Monday 12 November 2012


بسم اللہ الرحمن الرحیم

"سو چوہے کھاکر بلی چلی حج کو"

اڈوانی کو سیکولرزم کی یاد آئی

ثناءاللہ صادق تیمی

،236،پیریار ہاسٹل،جے این یو،نئی دہلی 110067

Mob:09013588985


بھارتی جنتا پارٹی کے اندر لال کرشن اڈوانی کی چاہے جو بھی حیثیت ہو،یہ بات تو بہرحال معلوم حقیقت ہے کہ اس پارٹی کو چوٹی تک پہنچانے والوں میں سب سے اہم نام لال کرشن اڈوانی ہی کا ہے۔ لوک سبھا کے اندر دو سیٹوں پر جیتنے والی پارٹی یکایک مرکز میں حکومت کی کامیاب دعویداری پیش کرے تو اسے ایک چمتکار ہی کہا جائیگا اور یہ چمتکار بھارتی جنتاپارٹی نے لال کرشن اڈوانی کے بل بوتے کر دکھلایا۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترا نے پورے دیش میں بھگوا آتنک کو جس طرح پھیلایا، وہ کوئ چھپا ہوا معاملہ نہیں ہے۔ یہ اڈوانی جی ہی تھے جن کی گمراہ کن سرگرمیوں اور اشتعال انگیزیوں کی وجہ سےبابری مسجد شہید کی گئی۔ پورے ملک میں مسلمان اپنے آپ کو ڈرا ہوا محسوس کرنے لگا اور اسے لگا کہ اسکا وجود خطرے میں ہے۔

اٹل بہاری واجپئ کی قیادت میں جب بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت بنی اور وزارت داحخلہ کا قلمدان لال کرشن اڈوانی کے ہاتھ میں آیا تو ہندوستانی مسلمانوں پرقیامت ٹوٹ پڑی۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ ابھرا،مدارس کو دہشت گرد گرداناگیا، نصاب تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگا گیا اور گجرات کے اندر قتل وخون کا ننگا ناچ کھیلا گيا اور یہ دھمکی دی گئ کہ یہی تجربہ پورے ہندوستان میں دہرایا جائیگا۔ وہ تو بھارتی جنتا پارٹی کی بد قسمتی کہیے کہ 2004 میں feel good factor اور India shining کے نعروں کے باوجود اس کا پتہ صاف ہو گیا اور حکومت کی دیوی کانگریس پر مہربان ہوگئی۔ ظاہر ہیکہ اس میں مسلم ووٹ کا ناقابل انکار اورزبردست کردار تھا۔2009 میں بھی ایسا ہی ہوا بلکہ کانگریس کچھ زیادہ ہی مضبوطی سے آگے بڑھی اور بھارتی جنتا پارٹی کے سر کا درد مزید بڑھ گیا۔

اب 2014 کے الیکشن کی تیاری ہے۔ کرپشن کا دیو بھی بھارتی جنتا پارٹی کے لیے کچھ بہتر خبر لیکر نہیں آیا ہے۔ ایسے میں ظاہر ہیکہ کچھ نہ کچھ بدلاؤ لانے کا تو سوچنا ہی ہوگا۔ مسلم ووٹ کو کانگریس سے الگ کرنے کے لیے اڈوانی جی کئ ہتھیار آزما رہے ہیں۔ ایک وقت میں انہونے یہ شوشہ چھوڑا کہ اس مرتبہ مرکز میں غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی حکومت بنیگی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمان کانگریس کو کمزور سمجھ کر کسی اور کو ووٹ دیں اور اس کا لازمی فائدہ بھارتی جنتا پارٹی کو ملے۔ لیکن اڈوانی جی کے اچھے دن نہیں چل رہے ہیں، ان کا یہ منتر خود ان کی پارٹی کو پھوٹی آنکھ نہیں بھایا اور بیچارے چوطرفہ تنقید کی زد میں آگئے۔ اڈوانی جی نے پھر اپنے آپ کو تیار کیا اور پارٹی ورکرس کو یہ قیمتی مشورہ دیا کہ وہ خود کو سیکولر ثابت کریں ،دوسری سیکولر پارٹیوں سے اپنا رشتہ مضبوط کریں، اقلیت (مسلمانوں)کو یہ باور کرائیں کہ وہ ان کے دشمن نہیں ہیں۔ اس معاملے میں نتن گڈکری نے بھی ان کا ساتھ دیا اور ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی بھی مشورہ کو عملی جامہ پہنانے میں لگ گئے۔ نتن گڈکری نے تو کلدیپ نیر سے بات کرتے ہوے دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر کانگریس کو برا بھلا بھی کہا اور کہا کہ اس سے ایک خاص طبقے کے اندر غلط پیغام جائیگآ۔

یعنی ہر طرح سے یہ کوشش کی گئی اور کی جارہی ہیکہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو رجھایا جاسکے۔ لیکن سوال یہ ہیکہ کیا ہندوستانی مسلمان اتنا نادان اور کوتاہ فہم ہے؟ کیا اسے اتنا بھی شعور نہیں ہیکہ وہ دوست اور دشمن میں تمیز کر سکے۔ حالانکہ اڈوانی جی کہ مشورہ کو ایک آزمودہ کار انسان اور ایک تجربہ کار سیاستداں کی دور بینی اور سیاسی شعور کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہیکہ تجربات نے اڈوانی کو یہ سکھلادیا ہوکہ ہندوستان میں بھگوا انتہا پسندی کے ساتھ اقتدار اعلی تک رسائی آسان نہیں اور وہ خلوص کے ساتھ اپنی پارٹی کو سیکولر شبیہ دینا چاہ رہے ہوں ۔ لیکن جناب عالی! خمیر تو نہیں بدلیگا ، ذہنیت تو تبدیل نہیں ہوگی ۔ اقتدار کے حصول کے لیے وقتی سمجھوتہ اقتدار پاتے ہی ختم ہو جائیگآ اور وہی رنگ عود کر آئیگا۔  اڈوانی جی! غلط راستہ اپنا کر اچھی منزل تک پہنچنے کا خواب ناتمام رہتا ہے۔ اب اگر آپ کو دیکھ کر کوئ ”سو چوہے کھاکر بلی چلی حج کو" کہے تو اس میں بھلا اس کا قصور ہی کیا ہے؟؟؟

No comments:

Post a Comment