Saturday 18 May 2013


جوتا ،چپل او ر انسان
ہمارے دوست خان صاحب کی بات مان لی جائے تو جوتا، چپل سے انسانی تاریخ اور انسان کے نشو ونما میں پیدا ہونے والی ترقیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ان کے مطابق یہ چپل، جوتے بتلاتے ہیں کہ انسان نے عہد بہ عہد کس طرح ترقی کی ہے ۔پہلے لوگ کھڑاﺅں پہنا کرتے تھے ،کیا آواز نکلتی تھی اس سے ہائے ہائے ۔اب تو ویسی دلپذیر صدا کو انسان تر س ہی گیا ہے !! اس سے بھی پہلے انسان ننگے پاﺅں رہا کرتا تھا ۔پھر اس نے ٹایر سے بنے ہوئے چپل زیب تن کیے ۔پھر چمڑوں ،پلاسٹک اور کپڑوں سے جوتے بنائے گئے لیکن سب میں بد صورتی قدر مشترک رہی اور آہستہ آہستہ آج وہ دن بھی آگیا ہے کہ چپل، جوتے پہننے والوں سے زیادہ ،اسمارٹ ،خوبصورت اور جاذب قلب و نظر ہوتے ہیں ۔ہمارے دوست ایک مرتبہ ایک خاتون کو بہت بری طرح گھور رہے تھے ۔ہم نے انہیں ٹوکا اور فہمائش شروع کرنی چاہی کہ انہوں نے کہا یار ! ہم محترمہ کو نہیں ان کی نرم و نازک ،دلربا ،قاتل جوتی کو دیکھ رہے ہیں ۔واللہ کیا جوتی بنوائی ہے ظالم نے !!آپ یقین مت کیجئے لیکن چند ہی ثانیوں بعد وہ جوتی ہمارے دوست کے کھردرے گال ناپ رہی تھی۔ ع
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
بہرحال ہمارے دوست کو جوتوں سے محبت بھی ہے اور وہ ان کی عزت بھی کرتے ہیں۔ہم سے کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی شخص کی حیثیت کا اندازہ لگانے میں نہیں چوکتے ۔کیوں کہ وہ سب سے پہلے جوتا شریف پر ہی نگاہ ڈالتے ہیں اور چہرہ جس طرح دل کا آئینہ دار ہوتا ہے جوتاا سی طرح انسان کی حیثیت کا ،کبھی کبھار کم حیثیت کا آدمی زیادہ قیمتی جوتا پہن کر مجھے دھوکہ دینے کی کوشش تو ضرور کرتا ہے لیکن جوتے کی شکل و شباہت اور اس کارنگ و آہنگ خود بتلا دیتا ہے کہ صاحب جوتا کا اصل مقام کیا ہے ۔ ہاں تو جوتے ہمیں انسان کے عہد بہ عہد ارتقاءسے روشناس کراتے ہیں ۔یہ ہمارے دوست کا ماننا ہے لیکن و ہ ڈارون کو مغلظات بکتے ہیں ۔بات اصل یہ ہے کہ انہیں اپنے آباءو اجداد کے بندر ہونے کا غم تو ہے ہی زیادہ غم اس بات کا ہونے لگتا ہے کہ آخر وہ بھی بندر ہو جائیں گے ۔اس لیے وہ ڈارون کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں دیکھو جوتے دن بہ دن بدلتے جاتے ہیں ۔لیکن جوتے رہتے جوتے ہی ہیں پھر انسان بدل کر بندر سے انسان کیسے بن سکتا ہے!!!
ہمارے دوست جوتوں کے معاملے میں سب سے زیادہ مولانا لوگوں کی عزت کرتے ہیں۔ان کے بقول جوتوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی اصلا ً مولانا لوگ ہی کرتے ہیں ۔وہ ایک قصہ سناتے ہیں جن کے بموجب ایک مولانا صاحب کو جب بھی باہر نکلنا ہوتا تھا اپنے جوتے کی صفائی شروع کر دیتے تھے اور اس قدر محبت سے صاف کرتے تھے کہ ہر دیکھنے والا پکار اٹھتا تھا کہ واہ بھائی! مولانا کا جوتا کیا شاندار ہے ،ٹوپی اور رومال سے زیادہ روشن ، جاذب اور خوبصورت ہے۔بلکہ مولانا سے بھی!!!
