سوشل میڈیا پر
فیڈ بیک کی سہولت : اخلاقیات اور تقاضے
ثناءاللہ صادق
تیمی
ماس میڈیا میں
فیڈ بیک کا مسئلہ بنا رہتا ہے ۔ ایک اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون پر کبھی کوئی
ایک تبصرہ چھپ گيا تو چھپ گیا ورنہ وہ بھی نہیں، جب کہ ایک اخبار کے قاری کی تعداد
ہزاروں لاکھوں میں ہوتی ہے ۔سوشل میڈیا کے ظہور کے بعد فیڈ بیک کی سہولت بڑھ گئی
،ایسا مانا جاتا رہا ہے اور اس میں ایک حد تک سچائی بھی ہے لیکن یہ مکمل سچائی
نہیں ۔ تبصرہ مختلف مقاصد کے تحت کیا
جاسکتا ہے ۔ پچھلے دنوں ہماری ایک صاحب سے بات ہورہی تھی ، ہم نے انہیں بتایا کہ
فلاں صاحب ما شاءاللہ آج کل ان کی تحریروں پر بڑے مثبت اور طویل کمنٹ لکھ رہے ہیں
تو انہوں نے کہا : ثناءاللہ بابو ، آج کل انہیں ایک نہایت ضروری کام کے لیے میری
ضرورت ہے ۔ یہ سارے کمنٹس در اصل اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے کیے جارہے ہیں ۔
یوں دیکھیے تو فیڈ بیک بہت گمراہ کن بھی ہوسکتا ہے ۔ لوگ باگ
زيادہ تر اپنے تعلقات ، تعصبات اور
انسلاکات کے پیش نظر ہی کمنٹ کرتے ہیں ۔ ایک بڑے ذی علم اور صاحب تحقیق بزرگ نے
ایک روز باتوں باتوں میں کہا : میں تو ان کی فلاں تحریرپر کمنٹ کرتا ، لیکن وہ ناراض ہوجاتے ، سو چھوڑدیا
!!!
جب کہ سچ پوچھیے
تو تحریر ہی کی طرح کمنٹ یا تبصرہ بھی
دراصل ایک بڑی امانت ہے ۔ ایک بڑی ذمہ
داری ہے ۔ بعض لوگوں کے مختصر مگر جامع تبصرے بعض اوقات صاحبان تحریرسے بھی وقیع
ہوتے ہیں اور زیر بحث موضوع کے کئی گوشے روشن ہوجاتے ہیں لیکن اگر تبصرہ یا کمنٹ
کا مطلب صرف دوستی نبھانا ہو تو آپ نے کچھ بھی لکھا ہو" زبردست ، ماشاءاللہ ،
کیابات ہے "کی برسات ہوجائے گی اور بس ! کچھ کم نصیبوں کو دوستی کا بس یہی
مفہوم معلوم ہے کہ اپنے منسلکین کی چھوٹی
چيزوں کو بڑی بناکر پیش کرو اور یوں باہم تعلقات مضبوط رکھو لیکن اس چکر میں خود
یہ کم نصیب اصحاب دانش وبینش کے یہاں بے اعتبار ہوجاتے ہیں اس کی انہیں خبر نہیں
ہوتی جب کہ کچھ کم ظرفوں کو یہ لگتا ہے کہ
تبصرہ اور تنقید کے نام پر گالی بکنا ان کا حق ہے ، ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں سے دنیا
اس لیے بھاگتی ہے کہ ان کے شر سے بچاجا سکے اور یہ شرار الناس خود کو تیس مار خاں
سمجھنے لگتے ہیں !!!
کمال تو یہ ہے
کہ سوشل میڈیا میں فیڈ بیک کی دستیاب سہولت کے باوجود زيادہ تر لوگ خاموش قاری کی
ہی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس کا اندازہ آپ کو تب ہوتا ہے جب کبھی اتفاق سے آپ سے کوئی غلطی ہوجائے دیکھیے کیسے کیسے لوگ" اصلاح " کے لیے آگے آتے ہیں ۔
اس وقت آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اچھا میرے فرینڈ لسٹ میں آن جناب بھی موجود ہیں ۔
وہ صرف موجود نہیں ہیں ، آپ کو پڑھ بھی رہے ہیں لیکن لائک ، کمنٹ کی زحمت نہيں
کرتے ۔بعض اوقات ایسے لوگوں سے جب ملاقات ہو تو وہ آپ کی تحریروں کے حوالے سے بات
کرتے ہیں اور آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ جناب والا نے تو کبھی ایک لائک سے بھی نہیں
نوازا تھا ۔ یوں غور کیجیے تو فیڈ بیک کی سہولت کے باوجود اس کا استعمال لے دےکر
دوچار فیصد لوگ ہی کرتے ہیں ۔
لائک او ر کمنٹ
کے معاملے میں ہم نے جب اپنے ایک ذی علم دوست سے اپنا طرز عمل شیئر کیا تو وہ
حیران رہ گئے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر تحریر ہر طرح سے میرے فکرونظر کے مطابق
ہو تو میں لائک کرتا ہوں ،اگر تحریر زيادہ پسند آئی تو کچھ تعریفی کلمات وغیرہ بھی لکھتا ہوں ، اگرمیرے
حساب سے تحریر میں کوئی خامی ہو فکرو نظر
