سماج کے غیر صالح عناصر کی بیخ کنی کے لیے صالح عناصر کا باہم منظم ہونا ضروری ہے
ثناءاللہ صادق تیمی
کسی بھی معاشرے میں اچھے اور برے دونوں لوگ ہوتے ہیں ۔ معاشرہ بھانت بھانت کے لوگوں سے مل کر ہی معاشرہ بنتا ہے ۔ عام طور سے ہم معاشرے میں برے لوگوں کی کثرت اور ان کی قوت کا رونا روتے ہیں لیکن معاشرے کے اچھے لوگوں کو جو کام کرنا چاہیے وہ کرتے نہیں ۔ یوں برے لوگوں کی معاشرے پر گرفت مضبوط ہوجاتی ہے اور معاشرے میں برائیوں کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
عام سے عام مسلمان بھی اس بات سے واقف ہے کہ یہ امت امت دعوت ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ کہیں کوئی برائی دیکھے تو اس پر نکیر کرے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ تم میں سےجو کوئی کوئی منکر دیکھے تو اسے ہاتھ سے بدلے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل میں برا جانے ۔گویا اس امت کی یہ ما بہ الامتیاز چيز ہےکہ وہ برائی کے خاتمے کی کوشش کرے اور بھلائیوں کو پھیلانے کے لیے کوشاں رہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ وہ اس حقیقت کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے کہ برائیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اچھے لوگ باہم منظم ہوں اور مل جل کر کام کریں ۔حلف الفضول جو مکے میں اس لیے بنایا گيا تھا کہ ظلم او ر ظالموں کے بالمقابل مظلوموں کا ساتھ دیا جائے اس میں نہ صرف یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے بلکہ نبوت کے بعد بھی اس کی افادیت کا اظہار کرتے رہے اور فرماتے رہے کہ اگر اب بھی اس قسم کے کسی گروہ کا مجھے حصہ بننے کا موقع ملے تو مجھے خوشی ہوگی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ بتاتا ہے کہ برے لوگوں کے بالمقابل اچھے لوگوں کو منظم ہوکر کام کرنا چاہیے اور جب ایسا ہوگا تبھی برائیوں پر قابو پایا جاسکے گا ۔
سماجی زندگی میں یہ تنظیم اور بھی معنی رکھتی ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ برے لوگ دنیاوی مفادات کے لیے بہ آسانی کسی کی بھی سربراہی قبول کرلیتے ہیں اور اس کی بات بھی مانتے ہیں جب کہ اچھے لوگ ایک تو کوئی تنظیم بناتے نہیں اور اگر بنابھی لیں تو سربراہی کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے اور سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے جب کہ اللہ سے اجر وثواب کی امید تو ایسی مضبوط ہونی چاہیے کہ وہ بقیہ تمام دوسرے جذبوں پر حاوی ہو۔
تعاونوا علی البر والتقوی(نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو) کو عملی شکل دینے سے ہی معاشرے سے غیر صالح عناصر کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ یہ برے لوگ اتنے مضبوط نہیں ہوتے جتنا ہم اپنے بکھراؤ سے انہیں مضبوط بنادیتے ہیں ۔انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے اس لیے وہ زيادہ جری ہوجاتے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگ چاہ کر بھی ان کے خلاف کچھ کرنہیں پاتے ۔ اس کا علاج یقین جانیں کہ صرف جلسے اور دینی اجتماعات اور وعظ و نصیحت کی محفلیں نہیں ہیں ، لوگوں کی تذکیر اور اصلاح کی کوشش ہر سطح پر ہونی چاہیے اور یہ سارے کام منظم ڈھنگ سے ہوں تو محمود بھی ہیں اور ان کے نتائج بھی رونما ہوتے ہیں لیکن یہ ساری کوششیں اور زیادہ کارگر تب ہوں گیں جب ہم معاشرے کی سطح پر بھلائيوں کی تنفیذ کو زیادہ آسان بنادیں ، جب ہم برائيوں کے خاتمہ کو عزت کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں ، جب ہم بھلائی کرنے والوں کو مضبوط اور برائی کرنے والوں کو کمزور دکھاسکیں اور یہ تب ہوگا جب ہم اس کے لیے منظم کوشش کریں گے۔ جب ہم اچھے لوگ مل کر کوئی پلیٹ فارم بنائیں اور باہم معاہدہ کریں کہ ہم مل کر بھلائی کو عام کریں گے اور سماج سے برائیوں کا قلع قمع کریں گے ۔
