Tuesday 3 September 2013


ایکسٹرنلائیزیشن آف دی پرابلم
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی -67
  اور کسی کام کے بارے میں تو نہیں لیکن کم از کم میں سفر کے بارے میں تو یقین کے ساتھ آپ کو یہ مشورہ دے سکتا ہوں کہ اکیلے اور تنہا سفر بالکل بھی نہ کریں ۔ اب آپ سے چھپانا کیا ۔ ہوا یوں کہ ہم جامعہ امام ابن تیمیہ میں اپنی بھتیجی نگارش صادق بنت عبداللہ کو داخل کرکے لوٹ رہے تھے ۔ ہمارا ارادہ کوئیلہ کے کانوں کے لیے جانا جانے والا شہر دھنباد کا تھا کہ بھائی صاحب ایک حضرت نے ہماری تھوڑی سی غفلت کا بھر پور فائدہ اٹھاکر ہمارے بیگ پر نہ صرف یہ کہ غلط نگا ہ ڈال دیا بلکہ اگر ہم جلد چوکنا نہ ہوپاتے تو پھر ہم ہوتے اور ہماری حسرتوں اور آہوں کا شور جو صرف ہمیں سنائی دیتا اور پھر سوچیے وہ کتنا خطرناک ہوتا ۔ جناب والا لوگوں نے کہا کہ ہم اس قدر شور کیوں کر رہے ہیں اور ہم نے کہا کہ بھائی ہماری طرح کبھی آپ کی بھی کوئی ایسی تھیلی غائب ہو جائے جس میں نہ صرف یہ کہ آپ کے مختلف کارڈس ہوں بلکہ آپ کا اکلوتا لیپ ٹاپ بھی ہو جس میں آپ کی مختلف نثری اور شعری تخلیقات ہوں تو سمجھ میں آئے کہ اکیلے سفر میں اس قسم کے غم کا حشر کیا ہوتا ہے ۔ آپ یقین مانیں کہ الحمد للہ اللہ کی مدد ، فضل اور مہربانیوں نیز اس ہنگامہ آرائی کی بدولت ہمارا جھولا ہمیں واپس بغل والی کیبن میں پڑا ہوا مل گیا اور ہم چپ ہو بیٹھے ۔
           خیر یہ بات تو از راہ تذکرہ آگئی ورنہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ آپ کو اس حادثے کی جانکاری دیں ۔ البتہ اگر آپ ہوشیاری کا سبق اس سے سیکھ لیں تو میری سعادت اور یہ محنت وصول ۔ لیکن بات تو تب ہوئی جب گنگا ساگر ایکسپریس میں ہماری ملاقات ایک حضرت سے ہوئی ۔ سلام و کلام کے بعد جیسا کہ علماء کی روش ہے کچھ تبادلہ خیالات کی نوبت آئی اور دیکھتے دیکھتے لمبی کھینچ گئی ۔ بات وہی امت مسلمہ کی ناگفتہ حالت اور دگرگوں صورت حال کی تھی ۔ حضرت کا اصرار تھا کہ اس کے پیچھے در اصل یہود ونصاری کی سازش کام کر رہی ہے ۔ انہوں نے مصر ، لیبیا ، پاکستان ، شام اور عراق کے ساتھ اک ہی سانس میں افغانستان تک کا نام گنوایا اور کہا بتلائیے کہ کہاں کمینے یہود ونصاری نے اپنی کمینگی کا مظاہرہ نہیں کیا ؟ انہوں نے ہندوستان تک میں حکمراں طبقہ اور ہندو فاسسٹ طاقتوں کو خوب جلی کٹی سنایا اور اس طرح اپنے موقف کو مدلل کرتے ہوے ہماری طرف فاتحانہ انداز میں سرہلاتے ہوے دیکھا ۔ تھوڑی دیر تک تو ہم انہیں دیکھتے رہے اور پھر ہمارے سامنے بے نام خاں کا چیلینج آ گیا ۔ بولو بیٹے بہت ہوا میں اڑتے ہو۔ آج ملا ہے کوئی مد مقابل ۔ بولو ،  ہوگئی نا بولتی بند ۔ حالانکہ حضرت غلط ہیں لیکن تم ان کا جواب دے نہیں پاؤگے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بے نام خاں مجھے ورغلانے کی لک بھگ کامیاب کوشش کررہا ہے ۔
