی بلا کا غرہ
بات یہ بھی ہے کہ  سینے  میں وہ رہتا کم ہے
میں بھی اک بار تجھے چھوڑ کر جانا چاہوں
پھر یہ کہنا کہ" یہ ساگر ہے اور اچھا کم" ہے


غزل
ساگر تیمی
 آگ ایسی پھیلائی  جائے
دنیا دل کی ڈھائی جائے
اندھوں کی آنکھیں روشن ہیں
نینوں کی بینائی جائے
اس کا نام ہی بسم اللہ ہے
برکت خوب بڑھائی جائے
عشق تو کرنا مجبوری ہے
دل سے آنکھ ملائی جائے
اتنی مدھر وانی ہے تیری
کیسے بھلا کھٹائی جائے
بارش کا موسم اچھا ہے
تھوڑی گھاس اگائی جائے
سنتے ہيں کہ ٹیڑھے ہیں وہ
ان سے چاہ بڑھائی جائے
چین سے سونے والے پتھر
ان کی نیند اڑائی جائے
ایک ارداہ ہے بس ساگر
ان کی حیا بچائی جائے




غزل
ساگر تیمی
چاند میری نگاہوں میں ہے ، آسماں کی خبر چھوڑیے
میں کسی اور دنیا میں ہوں ، اس جہاں کی خبر چھوڑیے
عشق میں کیا خطا کیا صحیح ، زندگی خواب ہے زندگی
میں مکاں میں الجھتا نہیں ، لامکاں کی خـبر  چھوڑیے
آدمی اک خدا کے سوا جائے گا تو کہاں جائے گا
چھوڑ دی ہے اگر مے گشی ، آستاں کی خبر چھوڑیے
میں بتاتا ہوں سب کچھ ابھی  ، ہے غلط کیا صحیح کس طرف
مانیے میری تحقیق کو ، داستاں کی خبر چھوڑیے
پھول کلیوں میں یوں تو بہت دلکشی ہے مگر مہرباں
آپ آئیں ذرا میکدہ  ، گلستاں کی خبر چھوڑیے
لوگ سادے بھی ہیں شیخ جی ، آپ کی حکمتیں بھی بجا
آپ دھندا چلائیں مگر ناتواں کی خبر چھوڑیے
اس نے دیکھا تو مجھ سے کہا آپ ساگر ہیں بھائی  بجا
شاعری کی دکاں کھول دی ، اس دکاں کی خبر چھوڑیے








غزل
ساگر تیمی
حکمتیں بھی ہوتی ہیں گا‎ؤں کے کسانوں میں
تم نے کیا نہيں دیکھا چائے کی دکانوں میں
اب تو یہ نہیں ممکن ان سے رابطہ ہوگا
 گنتی ان کی    ہوتی ہے آج کل مہانوں میں
عشق کی بدولت ہی اس نے چاند چھویا تھا
عشق ہی ہو ارسوا دیکھیے  فسانوں میں
جب کبھی کتابوں میں فضل عشق  پڑھتاہوں
سوچتا ہوں کیا ہوگا آج کے جوانوں میں
شہرمیر ی ماں آکر مجھ  سے پوچھ بیٹھی ہے
آدمی بھی رہتے ہیں کیا کہيں مکانوں میں
 کس طرح سے دنیا نے کردیا ہے فرزانہ
آپ کہتےرہتے تھے آپ ہیں دوانوں میں
آپ نے عبث ان کی زندگی میں جھانکا ہے
شیخ اچھے لگتے ہیں کیا غضب بیانوں میں
اڑنے کی تمنا تو چیز اچھی ہے ساگر

یاد بھی رہے دھرتی جب رہيں اڑانوں میں 
غزل
ساگر تیمی
خرچ کرتے ہو کم تو ہوگا ہی
باپ ہے اس کو غم تو ہوگا ہی
اس کی صورت ہے مومنوں والی
اس کی تھیلی میں بم تو ہوگا ہی !
ایک پیسہ ہے اور پھر شہرت
ایسی صورت میں " ہم " تو ہوگا ہی
آپ چاہيں کہیں نہيں اپنا
خاندانی ہے ضم تو ہوگا ہی
ایک مدت سے دل میں رہتے تھے
اب بچھڑتے ہو نم تو ہوگا ہی
چاہے جتنا اکڑ کے چلتا ہو
اس کے آگے وہ خم تو ہوگا ہی
ایک مدت ہوئي ہے لڑتے ہوئے
ہار جانے پہ غم تو ہوگا ہی
پڑھ کے کہتا ہے میری تحریریں
ساگر تیمی ہے دم تو ہوگا ہی
Top of Form


غزل
ساگر تیمی
خواب دیکھا تھا اس لیے چپ ہوں
اس کو چاہا تھا اس لیے چپ ہوں
میں ہی جھوٹا ہوں لوگ کہتے ہیں
میں ہی سچا تھا اس لیے چپ ہوں
رات آئی ہے لے کے اندھیرا
دن بھی آیا تھا اس لیے چپ ہوں
سارے اچھے ہیں ایک میرے سوا
میں بھی اچھا تھا اس لیے چپ ہوں
آپ کہتے ہیں جھوٹ ہارے گا
ميں بھی کہتا تھا اس لیے چپ ہوں
لوگ ہنستے ہیں رونے کے بدلے
میں بھی ہنستا تھا اس لیے چپ ہوں
آپ ساگر جی شعر کہتے ہیں