جوتوں سے متعلق یوں تو بہت سے لطیفے مشہور ہیں لیکن ہمارے دوست کو مولانا شبلی نعمانی کا لطیفہ ہی پسند آتا ہے ۔ہوا یوں کہ شبلی جوتے کی دکان پر گئے اور ایک جوتا پسند کرتے ہوئے اپنے پاﺅں میں ڈال لیا ۔اب جب بھاﺅ تاﺅ کی نوبت آئی اور دکان دار دو روپئے میں جوتا دینے کو تیار نہ ہوا اور نہ اس قسم کے آثار نظر آئے کہ وہ جوتا مولانا کی پسند کی قیمت پر دے گا تو مولانا نے اپنے ایک ہاتھ سے جوتا پکڑتے ہوئے کہا : دو روپئے میں دیتے ہو یا نکالوں جوتے۔
خان صاحب اس بات سے ناراض رہتے ہیں کہ جوتوں کا استعمال اب غلط طور سے ہونے لگا ہے ۔ ہم نے جب ڈبلو ،بش پر منتظر زیدی کے جوتے کی بات کی تو وہ بپھر گئے اور برا سا منہ بنا کر گویا ہوئے ۔زیدی نے بش پر جوتے مار کر جو توں کی بے حرمتی کی ہے ۔کل قیامت کے دن وہ جوتا زیدی کا گریبان ضرور پکڑے گا ۔ہاں البتہ اس پورے واقعے پر وسیم بریلوی کے قطعہ سے ہمارے دوست خوش تھے ۔
یہ ظلم کا نہیں مظلومیت کا غصہ تھا
کہ جس نے حوصلہ مندی کو لا زوال کیا
ہزار سر کو بچایا مگر لگا منہ پر
ذرا سا پاﺅں کے تیور نے کیا کما ل کیا
پسندیدگی کی وجہ ہمارے دوست نے یہ بتلایا کہ شعر میں جوتا کا ذکر کیے بغیر ساری بات کہہ دی گئی ہے ۔یوں بھی ابھی شاعری اس مقام کو نہیں پہنچ پائی ہے کہ اس کے اندر جوتوں کا ذکر جمیل آئے اور وہ اس بار گراں کو برداشت بھی کر لے ۔
راز دارانہ انداز میں ہمارے دوست نے ہم سے یہ بھی کہا کہ خفیہ ذرائع اطلاعات کے مطابق بڑے بڑے او رچھوٹے بڑے نیتا ،لیڈران در اصل خود ہی بعض سر پھروں کو پیسہ دیتے ہیں کہ وہ ان پر جوتا چلائیں تا کہ ان کی شہرت د وبالا ہو جائے ۔ہاں کم از کم منموہن سنگھ جی اور چدمبرم نے تو ایسا نہیں کیا ہوگا ! مگر کیا ضمانت ! بابا رام دیو کو جوتا نہیں لگنا چاہیے تھا ۔با با کا غصہ جائز بھی تھا کیوں کہ بابا کوئی لیڈرتو نہیں تھے کہ برداشت کر لیتے ۔البتہ انا ہزارے جی نے شرد پوار پر پڑے جوتے تپھڑ پر جو ٹپنی کسی تھی اس سے ہمارے دوست یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ در اصل انا ہزارے اور شرد پوار کی ملی بھگت سے ایسا ہوا تھا کہ کم از کم دونوں کو دنیا بھی جانے اور دونوں اپنا سیاسی و قیادی کیرئیر بھی چمکاتے ر ہیں ۔ان سے ان کے سپورٹر خوش اور ان سے ان کے معتقدین !!!
جوتوں کی مار سے بچنے کا ہمارے دوست نے ایک طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے اور وہ یہ کہ یا تو جوتے پہنے نہ جائیں یا زیادہ سے زیادہ نرم کپڑوں کے جوتے ہی زیب تن کیے جائیں ۔مطلب یہ کہ زیب پا ۔ ہمارے دوست کے مطابق اگر جوتا کھانے والا ہوشیار ہو تو وہ بہت سے جوتے جمع کرکے جوتو ں کا کاروبار شروع کر سکتا ہے ۔ایک روز ہمارے دوست معمول سے زیادہ پریشان تھے ۔ہم نے جب وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ ہمارے دوست کے دوست نے ایک صاحب کو دس ہزار دیا تھا کہ جب وہ تقریر شروع کر یں وہ ان پر جوتا مارے لیکن وہ پیسہ لے کر چمپت ہو گیا اور جوتا مارا نہیں۔تب سے ہمارے دوست کے دوست او رخود ہمارے دوست ملے خسارے سے پڑت ہیں۔ہم نے کہا اس میں خسارے کی کیا بات ہے ؟ دس ہزار نہ ہی سہی۔ بولنے لگے جناب جوتا کمپنی ہمیں ڈیڑھ لاکھ دینے والی تھی ۔منتظر زیدی کا جوتا جس برانڈکا تھا آپ کو نہیں معلوم ۔کتنی جلدی اس پورے برانڈ کی قسمت کھل گئی تھی!!!
