Friday 25 October 2013


ہوشیار ، خبردار میرے قافلہ والو!
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،
9560878759
     جب سے بی جے پی نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ ان کے سلسلے میں  مختلف قسم کے خیالات کا اظہار قومی سطح پر ہو رہا ہے جیسے ان کے علاوہ اور کوئی معاملہ پورے دیش میں ہو ہی نہيں ۔ جہاں سیکولر مزاج لوگوں نے مودی کےزیر اعظم بننے کے بعد ہندوستان کی سیکولر ساکھ  پرلگنے والے داغ کا قضیہ اٹھایا وہیں مودی کی فسطائي ذہنیت سے بھی پردے اٹھائے گئے ، ان کے اپنے صوبے میں مختلف میدانوں میں ان کی ناکامیابیوں کے ثبوت فراہم کیے گئے اور گجرات فساد کے اندر ان کے مشتبہ کردار پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا ۔ وہیں میڈیا نے اپنی پوری قوت اس بات میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح مودی کو گجرات کے وکاس پرش کے طور پر پیش کرکے انہیں ملک کی قیادت کے لیے اہل ثابت کیا جائے ۔ آرایس ایس اور سنگھ کی  دوسری تنظیموں اور ان کے کارکنان اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں نکل آئے ۔ اس بیچ کئی صوبوں میں فساد پھیلانے کی منظم کوشش کی گئی ۔ یوپی  اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی موقع پرستیوں کی وجہ سے جلد آگ میں جھلس گیا ورنہ کوشش تو پورے ملک کو آگ میں جھونک کر اقتدار ہتھیانے کی ہے ۔ دریں اثنا مودی اڈوانی تنازع کو بھی بہت جگہ ملی لیکن آخر ہونا تو وہی تھا بوڑھے باپ کو ناہنجار اڑیل ضدی بیٹے کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑا اور سب کچھ ٹھیک ہوگيا ۔ لیکن اس پورے معاملے کا سب سے دلچسپ پہلو تھا بہی خواہان امت مرحومہ کی بہی خواہی کی زمزمہ سنجی کے ایک پر ایک انمول نمونے ۔ صاحبان جبہ و دستار سے لے کر متاع علم ودانش کے ٹھیکیداران تک نے متعصب ہندی میڈیا کی بولی بولنی شروع کردی کہ اگر مودی کو موقع ملا تو وہ مسلمانوں کا فائدہ کرینگے ۔ دین و مذہب کے رکھوالوں نے تو مودی سے خوف کھانے کو اللہ کی وحدانیت سے جا ٹکرایا اور وہ وہ  گل افشانیاں کی گئیں کہ واہ واہ ۔ حالانکہ ایسا پہلی مرتبہ نہيں ہوا لیکن بہرحال ضمیر فروشوں اور ملت کے سودائیوں کی روح کو بڑی تسکین ملی ہوگی جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ قوم کے اندر کئی ہیں جو ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں اور یہ باعث رسوائی نہيں کہ ملت فروشی کا دھندا اختیار کیا جائے ۔
          مودی سے جڑے ترقیوں کے تمام دعوؤں کوبفرض محال  درست مان لیا جائے تو بھی کیا وہ قاتل اس قابل ہے کہ اسے ہندوستان جیسے سیکولر ملک کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔ اور کیا واقعی اس کے وزیر اعظم بننے سے اس ملک کی کایہ پلٹ ہوگی ؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی آر ایس ایس کا آدمی ہے اور آرایس ایس کو مسلمانوں کا محترم وجود ہندوستان میں برداشت نہيں ۔ اسے یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی دھن ہے مسلم پرسنل لا کے وجود سے اسے چڑھ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ یا مسلمان ہندو ہو جائیں یا ہندوستان چھوڑ دیں ۔ اس کا دھرم ہے کہ مسجدوں کو توڑا جائے اور مدارس پر پابندیاں عائد کی جائيں ۔ اور بلاشبہ مودی کی اب تک کی زندگی یہی بتلاتی ہے کہ وہ انہیں تخریب پسند افکار و خیالات کو عملی جامہ پہناتا رہا ہے ۔ اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو کتے کا بچہ کہنا یا پھر افسران کو یہ حکم دینا کہ ہندوؤں کو غصہ ٹھنڈا کرلینے دو یا پھر اپنی ریلی میں مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کرتا ٹوپی پہن کر آئیں یا اس سے بھی کہیں زیادہ یہ کہ جب ضمیر فروش قسم کے مسلمان ٹوپی پیش کررہے ہوں تو بھی پہننے سے انکار کردینا کیا یہ سب یہی بتلاتا ہے کہ وہ آدمی اس ملک کی مظلوم دوسریڑی اکثریت کا کام کرے گا ؟؟؟ جو گجرات اسمبلی الیکشن جیتنے کے لیے میاں مشرف یا پھر میاں پٹیل کا خوف دکھلاتا ہو ، کیا وہ درندہ صفت آدمی ہندوستان گیر سطح پر مسلمانوں کی خیر خواہی چاہے گا۔
            مودی کے حق میں بیان دینے والے نام نہاد علماء ہوں یا سیاسی لیڈران  یا پھر دانشوران در اصل وہ سب کے سب یا تو بکے ہوئے ہیں یا پھر صورت حال کی نزاکت سے واقف نہيں ہیں اور میڈیائي پروپیگنڈے کی وجہ سے انہيں لگتا ہے کہ اگر مودی جیت گیا تو ان کا کیا ہوگا اس لیے پہلے ہی سے سیٹ بچا کر رکھو ۔ لیکن ان کو کون سمجھائے کہ چال الٹی بھی پڑ سکتی ہے ۔
      مودی کو معاف کرنے کا مطلب صرف یہ نہيں کہ ہم بہت سے خون کے ضیاع کو بھول جائینگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے لڑائي میں شکست قبول کرلی ۔ ہم نے ان تمام انصاف پسندوں کو  تھپڑ مار دیا جنہوں نے اپنے ضمیر کی صدا سنی اور مظلوموں کی لڑائی لڑنے کو تیار ہوگئے ۔ در اصل یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے دینی ، سیاسی ، سماجی ہر ایک وجود میں اپنی ثانوی حیثیت کو ماننے کے لیے تیار ہوگیا ہے۔ اس نے  غیرت بیچ دی ہے اور حمیت کو اب اس سے کوئي سروکار نہیں ۔ کیا مسلمان اپنی اس صورت حال کو قبول کرنے کوتیار ہے ؟؟؟

No comments:

Post a Comment