غزل
ساگر تیمی
لڑنے بھڑنے کا سلسلہ رکھیے
رابطہ ہے تو رابطہ رکھیے
گہری قربت ہی جان لیتی ہے
بیچ رشتوں کے فاصلہ رکھیے
زندگی کا ہے گر ارادہ تو
آپ مرنے کا حوصلہ رکھیے
دشمنی ہی اگر ضروری ہو
اس سے الفت کا راستہ رکھیے
جب بھی نکلے تو روشنی پھیلے
ایک ایسا بھی قافلہ رکھیے
یہ رئیسی نہیں ، دنائت ہے
پیسہ آئے تو داشتہ رکھیے
اس کی گندی زبان ہے صاحب
آپ چاہیں تو واسطہ رکھیے
لوگ سنتے نہيں ہیں ساگر جی
شعر کہیے تو ناشتہ رکھیے
No comments:
Post a Comment