Friday 17 April 2015

غزل
ساگرتیمی
دوا پیہم پلائے جارہے ہو
مرض کتنا بڑھائے جارہے ہو
سنا ہے جھوٹ کو پانے کی خاطر
برابر سچ بتائے جارہے ہو
اگر جھوٹا ہے سچ بولے گا تھوڑی
حلف پھر کیوں دلائے جارہے ہو
غریبی مٹ نہيں پائی نا تم سے
غریبوں کو مٹائے جارہے ہو
تجارت کا سلیقہ جانتے ہو
شرافت کو بھنائے جارہے ہو
میاں انسانیت ہے لاش زندہ
یہ کیا غیر ت دلائے جارہے ہو
نمازیں تو خدا سے گفتگو ہیں
تو کیا باہر بتائے جارہے ہو
کہا نا میں غزل سنتا نہیں ہوں
تو بھائی کیوں پکائے جارہے ہو
غریبوں کا بھی حق بنتا ہے ساگر
بہت پیسے کمائے جارہے ہو  


No comments:

Post a Comment