Saturday 30 August 2014

ایک چلتی پھرتی غزل ( آپ بھی کوشش کریں نا پلیز !)
ساگر تیمی
اس طرح مسکرانے سے کیا فائدہ ؟
بے وجہ دل جلانے سے کیا فائدہ ؟
ميں بھی انسان ہوں تم بھی انسان ہو
خون ناحق بہانے سے کیا فائدہ ؟
ایک دن چھوڑ کر مر ہی جائينگے ہم
سوچیے گھر بنانے سے کیا فائدہ ؟
میں براہوں مگر آپ اچھے نہيں
پھر یہ انگلی اٹھانے سے کیا فائدہ ؟
چاند کی روشنی بھی تو ماخوذ ہے
اس کو تم سا بتانے سے کیا فائدہ ؟
جھوٹ کہنے سے بھی سچ نہ ہارے اگر
پھر بھلا سچ چھپا نے سے کیا فائڈہ ؟
تو بھی ساگر دعاؤں کا محتاج ہے
پھر یہ تقوی دکھانے سے کیا فائدہ ؟
غزل
ساگر تیمی
دن نہ آے مگر رات بدل سکتی ہے
روشنی گاؤں کے حالات بدل سکتی ہے
ميں نے مانا کہ تیرے حسن میں حدت ہے بہت
سوچ کیا یہ میرے جذبات بدل سکتی ہے
اتنی روشن بھی نہیں تیرے مقدر کی لکیر
وہم مت پال کہ اوقات بدل سکتی ہے
کچھ عجب رشتہ ہے قربت سے وفاداری کا
تھام لے ورنہ وہ سوغات بدل سکتی ہے 
یہ خبر تھی کہ تیرا نام تو رسوا ہوگا
کب خبر تھی کہ تیری ذات بدل سکتی ہے
تھی اکڑ اس کی دولہا کار ہی لے گا پہلے
دلہن بولی کہ یہ بارات بدل سکتی ہے
موت جب کھول کے جبڑے چلی آئی ساگر
زندگی بول چلی ، ساتھ بدل سکتی ہے

Friday 29 August 2014

غزل
ساگر تیمی
پاؤں اتنا نہ بڑھا شہر میں وسعت کم ہے
میں نے سمجھا تھا چمک ہے تو مصیبت کم ہے
شیخ واقف ہیں نئی رت کے تقاضوں سے بہت
دیکھ ہنگامہ تو برپا ہے ، عبادت کم ہے
کل احباب نے تعریف کی اور مجھ سے کہا
یہ تو اظہار محبت ہے ،سیاست کم ہے
شيخ و زاہد بھی ہیں اس کاکل پیچاں کے اسیر
میں اگر اس پہ فدا ہوں تو یہ شدت کم ہے 
مجھ کو لگتا ہے کسی اور کی خاطر ہے حیات
ویسے خدمت کے لیے دوست یہ مدت کم ہے
شہر کے میر کو اس غم نے گھلا رکھا ہے
کیوں فقیروں سے زیادہ نہيں، شہرت کم ہے
اب تو ساگر ذرا اللہ سے ڈریے بھائی
یہ ہے دنیا اور اس دنیا کی حقیقت کم ہے

Friday 22 August 2014


اتنی سی بات میر ی کوئي مانتا نہ تھا
ایسے تو چاہتے تھے گرادیں دیوار قہر
چاہت تو تھی مگر وہی اک حوصلہ نہ تھا
جب بیچ میں پتہ چلا ہے راہ پر خطر
بولے جناب شیخ کہ میں نے کہا نہ تھا
اونچی اڑان نے دیا بھائي کو عظمتیں
وہ جانتا ضرور تھا پہچانتا نہ تھا
میں سوچتا ہوں شب میں بیداری کا فائدہ
سورج طلوع ہوا تو کوئي جاگتا نہ تھا
ویسے تو میکدہ کھلا ساگر کے بعد بھی
لیکن شراب خانے میں کوئي بچا نہ تھا
L

Friday 15 August 2014

فلسطین (ایک نظمیہ دعا )
ساگر تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی
ہر ذرہ ہے ایسا کہ زباں کہتی ہے تحسین
مقام یہ شہدا کا ہے اور ارض نبیین
تاریخ اس زمین کی حد درجہ ہے حسین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ارض فلسطین
یہ نور ہے اور ظلم کی تسخیر یہیں ہے
اٹھتی ہوئی تخریب سے تعمیر یہیں ہے
اللہ قسم یہ تو ہے خوابوں کی سرزمین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
انسان ہیں گر آپ تو پھر دیجیے  صدائیں
غاصب ہیں یہودی اسی اک  سچ کو بتائيں
چپ رہ کے تو مت کیجیے انسانوں کی توہین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین

ظالم کا ظلم اور ہیں مظلوم کی آہیں
کب تک بھلا رہیں گی یہ مسموم ہوائيں
دنیا بھی کہ رہی ہے کہ یہ جرم ہے سنگین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
بچوں کی چیخ ، ماؤں کی آہوں کا پاس رکھ
رب قدیر! دبتی صداؤں کا پاس رکھ
تباہ کر یہودی کو ، دنیا رہے نہ دین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
ظالم کے پاس ظلم کے اوزار بہت ہیں
اور بے صدا بندے تیرے لاچار بہت ہیں
صرف تو ہے کہ دے سکتا ہے مظلوموں کو تمکین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
گھر تیرا ہے صہیونی کی تحویل میں یارب
قبلہ ترے بندوں کا چھنا جاتا ہے یارب
واپس ملے جو اقصی تو مل جائے گی تسکین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین
محفوظ تیرے بندے نہیں آج کہیں پر
اللہ معجزہ تو دکھا دے نہ زمیں پر
ساگر بھلا کب رہے اللہ! یوں غمگین
یہ ہے ارض فلسطین ، یہ ہے ارض فلسطین