غزل
ساگر تیمی
ذکر اس کا مرے دیوان میں آجاتا ہے
ہائے کیا شخص ہے پہچان میں آجاتا ہے
مجھ کو طاقت کے اثر سے کہاں انکار مگر
کفر
اخلاق سے ایمان میں آجاتا ہے
آئینہ سامنے رکھ کر ذرا پوچھیں خود سے
آدمی کس طرح شیطان میں آجاتا ہے
حسن تو ویسے بھلا کوئي اثر کیا رکھے
آدمی ہاں مگر مسکان میں آجاتا ہے
ویسے تو میں ترے قدموں کی نہیں دھول مگر
ہاں مگر تو مرے امکان میں آجاتا ہے
یہ قرابت تو اصولوں کو نہيں ڈھاسکتی
بولہب لعنت قرآن میں آجاتا ہے
کھلنے لگتی ہیں امیدوں کی اداسی کلیاں
جب بھی " چہرا" دل ویران میں آجاتا ہے
جنگ کی کس نے بنا رکھی ہے ساگر تیمی
حسن کا مان بھی میدان میں آجاتا ہے
No comments:
Post a Comment