غزل
ساگرتیمی
دوا پیہم پلائے جارہے
ہو
مرض کتنا بڑھائے
جارہے ہو
سنا ہے جھوٹ کو پانے
کی خاطر
برابر سچ بتائے جارہے
ہو
اگر جھوٹا ہے سچ بولے
گا تھوڑی
حلف پھر کیوں دلائے
جارہے ہو
غریبی مٹ نہيں پائی
نا تم سے
غریبوں کو مٹائے
جارہے ہو
تجارت کا سلیقہ جانتے
ہو
شرافت کو بھنائے
جارہے ہو
میاں انسانیت ہے لاش
زندہ
یہ کیا غیر ت دلائے
جارہے ہو
نمازیں تو خدا سے
گفتگو ہیں
تو کیا باہر بتائے
جارہے ہو
کہا نا میں غزل سنتا
نہیں ہوں
تو بھائی کیوں پکائے
جارہے ہو
غریبوں کا بھی حق
بنتا ہے ساگر
بہت پیسے کمائے جارہے
ہو
No comments:
Post a Comment