Friday 23 November 2012


 

سیتامڑھی کی ایک شام کے ایک خوبصورت منظر اور دلفریب یاد کے نام

ایک نشیلی شام

ہوائیں تیز تھیں زلفوں کا شوخ بکھرا تھا

وہ مست مست نگاہوں کا نور نکھرا تھا

وہ اس کا رنگ تو آنکھوں سے تھا عیاں لیکن

گلابی ہونٹ تھے موہ لیتا ہوا مکھڑا تھا

وہ میری آنکھوں میں اس کا وہ گہر بار کنول

مچلتے دریا پر مانو گلاب بکھرا تھا

وہ ناز و شوخ سے آنا اور پھر چلے جانا

نشیلی شام تھی وہ چاند کا اک ٹکڑا تھا

غضب کا حسن تھا اس کے کتابی چہرے پر

دوچار تل بھی تھے مالی کا سخت پہرا تھا

بدن میں آیا تھا اس سے میرے عجیب نشاط

اور اس کے جانے پر ہر سو لگا کہ کہرا تھا

حسیں رخسار پہ اشکوں کی وہ حسین لری

کھلے گلاب پہ شبنم کا چند قطرہ تھا

وہ اس کا کھیلنا گڑیوں کے ساتھ مل مل کر

چمکتے تاروں میں وہ ایک چاند ابھرا تھا

 دل میں اس کے بھی تھا کچھ نہ کچھ چھپا لیکن

خموش نینوں سے واضح سجن کا دکھڑا تھا

وہ چلتی ایسے تھی جیسے کہ بڑھ رہی ہو لپٹ

عجیب جوش تھا مانو جوان بگڑا تھا

نگاہ گاڑ کر ہنستی تھی اور روتی تھی

دل ودماغ کے مابین جاری جھگڑا تھا

وہ خواب تھا کہ حقیقت تھی کچھ نہیں معلوم

کھلی جو آنکھ تو ساگر کا رنگ اترا تھا

Thursday 15 November 2012


غزل

 

آج کل پریشاں ہیں زندگی کے پیمانے

زاھد مکرم ابھی آرہے ہیں میخانے

الفت و محبت بھی، نفرت و عداوت بھی

اس عجیب دنیا میں کون کس کو پہچانے

سنیے تو یہ لگتا ہے ایک ہی کہانی ہے

قصہ مختلف ہیں اور ہیں الگ یہ افسانے

کچھ نیا بنائینگے روپ اس محبت کا

عشق کرنے والوں کو ہم کہینگے فرزانے

عشق پر بھی قبضہ ہے ان دنوں سیاست کا

اب سوال اٹھتا ہے کیا کرینگے دیوانے

الجھنوں سے ابھرونگا، دور ہوگی بیماری

ایک باروہ آکر بیٹھے میرے سرہانے

زندگی ہی بے حس ہے شمع کیا کرے ساگر

بے وجہ محبت میں مر رہے ہیں پروانے

Wednesday 14 November 2012


 

میری پیاس تھوڑی بہت ہی بڑھی تو ہے

ساقی شراب کھانے میں مے کی کمی تو ہے

چادر نے ڈھانپ لی تو ہے اس سر کو بہت خوب

لیکن ہماری پنڈلی اب بھی کھلی تو ہے

تم کو امیر وقت کی دعوت ہو مبارک

روٹی غریب کھانے میں سوکھی ہوئی تو ہے

موسی کو مارنے کا پھر حربہ نہ چل سکا

فرعون کی تقدیر بھی پھوٹی ہوئی تو ہے

شب پھر کسی کی موت کی پیغامبر ہوئی

اور صبح کی کرن بھی دھندلی ہوئی تو ہے

ظالم بھی خوش ہے اور ہمیں بھی ہے یہ سکوں

گردن وفا کی راہ میں اپنی کٹی تو ہے

ساگر غریب لوگوں کا رہبر ہوں اس لیے

اپنی امیر لوگوں سے اب بھی ٹھنی تو ہے

 