کی یا زبان و بیان کی تو میں لائک نہیں کرتا۔ایسی صورت میں میں بالعموم انباکس
کرکےصاحب تحریر کو مطلع کرتا ہوں اور اگر ان پر گہرا اعتماد ہوتو کمنٹ باکس میں
بھی مہذب انداز میں اپنا موقف لکھ دیتا ہوں ۔بعض اوقات استفسار کی ضرورت ہوئی تو
کال بھی کرلیتا ہوں یا زيادہ تر ایسی تحریروں پر کسی بھی قسم کے تبصرے سے بچتا ہوں
خاص طور سے تب جب تحریر میری دلچسپیوں کےموضوعات کو ٹچ نہ کررہی ہو ۔ ہمارے دوست
کو اس حقیقت کے اظہار سے پہلے تک یہ لگ رہا تھا کہ ہم تک ان کی بہت سی تحریریں پہنچتی ہی نہیں یا پھر ہم انہيں نظر
انداز کردیتے ہیں ، پڑھتے نہیں ۔
اسی کے ساتھ ایک
بڑا مسئلہ فیڈ بیک کو قبول کرنے کا بھی ہے ۔ بڑے بڑے نام بھی اس معاملے میں عجیب
وغریب واقع ہوئے ہيں ۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی وال پر آپ کو گالی دیں
اور آپ انہيں دعائیں دیجیے ، ان کا شکریہ اداکیجیے ، ظاہر ہے کہ یہ ایسا مطالبہ ہے
جسے کوئی بھی صاحب غیرت آدمی قبول نہیں کرے گا ، کچھ تو یوں برتاؤ کرتے ہیں جیسےوہ
تحریر پڑھ کر احسان کرتے ہیں لیکن اس سے قطع نظر جو لوگ واقعی ایمانداری سے اور
اصول وضوابط کو پیش نظر رکھ کر کمنٹ یا تبصرہ کرتے ہیں ، ان کے تبصرہ یا کمنٹ کو
قبول کیا جانا چاہیے لیکن اس معاملے میں بالعموم لکھنے والوں کا رویہ بھی عجیب
دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملے میں ہمارے اور معروف صحافی شکیل حسن شمسی کےبیچ موقف
کا اختلاف ہوا ۔ ہم نے انقلاب کے اداریے میں ان کی لکھی ہوئی باتوں کی کاٹ کی اور
ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر موجود ان کی تحریروں پر کمنٹ کرکے حقیقت واضح کی ، بجائے
اس کے کہ وہ اپنا موقف واضح کرتے انہوں نے یہ کیا کہ ہمارے کمنٹس ڈیلیٹ کردیے ،
ہمیں بلاک کیا اور دوسرے دن کے اپنے اداریے میں یہ جھوٹ لکھا کہ سوشل میڈیا پر
سوائے چند کے بقیہ سارے لوگ ان کے حامی تھے ۔ ہم نے دوسرے دن پھر تعاقب کیا اور
لکھا کہ آخر یہ کس صحافت کی اخلاقیات میں سے ہے کہ آپ اپنے مخالف موقف کو ڈیلیٹ
کردیجیے اور جو لوگ آپ کے حق میں لکھیں انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیجیے۔
ہمارے ایک دوست
کارویہ یہ رہا کہ انہیں اپنی تحریروں پر
صرف تعریف چاہیے، کبھی کسی تحریر پر اگر کوئی ایسا تبصرہ ہوا جو ان کے مطابق نہیں
تو سب سے پہلے تبصرہ ڈیلیٹ کرتے اور اس کے فورا بعد انباکس میں آکر محبتوں سے
پوچھتے کہ حضور ، ایسی کیا بھول ہو گئی ؟ اب انہیں کون سمجھاتا کہ موقف میں اختلاف
کا مطلب دوستی میں اختلاف نہیں ہوتا ۔ بالآخر تنگ آکر ہم نے حضور کی کسی بھی تحریر
پر کسی بھی قسم کے تبصرے سے خود کو روک لیا ۔
ان تفصیلات کا
مطلب یہ ہے کہ اگر آپ لکھتے ہیں تو لکھتے رہیے ، لائک ، کمنٹ کی قلت و کثرت سے مت گھبرائیے ،اپنا کام کرتے
جائیے ۔ کوئی تبصرہ کسی خامی کی طرف اشارہ کرتا ہو تو دیکھ لیجیے کہ وہ خامی واقعی
میں موجود ہے ، اگر ہے تو درست کرلیجیے ورنہ اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ ایسی کوئی
خامی موجود نہیں ۔کوئی گالم گلوج کی زبان استعمال کرتا ہے یا بقراطی دکھانے کےلیے آتا ہے توایسوں کے منہہ مت
لگیے یا تو نظر انداز کیجیے یا پھر بلاک کرکے اپنی دنیا میں خوش رہیے ۔ ایسے
بےہودوں کے چلے جانے سےسکون بڑھے گا ،کوئی نقصان نہيں ہوگا ۔در اصل ایسے لوگ اپنی
غیر شریفانہ فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں ۔ آپ انہیں سدھار سکیں ، اس کے
امکانات نہ کے برابر ہوں گے ۔ اس لیے
ایسوں کو بلاک کرکے اپنی دنیا میں اچھے لوگوں کے بیچ خوش رہنے کا راستہ کھلا رکھیے
۔
No comments:
Post a Comment