غزل
میرے سب کارنامے ہوا ہو گئے
اہل دستار جب بھی خفا ہو گئے
یہ عجب بات ہے ہم ہی زندہ نہیں
مرنے والے تو مر کر سوا ہو گئے
بے ریا تھی محبت تو یہ بھی ہوا
کپڑے یوسف کے شافی دوا ہو گئے
ماں بھی گھر میں رہی جب توانا رہی
ناتوانی میں بیٹے جدا ہو گئے
یہ عقیدت ہے یا پھر عداوت کوئی
جو نبی تھے وہ کیسے خدا ہو گئے
بات کرنا ہمیں ہی گوارہ نہ تھا
جو خفا تھے خفا سے خفا ہو گئے
میں نے رب پہ بھروسہ کیا جب کبھی
شب گھنیری میں روشن دیا ہو گئے
ساگر کس قید میں تو پڑا رہ گیا
جتنے قیدی تھے سارے رہا ہو گئے
غزل
خدا کی راہ میں یہ زندگی بتاؤ تو
کسی یتیم کے گالوں کو تھپتھپاؤ تو
مٹ ہی جائیگی ہاں یہ تیرگی خدا کی قسم
ذرا کتاب خدا کو گلے لگاؤ تو
چمک ہی جائیگا تیری ترقیوں کا چراغ
یہ شعلہ نفرت ذرا بجھاؤ تو
تم چاند پہ ہو تو پھر اس زمیں پہ آؤگے
ہمیشہ چاند پہ رہ کر ذرا دکھاؤ تو
میں مان لوں کے تیرا مجھ سے رشتہ ہے باقی
میرے فراق میں اک اشک ہی بہاؤ تو
گھٹا بھی چھائی ہے اور وہ بھی آگئے ہیں یہاں
اب ایسے میں ساقی ذرا پلاؤ تو
سنا ہے تیری گلی عشق،وفا ،خوشبو ہے
ہمیں بھی اپنی گلی میں کبھی بلاؤ تو
پہنچ نہ پائے اگر منزل مقصود پہ کہنا
مسلسل راہ میں اپنے قدم بڑھاؤ تو
تمہاری بات بھی سن لیگا کر یقیں ساگر
شب قدر میں کبھی تم اسے بلاؤ تو
غزل
دھرتی پہ آسمان کا سایہ عجیب تھا
جو راہ دے رہا تھا کبھی خود رقیب تھا
پھر رات بھر ہواؤں میں اڑتا رہا خیال
پھر خوشنما محل میں ہمارا حبیب تھا
مرتے ہوے بھی میری ادائیں نہیں گئیں
میں ہنس رہا تھا جب کہ شکستہ صلیب تھا
بیٹی ہوئی تو ماں نے ہی گردن دبا دیا
ممتا تڑپتی رہ گئی منظر مہیب تھا
اک اک صفحہ حیات کا روشن ہے بالیقیں
میرا نہیں، وہ سارے جہاں کا نقیب تھا
جو کچھ ملا اسی پہ قناعت رہی ہمیں
معلوم ہے کہ ابن عبداللہ غریب تھا
سن لی دعا تو مجھ کو تعجب نہیں ہوا
اب بھی مجیب ہے وہی جو کل مجیب تھا
ساگر سے ان کو اتنی شکایت تو رہ گئی
سچ کہ کر رسوا کر دیا جب کہ قریب تھا
No comments:
Post a Comment