Sunday 11 November 2012


غزل
میرے سب کارنامے ہوا ہو گئے
اہل دستار جب بھی خفا ہو گئے
یہ عجب بات ہے ہم ہی زندہ نہیں
مرنے والے تو مر کر سوا ہو گئے
بے ریا تھی محبت تو یہ بھی ہوا
کپڑے یوسف کے شافی دوا ہو گئے
ماں بھی گھر میں رہی جب توانا رہی
ناتوانی میں بیٹے جدا ہو گئے
یہ عقیدت ہے یا پھر عداوت کوئی
جو نبی تھے وہ کیسے خدا ہو گئے
بات کرنا ہمیں ہی گوارہ نہ تھا
جو خفا تھے خفا سے خفا ہو گئے
میں نے رب پہ بھروسہ کیا جب کبھی
شب گھنیری میں روشن دیا ہو گئے
ساگر کس قید میں تو پڑا رہ گیا
جتنے قیدی تھے سارے رہا ہو گئے
غزل
خدا کی راہ میں یہ زندگی بتاؤ تو
کسی یتیم کے گالوں کو تھپتھپاؤ تو
مٹ ہی جائیگی ہاں یہ تیرگی خدا کی قسم
ذرا کتاب خدا کو گلے لگاؤ تو
چمک ہی جائیگا تیری ترقیوں کا چراغ
یہ شعلہ نفرت ذرا بجھاؤ تو
تم چاند پہ ہو تو پھر اس زمیں پہ آؤگے
ہمیشہ چاند پہ رہ کر ذرا دکھاؤ تو
میں مان لوں کے تیرا مجھ سے رشتہ ہے باقی
میرے فراق میں اک اشک ہی بہاؤ تو
گھٹا بھی چھائی ہے اور وہ بھی آگئے ہیں یہاں
اب ایسے میں ساقی ذرا پلاؤ تو
سنا ہے تیری گلی عشق،وفا ،خوشبو ہے
ہمیں بھی اپنی گلی میں کبھی بلاؤ تو
پہنچ نہ پائے اگر منزل مقصود پہ کہنا
مسلسل راہ میں اپنے قدم بڑھاؤ تو
تمہاری بات بھی سن لیگا کر یقیں ساگر
شب قدر میں کبھی تم اسے بلاؤ تو

غزل
دھرتی پہ آسمان کا سایہ عجیب تھا
جو راہ دے رہا تھا کبھی خود رقیب تھا
پھر رات بھر ہواؤں میں اڑتا رہا خیال
پھر خوشنما محل میں ہمارا حبیب تھا
مرتے ہوے بھی میری ادائیں نہیں گئیں
میں ہنس رہا تھا جب کہ شکستہ صلیب تھا
بیٹی ہوئی تو ماں نے ہی گردن دبا دیا
ممتا تڑپتی رہ گئی منظر مہیب تھا
اک اک صفحہ حیات کا روشن ہے بالیقیں
میرا نہیں، وہ سارے جہاں کا نقیب تھا
جو کچھ ملا اسی پہ قناعت رہی ہمیں
معلوم ہے کہ ابن عبداللہ غریب تھا
سن لی دعا تو مجھ کو تعجب نہیں ہوا
اب بھی مجیب ہے وہی جو کل مجیب تھا
ساگر سے ان کو اتنی شکایت تو رہ گئی
سچ کہ کر رسوا کر دیا جب کہ قریب تھا

No comments:

Post a Comment