Wednesday 13 September 2023

 جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

ثناءاللہ صادق تیمی
بے نام خاں آج اداس بھی تھے اور ناراض بھی ۔ انہوں نے ہمارے سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا اور یوں منہ پھلا کر بیٹھ رہے جیسے ساس اپنی بہو کی کسی بات سے چڑھ کر بیٹھ جاتی ہے ۔ میں نے بھی تھوڑا نظر انداز کیا کہ خان صاحب کا یہی کارگر علاج رہا ہے ۔ نشانہ تیر بہدف ثابت ہوا ، خان صاحب خود ہی گویا ہوئے : یار مولانا! ہم کتنے عجیب لوگ ہیں ، ہم میں سے ہر ایک کو دوسرے سے شکایت ہے ، سب کے سب سب کے سب سے جلتے ہیں ۔ کوئی نہيں جو اپنی جگہ مطمئن ہو اور کسی کے بارے میں کوئی مثبت زاویہ رکھتا ہو ۔
غریب لوگ مالداروں کو لاحق ہونے والی کسی پریشانی سے خوش ہورہے ہیں ، مالداروں کو لگتا ہے کہ غریبوں میں ہی مسئلہ ہے کہ غریب بنے ہوئے ہیں، حکمراں طبقہ عوام سے نالاں ہے اور عوام حکمرانوں سے پریشان ہیں ، انہیں گالیاں دیتے ہیں اور اپنی ساری تکلیفوں کا سبب انہیں ہی سمجھتے ہیں ۔ مولانا! تم جس طبقے میں بیٹھ جاؤ وہ دوسرے طبقے کے سلسلے میں شکوہ سنج ملےگا ۔ کہیں کوئی مثبت زاویہ نظر نہيں ، محسوس ہوتا ہے کہ سب کے سب جلے ہوئے ہيں ۔ کیا ذہنیت پروان چڑھی ہوئی ہے ، استغفر اللہ !!! جون ایلیا کا شعر یاد آگيا۔
کیا تکلف کریں یہ کہنے میں
جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں
میں نے خان صاحب کی باتوں کی معقولیت کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک سوال رکھا : خان صاحب! کبھی آپ نے اس کیفیت کے اسباب وعوامل پر غور کیا ہے ؟ آپ نے سوچا ہے کہ اس کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں ؟ خان صاحب نے میری طرف جواب طلب نگاہوں سے دیکھا کہ جیسے اگر یہ نکتہ آپ اٹھا رہے ہیں تو جواب بھی آپ ہی فراہم کریں ۔
میں نے کہا : خان صاحب ! انسان اس مادی دنیا میں زندگی بسر کررہا ہے ، یہاں ہر آدمی آگے بڑھنا چاہتا ہے اور آگے بڑھنے کی راہ ہمیشہ مشکلات سے بھری ہوتی ہے ، اب اگر وہ سمجھدار اور توفیق یاب ہو تو اپنی پریشانیوں کا سبب تلاش کرتا ہے اور سمجھداری سے اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ورنہ وہ خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی پر الزام رکھ کر خود کو مطمئن کرلیتا ہے۔ انسان کی کامیابی یا ناکامی کے پیچھے اصل اس کا اپنا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں کو اس کی سمجھ نہيں ہوتی ، وہ لازما اسباب کہیں اور تلاش کرکے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر طبقے کو دوسرے طبقے سے شکایت ہے ۔ ہمارے ایک دوست ہیں ، ان کا تعلق معاشی اعتبار سے نبستا ایک کمزور پریوار سے تھا، شروع شروع میں ان کی نفسیات یہ تھی کہ وہ مالداروں کو ساری برائی کا ذمہ دار سمجھتے تھے ، پھر انہیں سمجھ آئی اور کڑی محنت اور لگن سے انہوں نے اپنا مقام بنایا ، کچھ سالوں بعد وہ سماج کے مڈل کلاس کا حصہ بن گئے ، انہوں نے اور بھی کوششیں جاری رکھیں اور سماج کے ایلٹ گروہ میں گنے جانے لگے ۔ ہر طرح کی سہولتیں انہيں دستیاب ہوئیں اور بڑے آدمی کا اسٹیٹس مل گيا۔ ایک روز جب میری ان سے بات ہورہی تھی تو انہوں نے کہا : مولانا صاحب !میں نے تو تینوں طبقات میں جی کر دیکھا ہے ، ہم تینوں در اصل ایک ہی ہیں ، ایک ہی نفسیات ہے ، تینوں کو اپنےعلاوہ دوسرا مسئلہ لگتا ہے اور برائیوں کی جڑ ۔ میں غریب تھا تو سارے غریب متوسط اور مالدار طبقوں سے جلتے تھے ، انہیں گالیاں بکتے تھے ، ان کے اندر ایمانداری ، اخلاقیات اور شرافت کو قبول نہیں کرتے تھے ، میں جب مڈل کلاس سے جڑا تو پتہ چلا کہ اس طبقے کو تو دونوں سے ہی مسئلہ ہے ، یہ غریب کو حقیر اور مسائل کی بنیاد بھی مانتا ہے اور مالداروں کو غاصب اور بے ایمان بھی ۔ اس کی نظر میں غریب میں اعلا تہذیبی قدریں نہيں ہوتیں اورمالداروں میں غیرت و حمیت کا چلن نہیں ، سر تا پا بد عنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور جب ایلیٹ کلاس سے جڑا ، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ تو دونوں کو ہی حقیر سمجھتا ہے ، اس کی نظر میں بھی سارا مسئلہ انہی دو کمزور طبقات سے پیدا ہوتا ہے ، غریب مفت کی سہولتیں حاصل کرتا ہے اور مڈل کلاس اوقات سے باہر خود کو ایلیٹ کلاس سے بڑھ کر سمجھنے کی غلطی کرتا ہے ۔ ہمارے دوست نے ہنستے ہوئے کہا : جب کہ یہ ساری درجہ بندی اللہ پاک کی اپنی مشیئت ہے اور ہر انسان کے لیے میدان کھلا ہوا ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی توجہ صرف کرنے کی بجائے اپنے کل کو روشن کرنے کی کوشش کرے تو وہ کہیں سے کہیں نکل جائےو ۔ مجھے دیکھو کہ اللہ کی توفیق سے میں نے بہت جلد اس حقیقت کو پالیا اور آج جہاں ہوں وہاں بہت خوش ہوں ۔ مجھے کسی سےشکایت نہیں کہ میں سب کو جانتا ہوں اور کسی سےجلن نہيں کہ میں سب سے اچھی طرح واقف ہوں ۔
ویسے خان صاحب ! اس پورے منظرنامہ کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بہر حال موازنہ کرتا ہے اور اسی موازنے سے خوشی یا غم کشید کرنے کی غلطی کرتا ہے ۔ غریب جب مڈل کلاس اور ایلٹ کلاس کی فروانی دیکھتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے ، اب وہ مختلف طریقوں سے اس تکلیف کو خوشی میں بدلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ ان دوطبقات میں بد عنوانی ، بے حیائی ، بے دینی اور نہ جانے کیا کیا ڈھونڈ نکالتا ہے کہ وہ اپنی تکلیف کم کرسکے اور خود کو جھوٹی تسلی دے سکے لیکن اس سے بہر حال یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس کے اندر اپنی نا مرادیوں اور محرومیوں کو جھیلنے کی سکت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مڈل کلاس کو غریبوں کا سکون اور مالداروں کی حیثیت پریشان کرتی ہے اور وہ دونوں میں کمیاں نکال کر خود کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، اس طرح اسے ان دونوں کے مقابلے میں خود کو برتر مقام دینے کا راستہ مل جاتا ہے اور یوں وہ بھی زندگی کی ناہمواریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو آمادہ کرلیتا ہے اور جہاں تک ایلیٹ کلاس کی بات ہے تو وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ساری سہولتوں ، دولتوں اور قوتوں کے باوجود جو سکون ، چین ، بشاشت اور مسرت ان دو طبقات کو حاصل ہے وہ اسے نہیں ، اسے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ساری سہولتوں سے دور رہ کر بھی زندگی کو اتنی آسانیوں سے کیسے کاٹ سکتا ہے اور یوں وہ ہر طرح کی خرابیاں تلاش کرکے خود کو ہر اعتبار سے برتر رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، و ہ سوچتا ہے کہ چلو یہ اچھی نیند کے مزے لے رہے ہیں ، سکون سے جی رہے ہیں لیکن ان میں تہذیب کہاں ہے ؟ ان کے پاس دولت کہاں ہے ، ان کو جانتا کون ہے ؟ ان کے یہاں شرافت کہاں ہے ؟ ان تمام کوششوں سے در اصل یہ طبقہ بھی اپنی برتری اور خوش فہمی کو تازہ رکھنا چاہتا ہے تاکہ زندگی اور نت نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرسکے ۔ خان صاحب ! یہ کیفیت نہ ہو ، یہ مقابلہ نہ ہو ، یہ موازنے کی نفسیات نہ ہو تو سماج کو ایک قسم کا ٹھہراؤ بھی لاحق ہوسکتا ہے اور ترقی رک بھی سکتی ہے ۔ لیکن میرے دوست ! غلطی ہماری یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کا مطمح نظر دنیا ہے ، اس لیے ہم ہمیشہ خود کو بڑے لوگوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور حسد وجلن کے جراثیم ہمارے ذہن ودل پر قبضہ جما لیتے ہيں ۔ ہمارا نصب العین اگرآخرت ہو تو ہم دنیا کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بموجب اپنے سے کمتر کو دیکھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہم بہر حال نعمت میں ہیں اور دین کے معاملے میں اپنے سے برتر کو دیکھیں کہ ہم واقعی بہت پیچھے ہیں ، اس لیے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اگر ایسا ہو تو مقابلے کا فائدہ بھی حاصل ہو اور حسد وجلن کی کیفیت بھی نہ ہو ۔ سچ پوچھو تو اللہ پر صحیح ایمان ، توکل ، خود پر توجہ اور اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھنا یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے لیس ہوکر آدمی ان منفی جذبوں سے بچ کر اپنا سفر کامیابی سے آگے بڑھا سکتا ہے ورنہ ان اقدار و عقائد کی کمی کا ہی نتیجہ ہے جس کی تم شکایت بھی کررہے ہو اور جس میں ہم تم بری طرح ملوث بھی ہیں !!!

No comments:

Post a Comment