غزل
ساگر تیمی
ڈریے تو اتنا مت ڈریے
میں چلتا ہوں آپ بھی چلیے
مانا آپ بڑے عالم ہيں
پھربھی روز کتابيں پڑھیے
چڑھنے سے جب ڈر لگتا ہے
بکیے مت ، پستی میں گریے
دیر سے آئے ، گاڑی نکلی
بیٹھ کے اپنے آپ سے لڑیے
رات کٹی باتوں باتوں میں
آفس میں اب آنکھیں ملیے
لوگ جنازہ پڑھ ہی دینگے
آپ ذرا اک بار تو مریے
جھوٹی باتیں ، سچی باتیں
ان کو سنیے ، ان پر چلیے
آپ کی ہر اک بات صحیح ہے
لیکن میری بھی اک سنیے
تب ہی ساگربات بنے گی
جب اک بارہوا میں اڑیے
No comments:
Post a Comment