غزل
ساگر تیمی
عشق کا بھید ہے یا حسن کا چرچا ہے وہ
ہر گھڑی سایے کی مانند کیوں رہتا ہے وہ
میرے بستر پہ اسے ملتا بھی کیا ہے شب میں
صبح اٹھتا ہے تو کس سمت کو بڑھتا ہے وہ
جب بھی تنہائی ملے ساتھ میں آجاتا ہے
انجمن ہو تو کبھی چھوڑتا ملتا ہے وہ
میں پڑھوں یا نہ پڑھوں وہ توغزل پڑھتا ہے
میں نہ لکھوں تو قلم توڑتا لکھتا ہے وہ
توڑتا ہے میری خاموشیاں ، چلاتا ہے
وقت بے وقت بڑی شان سے بکتا ہے وہ
میری مغموم نگاہوں کو چڑھاتا ہے کبھی
میں جو روؤں تو میرے سامنے ہنستا ہے وہ
پھاڑ دیتا ہے میری مصلحت کی چادر سب
میں جو نہ بول سکوں ، زور سے کہتا ہے وہ
میں اگر چڑھنے لگوں ، خوب مزے کرتا ہے
مجھ سے کہتا ہے میرے ذہن کا حصہ ہے وہ
دل کے گھر میں ہے بڑی شان سے بیٹھا ساگر
میں بھی اب بس یہی کہتا ہوں کہ اچھا ہے وہ
No comments:
Post a Comment