 

 

Monday 12 November 2012


بسم اللہ الرحمن الرحیم

غزل

ساگر تیمی

میری چاہت میرے الفاظ کی قیمت دے دے

مجھ سے نفرت ہے تو واپس وہ محبت دے دے

یہ بلندی ، میرے  قد کو  گھٹاتی  ہے  بہت

میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے عزت دےدے

اب کہ مانگوں تو یہ مانگوں کہ مجھے دے پستی

تیرے  اوپر ہے  خدایا  کہ تو شوکت  دے دے

ہر سطح پرہے یہاں  بغض ،حسد، نفرت کا  چلن

کیا  یہ ممکن  نہیں اللہ  ، تو  الفت  دے دے

مجھ کو معلوم ہے صورت ہے  بنائی  تیری

رب کعبہ مجھے اک اچھی سی سیرت دے دے

جھوٹ کہتا ہوں  تو کرتا ہے  ملامت یہ  ضمیر

سچ کے کہنے کی خدایا مجھے ہمت دے دے

یہ  غریبی  بھی  تو  ایمان  کی  سوداگر  ہے

تو کیا اب بھی کہوں تجھ سے کہ دولت دے دے

تیرا  ساگر  کہ  رہ حق   کا  ہے  جویا  ،  اللہ

تو  اسے  راہ  وفا ، ذوق  عبادت  دے  دے

 

 

غزل

کوئی جو آکے نگاہوں کے در میں رہتا ہے

نہ جانے کیسا نشہ اپنے سر میں رہتا ہے

جو ہونے والا ہے ہوگا بدل نہیں سکتا

تو کیا وجہ ہے تو خوف وڈر میں رہتا ہے

تمہیں بھی عشق میں دیکھونگا تو بھی میرے بعد

کدھر کوجاتا ہے اور کس کےگھر میں رہتا ہے

اسے بھی میری طرح ساتھ کی ضرورت ہے

ادھورا   آدمی   تنہا  سفر  میں  رہتا  ہے

کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی

مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا ہے

پجاری رات کے جانیں تو کس طرح جانیں

وہ نور جو کہ طلوع سحر میں رہتا ہے

خیال چھوڑ دو ساگر کی ہمسری کا کہ وہ

کھڑا کنارے پہ موج دگر میں رہتا ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

"سو چوہے کھاکر بلی چلی حج کو"

اڈوانی کو سیکولرزم کی یاد آئی

ثناءاللہ صادق تیمی

،236،پیریار ہاسٹل،جے این یو،نئی دہلی 110067

Mob:09013588985


بھارتی جنتا پارٹی کے اندر لال کرشن اڈوانی کی چاہے جو بھی حیثیت ہو،یہ بات تو بہرحال معلوم حقیقت ہے کہ اس پارٹی کو چوٹی تک پہنچانے والوں میں سب سے اہم نام لال کرشن اڈوانی ہی کا ہے۔ لوک سبھا کے اندر دو سیٹوں پر جیتنے والی پارٹی یکایک مرکز میں حکومت کی کامیاب دعویداری پیش کرے تو اسے ایک چمتکار ہی کہا جائیگا اور یہ چمتکار بھارتی جنتاپارٹی نے لال کرشن اڈوانی کے بل بوتے کر دکھلایا۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترا نے پورے دیش میں بھگوا آتنک کو جس طرح پھیلایا، وہ کوئ چھپا ہوا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اڈوانی جی ہی تھے جن کی گمراہ کن سرگرمیوں اور اشتعال انگیزیوں کی وجہ سےبابری مسجد شہید کی گئی۔ پورے ملک میں مسلمان اپنے آپ کو ڈرا ہوا محسوس کرنے لگا اور اسے لگا کہ اسکا وجود خطرے میں ہے۔

