غزل
ساگر تیمی
شرافتوں کی زندگی شرارتوں کے بيچ ہے
نصیب دیکھ لیجیے ، سعادتوں کے بیچ ہے
نماز اپنے طرز کی ، زکوۃ جی پہ منحصر
حضور یہ تو بندگی ضلالتوں کے بیچ ہے
ادھر صحیح کہا مجھے ، ادھر غلط بتادیا
اصول کی زمین بھی سیاستوں کے بیچ ہے
کسی کا ان کے سامنے مقام ہے نہ مرتبہ
جناب کا غرور تو حماقتوں کے بیچ ہے
پھنسادیا گیا اسے کہ راہ حق پہ کیوں چلا
ڈٹا ہوا ہے کیوں کہ دل عنایتوں کے بيچ ہے
بڑی ہی انکساری سے وہ برتری جتا گیا
انا کی ساری کشمکش وضاحتوں کے بیچ ہے
خدا کی رہ سے جب الگ ہوا تو فلسفی بنا
صحیح کہا کہ آگہی عبادتوں کے بیچ ہے
No comments:
Post a Comment