میں بھی کہتا تھا اس لیے چپ ہوں 
غزل
ساگر تیمی
خوشبو تھی رات صبح کا منظر نشے میں تھا
گزرا تھا کون راہ کا پتھر نشے میں تھا
اک آنکھ تھی اور چھت سے جڑی تھی عنایتیں
نکلا تھا چاند ایسے کہ اختر نشے میں تھا
اس کو شراب کہتے ہیں اور اس کو مے کشی
دن کو ملی تھی آنکھ اور شب بھر نشے میں تھا
بیٹا اداس بیوی کی آنکھوں میں درد ہے
ویراں تھی زندگی کہیں شوہر نشے میں تھا
لٹتا نہ قافلہ تو کرامت کی بات تھی
رہزن کا کیا قصور کہ رہبر نشے میں تھا
مرنا تو خیر اس کے مقدر میں تھا مگر
شکوہ تھا میر شہر کو لشکر نشے میں تھا
اس کی تو چیخ شرم کے مرنے پہ تھی مگر
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ساگر نشے میں تھا


غزل
ساگرتیمی
دوا پیہم پلائے جارہے ہو
مرض کتنا بڑھائے جارہے ہو
سنا ہے جھوٹ کو پانے کی خاطر
برابر سچ بتائے جارہے ہو
اگر جھوٹا ہے سچ بولے گا تھوڑی
حلف پھر کیوں دلائے جارہے ہو
غریبی مٹ نہيں پائی نا تم سے
غریبوں کو مٹائے جارہے ہو
تجارت کا سلیقہ جانتے ہو
شرافت کو بھنائے جارہے ہو
میاں انسانیت ہے لاش زندہ
یہ کیا غیر ت دلائے جارہے ہو
نمازیں تو خدا سے گفتگو ہیں
تو کیا باہر بتائے جارہے ہو
کہا نا میں غزل سنتا نہیں ہوں
تو بھائی کیوں پکائے جارہے ہو
غریبوں کا بھی حق بنتا ہے ساگر
بہت پیسے کمائے جارہے ہو  


غزل
ساگر تیمی
ڈریے تو اتنا مت ڈریے
میں چلتا ہوں آپ بھی چلیے
مانا آپ بڑے عالم ہيں
پھربھی روز کتابيں پڑھیے
چڑھنے سے جب ڈر لگتا ہے
بکیے مت ، پستی میں گریے
دیر سے آئے ، گاڑی نکلی
بیٹھ کے اپنے آپ سے لڑیے
رات کٹی باتوں باتوں میں
آفس میں اب آنکھیں ملیے
لوگ جنازہ پڑھ ہی دینگے
آپ ذرا اک بار تو مریے
جھوٹی باتیں ، سچی باتیں
ان کو سنیے ، ان پر چلیے
آپ کی ہر اک بات صحیح ہے
لیکن میری بھی اک سنیے
تب ہی ساگربات بنے گی
جب اک بارہوا میں اڑیے





غزل
ساگر تیمی
ذکر اس کا مرے دیوان میں آجاتا ہے
ہائے کیا شخص ہے پہچان میں آجاتا ہے
مجھ کو طاقت کے اثر سے کہاں انکار مگر
 کفر اخلاق سے ایمان میں آجاتا ہے
آئینہ سامنے رکھ کر ذرا پوچھیں خود سے
آدمی کس طرح شیطان میں آجاتا ہے
حسن تو ویسے بھلا کوئي اثر کیا رکھے
آدمی ہاں مگر مسکان میں آجاتا ہے
ویسے تو میں ترے قدموں کی نہیں دھول مگر
ہاں مگر تو مرے امکان میں آجاتا ہے
یہ قرابت تو اصولوں کو نہيں ڈھاسکتی
بولہب لعنت قرآن میں آجاتا ہے
کھلنے لگتی ہیں امیدوں کی اداسی کلیاں
جب بھی " چہرا" دل ویران میں آجاتا ہے
جنگ کی کس نے بنا رکھی ہے ساگر تیمی
حسن کا مان بھی میدان میں آجاتا ہے



غزل
ساگر تیمی
رونق سر بازا ر ہے عزت سر بازا ر
شیطان کررہا ہے شرارت سر بازار
لوگوں کے سامنے مجھے کہتے ہیں شیخ جی
آپ کررہے ہيں مجھ سے عداوت سربازار
شاید یہ ایک طرز ہو اظہار دین کا
حضرت جو کررہے ہیں عبادت سربازار
اس کا بدن ہے ، چاہے نمائش کیا کرے
ابلیس کررہا ہے وکالت سربازار
مانا کہ آپ دین کے باغی مہان ہیں
پھربھی یہ حسن اور یہ ذلت سربازار؟
ویسے تو آپ اس کو نصیحت ہی کہینگے
لیکن یہ ہورہی ہے فضیحت سربازار
ساگر دعا تو روح عبادت ہے مغز ہے
پھر کیوں یہ بن گئی ہے تجارت سر بازار