اٹل بہاری واجپئ کی قیادت میں جب بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت بنی اور وزارت داحخلہ کا قلمدان لال کرشن اڈوانی کے ہاتھ میں آیا تو ہندوستانی مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ ابھرا،مدارس کو دہشت گرد گرداناگیا، نصاب تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگا گیا اور گجرات کے اندر قتل وخون کا ننگا ناچ کھیلا گيا اور یہ دھمکی دی گئ کہ یہی تجربہ پورے ہندوستان میں دہرایا جائیگا۔ وہ تو بھارتی جنتا پارٹی کی بد قسمتی کہیے کہ 2004 میں feel good factor اور India shining کے نعروں کے باوجود اس کا پتہ صاف ہو گیا اور حکومت کی دیوی کانگریس پر مہربان ہوگئی۔ ظاہر ہیکہ اس میں مسلم ووٹ کا ناقابل انکار اورزبردست کردار تھا۔2009 میں بھی ایسا ہی ہوا بلکہ کانگریس کچھ زیادہ ہی مضبوطی سے آگے بڑھی اور بھارتی جنتا پارٹی کے سر کا درد مزید بڑھ گیا۔

اب 2014 کے الیکشن کی تیاری ہے۔ کرپشن کا دیو بھی بھارتی جنتا پارٹی کے لیے کچھ بہتر خبر لیکر نہیں آیا ہے۔ ایسے میں ظاہر ہیکہ کچھ نہ کچھ بدلاؤ لانے کا تو سوچنا ہی ہوگا۔ مسلم ووٹ کو کانگریس سے الگ کرنے کے لیے اڈوانی جی کئ ہتھیار آزما رہے ہیں۔ ایک وقت میں انہونے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس مرتبہ مرکز میں غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی حکومت بنیگی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمان کانگریس کو کمزور سمجھ کر کسی اور کو ووٹ دیں اور اس کا لازمی فائدہ بھارتی جنتا پارٹی کو ملے۔ لیکن اڈوانی جی کے اچھے دن نہیں چل رہے ہیں، ان کا یہ منتر خود ان کی پارٹی کو پھوٹی آنکھ نہیں بھایا اور بیچارے چوطرفہ تنقید کی زد میں آگئے۔ اڈوانی جی نے پھر اپنے آپ کو تیار کیا اور پارٹی ورکرس کو یہ قیمتی مشورہ دیا کہ وہ خود کو سیکولر ثابت کریں ،دوسری سیکولر پارٹیوں سے اپنا رشتہ مضبوط کریں، اقلیت (مسلمانوں)کو یہ باور کرائیں کہ وہ ان کے دشمن نہیں ہیں۔ اس معاملے میں نتن گڈکری نے بھی ان کا ساتھ دیا اور ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی بھی مشورہ کو عملی جامہ پہنانے میں لگ گئے۔ نتن گڈکری نے تو کلدیپ نیر سے بات کرتے ہوے دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر کانگریس کو برا بھلا بھی کہا اور کہا کہ اس سے ایک خاص طبقے کے اندر غلط پیغام جائیگآ۔

یعنی ہر طرح سے یہ کوشش کی گئی اور کی جارہی ہیکہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو رجھایا جاسکے۔ لیکن سوال یہ ہیکہ کیا ہندوستانی مسلمان اتنا نادان اور کوتاہ فہم ہے؟ کیا اسے اتنا بھی شعور نہیں ہیکہ وہ دوست اور دشمن میں تمیز کر سکے۔ حالانکہ اڈوانی جی کہ مشورہ کو ایک آزمودہ کار انسان اور ایک تجربہ کار سیاستداں کی دور بینی اور سیاسی شعور کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہیکہ تجربات نے اڈوانی کو یہ سکھلادیا ہوکہ ہندوستان میں بھگوا انتہا پسندی کے ساتھ اقتدار اعلی تک رسائی آسان نہیں اور وہ خلوص کے ساتھ اپنی پارٹی کو سیکولر شبیہ دینا چاہ رہے ہوں ۔ لیکن جناب عالی! خمیر تو نہیں بدلیگا ، ذہنیت تو تبدیل نہیں ہوگی ۔ اقتدار کے حصول کے لیے وقتی سمجھوتہ اقتدار پاتے ہی ختم ہو جائیگآ اور وہی رنگ عود کر آئیگا۔  اڈوانی جی! غلط راستہ اپنا کر اچھی منزل تک پہنچنے کا خواب ناتمام رہتا ہے۔ اب اگر آپ کو دیکھ کر کوئ ”سو چوہے کھاکر بلی چلی حج کو" کہے تو اس میں بھلا اس کا قصور ہی کیا ہے؟؟؟

