Wednesday 13 September 2023

دور زوال کا قصہ
ثناءاللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں اس بارجب آئے تو کافی اداس لیکن غصہ سے بھرے ہوئے تھے ۔انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور مجھے کوسنا شروع کردیا۔ مولوی صاحب! تم نے تاریخ نہیں پڑھی ، دور زوال میں یہی سب ہوتا ہے ۔جزئیات کلیات بن جاتی ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر برسوں کے یارانے بھلائے جاتے ہیں ،ایک دوسرے کا ایمان ، صلاحیت اور حیثيت ماپی جاتی ہے ، زبردستی مطلب نکال کر ملت سے باہر کیا جاتا ہے اور جشن منایا جاتا ہے کہ فلاں کو نکال باہر کیا ۔دور زوال میں لڑائی مسجد کی صدارت ، مدرسے کی نظامت اور یتیم خانے کی رئاست کے لیے ہوتی ہے ۔دور زوال میں الفاظ ہوتے ہیں ان کے معانی نہیں ، ہنگامہ ہوتا ہے کوئی مطلب نہیں ، چلایا جاتا ہے سنا نہیں جاتا ۔ دل اور دماغ کو کوئی زحمت نہیں دی جاتی ۔
تم نے تاریخ نہیں پڑھی ، اور کچھ نہیں تو کم از کم مقدمہ ابن خلدون ہی پڑھ لیتے ۔ دور عروج میں ملتیں نئے نئے خطے دریافت کرتی ہیں ، نئے افراد اور جماعتوں کو خود سے وابستہ کرتی ہیں ، نئے افکار و خیالات کا استقبال کرتی ہیں ، ان کی تہذيب کرتی ہیں ، ان کی خرابیوں کو ختم کرکے ان کی اچھائیوں سے کام لیتی ہیں ۔ دور زوال میں ملتیں خوف کے سایے میں جیتی ہیں ، اپنے ہی لوگوں کو مختلف ناموں سے الگ کرتی ہیں ، ہر قسم کی جدت سے گھبراتی ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے قصہ پارینہ بن جاتی ہیں ۔
دور عروج میں مقابلہ ہمیشہ دشمنوں سے ہوتا ہے ، اس کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں ، آپسی رسہ کشی ختم کی جاتی ہے ، دوریاں مٹائی جاتی ہیں ، دشمن کے بالمقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جایا جاتا ہے ۔دور زوال میں یہ مقابلہ اپنوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ، ایک دوسرے کو گرانے کی ترکیبیں کی جاتی ہیں ، سازشیں رچی جاتی ہیں اور لڑ لڑا کر ملت درس عبرت بن جاتی ہے ۔ کبھی علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور عروج کا قصہ پڑھنا کہ اختلاف میں بھی کیا سلیقہ تھا اور دشمن کو کیسا جواب ملتا تھا اور کبھی اندلس میں اپنی ملت کا زوال پڑھنا کہ خود اپنے ہی لوگوں کوزک پہنچانے کےلیے غیروں کے کس طرح آلہ کار بنتے تھے اور پھر کس طرح عبرت بنا دیے گئے !!
یہ جو تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش دیکھ رہے ہو ، یہ جو لہجوں کی کرختگی ہے ، یہ جو الفاظ کے نشتر ہیں ، یہ جو بدتہذیبی کا طوفان ہے ، یہ جو ہر کسی کو ناپنے کا جنون ہے ، یہ جو اندرون میں جھانک کر ایمان و صلاحیت کی پیمائش کا مالیخولیا ہے ، دور زوال میں کوئی بھی ملت ، جماعت یا گروہ یہی کچھ کرتا ہے ۔
تمہیں یہ بات سمجھ میں نہيں آئے گی مولوی صاحب ! کیوں کہ اس بات کو سمجھنے کے لیے جس شعور کی ضرورت ہے وہ تمہارے پاس نہيں ہے ۔ تم دیکھتے نہیں کہ جن لوگوں کی رہنمائی کا تمہیں فريضہ انجام دینا تھا ، جن کے عقائد و اخلاق کی اصلاح تمہیں کرنی تھی ، جن کے لیے تمہیں اسوہ و نمونہ بننا تھا ، الٹے وہی تمہیں سمجھانے کے لیے بڑھ رہے ہیں اور تم پھر بھی اپنی روش سے باز آنے کو تیار نہیں ہو ۔
مولانا صاحب ! تمہیں تکلیف ہوگی لیکن سچ یہی ہے کہ تم ملت کے دور زوال کا منظر ہو ۔ان اخلاقی گراوٹوں کے ساتھ کوئی ملت ترقی نہیں کرسکتی ۔ملتوں کی پیمائش ان کے دانش ور اور رہنما طبقے کی اخلاقیات سے ہی ہوتی ہے ۔ ذرا عقل و دل کے دریچے وا کرکے دیکھو کہ کیسا تعفن پھیلا ہوا ہے ۔اللہ کے لیے اس طرز عمل سے باز آؤ، یہ ظلمت و تاریکی کے سوا کچھ نہيں اور چاہے جتنا ہاتھ پیر مار لو کہیں کوئی منزل ملنے والی نہیں ۔
میں نے دیکھا کہ بے نام خاں اپنی آنکھوں کے آنسو چھپانے کی کوشش کررہے ہيں ۔ میں نے ان سے بات کرنی چاہی لیکن وہ آنسو صاف کرتے ہوئے چلے گئے !!!

No comments:

Post a Comment