غزل
ساگر تیمی
آگ ایسی
پھیلائی جائے
دنیا دل کی ڈھائی جائے
اندھوں کی آنکھیں روشن ہیں
نینوں کی بینائی جائے
اس کا نام ہی بسم اللہ ہے
برکت خوب بڑھائی جائے
عشق تو کرنا مجبوری ہے
دل سے آنکھ ملائی جائے
اتنی مدھر وانی ہے تیری
کیسے بھلا کھٹائی جائے
بارش کا موسم اچھا ہے
تھوڑی گھاس اگائی جائے
سنتے ہيں کہ ٹیڑھے ہیں وہ
ان سے چاہ بڑھائی جائے
چین سے سونے والے پتھر
ان کی نیند اڑائی جائے
ایک ارداہ ہے بس ساگر
ان کی حیا بچائی جائے
No comments:
Post a Comment