Sunday 31 March 2013

مسکن

وہ گھر کے صحن میں 
بے سدھ پڑی ہے 
وہ تو اپنی ملازمت میں باہر ہیں
بوڑھے پرانے بھی تو نہیں
درد کس قدر جان لیوا ہوتا ہے
ہاے کیا مصیبت ہوتی ہے
بدن جیسے انار کے جسم سے
جوس نکال لیا جاے
بچہ رورہا ہے
یہ عباد ہے
کتنا پیارا ہے
میری تنہائیوں کا رفیق
میری جان ، میرا وجود
میں تیرے لیے
خود کو فنا کر دونگی
تجھے دنیا کی ساری دولتیں
نصیب ہونگی
سارا آرام ، ساری خوشی
ساری اڑان تمہارے نام
سارا عروج تمہارے لیے
ساری رونق تمہاری سلطنت کی اسیر
ہاے میرا جگر گوشہ عباد
پڑھ لکھ کر
افسر ہوگیا ہے
صدقے جاؤں
کون ہوگا میرے لعل جیسا
زمین کے اوپر ،آسمان کے نیچے
شادی کے جوڑے میں شاہزادہ لگ رہا ہے
میرے دل کا ٹکڑا
خوش نصیب ہے صبا !
تجھے عباد ملا
جیسا مرد کسی عورت نے میرے علاوہ
پیدا نہیں کیا
اچھا بہو امید سے ہے
عباد کے جیسا ہی ہوگا
ہاں ہاں بیٹا ہوگا
عباد بھی تو ۔۔۔۔۔۔۔
بہزاد ؟ ہاں یہ نام اچھا ہوگا
بالکل اپنے باپ پر جائیگا
میرے لعل عباد پر
وہ بھی اس کے جیسی شرارتیں کريگا
روٹھیگا اور ضد کریگا
ایک پیار بھرا چپت لگا ؤنگی
اور وہ ۔۔۔۔
تبھی اک صدا آئی
اور اس کے خواب و تصورات کی دنیا اجڑ گئی
اے بڑھیا کھانے کا ٹائم نکل رہا ہے
چل کھانا کھا ، ورنہ
بھوکی مريگی
یہ خالہ اماں کا گھر نہیں
بے کام ناکارے بوڑھے بوڑھیوں کا
مسکن ہے !!

No comments:

Post a Comment