Wednesday 13 September 2023

 حب الوطنی کی سیاست

ثناءاللہ صادق تیمی
ہندوستان میں شروع سے ایک گروہ سرگرم رہا ہے جس کا دعوی رہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے کا حق صرف ان مذاہب کے ماننے والوں کو ہونا چاہیے جو مذاہب اسی سرزمین پر نمودار ہوئے جیسے سناتن دھرم ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت وغیرہ ۔جن سنگھ آج کے آرایس ایس کا یہی نظریہ رہا ہے اور وہ اسی کا مختلف انداز میں پرچار وپرسار کرتے رہے ہیں ۔اس کے لیے وہ بنیادی طور پر ایک دلیل بھی دیتے ہیں کہ جن کو اس سرزمین سے ویسی عقیدت نہ ہو جیسی ہندؤں کو ہے ان کو اس سے ویسی محبت بھی نہیں ہوسکتی ۔وہ جب " وندے ماترم" کا ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں تو اس کے پیچھے یہ بات بھی رہتی ہے ۔
اس نظریے کے حاملین اسی لیے یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان پر ہندؤں کے سوا جن لوگوں نے بھی حکومت کی ہے وہ ایک غاصب حکومت تھی اور وہ دور غلامی تھا جس سے بھارت گزر رہا تھا ۔ آرایس ایس کا یہ نظریہ اتنا واضح ہے کہ اس کی مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم جب امریکہ کے حالیہ دورے پر گئے اور وہاں ایک جگہ خطاب کیا تو انہوں نے یہی بات کہی بھی ۔ اور یہ بات معلوم حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ نریندر مودی آرایس ایس کے تربیت یافتہ اور اس کے ایک وفادار رکن ہیں ۔
جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس کا یہ نظریہ ان کی مجبوری بھی ہے ۔ جدید ہندوستان کی آزادی اور اس کی تعمیر میں آرایس ایس یا اس کی ذیلی تنظیموں کا کوئی کردار نہيں ۔ الٹے یہ تاریخی سچائی ہے کہ اس نظریے کے لوگ انگریز کے مخبر تھے اور دیش کی آزادی کی کوششوں کے خلاف تھے ۔ایسے میں اگر وہ صرف انگریزوں کو ہی غاصب مانیں گے تو ان کا کوئی مثبت کردار بھی نہیں بنے گا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر سیاست کی جو دیوی ان پر مہربان ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہوگی ۔ یوں ان کے اس رویے سے انہيں دوہرے فائدے ملتے ہیں ۔ ایک تو اپنے نظریے کے نتائج کی شرمندگی سے بچنے کا سامان نکل آتا ہے اور دوسرے ستا پانے کی راہ بھی ہموار ہوجاتی ہے ۔
آپ غور کریں تو اس ٹولے کو حب الوطنی کے مفہوم کو متعین کرنے کے لیے اسی لیے وہ راستہ اپنانا پڑتا ہے جو عملی نہیں خالص نظریاتی ہے ۔بی جے پی کے قومی ترجمان سنبت پاترا کے ساتھ کنہیا کمار کا ایک مباحثہ شاید آپ کو یاد ہو، اس میں کنہیا کمار نے اس نظریاتی اساس کو جب عملی مثالوں سے چنوتی دی تو سنبت پاترا لاجواب ہوکر رہ گئے تھے ۔یعنی اس نظریے کا کمال یہ ہے کہ ہر ہندو بلا کسی استثناء کے محب وطن شمار ہوگا اور کسی بھی مسلمان یا عیسائی کو اپنی حب الوطنی ثابت کرنی ہوگی اور نظریے کی اس اساس پر وہ ثابت بھی نہيں کرسکے گا ، اس لیے کسی بھی طور پر وہ ہندوؤں کا مقام نہیں پاسکتا۔