     معاملہ صرف بے نام خاں کا ہوتا تو چل بھی جاتا جناب بات تو ان سارے لوگوں کے سامنے اپنی سبکی کی بھی تھی جو ہمیں صرف مولانا نہیں بلکہ ایک دانشور کے روپ میں دیکھ رہے تھے جے این یو کا ٹیگ جو لگا ہوا تھا ۔ ایسے جے این یو جاکر ہمار اور کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ لوگ ہمیں اندر سے مضبوط سمجھنے لگے ہیں کیوں کہ باہر سے تو خیر ہم جو ہیں سو ہیں ہی ۔ اکثر ہمارے دوست ہمارے دبلے پن کا مذاق اڑا لیتے ہیں اب انہیں کون سمجھائے کہ موٹاپا تو بیماری ہے ؟ خیر ہم نے بے نام خاں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھے سادھے اور دانشورانہ سنجیدگی کے ساتھ حضرت کو کم اور دوسرے موجود لوگوں کو زیادہ اس بات سے مطلع کرنا شروع کیا کہ بھائی دشمن تو ہمیشہ پیچھے لگا رہتا ہے ۔ ہر طاقت دوسری طاقت کو پچھاڑنا چاہتی ہے ۔ اس میں نیا کچھ بھی نہیں ہے ۔ رسول نے دعوت کی شروعات کی تب سے لے کر ایک ایک موڑ پر دشمن نے شمع اسلام کو بجھا دینا چاہا اور اس کے لیے ہر ایک حربہ اختیار کیا گیا ۔ گالی گلوج سے لے کر ،مار پیٹ ، قتل کی کوشش ، سازشوں کا طومار ، ایک پر ایک افواہ ،اور کیا کیا ۔ لیکن ساری کوششیں رائیگاں اور اکارت گئيں کیوں ؟ اس لیے کہ ہمارا معاملہ اندر سے مضبوط تھا ۔ ہم اپنے ایمان ، شعور ، اعتقاد اور تیاری میں کمزور نہیں تھے ۔ ہم اپنی خامیوں پر نظر رکھتے تھے ۔ اور خوبیوں سے کام لیتے تھے ۔ ہم نے تین سو تیرہ ہو کر بھی ایک ہزار کو شکست دیا ۔ ایک لمبی مدت تک ہم نے دنیا کو اپنی شاگردی میں رکھا اور ہزار مخالفانہ  کوششوں کے باوجود ہمارا قائدانہ مقام باقی رہا ۔ جب ہم شوکت و شہرت کی زندگی جی رہے تھے تو ایسا بالکل نہيں تھا کہ سازشیں نہیں تھیں ، دشمن کی چالیں نہیں تھیں ، حاسدوں کا حسد اور مکاروں کی مکاریاں نہیں تھیں لیکن بات یہ تھی کہ تب ہم اپنی بنیادوں پر مضبوط کھڑے تھے ۔ ہمارا ایمان مثالی تھا ، ہماری نمازیں لاجواب تھیں ، ہمارا یقین اللہ پر زبردست تھا ، ہمارا رویہ عملی اور مثبت تھا ، ہم اپنی غلطیوں سے سیھکتے تھے ۔ ہمیں دیکھ کر لوگ اخلاق ، راست گوئی ، ایمانداری ، شرافت اور اصول پسندی سیکھا کرتے تھے ۔ جہاندیدہ دشمن تک ہماری فتح پر ایمان رکھتا تھا اور ہم ہر سطح پر کامران و کامیاب ہوا کرتے تھے ۔ اب صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ ہم نے آج تک نہيں سوچا اگر دشمن ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے تو ہم کیا کررہے ہیں ؟ کیا دشمن ہمیں عام زندگی میں جھوٹ بولنے ، دھوکہ دینے ، بے ایمانی کرنے ، غلط طرز عمل اپنانے پر مجبور کرتا ہے ؟ کیا ہم جب اپنی عورتوں پر ظلم کرتے ہیں تب بھی یہ دشمن کی سازش ہوتی ہے ؟ کیا اپنے بچوں کی بہتر تربیت پر دھیان دینے کی بجائے انہیں یونہی چھوڑ دینے پر ہمیں دشمن ہی لگاتا ہے ؟ کیا اللہ کا ڈر دلوں سے دشمن نے ہی نکال دیا ہے ؟ کیا مسجدوں کا نمازیوں سے خالی رہنا بھی یہودیوں کی سازش ہے ؟ اگر ذرا غور کیجیے تو ان تمام چیزوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش نکل آئيگی ۔ نئی تہذیب کی مار ، مال ودولت کی ریل پیل ، بے تحاشا دنیا کی آمد ،  ٹی وی ،  انٹرنیٹ اور نت نئے چوکا چوند کرنے والے فیشن ۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ چاہیں تو کہ سکتے ہیں کہ در اصل یہ سب دنیا کی سازشیں ہیں کہ امت مرحومہ کو نیست و نابود کیا جاسکے ۔ اور میں آپ کا ساتھ دونگا کہ یہ سب درست بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن سوال باقی رہے گا کہ کیا اس سے ہماری اپنی ذمہ داری ختم ہو جائیگی ۔ دنیا میں ہمیشہ سے حق و باطل میں معرکہ آرائی رہی ہے لیکن حق کے ماننے والوں نے حق کی حفاظت و صیانت اور فتح و کامرانی کے لیے جاں توڑ کوشش کی ہے ۔اپنی ساری توانائی صرف کی ہے ۔ اپنا جائزہ لیا ہے ۔ اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے ختم کرنے کی کوشش کی ہے اور تب تاریخ بنائی ہے حق و انصاف کی فتحیابی کی ۔ چشم فلک نے ہر معاملے میں دوسروں کو ذمہ دار سمجھنے والوں کو کبھی کامیاب نہيں دیکھا ۔ یہ در اصل شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہے ۔ سمجھدار قوم اپنے بل پر کھڑی ہوتی ہے اور اپنی کمیوں کا اعتراف کرکے انہیں ختم کرنے کی ایماندارانہ اور ذمہ دارانہ کوشش کرتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے جہاں ایک طرف دشمن کے سازشی ذہن سے یہ کہ کر پردہ اٹھایا ہے کہ ' یہود و نصاری تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک تم ان کی پیروی نہ کرنے لگو ' اور ' البتہ تم ایمان والوں کے لیے یہود اور مشرکین کو زیادہ سخت دشمن پاؤگے ' وہیں دوسری طرف یہ کہ کر کہ ' اگر تم نے تقوی اختیار کیا اور صبر سے کام لیا تو ان کی سازش تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ' یہ بھی صاف کر دیا ہے کہ اصل ذمہ داری ہماری ہے اور سارا معاملہ پر آکر ٹک جاتا ہے کہ ہم اپنے معاملات کیسے رکھتے ہیں ۔ اللہ فرماتاہے کہ ' جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے ' ۔
        میرے بھائی ! دنیا کا دستور ہے کہ جب بھی کہیں کچھ خطرہ ہوتا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ مضبوط تیاری کی جاتی ہے ۔ اگر ہمارے خلاف سازشوں کا طوفان ہے تو ہمیں ان کا الزام دھرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس کا کاٹ پیدا کرنا پڑیگا اور وہ ہے ہمارا مضبوط ایمان ، صبر ، تقوی ، اتحاد ، آخرت رخی زندگی ، تیاری اور ہر سطح پر احساس ذمہ داری ۔ ان ہتھیاروں کو آزمائیے اور پھر دیکھیے کہ کون آپ کا کیا بگاڑ پاتاہے ؟ پرابلم کو دوسروں سے نہیں خود سے جوڑ کر دیھکیے اور پھر دیکھیے کیا نتیجہ نکلتاہے ۔

No comments:

Post a Comment