Sunday 31 March 2013


اس بار پھر انا میرے سر پر چڑھی رہی
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی
میں بھی تو اپنے وقت کا شاہ جہان تھا
وہ بھی حسین نورجہاں تھی بنی رہی
جتنے امیر تھے سبھی مٹی کے شیر تھے
جنگ تو غریب لوگوں کے بل پر کھڑی رہی
اس نے محبتوں کو خریدا کہ مال ہے
اپنی ہنروری تھی ، دھری کی دھری رہی
وقت صباح کہروں کا سایہ تھا ،خوف تھا
نیند انتظار صبح میں شب بھر اڑی رہی
اک اشک کہ رخسار سے ڈھلکے نہ عشق میں
شبنم کسی گلاب کے اوپر پڑی رہی
مجھ کو تو اپنے عہد کے دانشوروں پہ حیف
ساری خطا بشکل خرد تھی وہی رہی
ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا
دنیا کہ اس کے پیچھے پڑی تھی پڑی رہی

No comments:

Post a Comment