لیکن یہ نظریاتی اساس عام ہندو سماج اور دانش ور طبقے کو منظور نہيں ۔یہی وجہ ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود اب بھی سنگھ کو جد وجہد آزادی کے معاملے میں سر نیچا کرتے ہی بنتا ہے ۔عام ذہن یہی ہے کہ دیش سے محبت کا مطلب سرحد کی حفاظت سے لے کر دیش کے لوگوں کی خوش حالی اور ترقی کے لیے کام کرنا ہے ۔اس نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کا مسلمان کسی بھی دوسرے طبقے سے پیچھے نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ تاریخی سچائی ہے کہ دیش کی آزادی کی جنگ میں جس گروہ نے سب سے زیادہ قربانی دی وہ مسلمان ہی تھے اور جنہیں سب سے زیادہ زد وکوب کا گيا وہ مسلمان ہی تھے ۔جب انہوں نے ملک پر حکومت کی تو ملک کو ثروت مند کیا، ہر سطح پر خوش حالی آئی ، ملک کی دولت میں اضافہ ہوا ، وہ اسی سرزمین کے ہو کر رہے اور اس کی دولت کو کہیں منتقل کرنے کا سوچا بھی نہیں ۔ہر طبقے کی ترقی اور خوش حالی کے لیے کوششیں صرف کیں اور رواداری اور محبت کی بنیاد پر بہتر سماج بنانے کا کردار ادا کیا ۔اورنگ زیب جو عام ہندوؤں میں تھوڑا زيادہ ہی مبغوض ہے جب اس کے سپہ سالاروں کے اسماء دیکھیے اور دیکھیے کہ وہ کتنےسارے مندروں کو عطیات دے رہا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی حکومت کا طریقہ کیا تھا ۔
آزاد ہندوستان میں بریگڈیئر محمد عثمان ، حولدار ویر عبدالحمید ، ميزائل مین اے پی جےعبدالکلام اور ان جیسے ہزاروں مسلمانوں کے نام گنائے جاسکتے ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے دیش کی حفاظت کا فريضہ انجام دیا اور سدا دیش کے لیے صف اول میں کھڑے رہنے کے متمنی رہے ۔اگر مختلف میدانوں کی فہرست بنائی جائے تو مسلمان کہیں سے بھی پیچھے نظر نہيں آئے گا لیکن بہر حال اسے افسوس ناک ہی کہا جائے گا کہ اس خاص زاویے سے آزاد بھارت پر نظر دوڑانے کی کوشش کی ہی نہیں جاتی۔
مسلمان اپنے دیش سے محبت کرتا ہے ، یہ اس کی فطری محبت ہے ، اس کا دین اس معاملے میں اس کی راہ میں حائل نہيں ہوتا بلکہ اس کی رہنمائی کا فريضہ انجام دیتا ہے ۔وہ اپنے ملک کی سرحد اور اپنے ملک کی حفاظت اسی طرح ضروری سمجھتا ہے جس طرح اپنے گھر کی حفاظت ضروری سمجھتا ہے ۔یہ اس کی کوئی مجبوری نہیں ، اس کے اپنے دین کا اور اس کی اپنی فطرت کا تقاضہ ہے ۔ ہندو اکثریت کو کچھ مفاد پرست گمراہ کرکے مسلمانوں کے تئیں بدظن کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کا توڑ ضروری ہے ۔ مسلم سماج کے تعلیم یافتہ طبقات ، اداروں ، سیاسی جماعتوں اور ملی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام منعقد کریں جہاں ان حقائق کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے اور جن میں برادران وطن کو بھی دعوت دی جائے ۔جو لوگ صاحب قلم ہیں انہیں لکھنا چاہیے ، جو یوٹیوبر ہیں انہیں وہاں سے یہ حقائق پیش کرنے چاہیے اور جو سیاسی سطح پر اثر رکھتے ہیں انہیں وہاں بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے ۔
رہے نام اللہ کا

No comments:

Post a Comment