Saturday 29 November 2014

غزل 
ساگر تیمی
 
یہ سلیقہ ہے وہ نبھائے گا
 
تم بلاؤ ، ضرور آئےگا
 
سوچتا ہے وہ کتنی شدت سے
 
اس کی شادی میں گانا گائے گا 
کیسی کھونے کی لت لگی ہوگی 
پا بھی جائے تو پا نہ پائےگا 
یہ عمارت نہیں ہے ، مسجد ہے 
توڑ کر بھی گرا نہ پائےگا 
تجھ سے غصہ ہے ، تیرا شیدائی 
تم مناؤ گے ، مان جائےگا 
اتنی الفت بھلی نہیں ہوتی 
بے وجہ بھی دوا کھلائےگا 
آپ ساگر سے مانگ کر دیکھیں 
مسکرائےگا ، جاں لٹائے گا

Monday 24 November 2014

ڈر
ساگر تیمی
میں ڈرتا ہوں
مگر یہ بات تم سے کہ نہيں سکتا
کہ تم اتنے بہادر ہو
یہ دنیا تم سے ڈرتی ہے
سر محفل ہی تم سدا
 حق بول دیتے ہو
مگر یہ سچ ہے  اب بھی حق
کا کلمہ ہی شکار ناتوانی ہے
تسلط ظلم کو حاصل ہے
ظالم کا زمانہ ہے
بہادر میں بھی ہوں لیکن
یہ سارے قصے ، سب کہانی میری جرات کی
بنائی ہے کہ میں تم سے کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں
مبادا ہار میری ہو نہ جائے ، جیت تم جاؤ
وگرنہ سینے میں بیٹھا
جریم راز جو میری طرح تیرا بھی بھیدی ہے
بتاتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں
اور سچے نہیں تم بھی