غزل
ساگر تیمی
خوشبو تھی رات صبح کا منظر نشے میں تھا
گزرا تھا کون راہ کا پتھر نشے میں تھا
اک آنکھ تھی اور چھت سے جڑی تھی عنایتیں
نکلا تھا چاند ایسے کہ اختر نشے میں تھا
اس کو شراب کہتے ہیں اور اس کو مے کشی
دن کو ملی تھی آنکھ اور شب بھر نشے میں تھا
بیٹا اداس بیوی کی آنکھوں میں درد ہے
ویراں تھی زندگی کہیں شوہر نشے میں تھا
لٹتا نہ قافلہ تو کرامت کی بات تھی
رہزن کا کیا قصور کہ رہبر نشے میں تھا
مرنا تو خیر اس کے مقدر میں تھا مگر
شکوہ تھا میر شہر کو لشکر نشے میں تھا
اس کی تو چیخ شرم کے مرنے پہ تھی مگر
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ساگر نشے میں تھا
No comments:
Post a Comment