ہمارے دوست ہماری ایسے تو بہت عزت کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی وہ ہمارا امتحان بھی لینے لگتے ہیں ۔ایک مرتبہ انہوں نے ہم سے کہا کہ اگر میں واقعی مولانا ہوں تو جوتے سے متعلق کوئی حدیث سناﺅں ہم تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ بھائی یہ کیا بات ہوئی اور انہوں نے مسکراتے ہوئے ،مزہ لیتے ہوئے فرمایا : ”جناب عالی ! اللہ کے رسول ا نے صحیح حدیث کے اندر پہلے داہنے پاﺅں میں جوتا پہننے پر ابھارا ہے ۔حدیث کے مطابق آپ ہمیشہ داہنے پاﺅ ں میں پہلے جوتا پہننے کو پسند کرتے تھے ۔ نماز وغیرہ میں جاتے ہوئے جوتے اتار دیتے ہیں ۔یہ اسلامی تعلیم ہے اور ہاں اگر جوتا نیا ہو یا صاف ستھرا ہو توا س کے اندر بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے ۔
ایک روز تو ہمارے دوست نے اور بھی کمال کر دیا کہنے لگے کہ اگر جوتا کا مونث جوتی ہے تو چپل کا مونث بتلاﺅ ۔اسی طرح اگر ”حِذَائ “ عربی میں جوتا کو کہتے ہیں تو چپل کو کیا کہتے ہیں ،ذرا بتلاﺅ تو جانیں ۔اگر تمہارا جواب یہ ہے کہ چپل تو پہلے ہی سے مونث ہے تو پھر اس کا مذکر بتلاﺅ ۔ع
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اس کے بعد ان کی تقریر پھر شروع ہوئی ۔سب غلط بیانی کرنے والے لوگ ہیں ۔انگلش اور عربی زیادہ مالدار زبان ہے ۔خاک مالدار ہے کہ ”حِذَائ “ کہا اور جوتا چپل دونوں مرادلے لیا۔Shoes کہا اور جوتا چپل دونوں ہوگیا کزن کہا اب سوچتے رہو کہ مامازاد ہے یا پھوپھا زاد ،خالہ زاد ہے کہ چچا زاد۔ اردو کو دیکھو سب کے لیے الگ الگ لفظ !!! اب کون زبان ہوئی مالدار !!!
ہم نے ایک مرتبہ یوں ہی پوچھ دیا کہ حضور والا اگر آپ کو موقع مل جائے تو کسے جوتا رسید کرنا پسند کریں گے ۔ انہوں نے نریندر مودی اور ایل کے اڈوانی کا نام لیا اور بولے لیکن نہیں یہ تو اتنے غلیظ ہیں کہ جوتے کی بھی بے عزتی ہو جائے گی ۔ ہاں البتہ میں انہیں اپنے بدبو دار موزے ضرور سونگھا سکتا ہوں !!! ہم نے کہا بھئی یہ کوئی اکیلے غلیظ تو نہیں ہیں تو انہوں نے آہ سرد بھری اور کہا اسی کا تو غم ہے ۔اب بھلا تم ہی بتلاﺅ میں کس کس کو اپنا موزہ سونگھاتا پھروں گا۔
ہم نے جب جوتے کی چڑھتی ہوئی گرانی کی بابت ان سے استفسار کیا تو ہمارے دوست نے دو باتیں بتلائیں ۔ایک تو یہ کہ جب سے ان کا پاﺅں بڑھنے سے معذور ہو گیا تب سے وہ ایک ہی جوتا پہنتے ہیں یعنی پہن رہے ہیں بالکل عربی کہانی نگا ر کامل کیلانی کے”حذاءالطنبوری “ والا معاملہ ہے ان کا اور دوسری یہ کہ بھائی جب انسان کی قیمت گھٹی ہے تو جوتوں کی نہیں تو کس چیز کی قیمت بڑھے گی
جہل خرد نے دن وہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سایے
حفیظ میرٹھی

No comments:

Post a Comment