غزل
ساگر تیمی
آنکھیں
چمک رہی ہوں لبوں پر حیا نہ ہو
اس طور سے تو رسم محبت ادا نہ ہو
اس نےتو اس طرح سے چھپایا ہے حق تمام
جیسے کہ دل سیاہ ہو خوف خدا نہ ہو
پھر مچھلیاں تالاب کے اندر سہم گئیں
چارہ لذیذ ہے تو شکاری کھڑا نہ ہو
میرا بھی اپنا کام ہے رخصت بھی دیجیے
ڈر لگ رہا ہے پھر کہیں بیگم خفا نہ ہو
بھوکے تھے لوگ اتنے عبادت کو کھا لیا
مسجد کو یوں ہڑپ لیا جیسے خدا نہ ہو
اب تو شریف لوگ بھی سچے نہيں رہے
یہ تو امیر شہر ہیں ان کو سزا نہ ہو
ساگر وفا کی کھوج میں نکلے ہو تم کہاں
سب کہ رہے ہیں عشق ہو ذکر وفا نہ ہو
No comments:
Post a Comment