جاننے والی بات یہ بھی ہے کہ معاشرے میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہوتی لیکن زیادہ تر لوگ انتظار میں رہتے ہیں ، ان کے اندر جذبہ ہوتا ہے لیکن اس جذبے کو مہمیز کی ضرورت ہوتی ہے ، اندر اندر بہت سے لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان برائیوں کا خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ کئی سطحوں پر برائیوں کی زد سب پر پڑتی ہے لیکن آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتے ۔ اگر آپ کو ان باتوں پر یقین نہیں آتا تو آپ اپنے معاشرے میں اس کا آغاز کرکے دیکھیے ۔ آپ جن لوگوں میں بھلائیوں کے آثار دیکھتے ہیں ان سے ملیے اور اس موضوع پر گفتگو کیجیے آپ دیکھیں گے کہ جیسے وہ آپ کے انتظار ہی میں تھے ۔ آپ برے لوگوں کی قوت سے گھبرانے کی بجائے اچھے لوگوں کی قوت اکٹھی کیجیے اور باہم مل کر آگے بڑھیے ۔ کئی لوگ شروع میں گھبرائیں گے لیکن پھر ان میں بھی جرات پیدا ہوجائے گی ۔ اس طرح سماجی برائیوں کا قلمع قمع کرنا آسان ہوجائے گا ۔ آپ شادی کے رسومات پر قدغن لگا سکیں گے ، بے جا اسراف پر کنٹرول کرسکیں گے ، آپ بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں کو روک سکيں گے اور ایک اچھا سماج تشکیل دے سکیں گے ۔
اس میں اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوگی ۔ اللہ آپ کی غیبی مدد کرے گا ۔ ارادہ مضبوط کیجیے اور اچھے لوگوں سے مل کر برائیوں کے خاتمے کے لیےکمر کس لیجیے ۔ رونے دھونے اور شکوہ شکایت کرنے سے تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی تب آئے گی جب ہم اس تبدیلی کے لیے محنت کریں گے ۔
آج ہی سے آپ ہی اس کا آغاز کیجیے ۔ بڑے لوگوں کے ساتھ ساتھ جوانوں اور بچوں کی بھی ایک تنظیم بنائیے ۔ مقاصد طے کیجیے اور انہیں ان کے حصول میں لگا دیجیے ۔ انہیں اہمیت دیجیے ، ہفتے مہینے میں میٹنگ کیجیے ، کام کا جائزہ لیجیے اور دیکھیے کہ کیسی تبدیلی رونما ہوئی ہے ؟ رفتہ رفتہ آگے بڑھیے پہلے نماز وغیرہ پر فوکس کیجیے ، پھر سماجی برائیوں کے خاتمے کی طرف بڑھیے اور پھر کوشش کیجیے کہ سماجی اقتدار بھی برے لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں آسکے ۔
خواتین کو اپنے اس قافلے کا لازمی حصہ بنائیے ۔ ہر آدمی اپنے اپنے گھر کی خاتون کو اس عظیم کام کی اہمیت سمجھائے اور پھر سمجھدار اور پڑھی لکھی خواتین کو آگے بڑھا کر ان کی تنظیم قائم کردیجیے ۔ خواتین میں نیکی کا جذبہ بہت ہوتا ہے انہیں بھی بس تحریک کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ یہ کوششیں بجا لائیے اور پھر دیکھیے کہ چند ہی مہینوں میں سماج کی کیسی کایہ پلٹ ہوگئی ہے ۔
ہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھیے کہ ہم میں سے ہر آدمی میں بھلائی اور برائی کے عناصر موجود ہیں ، اس لیے کسی بھی اسٹیج پر چین سے بیٹھ مت جائیے ، تذکیر و تزکیہ اور اصلاح و تلقین کا سلسلہ برابر جاری رکھیے ۔ ان شاءاللہ جب اس قسم کی کوششیں ہوں گیں تو برے لوگوں کے لیے سماج میں جگہ نہیں بچے گی اور وہ بھی مجبورا ہی سہی اچھائی اختیار کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
اللہ ہمیں توفیق دے ۔ آمین
No comments:
Post a Comment