Sunday 11 November 2012


غزل
میرے سب کارنامے ہوا ہو گئے
اہل دستار جب بھی خفا ہو گئے
یہ عجب بات ہے ہم ہی زندہ نہیں
مرنے والے تو مر کر سوا ہو گئے
بے ریا تھی محبت تو یہ بھی ہوا
کپڑے یوسف کے شافی دوا ہو گئے
ماں بھی گھر میں رہی جب توانا رہی
ناتوانی میں بیٹے جدا ہو گئے
یہ عقیدت ہے یا پھر عداوت کوئی
جو نبی تھے وہ کیسے خدا ہو گئے
بات کرنا ہمیں ہی گوارہ نہ تھا
جو خفا تھے خفا سے خفا ہو گئے
میں نے رب پہ بھروسہ کیا جب کبھی
شب گھنیری میں روشن دیا ہو گئے
ساگر کس قید میں تو پڑا رہ گیا
جتنے قیدی تھے سارے رہا ہو گئے
غزل
خدا کی راہ میں یہ زندگی بتاؤ تو
کسی یتیم کے گالوں کو تھپتھپاؤ تو
مٹ ہی جائیگی ہاں یہ تیرگی خدا کی قسم
ذرا کتاب خدا کو گلے لگاؤ تو
چمک ہی جائیگا تیری ترقیوں کا چراغ
یہ شعلہ نفرت ذرا بجھاؤ تو
تم چاند پہ ہو تو پھر اس زمیں پہ آؤگے
ہمیشہ چاند پہ رہ کر ذرا دکھاؤ تو
میں مان لوں کے تیرا مجھ سے رشتہ ہے باقی
میرے فراق میں اک اشک ہی بہاؤ تو
گھٹا بھی چھائی ہے اور وہ بھی آگئے ہیں یہاں
اب ایسے میں ساقی ذرا پلاؤ تو
سنا ہے تیری گلی عشق،وفا ،خوشبو ہے
ہمیں بھی اپنی گلی میں کبھی بلاؤ تو
پہنچ نہ پائے اگر منزل مقصود پہ کہنا
مسلسل راہ میں اپنے قدم بڑھاؤ تو
تمہاری بات بھی سن لیگا کر یقیں ساگر
شب قدر میں کبھی تم اسے بلاؤ تو

غزل
دھرتی پہ آسمان کا سایہ عجیب تھا
جو راہ دے رہا تھا کبھی خود رقیب تھا
پھر رات بھر ہواؤں میں اڑتا رہا خیال
پھر خوشنما محل میں ہمارا حبیب تھا
مرتے ہوے بھی میری ادائیں نہیں گئیں
میں ہنس رہا تھا جب کہ شکستہ صلیب تھا
بیٹی ہوئی تو ماں نے ہی گردن دبا دیا
ممتا تڑپتی رہ گئی منظر مہیب تھا
اک اک صفحہ حیات کا روشن ہے بالیقیں
میرا نہیں، وہ سارے جہاں کا نقیب تھا
جو کچھ ملا اسی پہ قناعت رہی ہمیں
معلوم ہے کہ ابن عبداللہ غریب تھا
سن لی دعا تو مجھ کو تعجب نہیں ہوا
اب بھی مجیب ہے وہی جو کل مجیب تھا
ساگر سے ان کو اتنی شکایت تو رہ گئی
سچ کہ کر رسوا کر دیا جب کہ قریب تھا