Friday 17 April 2015

غزل
ساگر تیمی
خوشبو تھی رات صبح کا منظر نشے میں تھا
گزرا تھا کون راہ کا پتھر نشے میں تھا
اک آنکھ تھی اور چھت سے جڑی تھی عنایتیں
نکلا تھا چاند ایسے کہ اختر نشے میں تھا
اس کو شراب کہتے ہیں اور اس کو مے کشی
دن کو ملی تھی آنکھ اور شب بھر نشے میں تھا
بیٹا اداس بیوی کی آنکھوں میں درد ہے
ویراں تھی زندگی کہیں شوہر نشے میں تھا
لٹتا نہ قافلہ تو کرامت کی بات تھی
رہزن کا کیا قصور کہ رہبر نشے میں تھا
مرنا تو خیر اس کے مقدر میں تھا مگر
شکوہ تھا میر شہر کو لشکر نشے میں تھا
اس کی تو چیخ شرم کے مرنے پہ تھی مگر
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ساگر نشے میں تھا


No comments:

Post a Comment